Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

6 - 15
***
حکیم الامت نے فرمایا
محترم محمد اقبال
اصلاح قلب اور اس کی ضرورت
آیات مبارکہ
ارشاد فرمایا حق سبحانہ نے:
﴿فی قلوبھم مرض فزادھم الله مرضا﴾ ( سورہ البقرہ آیت:9)
ان کے دلوں میں بڑا مرض ہے پس الله تعالیٰ نے ان کے مرض کو اور بڑھا دیا۔
ف: اس میں اثبات ہے امراض قلب کا او روہ معاصی ہیں ؟ حضرات صوفیا کے اطلاقات میں شائع ہے۔ ( مسائل السلوک من کلام ملک الملوک)
سخت بیماری ہے بیماریٴ دل
پھر جس طرح امراض جسمانی کے علاج کے لیے اطبا اور ڈاکٹر صاحبان سے رجوع کرتے ہیں اسی طرح امراض قلب( اخلاق ذمیمہ وغیرہ) کے علاج کے لیے مشائخ کا ملین سے رجوع کرنا ضروری ہے۔
﴿الابذکر الله تطئمن القلوب﴾․ (الرعد آیت:128)
خوب سمجھ لو کہ الله کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔
ف: روح میں ہے کہ اس اطمینان کا سبب ایک نور ہے، جس کو الله مؤمنین کے قلوب پر فائز فرماتا ہے، جس سے پریشانی اور وحشت جاتی رہتی ہے۔ (مسائل السلوک) 
صحیح ہے #
تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
﴿فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور﴾․ ( الحج آیت:16)
بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو جایا کرتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں ۔
ف (1) اس میں قلوب کے اسما ع وابصار ( سننے اور دیکھنے والا) کا اثبات ہے۔ (مسائل السلوک)
بقول عارف رومی
ایں سخن از گوش دل باید شنود
گوش گل اینجا نماند ہیچ سود
حدیث میں بھی ہے ”اللھم افتح مسامع قلبی لذکرک“ یعنی اے الله! میرے دل کے کان ( مسام) اپنے ذکر کے لیے کھول دے۔
ف پس جس طرح ظاہر کی آنکھیں ہیں اسی طرح قلب کی بھی آنکھ ہے اگر قلب کوشے واحد کی طرف متوجہ کیا جائے تو قلب کی شعاعیں دوسری طرف منتقل ہوں گی پس کسی دوسری شی کا خیال نہ آئے گا۔ (رفع الموانع ص:10)
احادیث طیبہ
ارشاد فرمایا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے:
”ان فی الجسد مضغة اذا صلحت صلح سائرالجسد․“ (متفق علیہ من حدیث نعمان بن بشیر)
ترجمہ: ”بدن میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، وہ جب سنور جاتا ہے تو تمام جسد منور ہو جاتا ہے ( مراد قلب ہے کہ اس کی اصلاح سے تمام جسد کے اعمال درست ہو جاتے ہیں)۔
ف: یہ حدیث صریح ہے اس میں ہے کہ اصلاح قلب اصل مدار ہے تمام اصلاح کا اور یہ مسئلہ گویا فن کی روح ہے۔ ( التشرف بمعرفة احادیث التصوف ص:137)
الحدیث: ”قال الله تعالی: ما وسعنی ارضی ولا سمائی ووسعنی قلب عبدی المؤمن اللین․“
” الله تعالیٰ نے فرمایا، مجھ کو نہ میری زمین سما سکتی ہے اور نہ میرا آسمان ، تاہم مجھ کو میرے مؤمن بندہ کا قلب جس میں نرمی اور اطمینان ( کی صفت) ہے سمو لیتا ہے۔“
ف: اس حدیث میں اصل ہے حضرات صوفیا کے اس قول کی کہ مومن کا قلب عرش الله ہے یعنی محل ہے تجلی اعظم کا، جس کو” وسیع“ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے ۔ ( التشرف بمعرفت احادیث التصوف ص:91,89) جس طرح بعض عشاق کا یہ قول ہے #
