Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۲ھ - جنوری ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

10 - 12
دارالعلوم دیوبند کا فیض!
دارالعلوم دیوبند کا فیض! جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی کے رئیس وشیخ الحدیث، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیرِ مرکزیہ اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی نائب صدر حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم نے موٴرخہ ۵/محرم الحرام ۱۴۳۲ھ مطابق ۱۲/دسمبر ۲۰۱۰ء بروز اتوار صبح گیارہ بج کر پچّیس منٹ پر جامع مسجد (نیوٹاوٴن) بنوری ٹاوٴن میں دارالعلوم دیوبند انڈیا کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کے سانحہ اِرتحال پر تعزیتی خطاب کیا، جسے دورہٴ حدیث کے ایک طالب علم سیّد محمد زین العابدین نے ضبط کیا۔

الحمدلله رب العالمین، والصلاة والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین، أما بعد:کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام
عزیز طلبہ! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
ہمارا ماہانہ اِجتماع جو ہر مہینے ہوتا ہے اور جامعہ کے بڑے اساتذہ آپ سے خطاب کرتے ہیں، یہ اِجتماع بھی اسی کا حصہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اِتفاق ایسا ہے کہ ہمارے اور پوری دُنیائے علم کے مرکز دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن اِنتقال کرگئے ہیں، اور اتنا تو آپ جانتے ہیں کہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور افغانستان یا دُنیا کے اندر دُور دُور تک جو مدارسِ اسلامی قائم ہیں، وہ سب اسی دارالعلوم دیوبند کی برکت ہے، اسی دارالعلوم دیوبند کی شاخیں ہیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ چھوٹے دائرے میں ہمارا یہ جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن مرکز ہے، اور صرف اس کی پندرہ شاخیں ہیں۔ اسی طرح دارالعلوم دیوبند مرکز ہے اور اس کی ہزاروں شاخیں ہیں جو پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، سری لنکا، افریقہ اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر دارالعلوم دیوبند اور اس کے بزرگ نہ ہوتے، یہ مرکز نہ ہوتا تو آج یہ سارے علاقے جہالت کے اندھیروں میں ڈُوبے ہوئے ہوتے۔
اس لئے حضرت مولانا کی وفات گویا ہم سب کا خسارہ ہے، ہم سب کا غم ہے، اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مرکز کو ایسا ہی باکمال اور بڑی شخصیت جو اس مرکز کے شایانِ شان ہو، مہیا فرمائیں۔ اور جو کچھ آپ نے پڑھا ہے، نیت کرلیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا ثواب ان کی رُوح کو پہنچادیں۔
ان کے علاوہ اور ہمارے بہت سے متعلقین حضرات کی کچھ وفیات ہوئی ہیں، جن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں: مولانا عبدالقیوم چترالی کے بڑے بھائی، مولانا سلطان الدین کے والد وہ بھی ان دنوں فوت ہوئے ہیں، مولانا ارشاداللہ العباسی کے بڑے بھائی، مولانا قاری سلطان روم کے والد، دورہٴ حدیث کے طالب علم ثناء اللہ کے والد، دورہٴ حدیث کے طالب علم کی والدہ، دورہٴ حدیث کے ایک طالب علم کے بڑے بھائی، مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمر شاخِ جامعہ میں درجہ خامسہ کے ایک طالب علم، مولانا شعیب ملا کی خوش دامن، درجہ سادسہ کے طالب علم کے والد۔
اس کے علاوہ اس موقع پر ہمیشہ ہم اپنے ان بزرگوں کو بھی یاد کرتے ہیں جن کی محنت واِخلاص اور برکات سے آج ہم فائدہ اُٹھا رہے ہیں، جنہوں نے یہ پودا لگایا، میری مراد حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ ہیں، جو ہمارے قریب آرام فرمارہے ہیں، انہوں نے اس اِدارے کی اِبتدا کی، اور اِبتدا اس وقت ہوئی جب یہ مسجد کا صرف ڈھانچہ کھڑا ہوا تھا، اندرونی حصے کا ابھی پلاسٹر بھی نہیں ہوا تھا، فرش بھی کھردرا تھا، دیواریں بھی کھردری تھیں، فرش پر کچھ چٹائیاں پڑی ہوئی تھیں تو اس سے اِبتدا ہوئی۔ لیکن نہایت ہی اِخلاص کے ساتھ بنیاد رکھی گئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس درخت کی طرح بنادیا جس کی مثال قرآنِ کریم نے دی ہے: ”کشجرة طیّبة أصلھا ثابت وفرعھا فی السماء“ آج اس دینی اور رُوحانی درخت کی شاخیں پوری دُنیا میں پھیلی ہوئی ہیں، اور آپ دُنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں وہاں آپ کو یہاں کے فضلائے کرام کام کرتے ہوئے ملیں گے، کسی نے مدرسہ قائم کیا ہوا ہے اور مسلمان بچوں کو پڑھا رہے ہیں، اور کوئی مسجد میں اِمام وخطیب ہیں اور مسلمانوں کی دینی ورُوحانی تربیت فرما رہے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جو وہاں بھی دِین کے فتنوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
ہمارے ایک بہت ہی بزرگ اور ختم نبوت یورپ کے امیر مولانا منظور احمد الحسینی جن سے چونکہ بے تکلفی تھی، میں ان کو کہا کرتا تھا کہ یہ ختم نبوت کے دیوانے ہیں اور انگلینڈ، یورپ میں وہی ہماری مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر تھے، میں نے ان کو دیکھا کہ دن رات ان کے ذہن میں بس یہی بات سوار تھی کہ کسی طرح مسلمانوں کو اس فتنے سے محفوظ کیا جائے۔ لندن میں جب ہماری سال میں ایک مرتبہ ختم نبوت کانفرنس ہوتی ہے، ہم وہاں جاتے ہیں تو وہ خود ایئرپورٹ پر لینے کے لئے آتے، ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور واپسی پر ہمیں خود رخصت کرنے ایئرپورٹ تک آتے۔
غالباً آخری دفعہ جب آئے تو کہنے لگے کہ میں فلاں جگہ سے ہوکر آیا ہوں، ان کو پتا چلا کہ ایک مسلمان لڑکی اور ایک قادیانی لڑکا شادی کرنا چاہتے ہیں، اس کی وجہ وہاں کا مخلوط معاشرہ ہے، وہاں کالجوں میں، یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم ہوتی ہے، وہ دونوں ایک جگہ پڑھ رہے تھے، دونوں میں دوستی ہوگئی، اور وہ آپس میں شادی کرنا چاہ رہے تھے۔ مولانا کو پتا چلا تو بے چین ہوگئے کہ ایک مسلمان لڑکی ایک کافر کے گھر میں جائے گی، مولانا اس کے والدین سے ملے، اس لڑکی سے ملے، اور مسلسل اس لڑکی کو قادیانیوں کے عقائد اور ان کے کفر کے بارے میں بتاتے رہے، تو کہنے لگے کہ میں ابھی اس کے ماں باپ سے مل کر آرہا ہوں، اور اپنی اس کوشش میں الحمدللہ! کامیاب ہوگیا ہوں۔
انگلینڈ کے علاوہ اس سے ملے ہوئے جو ملک ہیں، مولانا کا ان ممالک میں آنا جانا کچھ مشکل نہیں تھا، فرانس ہے، سامنے اٹلی ہے، بلجیم ہے، یہ چھوٹے چھوٹے ملک ہیں، قادیانی وہاں بھی موجود ہوتے ہیں، تو وہاں جاتے، جلسے کرتے، لوگوں کو جمع کرکے سمجھاتے۔ ظاہر بات ہے کہ جو قادیانی ہیں وہ بھی مسلمان عالم دین کی بات سننے کے لئے وہاں آجاتے ہیں، وہاں ایک بڑا مال دار خاندان تھا اور قادیانیوں کو بہت زیادہ چندہ بھی دیتا تھا۔ مولانا کا بیان سنا، مولانا کے فارغ ہونے کے بعد اس شخص نے کہا کہ: اگر واقعی آپ کی باتیں سچی ہیں اور آپ اس کو ثابت کردیں تو میں مسلمان ہوجاوٴں گا۔ مولانا بھی عجیب دیوانے تھے، جہاں بھی جاتے، کتابیں اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ مولانا نے کہا: کتابیں میرے پاس ہیں، آئیے میں آپ کو قادیانیوں کی کتابوں سے ان سب باتوں کو ثابت کردیتا ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ ہم اپنا آدمی بلائیں گے، آپ اس کے ساتھ مناظرہ کریں۔ تو انہوں نے قادیانیوں کے ایک آدمی کو بلالیا، جس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا دُم بھی لگا ہوا تھا۔ مولانا تو ماشاء اللہ اس موضوع پر بہت ہی متخصص تھے۔ بہرحال تمام لوگ دیکھ رہے ہیں اور ان کا آپس میں مناظرہ ہو رہا ہے، اور جس طرح ایک پہلوان دُوسرے کو پچھاڑتا ہے، اسی طرح مولانا بھی اس قادیانی کو پچھاڑ رہے ہیں، اور وقفے وقفے سے اس کی نفسیات کو بھی رُسوا کرنے کے لئے کہتے: ”ارے بھئی! یہ کس کو لے آئے ہو، اس کو تو بولنا بھی نہیں آتا، کسی بڑے قادیانی مربی کو لے کر آتے، اس کو تو بولنا بھی نہیں آتا۔“ بہرحال قادیانی مناظر بڑا ذلیل ہوا اور اس آدمی نے کھڑے ہوکر اسی مجلس میں مسلمان ہونے کا اِعلان کیا اور پورا خاندان مسلمان ہوگیا، الحمدللہ!
