Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۲ھ - جنوری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

11 - 12
موجودہ حکومت اور اسلامی آئین!
موجودہ حکومت اور اسلامی آئین موجودہ حکومت نے اپنی صوابدید کے مطابق یا رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے جو بہت سے اہم اقدامات کئے ہیں اور ان کے بارے میں جو فیصلے مخالف آواز کے باوجود پوری قوت سے نافذ کئے ہیں، ان کے تذکرہ کی ضرورت نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ”اسلامی آئین“ کا مسئلہ اتنا الجھاہوا ہے کہ اسے آئندہ اسمبلی پر ٹال دیا گیا؟ اسمبلی جن حالات وکوائف میں وجود میں آئے گی ،وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور اس سے جو ناقابل اصلاح بحران پیدا ہوجانے کا قوی امکان ہے ،وہ بھی مخفی نہیں۔
اس کا احساس ہر عامی کو بھی ہے، کیا اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوگا کہ قوم ہمیشہ کے لئے بے دستور رہے اور اسلامی آئین کی راہ میں ایک ایسی خندق حائل کردی جائے جسے صدیوں تک پاٹنا ممکن نہ ہو، قوم مسلمان ہے، ملک مسلمانوں کا ہے، اسے اسلام ہی کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ،یہاں بغیر کسی بحث وتمحیص کے ”اسلامی آئین“ نافذ ہونا چاہیئے، جو خود گو مگو کی حالت میں ہوں گے، جو متضاد ذہن لے کر اسمبلی میں جائیں گے اور جن کی ناکامی کی سزا پوری قوم کو خدا جانے کب تک ملتی رہے گی۔
مارشل لاء حکومت کی بے نفسی وبے غرضی اس صورت میں زیادہ نمایاں ہوسکتی ہے کہ وہ اربابِ حل وعقد، علماء وزعماء اور ماہرین ِ قانون کے مشورے سے ایک مسودہ ٴ آئین تیار کرکے اسے منظور کر لیتی، اس کے مطابق انتخابات ہوتے اور آئین ساز اسمبلی کو حق دیا جاتا کہ وہ اسے منظور کرے یا اس میں مناسب ترمیم کرے، یا کم از کم اتناہی کرلیا جاتا کہ ایک آئینی مسودہ اسمبلی میں پیش کردیا جاتا اور اس کے ساتھ یہ تصریح کردی جاتی کہ دستور کی فلاں فلاں دفعات، جن کا تعلق اسلامی قانون کے نفاذ سے ہے، زیر بحث نہیں آئیں گی اور ان کے علاوہ انتظامی نوعیت کی دفعات میں ایوان کو ترمیم کا حق ہوگا، تب بھی امکان تھا کہ اسمبلی ۱۲۰ دن میں اس بھاری بوجھ سے عہدہ برآں ہوسکتی، غالباً یہ پہلا تجربہ ہے کہ اسمبلی کو کسی مسودہ کے بغیر ہی آئین سازی کی زحمت دی جائے اور اس کے لئے چار ماہ کی مدت بھی مقرر کردی جائے۔جہاں تک اسلامی قانون کے نفاذ کا تعلق ہے وہ امت مسلمہ کی مشترکہ میراث ہے، اس پررائے زنی، بحث وتمحیص اور ووٹنگ یا اختلاف رائے کا کوئی اعتبار نہیں، اسمبلی کا دائرہ عمل انتظامی امور، خارجہ پالیسی، شعبوں کی تقسیم اور ہرشعبے کے اختیارات جیسے مسائل تک محدود رہنا چاہیئے تھا، خلاصہ یہ کہ اسلام میں شریعت کے مسلمہ اصول وقواعد اور احکام ومسائل پر رائے زنی کا حق کسی حکمراں، کسی ادارے اور کسی گروہ کو نہیں دیا گیا۔
راہِ نجات
اوپر جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے مستقبل کے بھیانک خطرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، نجات کا مختصر راستہ بس یہ ہے کہ:
۱…سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو مشرقی ومغربی، سرخ وسفید اور دائیں بائیں کی تلخیوں کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے، گروہی مفادات سے ہٹ کر امت کے مفاد کی بنیاد پر سوچنا چاہیئے، انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ اصولی طور پر الیکشن محض کرسئ اقتدار کے لئے نہیں، بلکہ دستور بنانے کے لئے ہے اور اگر باہمی مفاہمت نہیں ہوئی اور فضا کو خوشگوار نہیں بنایا گیا تو نہ دستور بنے گا، نہ اسمبلی رہے گی، نہ آپ لیڈر رہیں گے، نہ آپ کی سیاسی جماعت رہے گی، اس نازک وقت میں ایک دوسرے پر الزامات تھوپنا، نفرت انگیزی کی مہم چلانا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روا اور ناروا کوششیں کرنا، سیاسی نابالغی کی علامت اور خودکشی کا پیش خیمہ ہے، اگر سیاسی جماعتوں کے قائدین میں ذرا بھی اخلاص وایمان اور فہم وبصیرت ہے تو ان کو باہمی مفاہمت، خلوص اور اسلامی وفاداری کے خطوط پر سوچنا ہوگا، ظلم وعدوان کا ماحول بنانے کے بجائے بر وتقویٰ اور خلوص ونیک دلی کی فضا پیدا کرنی ہوگی، بہرحال یہ الیکشن فیصلہ کرے گا کہ ہمارے سیاسی قائدین ہوش اور تدبر کے ساتھ ملک کا نظام بھی چلا سکتے ہیں یا صرف لڑنا جانتے ہیں۔
۲…امت کے مختلف اعضاء میں جو بدمزگی پیدا ہورہی ہے یا جان بوجھ کر پیدا کی جارہی ہے، یہ بھی پوری قوم کے لئے پیامِ موت ہوسکتی ہے، آجر واجیر ، کارخانہ دار اور کاریگرکسان اور زمیندار، غریب اور امیر، اساتذہ وطلبہ، مختلف طبقات نہیں، بلکہ حسبِ ارشاد نبوی اامت مسلمہ کے اعضاء اور ایک دوسرے کے دست وبازو ہیں جو شخص بھی ان میں منافرت پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ پوری قوم کو مفلوج کرنے کے درپے ہے اور ملک کو تباہی کے غار میں دھکیلنا چاہتا ہے، شدید ضرورت ہے کہ ملت کے ایک ایک فرد میں ”حق طلبی“ کے بجائے حق شناسی اور حق دہی کا ایسا جذبہ پیدا کیا جائے کہ کسی کو کسی سے شکایت کا موقع نہ رہے، ایک فرد کا دکھ درد پوری قوم کو تڑپاکر رکھ دے، مشکلات کو ہمدردی سے حل کیا جائے، ضد اور ہٹ دھرمی کے ذریعہ مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہونے دیا جائے۔
۳… ملک کے بارہ کروڑ عوام کو اچھی طرح محسوس کرنا چاہیئے کہ دستور سازی کا سارا بوجھ صدر مملکت نے دراصل ان کے کندھوں پر ڈال دیا ہے، اگر قوم کسی آئینی بحران کا شکار ہوئی تو اس کی مسئولیت سے کوئی فرد بھی بری الذمہ نہیں ہوگا، جو نمائندے آپ کے ووٹ سے منتخب ہوں گے، ان کی اچھی یا بری کارگذاری آپ کے سر ہوگی، اس لئے ملک کے ایک ایک فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی حلقے سے خود غرض ، مفاد پرست، بددین اور منافقت پیشہ لوگوں کو کامیاب ہونے کا موقع نہ دیں،، بلکہ صرف ان ہی افراد کو منتخب کریں جن کے دین ودیانت پر اعتماد ہو، جو اسلام پر غیر متزلزل ایمان رکھتے ہوں، بے ایمان اور بددین نہ ہوں، غریب عوام کا واقعی درد رکھتے ہوں، ان کی زندگی اور سیرت وکردار پر ظلم وستم کے داغ نہ ہوں، خواہ ان کا تعلق کسی پارٹی سے ہو۔
علماء کرام اور الیکشن
ہم نے حضرات علماء کرام ”ثبتنا اللّٰہ وایاہم علی دینہ“ کی خدمت میں بہت کچھ لکھا ہے، مگر اب تک یہ ہوا ہے کہ ہرفریق نے اپنے مطلب کی باتیں لے لیں اور باقی تھوک دیں، بقول عارف رومی:
ہر کسے از ظن خودشدیار من
وزدرونِ من بخست اسرار ِ من
اس لئے اب مزید لکھنے کو جی نہیں چاہتا، تاہم ملک وملت کے نئے حالات کا تقاضا ہے کہ دونوں طرف کے بزرگوں سے ایک دوسرے کے بارے میں ایک بار پھر عرض کیا جائے کہ:
”صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن الی من اساء الیک“ (جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو، جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کردو اور جو تم سے برائی سے پیش آئے تم اس سے بھلائی کرو) ارشاد نبوت ہے اور حضرات علماء کرام ہی سے اس اخلاق نبوت کے نمونے کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔رہا نظریات کا اختلاف تو یہ محض سراب اور دھوکہ ہے۔
