Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۲ھ - جنوری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

4 - 12
زبان کی حفاظت !
زبان کی حفاظت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک بیش بہا اور عظیم نعمت زبان بھی ہے، یہی وہ عضوِ رئیسی ہے جس کی بنا پر اِنسان کو ”علَّمہ البیان“ کا سنہری اِعزاز اور باقی تمام مخلوقات پر ایک قسم کی فوقیت وبرتری حاصل ہے، وہ زبان ہی ہے جس کے ذریعے محبت ونفرت، فکر وپریشانی، لطف وراحت، دِلداری وتسکین، ترغیب وترہیب کا مکمل طور پر اِظہار ممکن ہے۔
جسمِ انسانی کے اس مختصر سے عضو کے مادّی فوائد پر غور کریں تو دُنیا کا سارا لطف اسی پر منحصر نظر آتا ہے، چنانچہ ذائقہ خورد ونوش کا مدار ومحور یہی زبان ہے اور اس کے بغیر سارے ذائقے پھیکے اور بے معنی معلوم ہوتے ہیں، اسی کے ایک بول سے دوست دُشمن اور دُشمن دوست بنتا ہے، اسی سے بڑے بڑے فتنے برپا اور اسی سے مسدود ہوتے ہیں۔ اور دینی اِعتبار سے اس کی اہمیت وحیثیت کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ توحید ورسالت پر اِیمان بھی زبانی اِقرار کے بغیر معتبر نہیں (یعنی دُنیوی اِعتبار سے) اور اسی کا ایک مختصر سا کلمہ متکلم کو جنت یا جہنم کامستحق بنادیتا ہے۔
جسمِ انسانی کے اعضائے رئیسہ میں سے دِل ودِماغ جو پورے جسم پر کنٹرول رکھتے ہیں اور جن پر اِنسان کے اچھے یا بُرے ہونے کا مدار ہے، ان کی اچھائی یا بُرائی بھی اسی زبان سے معلوم ہوتی ہے، یہ اچھے تو زبان بھی اچھی، یہ خراب تو زبان بھی خراب، چنانچہ موٴمن وکافر، مخلص وکینہ پروَر اور دوست ودشمن کی زبان میں فرق اسی وجہ سے ہے، نیز انسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات اس کے معیارِ عقلی واخلاقی اور شرافت ودنائت کا پتا بھی دیتی ہے، گویا زبان ایک کسوٹی ہے، جس سے انسان پرکھا اور سمجھا جاتا ہے۔
غرضیکہ زبان چونکہ ایک عظیم نعمتِ خداوندی ہے، اور قاعدہ ہے کہ تمام نعمتوں کو اسی طرح اِستعمال کرنا ضروری ہے جس طرح اِستعمال کرنے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے، ورنہ نعمت کا غلط اِستعمال، نعمت کی ناقدری اور ناشکری کے زُمرے میں آتا ہے جو عذابِ شدید کا موجب ہے۔
اسی طرح زبان کے علاوہ جسم کے باقی تمام اعضاء سے بھی وہ کام لیں جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ان السمع والبصر والفوٴاد کل أولٰٓئک کان عنہ مسئولًا“(بنی اسرائیل:۳۶)
ترجمہ:․․․ ”بے شک کان، آنکھ اور دِل ان سب کے بارے میں پوچھا جائے گا۔“
اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارا ایک ایک بول محفوظ ہے، اور روزِ قیامت ان سب کا حساب دینا پڑے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”ما یلفظ من قول اِلَّا لدیہ رقیب عتید“ (قٓ:۱۸)
ترجمہ:․․․ ”اور وہ (اِنسان) کوئی بات (زبان سے) نہیں نکالتا مگر اس کے پاس (لکھنے کو) ایک نگہبان تیار بیٹا ہے۔“
