Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

8 - 15
***
حضورﷺ کاابدی معجزہ
مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری
حضور صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں شعر وشاعری، فصاحت وبلاغت کا اتنا عروج ہوا کہ اہل عرب تمام ممالک کو اپنے مقابلہ میں عجم ( یعنی گونگا) کہنے لگے، چناں چہ الله تعالیٰ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو ایسا فصیح وبلیغ کلام کا معجزہ عطا فرمایا جس نے تمام فصحائے عرب کوحیرت زدہ اور عاجز کر دیا اور کیوں نہ عاجزہوتے ، الله تعالیٰ کا کلام تھا ، کوئی معمولی بات تھی ؟ مالک کی بولی کون بول سکتا تھا ؟ یوں تو انہیں حروف الف ، باء ، تاء ، ثاء سے بنے ہوئے جملے ہم بھی بولتے ہیں ، مگر قرآن کے الف ، باء تاء، ثاء اور ہیں ، قرآن کے الف ، باء ، تاء، ثاء اپنے اندر انوار الہیٰہ لیے ہوئے ہیں ۔ قرآن کے الف ، باء ، تاء، دوسرے عالم کے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنی حروف سے بنے ہوئے جملے اپنی مثل لانے سے تمام مخلوق کو عاجز کر دیتے ہیں، حضرت عارف رومی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں #
نور خورشیدم فتادہ بر شما
لیک از خورشید ناگشتہ جدا
مولانا فرماتے ہیں کہ قرآن الله کا نور ہے او رعجیب مثال سے مولانا توضیح فرماتے ہیں کہ جس طرح آفتاب کا نور سارے عالم میں روشنی پہنچاتا ہے ، لیکن آفتاب کا یہ نورآفتاب کی ٹکیہ سے جدا نہیں ہے ، اسی طرح قرآن حق تعالیٰ کا نور ہے اور ہر طالبِ نور پر اپنا فیض پہنچا رہاہے اور الله تعالیٰ سے جدا بھی نہیں۔ حضرت عارف رومی رحمہ الله تعالیٰ نے اپنے شعر میں اس مثال سے بہت باریک اور نازک مسئلہ قرآن کے غیر مخلوق ہونے کا حل فرما دیا۔
قرآن نازل ہونے سے پہلے حق تعالی شانہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی ذات چالیس برس تک اہل عرب کو دکھائی کہ یہ میرا رسول ہے۔ اے اہل عرب ! تم لوگ ظہور نبوت سے پہلے میرے رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کا بچپن دیکھو کہ ایسا بچہ روئے زمین پر کبھی نہیں پیدا ہوا اور اہل عرب! میرے رسول کی جوانی بھی دیکھ لو کہ ایسا جوان روئے زمین پر پیدا ہوا ہے نہ پیدا ہو گا۔ ہمارے رسول کو ایک دو دن دیکھ کر فیصلہ مت کرو، چالیس برس تک ہم تم کو اپنا رسول دکھائیں گے ، یہاں تک کہ میرے رسول کی صداقت او رامانت کا مکہ کی ہر ہر گلی، میں ہرہر گھر میں چرچا ہونے لگا کہ ہذا صدوق امین یہ شخص یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم بڑے سچے او رامین ہیں فعول اور فعیل دونوں صیغے مبالغہ کے لیے آتے ہیں، یعنی بہت بڑے سچے اور بہت بڑے امانت دار۔ آپ سے بڑھ کر کون سچا ہو سکتا ہے ، مگر اس سے اور نبیوں کی صداقت اور امانت کی تنقیص مراد نہیں ہے۔
