Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

18 - 18
***
یہ ہے… مغربی تہذیب
چالیس ہزار ڈالر
”بڈی“ کے حلق میں ایک روز چبھن سی محسوس ہوئی … اسے یوں لگا جیسے اندر کوئی چیز پھنسی ہوئی ہے… یا جیسے کوئی ہڈی کا ٹکڑا ہے جو حلق کی کسی دیوار کے ساتھ چپک گیا ہے … اور تھوک نگلنے یا سانس لینے کے ہر عمل کے ساتھ وہ ٹکڑا اندر ہی اندر چبھتا ہے … اس نے چھینک کر … کھانس کر وہ ٹکڑا نکالنے کی کوشش کی … لیکن کامیابی نہ ہو ئی، وہ زبان باہر نکالتا تو تھوڑی دیر کے لیے آرام آجاتا… لیکن زبان اندر کرتے ہی دوبارہ تکلیف شروع ہوتی … آرام تو خیرکھانستے وقت بھی آتا تھا … چناں چہ اب زبان باہر لٹکانا اور کھانسنا اس کا معمول بن گیا… اس کے ڈیڈی نے سینٹ لوئیس کے ڈاکٹروں کو دکھایا… لیکن وہ مسئلہ دریافت نہ کرسکے … مختلف قسم کے ٹیسٹ اور انکوائریاں ہوئیں، لیکن تشخیص نہ ہوسکی… بڈی کمزور ہوتا چلا گیا…
بالآخر ایک ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ بڈی کو نیویارک لے جایا جائے، جہاں جدید ترین مشینوں اور ماہر ڈاکٹروں کی مدد لی جائے … ڈیڈی ایک امیر کبیر امریکی تھے… انہوں نے جہاز چارٹر کیا اور بڈی کو لے کر نیویارک آگئے … بڈی کو ہسپتال لے جایا گیا… ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور ڈیڈی کو بتایا کہ بڈی کو حلق کا کینسر ہے … اس کا آپریشن ہو گا… ڈیڈی گھبرا گئے پیسوں یا مہنگے علاج کی وجہ سے نہیں … انہیں بڈی کی زندگی زیادہ عزیز تھی … پیسہ تو ان کے پاس تھا ہی بہت … بہرحال بڈی کا علاج شروع ہوا، اس کے حلق کا کا میاب آپریشن ہوا… اس کی کیموتھراپی ہوئی اور آخر میں بڈی صحت یاب ہو کر گھر چلا گیا … اس علاج پر ڈیڈی کا 40 ہزار ڈالر خرچ آیا…
آپ غلط سوچ رہے ہیں … آپ سمجھ رہے ہیں… ڈیڈی نے اپنے بیمار بیٹے پر 40 ہزار ڈالر لگا کر شفقت پدری کا ثبوت دیا … کاش!… ایسا ہوتا … کاش!… بڈی انسان ہوتا، لیکن بڈی تو فقط ایک کتا ہے … ایک پالتو کتا… جسے مسٹر کیل نے ایک یونانی جہازران سے خریدا تھا … اور اسے بڈی کا نام دیا تھا … مسٹر کیل کی کوئی اولاد نہیں … وہ امریکا میں سپر اسٹوروں کی ایک چین کا مالک ہے … پورے امریکا میں اس کے 85 سپر اسٹور ہیں… وہ ہر سال اربوں ڈالر کماتا ہے … یہ اربوں ڈالر کیل اور اس کے کتے بڈی کی ملکیت ہوتے ہیں … لہٰذا کیل بڑی فراخدلی سے یہ رقم بڈی پر خرچ کرتا ہے … صرف بڈی اور کیل ہی نہیں … اس وقت امریکا میں 13 کروڑ 90 لاکھ پالتو کتے اور بلیاں ہیں … امریکی شہری ان پالتو جانوروں کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتے ہیں … ان میں سے بے شمار امریکی ان پالتو جانوروں کی وجہ سے شادی نہیں کرتے … بے شمار لوگ پالتو جانوروں کے باعث اپنی بیویوں یا شوہروں سے طلاق لے لیتے ہیں … بے شمار لوگ جوان اولاد کو پالتو جانوروں کی وجہ سے گھر سے نکال دیتے ہیں … ایسے امریکیوں کی تعداد بھی کم نہیں جو اس لیے نوکری چھوڑ دیتے ہیں … کہ ان کے کو لیگ یا افسر نے ان کے کتے یا بلی سے بدتمیزی کی تھی …
جانوروں کے لیے سہولیات