پرتو حسنت نہ گنجد در زمین وآسمان
در حریم سینہ حیرانم کہ چوں جاکردہ 
( التشرف ص:229)
اردو کا یہ شعر گویا اس فارسی شعر کا ترجمہ ہے #
ارض وسماء کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے جہاں تو سما سکے
”العبد بین اصبعین من اصابع الرحمن“ ( رواہ مسلم من حدیث عبدالله بن عمر) یعنی بندہ کا دل حق تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے۔
ف: اس حدیث میں بعض احوال قلبیہ کا مطلقاً غیر اختیاری ہونا اور بعض کا اختیار مستقل کے اعتبار سے غیر اختیاری ہونا مذکور ہے۔
کسی شاعر نے خوب کہا ہے:
وماسمّی الانسان الا لانسہ
وما القلب الا انہ یّتقلب
یعنی انسان کا نام اس کے انس ومحبت کے سبب رکھا گیا اور دل کا نام قلب اس لیے رکھا گیا کہ یہ کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہتا، بلکہ ہمیشہ اس کی حالت میں تغیر وتبدل ہوتا رہتا ہے #
میں اب سمجھا کہ کچھ نہیں دنیا مرا دل ہے
بدل جانے سے اس کے رنگ ہر اک چیز کا بدلا
غرض دل کی کیسی ہی اچھی حالت کیوں نہ ہو جائے اس پر کبھی اعتبار یا غرور نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ اس میں تغیر آتے دیر نہیں لگتی۔ اسی کو ایک بزرگ فرماتے ہیں #
گہ رشک برد فرشتہ بر پاکی ما
گہ خندہ زند دیو ز ناپاکی ما
ایمان چوں سلامت بہ لب گور بریم
احسنت بریں چستی وچالاکی ما
بعض اوقات ہماری پاکیزگی وصفائی باطن پر فرشتہ بھی رشک کرتا ہے اور بعض دفعہ ہماری بد باطنی پر شیطان بھی ہنستا ہے، اگر ہم ایمان سلامت لے کر قبر کے دہانہ تک پہنچ جائیں اس وقت ہماری چستی وچالاکی پرشاباش کہنا۔
جن پر گزرتی ہے وہ جانتے ہیں کہ قلب کے اند رکتنا بڑا محکمہ ہے، کہیں پھول پھلواری ہے، کہیں خارہے، کہیں خزاں ہے، کہیں بہار ہے، اسی کو اہل حال ظاہر کرتے ہیں۔ ( جمال الجلیل ص:53)
ستم است اگر ہوست کشد کہ بسیر سرو وسمن درا
تو زغنچہ کم دمیدہ در دل کشا بچمن درآ!
دل کے متعلق حضرت شاہ ولی الله قدس سرہ کا ایک فارسی شعر ہے #
دلے دارم جواہر خانہٴ عشق است تحویلش
کہ دارد زیر گردوں سازو سامانے کہ من دارم
قدسی کہتا ہے #
دارم دلے اماچہ دل صد گونہ حرماں در بغل
روز قیامت ہر کسے آید بدستش نامہ!!
چشمے وخوں در آستیں اشکے وطوفاں در بغل
من نیز حاضر مے شوم تصویر جاناں در بغل
(مجالس حکیم الامت ص:106)
قلب کی نگہداشت کی اشد ضرورت ہے
ہمارے حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی قدس سرہ قلب کی نگہداشت کا امر فرمایا کرتے تھے اور یہی اوفق بالسنہ (سنت کے موافق) ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ قلب کو ذاکر بنالو۔ بقیہ لطائف خود بخود ذاکر ہو جائیں گے ان کے مشق کی مستقل ضرورت نہیں ۔ ایک کے منور ہونے سے دوسرے بھی منور ہو جائیں گے۔ اس کی دلیل حدیث میں بھی ہے ”ان فی الجسد مضغة، اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ“ یعنی جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست رہتا ہے سارا جسم درست رہتا ہے او رجب وہ خراب ہو جاتا ہے سارا جسم خراب ہو جاتا ہے ( اور وہ دل ہے ) ”الا وہی القلب“ ( متفق علیہ)