مطلب یہ ہے کہ آپ کی صداقت کے افراد کا حلقہ اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ آپ قیامت تک تمام عالم کے انسانوں اور جنوں کے لیے رسول ہیں اور پچھلے… انبیاء علیہم السلام کا حلقہ محدود تھا۔
اے عرب کے بچو! تم بھی میرے رسول کو دیکھو تاکہ کل جب تم ادھیڑ عمر میں محمد صلی الله علیہ وسلم سے ظہور نبوت دیکھوتو جھٹلا نہ سکو اور اے عرب کے جوانو! تم بھی میرے رسول کو دیکھو، تاکہ کل جب بوڑھے ہو کر اعلان نبوت محمد صلی الله علیہ وسلم سے سنو تو انکار کی تمہیں کوئی گنجائش نہ رہے۔
اے عرب کے بچو! جوانو اور بوڑھو! تم لوگوں نے چالیس بر س تک میرے رسول کی صداقت او رامانت کو دیکھا ،کہیں تم کو حرف رکھنے کی گنجائش بھی نہ ملی، بلکہ تمہارے ہر فرد کی زبان سے میں نے اپنے رسول کے اخلاق حسنہ کو دکھلا کر یہ کہلوایا کہ ہذا صدوق امین احمد صلی الله علیہ وسلم تو بڑے سچے اوربڑے امانت دار ہیں۔
اے عرب کے بوڑھو! تم لوگ میرے رسول کی عقل اور فہم کو عام انسانوں سے ممتاز پانے کے سبب اپنے معاملات میں میرے رسول کو حکَم بناتے ہو اور ان کی صداقت اور امانت کی بنا پر ان کے فیصلہ پر بالاتفاق خوشی خوشی عمل کرتے رہے ہو ، اے اہل عرب ! تم نے دیکھا ہے او رخوب دیکھا ہے کہ میرے رسول نے کسی کے سامنے کتاب نہیں کھولی ہے ، نہ کسی مکتب ومدرسہ میں قدم رکھا ہے ۔
حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿وما کنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولا تخطہ بیمینک اذا لارتاب المبطلون﴾․
ترجمہ:” آپ اس کتا ب سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھے ہوئے تھے نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے کہ ایسی حالت میں یہ اہل باطل کچھ شبہ نکالتے۔“ چالیس بر س دکھانے کے بعد اب ہم اپنے رسول کی رسالت اور نبوت کا اعلان کرتے ہیں، جس فصاحت اور بلاغت پر اے عرب ! تم نازاں ہو، ہم اپنے اسی امی یعنی ان پڑھ رسول سے تمہارا ناز توڑیں گے ، کیوں کہ اس امی رسول کا میں معلم ہوں﴿الرحمن، علم القرآن﴾( آپ کو رحمن نے قرآن کی تعلیم دی ہے)۔
رحمن کی تعلیم کے فیض سے میرا رسول رحمة للعالمین اور میرے رحمة للعالمین کی تعلیم کے فیض سے میرے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب رحماء بینھم ہیں ، میری رحمت یہاں سے وہاں تک پھیل گئی۔
اے عرب کے فصحاء او ربلغاء! اور اے عرب کے زباں دانو ! تم کو ناز ہے کہ ہم اہل لسان ہیں ، آؤ! میرے اس امی رسول کے مقابلہ میں #
تو نہ دیدی گہے سُلیماں را
چہ شناسی زبانِ مرغاں را
ترجمہ: جب تونے کبھی سلیمان علیہ السلام کو نہیں دکھا تو چڑیوں کی زبان کو کیا سمجھ سکتا ہے #
یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست
کتب خانہٴ چند ملت بشت
ترجمہ: یہ وہ یتیم ہے کہ جس پر ابھی پورا قرآن نہیں اترا ہے ، لیکن تمام مذاہب سابقہ کی آسمانی کتابوں کو منسوخ کر دیا، نہ اب توریت کے حکم پر عمل ہو گا ، نہ اب انجیل کے، حق تعالیٰ نے اعلان فرمادیا کہ اے اہل عرب!