بقول دشمن پیمان دوست بشکستی
ببیں کہ از کہ بریدی وبا کہ پیوستی
اسی دھوکے میں آکر ایک فریق مبتدع جماعتوں کے ساتھ تو معاہدہ کرتا ہے کہ نہ ان کے خلاف لب کشائی ہوگی نہ قلم کو جنبش آئے گی مگر دوسرے فریق کو سوشلسٹ کہا جاتا ہے اور یہ دوسرا فریق ایسے لوگوں کے ساتھ جن کی اسلام سے وابستگی کا حال سب کو معلوم ہے، انتخابی وعدہ کرتا ہے (اور ان کے ہرقول وعمل کی توثیق ضروری سمجھی جاتی ہے) مگر پہلے فریق کو امریکی سامراج اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ قرار دیتا ہے، انا للہ۔ گویا جن بزرگوں کی داڑھیاں قال اللہ وقال الرسول میں سفید ہوئیں اور آج بھی بحمد اللہ اسی خدمت میں مشغول ہیں وہ تویکایک خدانخواستہ ایک طرف سے سوشلسٹ اور دوسری طرف سے امریکی سامراج کے ایجنٹ بن گئے اور جن کے پیمانِ وفا کا نیانیا انکشاف ہوا ہے وہ پکے مسلمان یا اسلام پسند ہیں۔”صدق رسول اللہ ا ویقضی اباہ ویدنی صدیقہ“۔
ہمارا مقصود ان معاہدوں پر یا ان بزرگوں کے اخلاص پر تنقید کرنا نہیں، ہم خود اس حق میں ہیں کہ اس نازک وقت میں زیادہ سے زیادہ امت کو ”اسلام کے ایک پلیٹ فارم“ پر جمع کیا جائے، ہماری تمنا ہے کہ وہ ان کو اور یہ ان کو کھینچ کر لائیں اور امت واحدہ بنادیں، اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کا منشا یہ ہے کہ:
۱…جب دور دور جاکر صلح ہوسکتی ہے اور معاہدے کئے جاسکتے ہیں تو غلط فہمیوں کے غبار میں نزدیک والوں سے ملنے کو کیوں کسرشان سمجھا جائے؟
۲…جس سے انتخابی معاہدہ کرلیا جائے کیونکر اس کے ہرقول وعمل کی توثیق کی جائے؟
۳…اگر ایک کا موقف دوسرے کی سمجھ میں نہیں آیا تو اس کے لئے ضرورت افہام وتفہیم کی ہے یاکہ ”تنابز بالالقاب“ کی؟
۴…اصول یہ ہونا چاہیے کہ صحیح بات اگر حریف کہے تو رد نہ کرو، اور غلط بات حلیف کے منہ سے نکلے تو تأویلیں نہ کرو۔بہرحال یہ ایک ضمنی بات تھی جو بادل ِ ناخواستہ زبانِ قلم پر آگئی، اصل بات جو حضرات علماء سے عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ ان کو اور ان کے ساتھ تمام مخلص مسلمانوں کو ناکام کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے اور اس کی تفصیلات طے ہوچکی ہیں، نصف منصوبہ الیکشن سے پہلے کا ہے اور نصف اس کے بعد کا، بائیس سال سے باطل قوتیں دھیرے دھیرے اپنا راستہ بنارہی تھیں مگر انہیں کھل کر سامنے آنے کی ہمت نہیں تھی، انہیں ان بوریہ نشین درویشوں اور دین وملت کے پاسبانوں کی قوت ایمانی کا احساس تھا، اچانک تاریخ نے ایک نیا ورق اُلٹا، اور یہ الیکشن سامنے آیا جس کا ماقبل ومابعد پیش کیا جاچکا ہے، طاغوتی قوتوں نے محسوس کیا کہ یہی موقع ہے کہ راستے کے اس پتھر کو ہٹا دیا جائے اور علماء کو ان ہی کی تلوار سے کاٹ دیا جائے، چنانچہ پروپیگنڈے کے ذریعہ علماء میں پھوٹ کی بنیاد ڈالی گئی، اخبارات میں جھوٹی سچی خبریں چھاپی گئیں، لگائی بجھائی کے لئے دونوں طرف مفسدوں کا ایک ٹولہ مقررکیا گیا، ایک کو سفید سامراج کے خلاف اُکساکر کام نکالاگیا، دوسری طرف سرخ آندھی کے خطرہ کی گھنٹی بجائی گئی، کوئی آئے نہ آئے مگر دونوں طرف سے علماء کو کچل دیا گیا، ”جہاد“ کے دونوں فریق ”الاسلام“ کے لئے لڑرہے ہیں مگر جب معرکہ ٴ کار زار ختم ہوگا تو پتہ چلے گا کہ مال غنیمت دوسروں کے حصہ میں آیا اور ”اسلام“ کے بے لوث سپاہیوں کے حصے میں گہرے زخم ۔ جن سے کبھی جانبر نہ ہوسکیں۔ یا کم از کم ان کی ٹیس ہمیشہ باقی رہے۔