بہرحال دارالعلوم دیوبند اور اس کی شاخوں کی تربیت کا سارا سہرا ہمارے بزرگوں کو پہنچتا ہے، جنہوں نے اس کو قائم کیا، جن کے صدقے میں یہ سارے اِدارے اس دُنیا میں قائم ہوئے ہیں، اور یہ اس اِدارے کی حقانیت کی دلیل ہے، اب بھی آپ کو ایسے ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو اس دین کے لئے وقف کر رکھا ہے۔
آپ بھی محنت کریں اور جب آپ علم لے کر یہاں سے نکلیں گے اور جس میدان میں بھی جائیں گے تو آپ بھی اِن شاء اللہ! ایسے ہی کارنامے انجام دیں گے۔
بات یہاں سے چلی تھی کہ جن بزرگوں نے ہمارے لئے یہ میدان کھولا ہے، ان کو اپنی دُعاوٴں میں بھولنا نہیں چاہئے۔ حضرت بنوری کے بعد مسلسل جو ہمارے بزرگ اور اساتذہ اس دُنیا سے گئے ہیں، ان سب حضرات کو بھی، اساتذہٴ کرام کو بھی دُعاوٴں میں یاد رکھیں، اِن شاء اللہ! ان سب کی رُوحیں خوش ہوں گی۔
یہ ثواب ایسا نہیں ہے کہ ہم پتھروں کو بھیج رہے ہیں، ہم ان اللہ کے بندوں کو بھیج رہے ہیں جن کے اعمال ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، اور وہ اِس جہان سے اُس جہان میں چلے گئے، ختم نہیں ہوئے۔ ان کی رُوحیں وہاں موجود ہیں، ان کو پتا چلتا ہے کہ کس نے ہمارے لئے پڑھا، کس نے ہمارے لئے ایصالِ ثواب کیا، یہ ہمارا اِیمان ہے، اور بیسیوں بلکہ سینکڑوں احادیث آپ کو ایسی ملیں گی جو اِن چیزوں کو بیان کر رہی ہیں، اس لئے بھئی! جب آپ ان بزرگوں کو یاد کریں گے تو آپ کو بھی ان کی برکات ملیں گی۔
یہ بھی دُعا کریں کہ یہ جو محرم کے ایام ہیں، اللہ تعالیٰ خیر وعافیت سے گزاردے اور شرپسندوں کے شر سے اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے، اور توہینِ رسالت کی جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں یا جو بے دین طبقہ اس قانون کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو ناکام بنائے اور جو اس میدان میں کام کرنے والے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے، آمین!