﴿وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورة من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون الله ان کنتم صٰدقین فان لم تفعلوا ولن تفعلوا قاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارة اعدت للکافرین﴾․
”اور اگر تم لوگ کچھ خلجان میں ہو اس کتاب کی نسبت، جو ہم نے نازل فرمائی اپنے بندہٴ خاص پر، تو اچھا پھر تم بنالاؤں ایک محدود ٹکڑا جو اس کا ہم پلہ ہو ( کیوں کہ آج تم بھی عربی زبان داں ہو ،بلکہ پیغمبر صلی الله علیہ وسلم تو مشاق بھی نہیں ہیں او رتم مشاق ہو ، جب باوجود اس کے نہ بنا سکیں گے تو بشرط انصاف بلاتامل ثابت ہو جائے گا کہ یہ معجزہ منجانب الله ہے اور بلاشبہ آپ صلی الله علیہ وسلم پیغمبر ہیں اور یہی مقصود تھا) اور بلا لو اپنے حمایتیوں کی جو خدا سے الگ خدا تجویز کر رکھے ہیں، اگر تم سچے ہو، پھر تم اگر یہ کام نہ کرسکے اور قیامت تک نہ کر سکوگے تو پھر ذرا بچتے رہیو دوزخ سے، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو تیار ہوئی رکھی ہے کافروں کے واسطے۔ “
فائدہ: اس فرمان کے بعد کہ قیامت تک بھی نہ کر سکوگے، کفار کو کیسا جوش وخروش اور پیچ وتاب نہ آیا ہو گا او رکوئی دقیقہ سعی کا کیوں اٹھا رکھا ہو گا، پھر بھی عاجز ہو کر اپناسا منھ لے بیٹھ رہنا قطعی دلیل ہے کہ قرآن مجید معجزہ ہے اور یہ امر عادةً محال ہے کہ کسی نے قرآن کے مقابلہ میں کچھ لکھا ہو اور گم ہو گیاہو، کیوں کہ قرآن مجید کے حامی ہر زمانے میں کم رہے ہیں، جب یہ محفوظ چلا آتا ہے تو اس مخالف تحریر کے حامی ومددگار تو قرآن کی مخالفت میں ہر زمانے میں حامیانِ قرآن سے تعداد میں زائد ہی تھے تو وہ تحریر کیسے ضائع ہو سکتی ہے؟ اس لیے یہ احتمال کہ کسی عرب کافر نے کسی آیتِ قرآنی کے مقابلہ میں کچھ لکھا ہو گا اور وہ تحریر گم ہوگئی ہو، بالکل لغو اور خلافِ عقل ہے۔ (از بیان القرآن پارہ:1)
چالیس برس کے بعد ظہور نبوت میں بڑے اسرار ہیں، جن کی پوری خبر حق تعالیلله ہی کو ہے، اس مقام کے مناسب ایک حکمت یہ بھی ہے کہ چالیس برس تک حق تعالیٰ شانہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کامشاہدہ کرایا ﴿انک لعلی خلق عظیم﴾ (الایة) آپ خلق عظیم پر ہیں۔ علیٰ آتا ہے استعلاء کے لیے ۔ اسی لیے اردو میں علیٰ کا ترجمہ پر سے کیا جاتا ہے ، پس اس آیت کا مفہوم ہوا کہ خلق عظیم ایک سواری ہے جس پر آپ شہسوار ہیں ، جس طرف چاہتے ہیں ہر خلق کی باگ کو پھیر دیتے ہیں ۔ یعنی تمام اخلاق حسنہ پر آپ کو ایسا رسوخ علی وجہ الکمال حاصل تھا کہ کوئی خلق سرِمُوحد اعتدال سے جنبش نہیں کرسکتا تھا کہ کیا مجال کہ سرمو آگے بڑھ سکے یاپیچھے ہٹ سکے، جہاں چاہاوہیں سے باگ پھیردی، اس آیت کے اندر حضور صلی الله علیہ سلم کی جامع تعریف حق تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہے :
اے اہل عرب! چالیس بر س تک تم لوگوں نے اپنے معاملات میں میرے رسول کی صداقت وامانت کا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے، جس کا مقتضا تو یہ تھا کہ میرے رسول کے اعلان رسالت پر تمہارے دلوں میں کھٹک نہ ہونی چاہیے تھی ، لیکن پھر بھی اگر کجروی سے انکار کرتے ہو تو قرآن کا معجزہ دیکھ کر ایمان لاؤ، کیوں کہ جب قرآن کے مقابلہ سے تمام مخلوقات جن وانس عاجز ہیں او رقیامت تک عاجز رہیں گے تو کھلی بات ہے کہ یہ خالق کا کلام ہے۔
