Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

15 - 15
***
کامیابی کی دو بنیادی باتیں
محترم محمد خالد گونڈوی
اخلاص کے اصل معنی ہیں صاف کرنا ، مانجھنا، کوئی غیر وغلط چیز آجائے تو اسے نکالنا۔
شریعت کی نظر میں اخلاص کہتے ہیں عبادت سے مقصود صرف معبود حقیقی کی ذات ہو ، اس لیے کلمہ کا نام کلمة الاخلاص ہے کہ اسے پڑھ کر مسلمان شرک سے دور ہوتا ہے ، اطاعت میں عبادت کا مطلب ہے کہ اس میں ریا اور دکھاوا شامل نہ ہو ، لہٰذا ریا دھوکا، کھوٹ، حیلہ سازی، جھوٹ اور آخر میں شرک کی مخالفت اخلاص ہے۔
اسلام انسان کی کامیابی اور اس کی کامرانی کی دو بنیادیں ایک ساتھ فراہم کرتا ہے ، ایک ایمان کامل وعقیدہٴ راسخ ، الله کی توحید اور الله کے رسول کی رسالت پر مضبوط ایمان وایقان، دوسرے عمل صالح، نیک کام، اخلاق حسنہ، الله کی مخلوق کے ساتھ اچھا رویہ وسلوک، الله کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے وراستہ پر استقامت کے ساتھ جمنا، اسلام میں ایمان وعمل صالح یکساں اہمیت کے حامل ہیں ، یہ ضروری ہے کہ ایمان بنیاد ہے اور عمل صالح اسی بنیاد پر کھڑی دیواریں ہیں، قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر دونوں کی اہمیت کو ایک ساتھ بیان کیا ہے ”وأما من آمن وعمل صالحا فلہ جزاء الحسنیٰ“ او رجو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کو ( آخرت میں بھی ) بدلے میں بھلائی ملے گی ۔
جب ہم حدیث کی روشنی میں عمل صالح کو دیکھتے ہیں تو اس کا مفہوم بہت وسیع اور اس کا کینوس بہت پھیلا ہوا نظر آتا ہے ، نماز ، روزہ، حج وزکوٰة، اخلاق ومعاملات، خرید وفروخت، شادی بیاہ سب اعمال صالحہ کی فہرست کے ذیل میں آتے ہیں۔ اگر ان کی ادائیگی الله تعالیٰ کی خوش نودی اور رضا کے لیے ہو ، تو یہاں پہنچ کر اسلام ان اعمال صالحہ کا نام عبادت بھی رکھتا ہے ، دوسرے مذاہب نے عبادت کا دائرہ بہت محدود اور تنگ کر دیا تھا ،اسلام نے تکمیلی رول ادا کرتے ہوئے اس میدان کواعمال صالحہ کے گلہائے رنگا رنگ سے سجا کر ایک چمنستان بنا دیا، جس کے سایہ میں انسانیت سکون وراحت کی زندگی بسر کر سکتی ہے ، عبادت کی قبولیت کی شرط ، مومن کو اپنے ایک ایک پل کا حساب دینا ہے ۔ اس لیے زندگی کے ہر لمحہ کو عبادت کے روپ میں ڈھال لیا، علامہ سید سلیمان ندوی رحمة الله علیہ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں ” اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو نیک کام بھی کیا جائے اس کا محرک کوئی دنیاوی غرض نہ ہو اور نہ اس سے مقصود ریا ونمائش ، جلب منفعت، طلب شہرت ، یا طلب معاوضہ وغیرہ ہو ، بلکہ صرف الله تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری اور خوشنودی ہو، اسی کا نام اخلاص ہے۔“
قرآن کریم میں ہے ﴿ابتغاء وجہ الله﴾ الله کی ذات کی خوشی کے سوا اور غرض نہ ہو ، متعدد جگہوں پر ہے ﴿مخلصین لہ الدین﴾ اطاعت گزاری کو خدا کے لیے خاص کرکے ایک جگہ ارشاد ہے:﴿انما نطعمکم لوجہ الله﴾ ہم تو صرف خدا کے لیے تم کو کھلاتے ہیں ، نبی اور رسول جو لوگوں کو الله کی طرف بلانے ، توحید کی دعوت دینے اور لوگوں کو شرک سے بچانے کے لیے آئے ، ان سے الله تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ اپنی امت سے صاف صاف بتلا دیجیے کہ یہ دعوت صرف الله کی خوشی ورضا کے لیے ہے ، اس کے پیچھے کوئی ذاتی غرض اور مالی منفعت نہیں ہے ﴿ان اجری الاعلی الله﴾ میری مزدوری ، اجرت تو الله کے ذمہ ہے۔ ایک دوسری جگہ کافروں کو پھٹکارتے ہوئے فرمایا کہ ﴿ام تسئلھم أجراً فھم من مغرم مثقلون﴾ کیا آپ ان سے کسی اجرت کے طالب ہیں جس کے بوجھ سے یہ جھکے جارہے ہیں ؟ غرض اخلاص کی روح کے بغیر عبادت قبول نہیں ہوتی ، بلکہ وبال جان ہے ، موجب عذاب بن جاتی ہے ، منافقین کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے ﴿یراؤن الناس ولا یذکرون الله الا قلیلا﴾ لوگوں سے ریا کاری کرتے ہیں اور الله کو برائے نام یاد کرتے ہیں ، دوسری جگہ ارشاد ہے ﴿الذین ھم یراؤن ویمنعون الماعون﴾ جو لوگوں کو دکھاتے ہیں اوربرتنے والی چیزوں سے لوگوں گو روکتے ہیں۔