خود غرض مفسدوں نے دونوں طرف کا تمام اسلحہ اسی خانہ جنگی میں ختم کرادیا، بدباطن ملاحدہ خوش ہیں کہ دونوں طرف کے بزرگوں نے ایک دوسرے پر ضمیر فروشی اور کفر تک کے فتوے لگا کر اپنے ہاتھ خود کاٹ لئے، فتوؤں کی دوطرفہ تیر اندازی سے ان کے باز وشل اور جسم چھلنی ہو گئے، وہ مجموعی طور پر آئندہ کبھی باطل کے لئے خطرہ نہیں بنیں گے، نہ ان کا ”فتویٰ“ کبھی ان سے تجاوز کرے گا۔ادھر عام مسلمان ششدر ہیں، حیران ہیں، پریشان ہیں کہ یا اللہ ! یہ یکایک کیا آفت آگئی، اور اب صورت حال یہ ہے:
لایصلح الناس فوضیٰ لاسراة لہم
ولاسراة اذا جہالہم سادوا
یعنی”فوضیت (انتشار وپرآگندگی) کے ہوتے ہوئے جب کہ قوم کے رئیس باقی نہ رہیں، اصلاح کی کوئی توقع نہیں جس طرح کہ جاہلوں کی قیادت میں کوئی خیر نہیں، اس کا وجود، عدم سے بدترہے“۔
یہ تھا منصوبے کا پہلا حصہ جو بڑی چابکدستی سے نافذ کیا گیا، کہ کسی کو احساس تک نہ ہونے دیا گیا، (اور دوسرے حصہ کا خاکہ تیار ہے مگر الیکشن تک خود ان کا مفاد مانع ہے) اسی کا نتیجہ ہے کہ اب سے کچھ پہلے کسی کو جرأت نہ تھی، کہ وہ علمائے کرام پر فقرے چست کرے، اخباروں کے مزاحیہ کالم بڑوں بڑوں پر لکھے جاتے تھے، لیکن کسی عالم دین پر لکھنا سوئے ادب سمجھا جاتا تھا، اب نہ صرف علماء پر گھٹیا قسم کے مقالے لکھے جارہے ہیں، بلکہ تیسرے اور چوتھے درجہ کے صحافی ، جنہیں شاید صبح اٹھ کر منہ دھونا بھی نصیب نہ ہوتا ہو اللہ تعالیٰ کے ایسے ایسے مقبول بندوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں، جن کے آنسؤوں سے بوقت سحر گاہی زمین سیراب ہوتی ہے، جن کی دعائیں عرش پر سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کھینچ لاتی ہیں اور جن کے وجود کی برکت سے عذاب ٹلتا ہے، ”افما تنصرون وترزقون بضعفائکم“۔
اب کیسے یقین دلایا جائے کہ بحمد اللہ نہ ہی وہ سوشلسٹ ہیں نہ یہ کسی کے ایجنٹ، انسانی کمزوریوں سے معصوم ومبرا کوئی بھی نہیں ، نہ ہم، نہ وہ، نہ یہ، نہ کوئی دوسرا تیسرا، (جو کچھ عرض کیا گیا ہے یہ محض شاعری نہیں، سوچے سمجھے منصوبے کی نشاندہی ہے) کاش ! کسی بڑی سے بڑی ذات کا واسطہ دے کر عرض کیا جاسکتا کہ اے حضرات علماء کرام! غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے طلسم کو توڑ ڈالو، بخدا! تم ایک دوسرے کے دشمن نہیں، یہ خفیہ سازشی ہاتھوں کا کھیل ہے، بزدل دشمن نے رات کی تاریکی میں تم پر شبخون مارا ہے، اور تاریخ کے نہایت خطرناک موڑ پر انتقام لینے کے لئے تمہیں لڑادیا گیا ہے، آؤ ایک دوسرے سے گلے مل جاؤ، کہا سنا سب معاف کردو۔”الاتحبون ان یغفر اللہ لکم“ سب مل کر باطل کے مقابلہ میں ڈٹ جاؤ، اور دشمن کے سارے منصوبے خاک میں ملادو، جو کرو باہمی مشورے سے کرو، سب کو ساتھ ملاؤ، ہرطبقے اور ہرجماعت کو اسلام کے پلیٹ فارم پر جمع کرو، مگر باطل کو ایک لمحہ کے لئے گوارانہ کرو،خواہ وہ سرخ ہو یا سفید، کالاہویا پیلا، غرض اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کرکے اسلام کا بول بالا اور کفر کا منہ کالا کرو۔
”ولاتنازعوا فتفشلوا وتذہب ریحکم، واصبروا ان الله مع الصابرین“۔
ترجمہ:…”اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ بودے ہو جاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر وضبط سے کام لو، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے،،۔
اند کے پیش تو گفتم حالِ دل وترسید
کہ آزردہ شوی، ورنہ سخن بسیاراست
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۲ھ - جنوری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: دارالعلوم دیوبند کا فیض!
Flag Counter