Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

2 - 18
***
پاکیزہ زندگی پاکیزہ ماحول سے بنتی ہی
مولانا محمد عمر پالن پوری 
الله طبیعت کے موافق اور مخالف حالات لا کر آزمائش کرتے ہیں
الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ طبیعت کے موافق وطبیعت کے خلاف حالات لا کر ہم تمہاری آزمائش کریں گے۔ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم قیامت تک کے لیے ایک نمونہ بنانا چاہتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ اگر سونا چاندی دے کر لوگوں سے الله کے دین کا کام لیا تو پھر لوگ دین کا کام سونے چاندی کے لیے کریں گے، الله کی رضا کے لیے نہیں کریں گے، جب مقصد سونا چاندی ہو گا تو دین میں دین پنا باقی نہیں رہے گا۔ جب دین میں دین پنا باقی نہیں رہے گا تو پھر دین کے اندر الله کی طاقت ساتھ نہیں رہے گی۔ پھر یہ دین اتنا طاقتور نہیں بنے گا کہ قیصر وکسریٰ بھی گھٹنے ٹیک دیں۔ بنی اسرائیل میں حضرت موسی علیہ السلام کی محنت سے جو دین آیا اور صحیح طور پر حقیقتاً دین آیا تو فرعون وہامان نے گھٹنے ٹیک دیے۔ حالاں کہ یہ بہت طاقتور تھے اور ظاہری اسباب میں ان کے ساتھ پوری طاقت تھی۔ لیکن وہ مقابلہ نہ کرسکے۔ دین کی طاقت کا مقابلہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت نہیں کر سکتی، اس لیے کہ دین کے ساتھ خدا کی طاقت ہوتی ہے ، بشرطیکہ دین حقیقی ہو۔ اصلی دین ہو اور دین حقیقتاً اس وقت بنتا ہے جب دین کا کام خالص الله کی رضا مندی کے لیے کیا جائے، اس میں دنیا کی کوئیغرض نہ ہو ۔ دین کا کام ملک اور مال کے لیے نہ کیا جائے ۔ صحابہ کرام نے جو دین کا کام کیا وہ ملک ومال کے لیے نہیں کیا، بلکہ الله کو خوش کرنے کے لیے اور خدا کو راضی کرنے کے لیے کیا او رالله پاک فرماتے ہیں ﴿یبتغون فضلا من الله ورضوانا﴾․
”وہ الله کا فضل اور الله کی رضا مندی چاہتے ہیں ۔ “یعنی ملک اور مال کی طلب اور چاہت نہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ ملک ومال الله نے اپنے فضل وکرم سے دیا۔ لیکن ان کا مقصد ملک ومال نہیں تھا، بلکہ الله کی خوشنودی تھی۔ تو جب الله راضی ہو تو یہ ملک ومال کا آنا ان کی رضا مندی کے انعامات ہیں۔ الله تعالیٰ راضی ہوئے اور دین میں طاقت آئی۔ اتنی طاقت آئی کی قیصر وکسریٰ نے گھٹنے ٹیک دیے۔ دین میں اتنی طاقت ہے ۔ جب کہ وہ دین الله کی رضا مندی کے لیے اور الله تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہو۔
دین کے کام کی بنیاد جان ومال کی قربانی ہے
اس لیے رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین کا کام قربانیوں کے ساتھ جو آدمی کرے وہ آدمی اپنی جان کو بھی قربان کرے اور مال کو بھی قربان کرے اور جان کی قربانی اور مال کی قربانی بھی کافی نہیں بلکہ ﴿تجاھدون فی سبیل الله باموالکم وانفسکم﴾․ (آیت:13 پارہ:28)
اپنی جان کو بھی قربانی کرو۔ اپنے مال کو بھی قربان کرو اور نبی کے طریقے پر قربان کرو، الله کے یقین کے ساتھ قربان کرو، تب جاکے کہیں:﴿نصر من الله وفتح قریب﴾․ ( سورہ صف آیت:13 پارہ:28)