ہر نبی کو وقتی معجزہ دیا جاتا تھا، کیوں کہ ایک نبی کے بعد دوسرا نبی جب معبوث ہوتا تھا تواس آنے والے پیغمبر کو اس وقت کے مناسب دوسرا معجزہ عطا فرمایا جاتا تھا، لیکن چوں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، اس لیے آپ کوایک ایسا معجزہ دیا گیا جو قیامت تک باقی رہے گا ، ﴿وانا لہ لحفظون﴾ اور حق تعالیٰ نے اس کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی ہے۔
چناں چہ روئے زمین پر کروڑہا انسانوں کے سینوں میں یہ قرآن مجید محفوظ رہتا ہے۔ پس قیامت تک یہ معجزہ قرآن کا ہر انسان پر حجت ہے کہ وہ عاجز ہو کر ایمان قبول کرے۔ حضرت عارف رومی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں #
زہرہ نے کس را کہ یک حرفے ازاں
یا بدز دو یا فزاید در بیاں
ترجمہ:”کسی کی مجال نہیں کہ ایک حرف قرآن سے چراسکے یاایک حرف قرآن میں بڑھا سکے۔“
اور صاحبِ قصیدہ بردہ شریف فرماتے ہیں:
دامت لدینا ففاقت کل معجزة
من النبیین اذ جاء ت ولم تدم
ترجمہ: ”قرآن کی آیات مبارکہ ہمارے پاس ہمیشہ رہیں گی ، اس لیے یہ معجزہ اور انبیاء علیہم السلام کے معجزوں سے فائق وبرتر ہو گیا۔“
اور کیوں نہ ہوتا جب کہ آپ تمام نبیوں کے سردار ہیں تو آپ کا معجزہ بھی ایسا ہے جو تمام معجزوں کا سردار ہے۔
عجیب الله کی قدرت ہے کہ قرآن کے مقابلہ میں جو آیا وہ ایسا بد حواس اور از خود رفتہ ہوا کہ جو کچھ اس نے کہا وہ بازیچہٴ اطفال بن گیا ۔ چناں چہ مسیلمہ کذاب نے ﴿الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل﴾ کے مقابلہ میں کہا ”الفیل، ما الفیل، عنقہ قصیر، وذنبہ طویل“ اور کہتا تھا مجھ پر وحی آتی ہے، اس عبارت پر خود فصحائے عرب ہنس پڑے اور اس کی اس حرکت کا مذاق اڑایا گیا، بھلا یہ مضمون بھی کلام الہٰی ہو سکتا ہے کہ ’ہاتھی ، کون ہاتھی، جس کی سونڈ چھوٹی او ردم لمبی۔“ استغفرالله!
عرب کا فصیح اور بلیغ فرد ابن مقفع نامی شخص، جو افصح العرب کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، چند آیات قرآنیہ کے مقابلہ میں اس نے بھی کچھ لکھا، لیکن جب کسی قاری سے قرآن پاک کی یہ آیت سنی۔
﴿وقیل یا ارض ابلعی ماء ک ویا سماء اقلعی وغیض الماء و قضی الامر﴾․
ترجمہ: اور حکم ہو گیا کہ اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان! تھم جا اور پانی گھٹ گیا اور قصہ ختم ہوا۔“
اس آیت کا تعلق واقعہ طوفان حضرت نوح علیہ السلام سے ہے۔ ابن مقفع افصح العرب اس آیت کو سن کر نادم ہو گیا اور شرمندگی کے ساتھ اقرار کیا کہ بخدا! قرآن کی فصاحت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ ایک ناخواندہ رسول کی زبان سے قرآن کے کلمات کی فصاحت وبلاغت سن کر عرب کے زبان دانوں کی آنکھیں کھل گئیں کہ الله اکبر یہ فصاحت وبلاغت ایک امی کی زبان سے! اور پھر مضامین کیسے کیسے ہیں؟! یہ ایسے ناخواندہ رسول ہیں کہ علمائے یہود کو توریت کی باتیں سنا کر یہودیوں کو حیرت میں ڈال رہے ہیں ، یہ ایسے امی رسول ہیں کہ انجیل کی باتیں سنا کر نصاریٰ کو مبہوت کر رہے ہیں ، یہ ایسے امی رسول ہیں کہ صحف موسی وصحف ابراہیم کی باتیں سنارہے ہیں، ایک امی رسول کی زبان سے الله نے اپنی بولی بول کر تمام علمائے یہود ونصاری کا علمی پندار اور سارے عرب کا زبان دانی کا ناز خاک میں ملا دیا اور معجزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب اس کے مقابلہ سے ساری مخلوق عاجز ہو تو اس کو خالق کی طرف سے جان کر اپنے خالق پر ایمان لے آئے ۔
اس کوحضرت عارف رومی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں #
صد ہزاراں دفتر اشعار بود
پیش حرف امیش آں عار بود