******************** عیدالاضحی اور غیرذمہ دارانہ باتیں بدھ ۲۵/ذوالقعدہ ۱۴۳۱ھ بمطابق ۳/نومبر ۲۰۱۰ء کو روزنامہ ”جنگ“ کے اِدارتی صفحے پر محترم محمد احمد سبزواری صاحب کا مضمون ”عیدالاضحی اور ہماری ذمہ داریاں“ نظر سے گزرا۔
موصوف نے بچت اور خرچ کے دو الگ الگ فارمولوں سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”ایک فارمولا یہ ہے کہ بچت کرو، تاکہ آمدنی اور خوش حالی میں اِضافہ ہو۔“ دُوسرا فارمولا یہ کہ: ”زیادہ سے زیادہ خرچ کرو، تاکہ معاشرے میں زَر کی گردش بڑھے اور لوگوں کو روزگار ملے، جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوسکتا ہو، وہ ان کے لئے دُعا کرے۔“
موصوف نے ان فارمولوں کی فہمائش اور وضاحت کے لئے مختلف اعداد وشمار ذِکر فرمائے ہیں، اور گرانی وگراں فروشی کی جانب بھی توجہ دِلائی ہے۔ آخر میں بچت والے فارمولے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اِستفہامی انداز میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ”قربانی کے لئے کٹنے والے جانوروں کی تعداد کیسے گھٹائی جاسکتی ہے؟ تاکہ آئندہ عرصے میں اہلِ وطن گوشت اور دُودھ کی قلّت وکمیابی کے خطرے سے محفوظ رہ سکیں“ اس معاشی تجویز میں چونکہ قربانی جیسے اسلامی شعار اور دِینی حکم حائل ہوتے ہیں، اس کا اِحساس کرتے ہوئے محترم سبزواری صاحب نے خادمِ حرمین شریفین کی طرف سے حاجیوں کو عطا کردہ اُردو ترجمہٴ قرآن کی مدد سے سورہٴ حج کی آیت:۳۷ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ:
”لن ینال الله لحومھا ولا دمائھا ولٰکن ینالہ التقوٰی منکم“ (الحج:۳۷)
ترجمہ:․․․ ”اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے، نہ ان کے خون، بلکہ اسے تو تمہارے دِل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔“
مذکورہ آیتِ مبارکہ کے تفسیری افادات سے گزرتے ہوئے یہ بھی نقل فرمایا ہے کہ تاہم یہ واجب نہیں، سنتِ موٴکدہ ہے۔
آگے چل کر سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کے حوالے سے یہ حدیث بھی نقل فرمائی ہے کہ: ”حدیث کے مطابق پورے گھر کے افراد کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔“
قرآن فہمی اور حدیث دانی کے اس پل سے گزرکراپنے بچت والے فارمولے پر عمل پیرا ہونے کا مشورہ یوں دیتے ہیں:
”پاکستان کے مسلمان خصوصی طور پر سیاسی اور دیگر اُمور میں سعودیہ کی جانب دیکھتے ہیں، تو کیا قربانی کے معاملے میں اس کی پیروی کرنے پر تیار نہیں؟ خصوصاً ایسے وقت (میں) جبکہ ملک میں جانوروں کی قلّت ہو اور بے تحاشا قربانیوں سے مزید کمی ہوجائے اور ملک کو غذا کے لئے گوشت اور بچوں کو پروَرِش کے لئے دُودھ نہ مل سکے۔“
محترم سبزواری صاحب کے اِستدلال اور طرزِ اِستدلال پر افسوس سے زیادہ حیرت ہو رہی ہے کہ طویل عرصے سے لکھنے پڑھنے والا آدمی اتنی کمزور اور بھدی بلکہ بے دینی کی بات کیسے کہہ رہا ہے؟ حالانکہ ان کے مقام اور منصب کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ یہ سوچتے کہ جس ترجمہٴ قرآن مجید کا وہ حوالہ دے رہے ہیں، وہ کس کا ہے؟ خادمِ حرمین شریفین کا اس ترجمے میں کیا حصہ ہے؟ یہ ترجمہ وہاں سے کیوں اور کس طرح تقسیم ہوتا ہے؟ کیا اس ترجمے کے دیگر مندرجات بھی تمام اُردوخواں مسلمانوں کے لئے قابلِ عمل اور لائقِ اِعتبار ہیں یا نہیں؟ اور یہ بھی غور کرنا چاہئے تھا کہ سورہٴ حج کی محولہ بالا آیتوں سے موصوف جو حکم ثابت کرنا چاہ رہے ہیں وہ ثابت بھی ہو تا ہے یا نہیں؟ اور یہ بھی سوچنا یا پوچھنا چاہئے تھا کہ اپنے فہم واِجتہاد کے لئے براہِ راست قرآن وسنت کو مطلوبہ شرائط کے بغیر تختہٴ مشق بنانا جائز بھی ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ جس حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سب گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہے، یہ حدیث پوری نقل ہوئی ہے یا ادھوری؟ اور اس کا پس منظر اور شانِ ورود بھی ہے یا نہیں؟ مزید برآں اس حدیث کا جو مطلب ومفہوم سمجھا اور بیان کیا گیا ہے، کیا وہی مطلب اور مفہوم ہے یا کچھ اور؟ کیونکہ یہ حدیث براہ راست ہمارے پاس نہیں آئی ہے، اور جن واسطوں سے یہ حدیث ہمیں پہنچی ہے، انہوں نے اس کا کیا معنی ومفہوم بتایا؟ دیگر جن حدیثوں کے ساتھ اس حدیث کے بعض جملے ٹکراتے ہیں، ان کے درمیان تطبیق یا توجیہ کی کیا صورت ہے؟ محدثین اور شارحین نے اس سلسلے میں کیا اِرشاد فرمایا ہے؟
متعلقہ مسئلے کے ان تمام پہلووٴں سے پہلوتہی کرتے ہوئے خادمِ حرمین شریفین کی اِتباع کا مشورہ دینا، مستقبل میں گوشت اور دُودھ کی قلّت کے خدشے کے پیش نظر صرف ایک قربانی کی رائے قائم کرنا، اور لوگوں کو اس کا مشورہ دینا، یہ سب کچھ بغیر علم کے فتاویٰ صادر کرنے کے مترادف ہے۔ اہلِ علم تو بہرحال جانتے ہیں، ہم اِختصار کے ساتھ سبزواری صاحب کی دلیل کا طالب علمانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں:
پہلی بات
سبزواری صاحب! کچھ سالوں سے سعودی حکومت نے شاہ فہد مرحوم کے نام سے ایک ”چھاپہ خانہ“ بنایا ہے، جس میں دیگر اُمور کے علاوہ قرآنِ کریم کی طباعت واِشاعت بطورِ خاص اس کا مشن ہے، دُنیا کی تمام مشہور زبانوں میں قرآن مجید کے جو تراجم ہوئے ہیں، وہ بھی اس مطبع میں چھاپے جاتے ہیں، اور حجاجِ کرام میں تقسیم کئے جاتے ہیں، جب یہ نیک سلسلہ شروع ہوا تو برصغیر کے اُردوخواں حاجیوں کے لئے انہوں نے جس مختصر اور جامع ترجمہ وتفسیر کا اِنتخاب کیا، وہ تحریکِ پاکستان کے عَلم بردار اور پرچم کشا علامہ شبیر احمد عثمانی کا ترجمہ وتفسیر تھا، کیونکہ برصغیر میں ان کی شخصیت اور اُردو تفاسیر میں ان کی تفسیر کے ہم پلہ آلِ سعود کی نظر میں اور کوئی تفسیر وترجمہ نہیں تھا، اور ان کا اِنتخاب بھی بجا تھا، اور وہ تقسیم بھی ہوتی رہی۔ مگر چند سال قبل پاک وہند سے روزگار اور کمائی کے لئے سعودیہ گئے ہوئے کچھ عناصر پاک وہند میں جن کے ہم نوا اُنگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، انہوں نے نچلی سطح پر تعلق وتملق کے ذریعے تفسیر عثمانی کی جگہ ہندوستان کے کسی غیرمعروف آدمی کا ترجمہ چھپوانے کی تگ ودو کی، وہ بھی ایسا ترجمہ جس کے خریدار پاک وہند میں انہیں میسر نہ تھے، وہاں سے سرکاری خرچ پر چھپواکر اَز راہِ تملق خادمِ حرمین شریفین کا ”ہدیہ“ کہہ کر ہر حاجی کو دے دیا جاتا ہے۔
یہ ترجمہ نہ تو خادمِ حرمین شریفین نے کیا ہے، نہ ہی وہ اُردو نوشت وخواند پر قادر ہیں، اور نہ ہی اس کے مندرجات ان کے مسلک کے موافق ہیں، کیونکہ ان کا فقہی مسلک، فقہِ حنبلی ہے، اور فقہِ حنبلی کی رُو سے مذکورہ حدیث سے جو اِستدلال کیا گیا ہے وہ ناقص اور ادھورا ہے۔ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ ترجمہ سعودی حکومت کی اجازت سے تقسیم ہوا ہے۔ اگر ہم سبزواری صاحب کے مشورے کے مطابق سعودی حکومت کی پیروی کریں تو اس کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ خادمِ حرمین شریفین کی طرح ہم بھی مذکورہ ترجمہ چھپواکر تقسیم کریں، اگر سبزواری صاحب یہی چاہتے ہیں تو ان کا اِستدلال دُرست ہے، لیکن اگر ہندوستان کے لکھے ہوئے اُردو ترجمے کو خادمِ حرمین شریفین کی کاوش اور رائے سمجھ کر اس کی پیروی کا حکم دے رہے ہیں تو انہیں خود سوچنا چاہئے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں․․․؟