رہا یہ اشکال کہ حدیث میں مضغہ ( قلب صنوبری تو خاص قطعہ لحم کا نام ہے اور اس کے مقابلہ میں ایک قلب حقیقی ہے وہ ایک لطیفہ ہے، اس کے انوار سے یہ صنوبری منور ہوتا ہے۔) کا ذکر ہے، لطیفہ قلب کا نہیں ۔ جواب یہ ہے کہ حدیث میں مضغہ مراد نہیں، ورنہ مضغہ تو حیوانات میں بھی ہوتا ہے، بلکہ انسان سے بڑا ہوتا ہے ۔ بلکہ وہ شے مراد ہے جس کو اس مضغہ سے تعلق ہے، کیوں کہ مضغہ میں اصلاح وصلاحیت وادراک مسائل کی قوت نہیں اور قلب کے لیے فہم وعقل نصوص سے ثابت ہے ( التصوف بالتصرف)۔ 
جس طرح عام حالت کے اعتبار سے قرآن بدون دائمی مزاولت کے یاد نہیں رہتا۔ اسی طرح اسی طریق میں قلب کی نگہداشت عمر بھر کا روگ ہے کسی وقت غفلت کی اجازت نہیں ۔
مکتب عشق کے انداز نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
عمر بھر کسی وقت غفلت کی اجازت نہیں
یک چشم زدن غافل ازاں شاہ نباشی
شاید کہ نگاہ کند آگاہ نباشی
(انفاس عیسی ج:1 ص:37)
اس شنہشاہ حقیقی سے تم پلک جھپکنے کی دیر تک بھی غافل نہ ہو، شاید اسی وقت ان کی توجہ ہو اور تمہیں خبر نہ ہو۔
دیکھنے کی چیز دراصل قلب ہے
زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ دل میں دین کی وقعت ہو ، عظمت ہو ، لوگ اعمال کو دیکھتے ہیں، مگر دیکھنے کی چیز دراصل قلب ہے کہ اس کے دل میں الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت کس قدر ہے۔ ( انفاس عیسی ج2 ص:596) واقعی ان کے بغیر دل کی مثال ایسی ہے #
بے ترے دل کیا ہے بس اک خول ہے 
جلد آ یہ ناؤ ڈانوا ڈول ہے
افسوس دور حاضر میں اکثر لوگوں کے قلوب خشیت خداوندی سے خالی ہیں #
دغا مکر وحرص وہویٰ دل کے اندر
حسد بغض کبر ریا دل کے اندر
نہیں اس زمانہ میں کیا دل کے اندر
نہیں ہے تو خوف خدا دل کے اندر
قلب کا اثر لباس اور کلام میں
قلب کا اثر انسان کے کلام اور لباس تک میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل الله کے تبرکات میں اثر ہوتا ہے اور صحبت میں اس سے زیادہ اثر ہوتا ہے ۔ (کمالات اشرفیہ ص:68) بزرگان کاملین کے قلوب میں یہ برکت ہوتی ہے کہ جوان کو راضی رکھتا ہے اور جس کی طرف ان کے قلوب متوجہ رہتے ہیں ،الله تعالیٰ اس پر فضل فرما ہی دیتا ہے۔ تجربہ یہی ہے، چناں چہ ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ او رایک شخص نہر میں وضو کر رہے تھے، امام صاحب  نیچے کی طرف تھے اور وہ شخص اوپر کی طرف اس شخص نے خیال کیا کہ امام صاحب مقبول بندے ہیں، میرا مستعمل پانی ان کے پاس جاتا ہے ،یہ بے ادبی ہے۔ اس لیے وہ اٹھ کر دوسری طرف ان کے نیچے جا بیٹھا ،بعد انتقال کے اس کو کسی نے خواب میں دیکھا ، پوچھا کہ مغفرت ہوئی یا نہیں؟ کہا میرے پاس کوئی عمل نہ تھا۔ اس پر مغفرت ہوئی کہ تونے ہمارے مقبول بندے احمد بن حنبل کا ادب کیا تھا، ہمیں یہ پسند آیا۔ ( کمالات اشرفیہ ص:242)