ہم بہت سی باتیں بے سوچے سمجھے کہہ جاتے ہیں، اور ہمیں خیال تک نہیں ہوتا کہ یہ کلمہ ہمیں کہاں لے جارہا ہے؟ ایک مختصر سا کلمہ جنت پہنچادیتا ہے، اور بعض دفعہ وہی مختصر کلمہ جہنم کی راہ دِکھا دیتا ہے۔
زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح اِستعمال یہ ہے کہ جو لفظ بھی زبان سے نکالیں، اس کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے خوب سوچ سمجھ کر نکالیں، بات کہیں تو سچی اور اچھی کہیں، ورنہ دینی اور دُنیوی لحاظ سے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
”لا خیر فی کثیر من نجواھم اِلَّا من أمر بصدقة أو معروف أو اصلاح بین الناس“ (النساء:۱۱۴)
ترجمہ:․․․ ”ان کے اکثر مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہے، مگر یہ کہ جو حکم دے خیرات کا یا اچھی بات کا، یا لوگوں کے درمیان اِصلاح کرانے کا۔“
اسی طرح حضور اکرم ا کا ارشاد ہے:
”من کان یوٴمن بالله والیوم الآخر فلیقل خیرًا أو لیصمت“
(بخاری کتاب الادب ص:۹۰۶)
ترجمہ:․․․ ”جو اللہ اور روزِ آخرت پر اِیمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ بات کہے تو اچھی کہے، ورنہ خاموش رہے۔“
بسیارگوئی بڑے بڑے فتنوں اور فساد کا ذریعہ بنتی ہے، اور ان کا خمیازہ بعض اوقات دُنیا میں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔اکابرفرماتے ہیں کہ بات کہنے کی چار قسمیں ہیں:
۱:․․․ جس میں سراسر نقصان ہو۔
۲:․․․ جس میں نفع ونقصان دونوں ہوں۔
۳:․․․ جس میں نہ نفع ہو نہ نقصان۔ لغویات وفضولیات وغیرہ۔
۴:․․․ جس میں سراسر نفع ہو۔
گویا گفتگو اور باتوں میں تین چوتھائی نہ کرنے کے قابل ہیں، یہ وہی مفہوم ہے جو ”اِلَّا من أمر بصدقة أو معروف أو اِصلاح بین الناس“ (النساء:۱۱۴) کی آیت سے سمجھ میں آتا ہے کہ صرف وہی بات کرنی چاہئے جس میں کوئی فائدہ بھی ہو۔ ایسی بات جس میں نہ دُنیوی منفعت ہو، نہ اُخروی تو وہ اس لئے پسندیدہ نہیں کہ وہ مسلمان کو اِسلام کے حسن سے محروم کردیتی ہے، چنانچہ اسی کے بارے میں حضور اکرم ا کا ارشاد ہے:
”من حسن اسلام المرء ترکہ ما لَا یعنیہ“ (ترمذی ج:۲ ص:۸۵)
ترجمہ:․․․ ”انسان کے اسلام کے حسن میں سے یہ ہے کہ وہ بے فائدہ کاموں کو چھوڑ دے۔“
زبان کو شرور وآفات سے بچانے کے لئے خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں، اور یہ عقل مندی کی نشانی بھی ہے، کیونکہ عقل مند سوچتا زیادہ اور بولتا کم ہے۔ جو جتنا بولتا ہے، غلطیاں بھی اتنی ہی زیادہ کرتا ہے، اور جو سوچتا زیادہ، بولتا کم ہے، وہ غلطیاں بھی کم کرتا ہے۔ حضور اکرم ا کا ارشاد ہے: ”من صمت نجا“ (مشکوٰة باب حفظ اللسان ، ص:۴۳۵)۔ یعنی جس نے خاموشی اِختیار کی اس نے نجات پائی۔“
چنانچہ مشہور مقولہ بھی ہے کہ ”ایک چپ ،سو سکھ“۔ ان تمام باتوں سے خاموشی کی فضیلت وبہتری ثابت ہوتی ہے، مگر یہ بہتری فضول ونقصان دہ باتوں کے مقابلے میں ہے، ورنہ تو اچھی بات کہنا خاموشی سے بھی بہتر ہے۔ حضورِ اکرم ا نے فرمایا کہ: ”الکلمة الطیبة صدقة“ (بخاری ص:۸۹۰)، ․․․ ”اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔“بات اچھی اور دُرست ہونے کے ساتھ ساتھ اندازِ گفتگو کا نرم، خوشگوار ہونا بھی ضروری ہے، بعض اوقات بات تو اچھی ہوتی ہے مگر لہجے کی سختی سے بُری معلوم ہوتی ہے:
جتنے بھی لفظ ہیں وہ مہکتے گلاب ہیں
لہجے کے فرق سے انہیں تو خار مت بنا
کوئی بھی کلمہ اچھا ہو یا بُرا، نرم ہو یا سخت، اپنا خوشگوار، یا بُرا اثر ضرور چھوڑتا ہے، بلکہ زبان کے بُرے اثر اور کاٹ کو تلوار ونیزے کی کاٹ سے بھی زیادہ اشد (سخت) قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ایک عربی شعر ہے:
جراحات السنان لھا التیام
ولا یلتام ما جرح اللسان
ترجمہ:․․․ ”نیزے کے زخم تو بھر جاتے ہیں، مگر زبان کے لگے زخم نہیں بھرتے۔“
کہتے ہیں کہ جب نیک کام میں مشغولیت ہو تو گناہ خودبخود ختم ہوجاتے ہیں، تو زبان کے بھی ایسے نیک اعمال ومشاغل ہیں جن میں مشغول ہونے سے زبان آفات سے محفوظ ہوجاتی ہے، ان میں سے چند بڑے اعمال یہ ہیں: ۱:․․․اللہ تعالیٰ کا ذِکر، ۲:․․․ تلاوتِ قرآن، ۳:․․․اللہ تعالیٰ کا شکر، ۴:․․․امر بالمعروف ونہی عن المنکر۔ ذِکر تو ایسا عمل ہے جو چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، لیٹے، باوضو وبے وضو، سفر وحضر، فراغت ومشغولیت ہر حال میں کیا جاسکتا ہے۔ زبان کی حفاظت کا یہ سب سے زیادہ اکسیر نسخہ ہے۔
اس موضوع پر چند آیات واَحادیث ترجمے کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
۱:۔”یٰٓأیھا الذین اٰمنوا لا یسخر قوم من قوم عسٰی أن یکونوا خیرًا منھم، ولا نساء من نساء عسٰی أن یکن خیرًا منھنّ، ولا تلمزوا أنفسکم ولا تنابزوا بالألقاب، بئس لاسم الفسوق بعد الایمان، ومن لم یتب فأولٰٓئک ھم الظّٰلمون“ (الحجرات:۱۱)
ترجمہ:․․․ ”اے موٴمنو! ایک گروہ دُوسرے گروہ کا مذاق نہ اُڑائے، کیا عجب کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں عورتوں کا (مذاق اُڑائیں) کیا عجب کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور ایک دُوسرے پر عیب نہ لگاوٴ اور باہم بُرے القاب سے نہ چڑاوٴ، ایمان کے بعد گناہ، بُرا نام (لینا) ہے اور جو باز نہ آیا تو یہی لوگ ظالم ہیں۔“
۲:․․․ ”ویل لکل ھمزة لمزة“ (الھُمزة:۱)
ترجمہ:۔ ”خرابی (ہلاکت) ہے ہر طعنہ دینے والے اور عیب جوئی کرنے والے کے لئے۔“
۴:․․․ ”ولا یغتب بعضکم بعضًا، أیحب أحدکم أن یأکل لحم أخیہ میتًا فکرہتموہ“ (الحجرات:۱۲)
ترجمہ:․․․ ”اور تم میں سے کوئی ایک دُوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا پسند کرتا ہے تم میں سے کوئی کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تو تم اس سے گھن کروگے۔“
۱:۔”عن انس بن مالک قال: لم یکن النبیا سبابًا ولا فاحشًا ولا لعانًا“ (بخاری ج:۲ ص:۸۹۱)
ترجمہ:․․․ ”حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم ا گالی دینے والے اور فحش گفتگو کرنے والے اور لعنت کرنے والے نہیں تھے۔“
اللہ تعالیٰ ہمیں ان گناہوں سے بچائے اور زبان کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۲ھ - جنوری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: برہنہ تلاشی لینے والے ممالک کے سفر کا حکم !
Flag Counter