ترجمہ: الله کی طرف سے مدد اور جلدی فتح یابی۔ اور جب الله کی مدد اور نصرت آئے گی تو پھر ﴿اذا جاء نصر الله والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین الله افواجا﴾․ (سورة النصر آیت:3-1 پارہ:30)
پھر تو لوگ جوق درجوق دین کے اندر داخل ہوں گے ،پھر پوری دنیا کے اند رامن وامان آئے گا۔ جب کہ وہ دین دنیا میں زندہ ہو جائے۔
دین کی بنیاد مال نہیں
دور نبوی اور دور صدیقی دین کے لیے جڑ بنیاد کا زمانہ ہے اور دور فاروقی دین کے لیے پھلوں کا زمانہ ہے۔ باغ اگر لگانا ہے تو پہلے جڑو بنیاد لگاؤ تو پھر پھل آتے ہیں۔ دین کے لیے جڑ بنیاد کیا ہیں ۔ جان کو قربان کرنا، مال کو قربان کرنا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر اور الله کی خوشنودی ورضامندی کے لیے۔ اس سے دنیا زندہ ہو گی اور دین کے زندہ ہونے سے فضا دینی بنے گی اور دنیا کے اندر امن وامان ہو گا۔ خدا کی نعمتیں اور برکتیں برسیں گی۔ غریب آدمی بھی اپنا مال قربان کرتا تھا اور غریب آدمی کا ذہن یہ نہیں تھا کہ میں غریب ہوں، مجھے کوئی کھانا کھلائے گا تو دین کا کام کروں گا۔ یہ بالکل ان کے ذہن میں نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس بات کا کوئی قانون یا ضابطہ نہیں تھا کہ تم دین کا کام کرو تو ہم تم کو روٹی دیں گے۔ یہ بات الگ تھی کہ جس کو الله نے دیا وہ اکیلا نہیں کھاتا تھا۔ وہ دوسرے کو بھی کھلاتا تھا۔ اخلاقی طور پر دینا الگ بات ہے اور قانونی طور پر دینا الگ بات ہے، قانونی طور پر دینا بالکل طے نہیں تھا، اخلاقی طور پر سب کھلاتے تھے ۔ اخلاقی طور پر تو دینا یہاں تک تھا کہ گھر کے اندر صرف ایک آدمی کا کھانا ہے اور مہمان آیا تو چراغ کو بجھا دیا ٹھیک کرنے کے بہانے اور اس ایک آدمی کو پیٹ بھر کر کھلایا۔ اخلاقی طور پر دینا یہاں تک پہنچا ہوا تھا، لیکن قانونی طور پر دینے کا کوئی ضابطہ یا قانون نہیں تھا۔ اتنی قربانیاں دینے کے بعد دین زندہ ہوا او رجب دین زندہ ہوتا ہے تو الله تعالیٰ دنیا کو قدموں پرڈالتے ہیں، کیوں کہ دین کے کام کرنے والوں کے دلوں سے جب دنیاکی محبت نکل جاتی ہے تو یہ دنیا بجائے سروں پر چڑھ رہنے کے پیروں پر پڑ جاتی ہے ۔ دنیا تو مقدر میں ہر آدمی کے لکھی ہوئی ہوتی ہے، چاہے دین کا کام کرے یا نہ کرے ۔ اگر مقدر میں زیادہ لکھی ہے تو زیادہ ملے گی اور اگر تھوڑی لکھی ہے تو تھوڑی ملے گی۔ یہ بالکل طے شدہ ضابطہ ہے۔
دین کے کام کرنے والوں کے لیے دنیا کی کوئی حیثیت نہیں
جس آدمی نے دین کا کام کرکے دنیا کو دل سے نکالا تو اس آدمی اور جس نے دنیا کی محبت کو دین کے کام میں داخل کر دیا اور دین کا کام نہ کیا تو بھی مقدر کی دنیا اسے ملے گی۔ لیکن وہ دنیا اس کے سر کے اوپر چڑھی رہے گی اور اس آدمی کے آگے آگے ہو گی۔ جو آدمی دنیا کو آگے کر دے گا اور دین کو پیچھے کر دے گا تو اس کا دین بھی دنیا بن جائے گا۔ چاہے وہ شہید بن جائے، سخی بن جائے یا قاری بن جائے۔ اسے دنیا دار کہہ کر جہنم میں ڈالا جائے گا۔ کیوں کہ اس نے دنیا کو آگے کر دیا اور دین کو پیچھے کر دیا اور محبت دنیا کو اندر کر دیا۔ دین پیچھے اور دنیا کی محبت اندر تو اس صورت میں دنیا کی محبت کی وجہ سے دنیا اس کے سر پر چڑھی ہو گی ۔ اگر اس صورت میں دین کا کام بھی کرے گا تو دنیاکی خاطر، دنیا ملے گی تو دین کا کام کرے گا، نہ ملے تو نہیں کرے گا ، توایسے آدمی کا جو دین ہے وہ بھی دنیا بن جاتا ہے ۔ دنیا میں تو وہ کہتا رہے گا کہ میں دین دار ہوں اور دین کا کام کرنے والا ہوں لیکن قیامت کے دن وہ دنیا دار کہلائے گا۔ کیوں کہ دل کے اندر اس کی محبت بھری تھی اور دنیا کو اس سے نے اصل قرار دیا تھا اور آدمی دین کو آگے کر دے اور دنیا کو پیچھے کر دے اور دل سے دنیا کی محبت نکال دے تو مقدر کی دنیا کہیں بھی نہیں جاسکتی، وہ اسے ملے گی ۔ صرف اتنا ہوتا ہے کہ بجائے سر چڑھی کے وہ پیر پڑی بن جاتی ہے ۔جیسا کہ ایک آدمی دھوپ کی طرف چلتا ہے تو سایہ اس کے پیچھے پیچھے رہے گا۔ تو اس طرح یہ آدمی الله کی طرف چلتا رہے ۔ دین کی طرف چلتا رہے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے تو دنیا اس کے پیچھے پیچھے آتی رہے گی۔ اس طرح اگر اس نے دین کی طرف پیٹھ کر دی اور دنیا کی طرف منھ موڑا تو دنیا اس کے آگے آگے رہے گی اور یہ آدمی اس کے پیچھے پیچھے رہے گا۔ جیسے سایہ آگے اور یہ پیچھے ۔ پندرہ میل چلے گا۔ سایہ کے پیچھے تو بھی سایہ آگے آگے رہے گا۔ تو جتنا وہ ترقی کرے تو دنیا اس کے آگے آگے رہے گی اور وہ اس کے پیچھے رہے گا۔ او راگر دنیا کو پیچھے کر دیا اور دین کو آگے کر دیا تو دنیا کے آگے وہ ہو گا اور دنیا اس کے پیچھے ہو گی ۔
دین کا تقاضہ ہے بجائے دنیا کے دین کی محبت دل میں ہو
ہم دنیا چھوڑنے کی دعوت نہیں دیتے بلکہ دنیاکو جو سر چڑھی ہے اسے پیر پڑی بنا دو۔ دنیاجو سر پر چڑھی ہے اسے اتار کر پیروں پر ڈال دو اور دنیاکی محبت جو دل کے اندرہے اسے نکال دو اور الله کی محبت کو دل کے اندر داخل کر دو اور اس دنیا کو آگے کے بجائے پیچھے کردو۔ دنیا اتنی ملے گی جتنی کہ مقدر میں ہے اور دین اتنا ملے گا جتنی محنت کریں گے۔
دین داری کا زیادہ ہونا محنت پر منحصر ہے
دین کو محنت پر رکھا ہے۔ جتنی محنت کریں گے دین ملے گا اور آخرت بنی رہے گی اور دنیا کے بارے میں الله نے یہ کہہ دیا کہ جتنی ہم نے مقدر میں لکھی ہے وہ ملے گی، چاہے پوری طاقت لگا دو۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿من کان یرید العاجلة عجلنا لہ فیھا ما نشاء لمن نرید ثم جعلنا لہ جہنم یصلھا مذمو مامدحوراً﴾․ (بنی اسرائیل آیت:18 ،پارہ15)
جو آدمی دنیا کا ارادہ کرتا ہے اس کو دیں گے ۔ جتنی ہم چاہیں گے اتنی دیں گے ۔ یہ نہیں کہا کہ زیادہ محنت کرے گا تو زیادہ دیں گے ۔ جتنی ہم چاہیں گے اتنی اسے دیں گے اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ زیادہ عقل والا ہو گا۔ تو زیادہ دیں گے یا زیادہ محنت کرے گا تو زیادہ دیں گے۔ نہیں جتنی ہم چاہیں گے اتنی ہم دے دیتے ہیں۔
غریب آدمی زیادہ محنت کرتا ہے مگر اسے ملتا کم ہے اور تاجردس منٹ ٹیلیفون کرتا ہے پچاس ہزار کماتا ہے ۔ مزدور نے سارا دن محنت کی تھوڑا ملا۔ تاجر نے کچھ نہیں کیا زیادہ ملا۔ اور یہ بھی نہیں کہ تاجر میں عقل ہے تو زیادہ ملا۔ نہیں ایسا نہیں ہے ۔ مسئلہ عقل پر بھی نہیں ۔ ایک انگوٹھا لگانے والا تاجر کروڑ پتی ہے ۔ اس نے پندرہ بی کام اور ایم کام کے تعلیم یافتہ ملازم عقل مند رکھے ہوئے ہیں۔ وہ سب تعلیم میں اس سے زیادہ ہیں اور عقل میں زیادہ، مگر وہ ہزار روپیہ مہینہ کے ملازم ہیں اور یہ کروڑ پتی آدمی صرف انگوٹھا لگاتا ہے اور ہزاروں روپے کے حساب سے دن کی آمدنی ہے۔ اگر عقل کی بات ہے تو ملازم کو کروڑ پتی کی جگہ پر لاؤ اور اسے ملازم والے مقام پر لے جاؤ ۔عقل بھی معیار نہیں، مسئلہ محنت پر بھی نہیں ۔ زمین آسمان کے بننے سے پچاس ہزار سال پہلے الله نے قلم تیار کیا اور لوح محفوظ پر آدمی کی عمر اور روزی لکھ دی۔