اسی لیے حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کوشش کرو کہ کسی ( اہل الله) کے دل میں جگہ کر لو کیوں کہ ان کے دل تجلی گاہ حق ہیں تو تمہاری حالت کچھ بھی ہو، ان شاء الله انوار تجلی سے محروم نہ رہو گے، اس میں بڑی بشارت ہے ۔ ( اوج قنوج ص:35 ،معارف امدادیہ ص:68) اسی لیے اپنے شیخ کی بے ادبی کرنے سے اس کے قلب میں کدورت پیدا ہو جاتی ہے جو مانع ہوتی ہے تعدیہ ( فیض پنپنا) فیض میں، حضرت حاجی صاحب  نے اس کی خوب مثال دی کہ اگر کسی چھت کے میزاب کے مخرج میں مٹھی ٹھونس دی جائے تو جب آسمان سے پانی برسے گا تو گو وہ چھت پر نہایت صاف و شفاف حالت میں آئے گا، لیکن جب میزاب میں ہو کر نیچے پہنچے گا تو بالکل گدلا او رمیلا ہو کر اسی طرح شیخ کے قلب پر جو ملا ئے اعلیٰ سے فیوض وانوار نازل ہوتے ہیں ان کا ایسے طالب کے قلب پر، جس نے شیخ کے قلب کو مکدر کر رکھا ہے، مکدر صورت ہی میں ہوتا ہے، جس سے اس طالب کا قلب بجائے منورو صفا ہونے کے تیرہ ومکدر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ( اشرف السوانح، ج:2 ،ص:117)
اپنے شیخ کو مکدر رکھنے اور مکدر کرنے کا وبال طالب پر یہ ہوتا ہے کہ اس کو دنیا میں جمعیت قلب میسر نہیں ہوتی اور وہ عمر بھر پریشان رہتا ہے۔ (معارف امدادیہ ص:114)
لایعنی کلام سخت مضر قلب ہے
حضرات عارفین کا مشاہدہ ہے کہ ضروری گفتگو دن بھر ہوتی رہے تو اس سے قلب پر ظلمت کا اثر نہیں ہوتا۔
چناں چہ ایک کنجڑا دن بھر ”لے لو امر ود“پکارتا ہے تو ذرا برابر قلب میں اس سے ظلمت نہ آئے گی، کیوں کہ بضرورت ہے اور بے ضرورت ایک جملہ بھی زبان سے نکل جائے تو دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ ( انفاس عیسی ص:189)
دل زپُر پر گفتن بمیرد در بدن
گرچہ گفتارش بود در عدن
بے کاری میں شیطان قلب میں تصرف کرتا ہے۔ فرمایا کہ میں تو اس کو پسند کرتا ہوں کہ ہر شخص کام میں لگے، چاہے وہ کام دین کا ہو یا دنیا کا۔
جو شخص مصروف ہوتا ہے وہ بہت سی خرافات سے بچا رہتا ہے ۔ ایک بزرگ نے اس کو سلام نہیں کیا اور جب اسی راستے سے لوٹے تو وہ شخص زمین کر ید رہا تھا۔ ان بزرگ نے اس کو سلام کیا ، لوگوں نے دریافت کیا کہ حضرت! اس میں کیا راز تھا کہ اس شخص کو آپ نے پہلے تو سلام نہیں کیا اور اب کیا؟ فرمایا کہ پہلے وہ بے کار بیٹھا تھا ، اس لیے اس کے قلب میں شیطان تصرف کر رہا تھا او راب مشغول ہے، گوبے کار ہی فعل میں سہی، جو معصیت بھی نہیں، اس لیے شیطان اس سے دور ہے ۔ ( انفاس عیسی ج:2 ص:596)
اصلاح قلب کے لیے قطع علائق ضروری ہے 
اصلاح قلب تمام علائق قطع ( تعلقات توڑنا) کیے بغیر نہیں ہو سکتی اور قطع تعلق سے مراد غیر ضروری تعلقات کی کمی ہے اور ضروری تعلقات کی کثرت مطلق مضر نہیں۔ ( انفاس عیسی ص:26)
دل کے تباہ ہونے کی علامات
صاحب بصیرت شیخ یہ ادراک کر لیتا ہے کہ تمہارے تعلقات کا منشا حظ نفس ہے یا اتباع سنت۔ وعظ کرکے دل خوش ہو۔ تعلقات ماسوی الله میں دل پھنسا ہو ، یکسوئی سے کورا ہو ، نماز پڑھنے میں حظ نہ آتا ہو، ہاں وعظ چاہے جتنا کہلوالو اس میں حظ ( مزہ، لطف) آتا ہو، جلسوں میں شرکت کے لیے فورا تیار ہو جاتے ہیں یہ حالت دل کی تباہ ہونے کی علامت ہے ۔ (انفاس عیسی، ج:1ص:360)