اخلاص عقیدہ وعمل کے اندر بہت منافع رکھتا ہے ، مؤمن کا دل مسرورو مطمئن ہوتا ہے ، سعادت وخوش بختی اس پر سایہ فگن رہتی ہے ، حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ عین معرکہ جنگ میں اپنے منصب وقیادت سے معزول کر دیے جاتے ہیں، لیکن بغیر کسی تردد اور ذہنی کش مکش کے وہ جنگ میں ایسے مشغول رہے جیسے پہلے تھے۔ مخلص وسواس وخام خیالیوں کے گرداب میں نہیں پھنستا، مشکلات اور آزمائشوں میں اس کے پائے ثبات متزلزل نہیں ہوتے، اس راہ کی رکاوٹوں کا وہ مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے ، شیطان بھی ان مخلص بندوں کو اپنے دام فریب میں لانے سے عاجز ہے، خود اعتراف کرتا ہے ﴿الاعبادک منھم المخلصین﴾․
حدیث میں بھی اخلاص کی بڑی اہمیت آئی ہے او ربتایا کہ اخلاص اصلا دل کا عمل ہے، اسی لیے دل کے قبلہ کو درست رکھنے کی بار بار تاکید آئی ہے کہ اگر اعمال نیک مخلص صالح دل کے ترجمان نہ ہوں گے تو بارگاہ خداوندی میں باریاب نہ ہو سکیں گے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”الا ان فی الجسد مضغةً، اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وھی القلب․“ سنو اور چوکنے رہو! جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اور وہ درست وستھرا رہا تو سارا بدن ستھرا رہے گا ، اگر وہ گندا ہوا تو سارا جسم خراب ہو جائے گا، سنو! وہ ٹکڑا دل ہے۔
قربانی ایک بڑی عبادت ہے ، اس مالی نذرانہ کو پیش کرتے وقت اگر خوش نودی خدا پیش نظر نہ ہو تو وہ خون گرانا، مال برباد کرنا رائیگاں گیا، قرآن میں الله تعالیٰ فرماتا ہے﴿لن ینال الله لحومھا ولا دماء ھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم﴾ الله تک نہ ان کا گوشت پہنچے گا نہ خون، صرف تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔ اس آیت میں ریا ونمائش اور طلب شہرت کو اخلاص کی ضد کے طورپر پر کھا جارہا ہے۔
ہجرت کے موقع پر ہجرت، اسلام وایمان کی سب سے بڑی علامت ونشانی تھی ، ہجرت اپنی ذات میں ایک آگ کا دریا تھی اور ڈوب کر جانا تھا ،صحابہ جان ہتھیلیوں پر لے کر مال واسباب سے ہاتھ دھو کر اپنے گھروں سے نکلے تھے ، لیکن اس سنگین ترین لمحہ میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو! اپنے دلوں کو ٹٹول لو ، سچی اور کھری نیت کی سوغات اگر ہو گی تو تمہاری یہ ہجرت قابل قبول ہو گی ورنہ تمہارا اپنے کو یہ جان جو کھم میں ڈال کر سفر کرنا بے سود اور خسارے کا سودا ہو گا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”انما الاعمال بالنیات“ عمل کی قبولیت نیت پر موقوف ہے۔
روزہ ایک خاموش مخفی جسمانی عبادت ہے ، یہاں بھی شرط ایمان واحتساب کی ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ“ جس نے ایمان ویقین، اجر وثواب کی امید کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
جہاد مومن کے لیے زندگی جاوداں ہے ، مومن اس حیات جاوید کے لیے بے تاب نظر آتا ہے ، خود آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس کی تمنا فرمائی، جہاد کوئی بچوں کا کھیل نہیں ، جان بچانا انسان کی سب سے بڑی جبلت ہے ، اس کے لیے وہ کیا کیا جتن نہیں کرتا ، نیزہ کی انی ، تلوار کی دھار اس عالم آب وگل سے رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتی ہے، اس موقع پر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے صریح اور واضح احکام وفرمان موجود ہیں کہ دیکھو دیکھو! قبل اس کے کہ خون کی دھار تمہارے جسم سے چھوٹے اپنی نیت کو سنبھال کے رکھو، کہیں کوئی غرض دنیا نہ آجائے۔
حضرت ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ اس شخص کے متعلق کیا خیال فرماتے ہیں، جو شہرت اور ثواب دونوں کے لیے جنگ میں نکلا ہے ، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کچھ نہ ملے گا۔ ان صاحب نے اپنی بات تین بار دہرائی ، آپ صلی الله علیہ وسلم بھی یہی فرماتے رہے کہ اس کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ پھر فرمایا الله تعالیٰ تو صرف وہی عمل قبول کرتے ہیں جو بالکل کھرا ہو اور اس کی خوشنودی اور رضا کے لیے انجام دیا جائے۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ بہتر عمل وہ ہے جو خالص ہو اور صحیح ہو اور خالص ہو تو بھی قبول نہ ہو گا اور صرف صحیح تو بھی قبول نہ ہو گا، لہٰذا خالص اور صحیح دونوں ایک ساتھ ہو، خالص کا مطلب یہ ہے کہ وہ الله کے لیے انجام دیا جائے اور صحیح یہ ہے کہ الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے عین مطابق ہو۔
﴿فمن کان یرجو لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادة ربہ احدا﴾․
Flag Counter