دنیا محنت اور عقل پر منحصر نہیں بلکہ مقدر پر ہے
دنیا مقد ر کی ملے گی، یہ طے شدہ بات ہے، چاہے پندرہ کا روبار کر لویادو کاروبار کر لو، چاہے گھر میں چار آدمی کاروبار کریں دو آدمی کاروبار کریں یا ایک آدمی کاروبار کرے دنیا تو اتنی ملے گی جتنی مقدرمیں ہے ۔ ایک آسان مثال سے سمجھیں۔ گھر کے اوپر ایک پانی کی ٹینکی رکھی ہے ۔ مالک مکان چوبیس گھنٹے میں متعین پانی اس میں ڈال دیتا ہے ۔ اب نل چاہے چار لگائیں یا پندرہ لگائیں ، پتلے لگائیں یا موٹے لگائیں۔ جتنا ٹینکی کے اندر پانی ہے وہ طے شدہ ہے اور وہ پانی ملے گا۔ تو یہ دنیا کی ساٹھ ، ستر سالہ زندگی میں طے شدہ ہے وہ ملے گا۔ چاہے دین کی تبلیغ کریں یا نہ کریں ۔ دین کی تبلیغ ایک مخصوص وقت میں کریں یا ساری زندگی کریں ملے گا وہی جو مقدر میں ہے۔
کاروبار سے آدمی نہیں بنتا۔ پالنے والے الله ہیں مگر یہ کاروبار اس لیے ہے کہ کاروبار میں الله کے احکام کو لائیں۔ دنیا والوں کو بتا دیں کہ کاروبار میں خدا کا حکم یہ ہے ۔ اگر ملک آجائے تو ملک میں خدا کا قانون یہ ہے۔
دور فاروقی میں ملک او رمال آیا تو انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کا پاکیزہ طریقہ ملک ومال میں چلا کر دکھادیا کہ یوں ملک ومال کو الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پر چلاؤ۔ اگر یہ ملک ومال آجائے تو نبی صلی الله علیہ وسلم کا پاکیزہ طریقہ اس میں اس طرح چلاؤ ۔ تو اس ملک ومال چلانے پر بھی تم جنت میں جاؤگے۔ تو یہ کاروبار، ملک ومال نبی کے طریقے کو چلانے کے لیے ہیں، پلنے کے لیے نہیں ۔ اس لیے جب الله کہیں گے چھوڑ دو تو چھوڑ دیں گے، کیوں کہ ہمارا تویہ عقیدہ ہے کہ پالنے والے الله ہیں۔ نماز کا وقت آیا، کاروبار چھوڑ کر مسجدکی طرف رخ کیا۔ حج آیا اور حج فرض ہے تو کاروبار چھوڑ کر حج کی طرف رخ کریں ۔ جب بھی دین کا تقاضا آئے کاروبار وگھر رکاوٹ نہ بنے۔
دین کا تقاضہ کاروباری تقاضوں سے مقدم ہے
تبوک کا تقاضا آیا تو کاروباری سیزن چھوڑ کر تمام صحابہ جہاد کے لیے میدان جنگ چلے گئے۔ کاروباری سیزن اُن کے لیے رکاوٹ نہیں بنا۔ کیوں کہ یقین تھا کہ پرورش الله تعالیٰ کرتے ہیں اور یہ ظاہری شکلیں ہیں۔ الله ان شکلوں کو تبدیل کر سکتا ہے۔ دنیا جتنی مقدر کی ہے وہ ملتی ہے ۔ اگر دنیا میں حکم الله کا ٹوٹا تو اس کا ٹھکانہ جہنم اور اگر دنیا میں حکم الله کا پورا ہو گیا تو آگے جنت ملے گی۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں۔
﴿من کان یرید العاجلة عجلنا لہ فیھا مانشآء لمن نرید ثم جعلنا لہ جہنم یصلٰھا مذموما مدحورا﴾․ (بنی اسرائیل، آیت:18 پارہ15)
الله تعالیٰ نے دنیا کے بارے میں بھی فرمایا اور آخرت کے بارے بھی فرمایا: ﴿ ومن اراد الآخرة وسعیٰ لھا﴾․
جو آخرت کا ارادہ کرے اور کوشش ایسی کرے جیسے ہونی چاہیے اب یہاں الله تعالیٰ نے کوشش کا ذکر کیا۔