جس طرح والدین بچوں کے دنبل کا آپریشن کرتے ہیں اسی طرح الله تعالیٰ قلوب کا آپریشن کرتے ہیں، جب کہ دلوں میں غفلت بڑھ جاتی ہے اور گناہوں کی ظلمت سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں تو مصیبت اور بلا کے نشتروں سے دلوں کا خراب مادہ نکالا جاتا ہے او ران کی اصلاح کی جاتی ہے، پس یہاں بھی بالفعل تکلیف ہے اور وہاں بھی، مگر انجام دونوں کاراحت ہے، فرق اتنا ہے کہ وہاں راحت قریب ہے کہ پندرہ بیس ہی دن میں دنبل کو نشتر دینے کے بعد صحت ہو جاتی ہے اور یہاں بعید ہے کہ قیامت میں اس کا ظہور ہو گا، جب کہ مصائب کا ثواب ملے گا۔ (کمالات اشرفیہ ص:266)
واردات قلب منجانب الله ہیں
حضرت مولانا گنگوہی نے میرے ایک عریضہ کے جواب میں فرمایا کہ جو کچھ قلب پروارد ہو منجانب الله خیال کرو۔ جوواردات مضر ہوں گے اس مراقبہ سے سب دفع ہو جائیں گے۔ ( انفاس عیسی:2 ص:433) حضرت حاجی صاحب  فرماتے تھے کہ نماز پڑھنے میں جو کچھ قلب پر وارد ہوتا ہے صحیح ہوتا ہے ۔ (روح القیام ص:99 معارف امدادیہ ص:173)
قلب سلیم خیر وشر کا صحیح ادراک کرتا ہے
ایسا قلب جو محل ہوتا ہے تجلیات لامتناہیہ اور مہبط (انتہا کو نہ پہنچنے والا اور اترنے کی جگہ) ہوتا ہے، انوارالہیٰہ کا، اسی کی نسبت کہا ہے #
آئینہ سکندر جام جم است بنگر
تابر تو عرصہ دارد احوال ملک دارا
یہاں سکندر اور داراسے مراد وہ دو بادشاہ نہیں جن کی کسی وقت لڑائی ہوئی تھی، بلکہ دو مخالف مراد ہیں سکندر تم خود ہو اور دارا وہ ذات ( ابلیس لعین) ہے ،جو سب کو دار پر لے جارہا ہے، مفہوم یہ ہوا کہ تمہارے اندر ایک آئینہ سکندر یا جام جم موجود ہے اس میں دیکھو اور غور کرو تو اس میں ملک دارا یعنی ابلیس کے حالات نظر آئیں گے یعنی ابلیس کے تلبیسات (مکروفریب) اور مکروفریب کا انکشاف ہو جائے گا تو اس سے بچ سکو گے، یہ اسی قلب کے متعلق کہا ہے، جس میں صفات قلب موجود ہوں کما قال الله تعالیٰ ﴿ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب او القی السمع وھو شہید﴾․
اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر کان ہی لگا دیتا ہو ) یعنی جس کا قلب سلیم ہو ( اور ا س میں علم وعزم ہو ) اور اس میں عقل سلیم سے استعداد ہو صحیح بات سمجھنے کی۔
واقعی اگر قلب میں صفت سلامتی پیدا ہو جائے تو ایسا دقیقہ رس(باریک بیں) ہو جاتا ہے کہ بے تکلیف خیر وشر کا ادراک کرلیتا ہے ( جلاء القلوب ص:94,93,90) مگر قلب میں ایسی صفت پیدا کرنے کے لیے کسی شیخ کامل کی سرپرستی میں سخت مجاہدہ کی ضرورت ہے ۔ بقول عارف بالله حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب #
آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل
کچھ نہ پوچھو دل بڑی مشکل سے بن پاتا ہے دل
وسوسہ قلب کے باہر سے آتا ہے 