کتوں اور بلیوں سے امریکیوں کی یہ محبت دیکھتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ایک نئے کاروبار کی بنیاد رکھ دی … وہ دھڑا دھڑ پالتو جانوروں کی چیزیں بنانے لگیں… مثلاً آپ امریکا کے کسی بڑے اسٹور میں چلے جائیں … آپ کو کتوں اور بلیوں کی خوراک کے لیے الگ ڈیپارنمنٹ ملے گا… آپ کو اس میں سینکڑوں قسم کے ڈبے … ٹن… اور بوتلیں ملیں گی… جن میں کتوں اور بلیوں کے ناشتے … لنچ… اور ڈنرکی چیزیں ہوں گی… ان کے لیے دودھ کی بوتلیں… جام، مار ملیڈ اور مکھن ملے گا… ان کے لیے سوپ … گوشت اور مرغی ملے گی … مچھلی… جھینگے اور کُھمبیاں ں ہوں گی … ہیضے اور اسہال کے امراض کے شکار کتوں کے لیے او آرایس قسم کی چیزیں ہوں گی … ان کتوں اور بلیوں کے لیے مختلف اقسام کے صابن … شیمپو… تیل… پرفیومز… پاؤڈر… ٹوتھ پیسٹ… اور لپ اسٹک ملیں گی … ان کی دموں پر چڑھانے کے لیے چھلے… کلپ اور ہیئر برش دستیاب ہوں گے …
جانوروں کے میڈیکل سینٹرز
کیلی فورنیا کے ایک فیشن ڈیزائنر نے دو ماہ قبل گدھوں کے لیے ایک پتلوں ڈیزائن کی تھی … جس کی بعد ازاں باقاعدہ نمائش کی گئی اور ہزاروں لوگوں نے ٹکٹ خرید کر یہ نمائش دیکھی … جانور پر وری کا یہ معاملہ اگر یہیں تک محدود رہتا تو شاید اتنی پریشانی نہ ہوتی … لیکن شاید آپ یہ سن کر حیران ہوں گے … کہ نیوریاک شہر میں 8 منزلہ جانوروں کا میڈیکل سینٹر ہے … جس میں اس وقت کتوں اور بلیوں کے 85 اسپیشلسٹ کام کر رہے ہیں … اس ہسپتال میں کتوں… اور بلیوں کے دل کے امراض… آنکھوں… ناک… کان… گلے… پھیپھڑوں او رگردوں کا علاج کیا جاتا ہے … اس سینٹر میں پیوند کاری سے لے کر ڈائیلاسس تک ہوتا ہے … پلاسٹک سرجری کا شعبہ اور ہڈیوں کا ڈیپارٹمنٹ بھی موجود ہے … اس ہسپتال میں دانتوں اور جلدی امراض کا علاج بھی کیا جاتا ہے … اس میں عام ہسپتالوں کی طرح ایسے ایمرجنسی اور لیبر روم بھی موجود ہیں … جن میں ایکسڈنٹ اور زچگی کے مریض لائے جاتے ہیں … اس ہسپتال میں بلڈ بینک بھی موجود ہے … جس میں کتوں اور بلیوں کا خون موجود ہوتا ہے … خون کی اس سپلائی کے لیے سینٹر میں 13 کتے اور 26 بلیاں اور 3 نیولے ہیں… جن سے وقتا فوقتاً خون لیا جاتا ہے … اس ہسپتال میں ہر سال 65 ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے… جب کہ اس سینٹر میں اڑھائی لاکھ ڈالر کی مالیت سے ایک کڈنی سینٹر بھی بنایا گیا ہے … جس میں جانوروں کے گردوں کا علاج ہوتا ہے …
حفظان صحت کے لیے اقدامات
نیویارکر… نیویارک کا ایک دوسرے درجے کا اخبار ہے … اس اخبار کے ایک رپورٹر برخود بلجر نے اس ہسپتال کے بارے میں بڑا دلچسپ انکشاف کیا… اس کا کہنا ہے … جانوروں کے میڈیکل سینٹر میں حال ہی میں غیرملکی جانوروں کا ایک شعبہ کھولا گیا ہے … جس میں گزشتہ دنوں ہیضے کے شکار ایک نیولے… کم خورا کی کاشکار ایک اژدھے… ٹوٹی ٹانگ والے کبوتر… اور ٹوٹے پروں والے ایک ہمنگ برڈ کا علاج کیا گیا ہے…جب کہ ایک خنزیر کے مثانے سے پتھری بھی نکالی گئی … جس پر 5 ہزار ڈالر خرچ آیا … اس شعبے میں ایک بطخ بھی زیر علاج ہے … جس نے دھات کاایک ٹکڑا نگل لیا تھا …
1980ء تک امریکا میں صرف 500 وٹرنری ڈاکٹر تھے … اور وہ بھی بھینسوں… گائیں… اور بلیوں کا علاج کرتے تھے … لیکن امریکا کا ایک کتا50 ہزار زندہ انسانوں سے زیادہ قیمتی ہے … ایک بلی تیسری دنیا کے ایک ملک کے برابر ہے… امریکا نے اشرف المخلوقات کو جانوروں سے زیادہ حقیر کر دیا ہے … اس وقت امریکا میں صرف کتوں اور بلیوں کے 7 ہزار اسپیشلسٹ ڈاکٹرز ہیں … جب کہ امریکی یونیورسٹیاں ہر سال 39 طبی شعبوں میں سینکڑوں نئے ڈاکٹر تیار کر رہی ہیں … امریکا میں اس وقت 4 لاکھ جانوروں کی ہیلتھ انشورنس ہو چکی ہے … امریکا میں امریکی ہر سال کتوں اور بلیوں کی صحت پر 13 ارب ڈالر… اور خوراک… ورزش سینٹروں… باتھ روموں… ٹریننگ… سوئمنگ پولوں… ہوٹلوں… شاپنگ سینٹروں… پارکوں او رفیشن شو پر 47 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں … جب کہ پورے پاکستان کا سالانہ بجٹ 7 ارب ڈالر ہوتا ہے … یعنی امریکی ہر سال 15 کروڑ پاکستانیوں سے 9 گناہ زیادہ رقم کتوں اور بلیوں پر خرچ کر دیتے ہیں … دنیا کے 28 ممالک کا سالانہ بجٹ کتوں اور بلیوں کے اس خرچ سے کم ہے … یہ ہے امریکا کی اصل تصویر…