الله کی قدرت کا عجب مظاہرہ
الله تعالیٰ کی قدرت کا مظاہرہ کہ بیک وقت الله کیا کررہا ہے۔ بیک وقت الله کروڑوں بچوں کو ماں کے پیٹ میں تیار کر رہا ہے ۔ اپنے اپنے وقت میں ہر بچے کو وقت پر تیار کر ہا ہے اور اس دنیا میں کروڑوں قسم کے بیج کا الله تعالیٰ بیک وقت کس طرح انتظام کر رہے ہیں ۔ دیکھو بیج سے انگور ، انار ، ناشپاتی، سیب نکال رہا ہے۔ یہ الله تعالیٰ کی قدرت کا مظاہرہ ہے اور خدانے خزانوں کا مظاہرہ کیا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخرت تک تمام انسانوں کو دو دو آنکھ دے رہا ہے۔
اب معلوم نہیں کہ خداکے خزانوں میں کتنی آنکھیں ہیں ۔ دو دو آنکھیں دو دو پیر ، دو دو کان، دودو ہونٹ، لگاتے چلے جارہے ہیں، نہ جانے کتنے ہوں گے؟! بے حساب ہیں ۔ بیج تربوز کا زمین میں ڈالا۔ پورا تیار ہو گیا اور اس میں دس بڑے بڑے تر بوز تیار ہو گئے۔ چار مہینے کی قلیل مدت میں سارے تیار ہو گئے۔ اب یہ کہاں سے آئے ؟ الله کے خزانوں سے آئے۔ پھر ان تربوزوں کے اندر ہر تربوز میں بیسیوں بیج اور ہر بیج میں بیسیوں تربوز، پھر ہر تربوز میں ، بیسیوں بیج، پھر ہر بیج میں بیسیوں تربوز۔ حساب لگاتے چلے جاؤ، یہ تو ہماری کمزوری ہے کہ سارے بیج نہیں بوتے اور اگر ہم سارے بیج بو دیں تو الله تعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ میں اتنے تربوز کہاں سے لاؤں؟ اور یہ جو الله تعالیٰ دھیمے دھیمے سے اگاتے ہیں۔ اگر یکدم سے اگائے تو زمین آسمان کا سارا خلاء تربوزوں سے بھر جائے گا۔ پھر طیارے اور جہاز اڑنے مشکل ہو جائیں گے۔ جو بیج ایک تربوز سے نکلے ہیں زمین وآسمان کا خلا اس ایک تربوز کے بیج سے بھر جائے تو معلوم ہوا کہ خداکے خزانوں میں تربوز بے حساب ہیں ۔ اس طرح آم، انگور، سیب ، سب بے حساب ہیں اور یہی حساب انسانوں کا لگاؤ۔ جتنے انسان ماں کیپیٹوں میں بنائے، ہر ایک کو شکل الگ دے دی۔ ہر ایک کو آواز الگ دے دی تو الله تعالیٰ کے خزانوں میں صورتیں بے حساب ، خدا کے خزانوں میں آوازیں بے حساب، ہر ایک کو الگ الگ دے دی۔
ایک آدمی کی صورت سا دوسرے آدمی کو نہیں بنایا۔ اگر ایسا بناتے تو ہم پریشان ہوں گے۔ گھر کے اندر مرد آیا۔ باپ اور بیٹے کی ایک جیسی صورت بن گئی تو عورت کو پتہ نہیں چلے گا کہ میرا خاوند کون ہے اور بیٹا کون ہے ۔ اسی طرح اگر ماں بیٹی کی شکل ایک ہوتی تو پتہ نہیں چلے گا کہ کون سی ماں ہے اور کون سی بیٹی ہے۔
یہ تو کائنات کی صورتیں ہیں جو خداعنایت کرتا ہے اور نبیوں کی تعلیم پر ہے کہ اے انسانو! تم بجائے صورت کے مصور سے جڑو۔ اس لیے کہ اس کے سامنے بہت سی صورتیں ہیں ، انسان کے سامنے تو پلنے کی صورت صرف کاروبار ہے اور الله تعالیٰ کے سامنے پالنے کی بہت سی صورتیں ہیں، چاہے انسان کو اس کاروبار سے پالے یا کوئی اور صورت نکالے، کروڑوں قسم کے ذرات کو الله نے جمع کیا اور جمع کرکے اس انسان کو زندہ بنایا او رپھر اس انسان کو مارااور اس کے ذرات قبر کے اندر بکھر گئے تو کیاالله ان ذرات کو پھر سے جمع کرکے انسان کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا؟
حشر کے اندر ہر آدمی سے پانچ سوال ہوں گے
حشر کے اندر الله تعالیٰ ہر آدمی سے پانچ باتیں پوچھیں گے!