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وسوسے قلب ہی کے اندر سے پیدا ہوتے ہیں، یہ بات نہیں ہوتی بلکہ ہوتے تو باہر ہی ہیں، لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اندر ہیں اور جب قلب میں عقائد حقہ مرکوز ہیں تو ان کے خلاف خود قلب سے کیوں پیدا ہو گا ۔ خارج ہی سے آئے گا یعنی بالقائے شیطان۔ جس طرح کسی شیشہ پر مکھی بیٹھی ہو تو وہ شیشہ کے اوپر ہی ہے لیکن عکس کی وجہ سے دیکھنے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر بیٹھی ہوئی ہے۔ (کمالات اشرفیہ ص:200)
نماز میں احضار قلب مقصود ہے
قطع وسوسہ کی کوئی تدبیر حدیث میں نہیں آئی ،یعنی ایسی تدبیر جس کے بعد وسوسہ آئے ہی نہیں، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایسی تدبیر بتلائی ہے کہ اگر وسوسہ آئے بھی تو پریشان نہ ہو اور وہ عدم التفات ہے، اس پر میں نے کہا کہ عدم التفات کے بعد یہ بھی نہ دیکھو کہ وسوسہ گیا یا نہیں، یہ بھی التفات ہے، بلکہ مجاہدہ کے بعد بھی وساوس موجود ہوں تو پریشان نہ ہو ۔ (فناء النفوس) کیوں کہ توجہ قلب کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے رویت بصری کی ۔ جب آپ ایک نقطہ کی طرف نگاہ کریں گے اور اشیاء بھی تبعا نظر آئیں گی تو جس طرح حاسہ بصر (دل کا حاضر رکھنا) کے سامنے اور چیزیں بھی اضطراراً آجاتی ہیں، اسی طرح حاسہ بصیرت کے سامنے بھی کچھ چیزیں ( وساوس) آجاتی ہیں، اس لیے سالک کو وساوس سے پریشان نہ ہونا چاہیے۔
احضار( دل کا حاضر ہونا) قلب نماز میں مامور بہ ہے اور ہے اختیار، اس کو عمل سے حاصل کرو ۔ مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی نے ایک بار اس کی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ نماز فعل مرکب ہے جس کے مختلف اجزاء ہیں، قیام وقعود اور رکوع وسجود ، قرات واذکار وغیرہ۔ پس احضار قلب یہ ہے کہ اس کے اعمال واقوال کو حفظ سے ادانہ کرو بلکہ ارادہ اور توجہ سے ادا کرو کہ اب زبان سے یہ نکال رہا ہوں، اب یہ لفظ کہہ رہا ہوں اب سجدہ کر رہا ہوں اور ہر فعل اور لفظ پر جدید ارادہ کرو۔ اس طرح کہ احضار قلب حاصل ہو جائے ( فناء النفوس) اس کو حضور قلب نہ سمجھیئے گا جواختیاری نہیں، نہ اس کا مکلف کیا گیا ہے، بلکہ حکم اس کا ہے کہ تم اپنی طرف سے قلب کو حاضر کرنے کی کوشش کرو ،اسی طرح اپنی طرف سے وساوس نہ لاؤ اور خود بخود آئیں تو پریشان نہ ہو، اپنی طرف سے احضار قلب کی پوری سعی کرو #
وساوس جو آتے ہیں ان کا ہو غم کیوں
عبث اپنے جی کو جلانا برا ہے
خبر تجھ کو اتنی بھی ناداں نہیں ہے
وساوس کا لانا کہ آنا برا ہے
اعتکاف کی حالت میں دل کا گھر میں رہنا
اعتکاف کی حالت میں دل کے گھر میں رہنے کا تو کچھ ڈر نہیں، کیوں کہ غیر اختیاری ہے، ہاں رکھنا نہ چاہیے ( کیوں کہ یہ اختیاری ہے) اور وہ بھی جب کہ بلا ضرورت ہو اور ضرورت سے تو بعض اوقات رکھنے کا حکم ہے، یعنی انتظام حقوق واجبہ یامستحبات کے لیے ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے تو معراج میں کہ اعلیٰ مقام ہے قرب کا اپنا دل امت میں رکھا تھا اور ان کے مصالح کااہتمام فرمایا تھا۔ ( انفاس عیسی ج1 ص:134)
(جاری)

Flag Counter