”پوری دنیا کے ماہرین اس بات پرمتفق ہیں … کہ اگر امریکا صرف کتوں اور بلیوں کا میڈیکل بجٹ ہی بچالے… تو دنیا سے ایڈز جیسا مرض ختم کیا جاسکتاہے … کینسر کی دوا دریافت ہو سکتی ہے … دل کے امراض میں مبتلا تمام مریضوں کا بائی پاس ہو سکتا ہے … پورے کرہ ارض پر موجود لولوں اور لنگڑوں کو مصنوعی ہاتھ اور ٹانگیں لگاجاسکتی ہیں …10 لاکھ ایکڑ زمین قابل کاشت بنائی جاسکتی ہے … امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک سڑک بنائی جاسکتی ہے… دنیا کے ایک چوتھائی یتیم بچوں کو تعلیم دی جاسکتی ہے… ایک کروڑ جوانوں کی شادی کی جاسکتی ہے… آکسفورڈ جیسی 24 یونیورسٹیاں بنائی جاسکتی ہیں …3 کروڑ لوگوں کو ایک سال تک خوراک فراہم کی جاسکتی ہے … اور خوراک کی کمی کے شکار 4 کروڑ بچوں کا علاج ہو سکتا ہے…“
جانوروں کی انسانوں پر فوقیت
انسانوں کی بقا… انسانوں کا تحفظ… امریکی ایجنڈے میں کسی جگہ موجود نہیں … وہ امریکی جو افغانستان اور عراق کے شہروں پر دن رات بم گراتے ہیں… ان کی نظروں میں کتوں اور بلیوں کی اہمیت انسانوں سے کہیں زیادہ ہے … وہ … بلی کی موت پر ہفتوں آنسو بہاتے ہیں … گمشدہ کتے کو مالک کے گھر پہنچانے کے لیے تو میلوں سفر کرسکتے ہیں … لیکن انسانوں کی موت ان کی پلک گیلی نہیں کرتی ہے … اور نہ ہی سسکیوں کو ہوا دیتی ہے … یہ کیا بے حسی… کیسی بے رحمی ہے …؟1997ء میں ایک امریکی شہری نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے پالتو کتے کو بلے سے مار دیا تھا … کتے کی تصویریں اگلے روز اخبار میں شائع ہوئیں … پورا امریکا سڑکوں پر آگیا… قاتل گرفتار ہو گیا… اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا… کیس عدالت میں پیش ہوا… امریکا کے قانونی ماہرین مہینوں یہ سوچ بچار کرتے رہے اگر گھریلو کتابچے پر حملہ کر دے… تو کیا والد بچے کو بچانے کے لیے کتے کو زخمی کرسکتا ہے ؟…
یہ بحث امریکی میڈیا میں کئی دنوں تک موضوع بنی رہی… آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ برقی آلات بنانے والی کمپنیاں ایسے آلات بنائیں کہ جو کتوں کے مالکان ہر وقت جیب میں رکھیں… جونہی ان کے کتے وحشی ہوں وہ ان آلات کے ذریعے کتوں کو قابو کر لیں … اس فیصلے کے چند روز بعد کتے کے قاتل کو سزا ہو گئی …
قارئین محترم!
درج بالا معلومات سے آپ مغربی طرزاور ان کی تہذیب کا اندازہ لگاسکتے ہیں ،ایسے لوگ قابل نفرت نہیں بلکہ قابل رحم ہیں کیوں کہ انہوں نے خود کو عقل کے سپرد کر رکھا ہے اور وحی یعنی الله تعالیٰ کے سچے دین اور اس کے احکامات کی روشنی سے محروم ہیں ،لیکن قابل مذمت وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہو کر اس روشنی سے آراستہ ہیں، لیکن پھر بھی دن رات اسی فکر میں دبلے ہوئے جاتے ہیں کہ ہم اپنی طرز زندگی میں ہر طرح سے مغربی معاشرہ کی ناکام نقل کریں اور نام نہاد ترقی یافتہ بننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
الله تعالیٰ ہم سب کو اسلامی طرز معاشرت اپنانے او راسے ماحول میں رواج دینے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین۔(بشکریہ، مَحاسِن اسلام)

Flag Counter