تیری عمر کہاں گزری؟
تیری جوانی کہاں گزری؟
مال کہاں سے کمایا؟
مال کہاں پر خرچ کیا؟
تنا جانتا تھا اس پر کہاں تک عمل کیا؟

براہ راست خدا بندے سے یہ باتیں پوچھیں گے۔ درمیان میں کوئی ترجمانی کرنے والا نہیں ہو گا۔ خدا خود پوچھیں گے اور یہ پانچ باتیں پوچھیں گے۔ ہر آدمی کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ آخرت میں جس کے درجات اونچے ہوں گے ۔ ہمیشہ اونچے رہیں گے اور جس کے درجات نیچے ہوں گے ہمیشہ نیچے رہیں گے اور جو آدمی بے ایمان اور کفر کی حالت میں جہنم میں چلا جائے گا ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر اعمال کی خرابی کی وجہ سے جہنم میں گیا تو بداعمالیوں کی سزا بھگت کر ایک دن جنت میں جائے گا اور ہمیشہ پھر جنت میں رہے گا۔ الله فرماتے ہیں کہ دنیا میں اتنی دوں گا جتنا میں لکھ چکا ہوں اور جو تیرے مقدر میں ہے لیکن آخرت کے درجات اتنے بلند ہوں گے جتنا تو محنت کرے۔ یہاں دنیا میں الله نے انسان کو محنت کا مکلف بنایا۔ انسان جتنا آخرت کے لیے محنت کرے گا اتنا الله اس کی آخرت بنائے گا۔ دنیا کے لیے جتنی محنت کرے گا دنیا اتنی نہیں ملے گی، بلکہ جتنی الله چاہے گا اتنی دیں گے تو الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو آخرت کا ارادہ کرے اس کے لیے محنت کرے جیسے محنت کرنی چاہیے اور اس کے دل میں خدا کا یقین بھی ہو ۔ تو الله ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر تمہاری محنتوں کی قدر ہو گی اور قدر کرنے والا الله ہو گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اے الله! آخرت کا کام تو ہم کریں دین کا کام کریں تو دنیا بھی تو ہے ۔ پیٹ بھی ہے ، کاروبار بھی تو ہے ۔ آخر بیوی بچے بھی تو ہیں ۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ آخرت کاارادہ کر لیا اور اس کے لیے خوب کوشش کریں اور الله قدر کرکے جنت بھی دیں گے۔ مگر دنیا کا کیا ہوگا؟ تو الله پاک ارشاد فرماتے ہیں کہ دنیا بھی ہم دیں گے اور آخرت بھی دیں گے ۔ جو آدمی دنیا کے لیے ساری طاقت خرچ بھی کرے اس کو بھی دنیا دیں گے، جو آدمی آخرت کے لیے ساری طاقت خرچ کرے اس کو بھی دیں گے ۔جتنی لکھی ہے ہم کسی کو محروم نہ کریں گے۔جتنی لکھی ہے اتنی دیں گے!
﴿کلا نمد ھؤ لآء وھؤلاء من عطآء ربک وما کان عطاء ربک محظوراً﴾․ ( بنی اسرائیل: آیت21 پارہ15)
﴿انظرکیف فضلنا بعضھم علی بعض وللاخرة اکبر درجت واکبر تفصیلاً﴾․ (بنی اسرائیل آیت:22 پارہ:155)
دیکھو انسان کے ساتھ کیا اتار چڑھاؤ الله تعالیٰ نے روزی کے معاملے میں کیا ؟ کسی کو کروڑ پتی بنا کر دال کھلا دی، کسی غریب کوکروڑ پتی کاباورچی بنا کر مرغا کھلا دیا۔ اور کسی کو دس منٹ کے ٹیلی فون میں 5 پانچ ہزار روپے دیے اور کسی کو صبح سے شام تک کام کروا کے پندرہ بیس روپے دیے۔ یہ روز، کے معاملے میں کتنا اتار چڑھاؤ ہے؟
﴿انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض﴾․ (نبی اسرائیل، آیت:21 پارہ:15)
اس کو مت دیکھو کہ دنیا میں کیاملا ؟او رکتنا ملا یہ دیکھ کہ آخرت میں کتنا ملے گا اور آخرت کے لیے تونے کیا کیا؟
﴿وللاخرة اکبر درجت واکبر تفضیلاً﴾․
بڑے بڑے درجات تو آخرت کے ہیں، فضیلت تو آخرت کی ہے، جو ہمیشہ کے لیے باقی رہے گی۔