ترجمہ: ”فصحائے عرب کے پاس فصیح اور بلیغ اشعار کے لاکھوں دفتر موجود تھے، لیکن اس امی رسول کے ایک حرف کے سامنے تمام دفتر کے دفتراشعار کے ذخیرے شرمندہ ہو کر رہ گئے۔“
انبیاء علیہم السلام کے معجزات کو دیکھ کر الله تعالیٰ کے خالق اور پروردگار عالم ہونے کا یقین کرنا عقلاً ضروری ہے، یعنی جب پیغمبروں کے معجزوں کے مقابلہ سے تمام مخلوقات انفراداً او راجتماعاً عاجز ہیں تو عقل یہ کہتی ہے کہ ضرور کوئی ایسی ذات ہے جو ان مخلوقات پر غالب اور قادر او رحکمراں ہے اور یہ رسول صورت میں بشر ہے مگر عام انسانوں سے ممتاز ہے، یہ مثلیت ایسی ہے جیسے کہ ایک گلاس سٹری مٹی کا بنا ہوا اور ایک گلاس چاندی کا بنا ہوا اور اسی سانچہ کا ایک گلاس تمام انمول جواہرات کو گلا کر ڈھال دیا گیا ہو تو وہ سڑی مٹی سے بنا ہوا گلا س اگر یہ کہے کہ یہ جواہرات سے ڈھلا ہوا گلاس بھی ہماری طرح ایک گلاس ہے تو انتہائی بے وقوفی کی بات ہو گی ، سڑی مٹی والا گلاس ذرا اپنے دام بازار میں لگوالے اور پھر اس انمول جواہرات والے گلاس کے دام لگوائے، اس کو تو دو پیسے دام ملیں گے اور اس گلاس کی قیمت سلطان وقت بھی نہیں دے سکتا۔
گر بصورت آدمی انساں بدے
احمد وبوجہل ہم یکساں بدے
پس عام انسانوں میں اور رسول میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ نبی کا خمیر نورانی ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اند رمعصیت کا تقاضا اور داعیہ تک نہیں ہوتا، معصوم فطرت پر مبعوث ہوتے ہیں اور ولی کے اندر تقاضا گنا ہ کا ہوتا ہے ، لیکن تقاضائے معصیت پر عمل کرنے سے اس کو محفوظ رکھا جاتا ہے اگر وہ واقعی ولی ہے۔
انبیاء علیہم السلام اپنی نورانی فطرت او رنورانی خمیر ہی کے سبب نور وحی الہٰی کا تحمل کر لیتے ہیں، چوں کہ علم الہٰی میں وہ پہلے سے منتخب ہوتے ہیں ، اس لیے ان کی آفر نیش کے وقت ہی سے ان کی خصوصی تربیت ہوتی ہے ۔ کیوں کہ یہ سرکاری اور درباری لوگ ہیں ان پر الله کی نظر دوسری ہوتی ہے ۔ پیغمبروں کو جنس بشر سے مبعوث فرمانے کی مولانا رومی رحمہ الله تعالیٰ ایک حکمت بیان فرماتے ہیں #
زاں بود جنس بشر پیغمبراں
تا بجنسیت رہند از ناوداں
یعنی اس واسطے بشر کی جنس سے پیغمبروں کو بھیجتے ہیں تاکہ جنسیت کے سبب دوسرے انسان ناودانِ کفر وشرک سے نکل آئیں ،کیوں کہ ہم جنس کی طرف مائل ہونا ایک فطری امر ہے۔
پس آج بھی قرآن پاک کا معجزہ موجود ہے او رقیامت تک موجود رہے گا۔ جس وقت قرآن پاک میں الله تعالیٰ نے پورے عالم انسانیت کو خصوصاً فصحا عرب کو للکارا، جن کو اپنی زبان دانی پر ناز تھا کہ اس کلام کے مثل ایک محدود ٹکڑا بنا لاؤ او راپنے حمایتیوں کو بھی جمع کر لو اور قیامت تک تم ایسانہ کرسکو گے تو فصحا عرب نے غیظ وغضب میں کیسے پیچ وتاب کھائے اور ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا ، لیکن قرآن پاک کے مثل ایک ٹکڑا نہ بنا سکے اور عاجز ہو کر اپنا سا منھ لے کر بیٹھ گئے، کیوں کہ اہل عرب جنہوں نے سینکڑوں باطل خدا بنا رکھے تھے ۔ ان کے اس زعم کے مطابق سینکڑوں کیا ایک بھی دوسرا خدا ہوتا تو قرآن پاک کے اس اعلان پر کہ اپنے حمایتیوں کو بھی جمع کر لو ناممکن تھا کہ وہ خاموش رہتا، بلکہ اس کلام پاک کے مثل اپنا کلام پیش کرنے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑتا، کیوں کہ قرآن پاک کا اعلان توحید تمام باطل معبودوں کے لیے اعلان جنگ تھا، اس کے باوجود قرآن کے مثل ایک آیت بھی نہ لاسکنا، الله تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کی صداقت کی کھلی دلیل ہے۔

Flag Counter