اس لیے دل کے اندر جب الله تعالیٰ کی محبت آجاتی ہے او ردنیاکی محبت نکل جاتی ہے تو بعض مرتبہ الله تعالیٰ اس دنیا کو قدموں میں ڈال دیتے ہیں ۔ دور نبوی صلی الله علیہ وسلم اور دور صدیقی میں دنیا کی محبت سب نے دلوں سے نکال دی اور خوب دین کے لیے قربانیاں دیں تو دور فاروقی میں الله نے دنیا کو لا کر قدموں میں ڈال دیا اور الله نے جب دنیا کو لا کرقدموں میں ڈالا تو حضرت عمر فاروق بہت روئے اور کہا کہ دنیا آگئی، اب میں کیا کروں ؟ لیکن چوں کہ خلیفہ راشد تھے، اس بنا پرانہوں نے اس کا صحیح استعمال کیا اور خدا کے احکام اس میں نافذ کیے۔
بنی اسرائیل اور صحابہ کے قصے امت مسلمہ کے لیے نمونہ ہیں
رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے مال کو دین کی بنیاد نہیں بنایا، بلکہ الله کی رضا مندی کو بنایا۔ دین کے کام کو الله کی رضا کے لیے آدمی کرے تو طاقت والا دین اسے ملتا ہے ۔بنی اسرائیل میں بڑا اتار چڑھاؤآیا اور بنی اسرائیل کے قصے الله تعالیٰ نے قرآن میں اس لیے ذکر فرمائے کہ قیامت تک کے لیے اس امت مسلمہ کے ساتھ وہی ہو گا۔ جو بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا اور یہ واقعات نمونہ کے طور پر ہیں، رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جیسے دو کھڑکیاں برابر ہوتی ہیں۔اسی طرح جو بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا وہ میری امت کے ساتھ ہو گا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ ان کی اولاد میں جو آئے وہ بنی اسرائیل کہلائے، خدا کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے ۔ الله تعالیٰ نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ ان لوگوں نے جب نبیوں کی بات مانی اور قربانیاں دیں تو الله تعالیٰ نے ان کو بہت اوپر کیا، شروع کا وقت حضرت یوسف علیہ السلام کا کس طرح مجاہدات کا تھا۔ لیکن آخری انجام میں وزارت مصریہ کیتخت پر بیٹھ گئے اور بنی سرائیل کو الله تعالیٰ نے بہت بڑی عزت دی، لیکن جب انہوں نے نبی کی بات کو نہ مانا اور نبی کی بات سے بغاوت کر گئے تو الله تعالیٰ نے ان کو ذلیل کیا کہ مصر کے کفن چور فرعون کو ان پر مسلط کیا۔عذاب کے طور پر الله تعالیٰ نے فرعون کو ان پر مسلط کیا۔
اسباب ظاہریہ کے اختیار کرنے کا انسان مکلف ہے
اسباب ظاہر یہکے اختیار کرنے کا انسان مکلف ہے۔ ہم اسباب ظاہریہ کو چھوڑ نہیں سکتے۔ الله پاک نے حضرت نوح علیہ السلام سے سبب ظاہری اختیار کر ایا اور حکم دیا کہ کشتی بناؤ۔ حضرت داود کو زرہ بنا نا سکھایا ،اسباب ظاہریہ کااختیار کرنا یہ قرآن کے خلاف نہیں ۔ اسباب ظاہریہ کوایسے طریقے پر اختیار کرنا کہ جو شریعت کے خلاف نہ ہو ۔ یعنی اسباب ظاہریہ ایسے طریقے سے اختیار کی جائیں کہ اسباب غیبیہ انسان کے خلاف نہ ہو جائیں اور اسباب ظاہریہ اختیار کرو ، تدبیر کرو، تدبیر کو مت چھوڑو۔ تدبیر ضرور کرو، لیکن تدبیر خدا کے کہنے کے مطابق کرو۔ اگر چل گئی تو بھی کامیاب، اگر نہ چلی تو بھی کام یاب، کیوں کہ حکم خدا کا پورا ہو تو آسمانوں پر انجام تمہارا اچھا لکھا گیا اور اگر تدبیر حکم خدا کو توڑ کر کی وہ چلی بھی تو انجام برا آئے گا اورا وپر کا فیصلہ خلاف ہو گا۔ تدبیر کی اور حکم خدا کا پورا کیا لیکن وہ تدبیر نہیں چلی پھر بھی آسمانوں پر فیصلہ موافق ہوگا اور انجام کامیابی ہو گا، اس کا ارادہ مت کرو کہ کام بن جائے ۔ کام تو الله کے ارادے سے بنے گا۔ اگر الله ارادہ نہ کرے تو کام نہیں بنے گا۔ لیکن تدبیر ضرور کرو، جو شریعت کے موافق ہو۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے تدبیر کی کہ باپ کے دل میں ہماری محبت آئے ۔ کوئی حرج نہیں ۔ باپ کی محبت کے حصول کے لیے تدبیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن تدبیر جو کی وہ شریعت کے خلاف کی، بھائی کو کنویں میں ڈالا۔ تدبیر چل پڑی۔ بھائی دور چلا گیا تو پھر باپ ہم سے محبت نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟ انہوں نے تدبیر کی اور تدبیر چلی، لیکن شریعت کے خلاف تھی تو آسمان پر فیصلہ ان کے خلاف ہوا۔ لیکن ابھی ان کو پتہ نہیں چلا۔ غلط کام کرنے پر الله کی طرف سے جو پکڑ آتی ہے وہ فوراً نہیں آتی۔ الله تعالیٰ غلط کرنے والوں کو شروع میں ڈھیل دیتے ہیں اور آخرت میں جاکر پکڑتے ہیں۔ اور جب الله کی پکڑا آجاتی ہے تو پھر دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت نہیں بچا سکتی، چاہے کتنی بڑی طاقت رکھنے والا آدمی ہو۔
ظاہری اسباب کے غلط استعمال سے اسباب غیبیہ خلاف ہو جاتے ہیں
اسباب ظاہری کے غلط استعمال سے اسباب غیبیہ انسان کے خلاف ہو جاتے ہیں اور خدابندے کی پکڑ کرتے ہیں ۔ الله تعالیٰ کی پکڑا فوراً نہیں آتی، الله ڈھیل دیتے ہیں ۔ الله نے ڈھیل دی تو فرعون قارون کوپتہ نہیں چلا لیکن جس دن الله کی پکڑا آئی تو فرعون کی حکومت اسے بچا نہ سکی اور قارون کا مال اسے بچا نہ سکا۔ جب خداکی پکڑ آجاتی ہے تو دنیا کی مادی طاقتیں تو کیا روحانی طاقتیں بھی انسان کو نہیں بچاسکتیں۔ جب خداکی پکڑ آئی تو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو حضرت نوح علیہ السلام کی روحانی طاقت نہیں بچاسکی ۔ روحانی طاقت کا کام یہی ہے کہ خدا کی پکڑ آنے سے پہلے انسانوں کے ذہنوں کو صحیح طرف موڑا جائے اور خدا کی گرفت سے بچایا جائے اور یہ کام پکڑ آنے سے پہلے پہلے کا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کو پہلے خدا نے کہا تھا کہ ہماری پکڑ آنے سے پہلے تم ان کو سمجھاؤ، کیوں کہ جب پکڑ آئے گی تو پھر تم انہیں بچا نہیں سکتے:﴿انا ارسلنا نوحا الی قومہ ان انذر قومک من قبل ان یاتیھم عذاب الیم﴾․ ( سورہ نوح آیت:1 پارہ:29)
میری پکڑ آنے سے پہلے قوم کو سمجھاؤ اور یہی بات نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے بھی کہی ۔
﴿یا ایھا المدثر قم فاندز وربک فکبر وثیابک فطھر﴾․ (سورة المدثر آیت:4-1 پارہ:29)
الله تعالیٰ کا نبی کو خطاب ہے کہ ان کو خدا کی بڑائی سمجھاؤ اور الله کی عظمت ان کو سمجھاؤ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی تو یہی سبق دیا اور وہاں تو صاف کہہ دیا کہ میری پکڑ آنے سے پہلے سمجھاؤ۔ یہ بات الله نے بتائی کہ پکڑ آگئی تو حضرت نوح علیہ السلام کی روحانی طاقت اپنے بیٹے کو بھی نہیں بچا سکی۔
ہر کام الله تعالیٰ کے ارادے سے ہوتا ہے
اگر الله تعالیٰ نے ارادہ کیا تو کام ہو جائے گا اور اگر ارادہ نہیں کیا تو نہیں ہوگا۔ ہر چیز الله کے ارادے سے ہوتی ہے، چاہے جتنی تدبیریں کر لو، قرآن کہتا ہے:
﴿ان الله یفعل مایشاء﴾․ ( الحج، آیت:18 پارہ:17)
﴿ان الله یفعل مایرید﴾․ (الحج، آیت:14 پارہ:17)
﴿ان الله یحکم مایرید﴾․ ( المائدہ، آیت:1 پارہ:6)
﴿فعال لما یرید﴾․ ( بروج، آیت:16 پارہ30)
﴿انما امرہ اذااراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون﴾․ (یسٰین ،آیت:82 پارہ:23)

خدا کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ” ہو جاؤ تو وہ ہو جاتا ہے ۔ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس چیز کا اصرار نہیں کرنا چاہیے کہ کام بن جائے۔ کیوں کہ بعض مرتبہ کام کا بننا ٹھیک ہوتا ہے اور بعض مرتبہ کام کا نہ بننا ٹھیک ہوتا ہے۔ اور اس کو الله جانتے ہیں، ہم کیوں اس پر اصرار کریں کہ ضرور کام ہو جائے؟ (جاری)

Flag Counter