دُوسری بات
سبزواری صاحب نے خادمِ حرمین شریفین کے اُردو ترجمہ قرآن کی مدد سے سورہٴ حج کی آیت۳۶،۳۷ کا حوالہ دیا ہے، جس میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں، بلکہ تمہارے دِلوں کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔“ اس آیت سے بظاہر اپنے بچت والے فارمولے پر قرآنی دلیل پیش فرما رہے ہیں، حالانکہ اگر قرآنِ کریم کا مطالعہ کیا جائے تو قربانی کے موضوع اور حکم کو تقریباً ایک درجن آیات میں بیان فرمایا گیا ہے۔ تمام آیات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے حکم میں اللہ تعالیٰ کو دو چیزیں مطلوب ہیں، ایک قربانی کی رُوح اور دُوسری اس کی صورت۔ قربانی کی رُوح اِخلاص وجذبہ اِیثار ہے، اور اس کی صورت اراقة الدم (خون بہانا) ہے۔ سورہٴ حج والی آیات میں قربانی کی صرف رُوح کا بیان ہے، ”صورت“ کا بیان دُوسری آیات میں ہے۔ کسی حکم کے ایک حصے کو لینا اور دُوسرے کو فراموش کردینا، یہ پہلی قوموں کا طریقہ تو ہے، مسلمانوں کا نہیں۔
تیسری بات
سبزواری صاحب نے ترمذی وابن ماجہ کے حوالے سے جو حدیث نقل فرمائی ہے، یہ اور اس مضمون کی دُوسری احادیث کا ایک تو پس منظر ہے، اور ایک اس کا پورا مضمون ومفہوم ہے۔ ان دونوں کے بغیر اس حدیث کا مطلب بیان کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر وہی ہوگا جو قرآن مجید کے اُردو ترجمہ کرنے والوں سے صادر ہوا، اور سبزواری صاحب نے سمجھا اور آگے پہنچایا۔پوری حدیث یوں ہے:
”عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابواَیوب انصاری سے پوچھا کہ حضورا کے زمانے میں آپ حضرات وصحابہ کرام کے درمیان قربانی کا کیا معمول تھا؟ تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ نبی اکرم ا کے زمانے میں آدمی اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے بکری ذبح کیا کرتا تھا، اور سب کھاتے کھلاتے تھے، یہاں تک کہ لوگوں میں تفاخرانہ مقابلہ چل پڑا، جیسا کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں۔“
یہ حدیث ابن ماجہ (ص:۲۲۷) اور ترمذی (ج:۱ ص:۱۸۲) نے نقل کی ہے۔ اس حدیث کا کیا معنی ہے؟ ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ ایک بکری پورے گھر والوں کی قربانی کے لئے کافی ہے، وہ سب اس میں شریک ہیں، جس طرح بڑے جانوروں میں ایک سے سات تک افراد شریک ہوتے ہیں۔ اگر یہی مطلب ہے تو پھر معاملہ بہت آسان ہے، کئی افراد مل کر ایک بکری خرید لیں اور سب اس میں شریک ہوجائیں، سب کی طرف سے قربانی ہوجائے گی۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ متعدد اَفراد مل کر گائے کا ایک حصہ لے لیں اور سب قربانی کی سنت ادا کرلیں، اہلِ علم کے مطابق یہ ایسی توجیہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان اس کا قائل نہیں ہے۔
اس حدیث کی یہ توجیہ بھی ممکن نہیں کہ تمام گھر والوں کی طرف سے صرف ایک قربانی کافی ہوسکتی ہے، کیونکہ دُوسری احادیث میں بڑی تاکید کے ساتھ یہ ارشادِ نبوی ہے کہ:
”جو مسلمان اِستطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ قطعاً ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔“
ظاہر ہے کہ ہر گھر میں صاحبِ اِستطاعت مسلمان صرف سربراہِ خانہ نہیں ہوتا بلکہ دیگر اہلِ خانہ بھی ہوسکتے ہیں، تو اہلِ خانہ میں سے جو بھی صاحبِ اِستطاعت ہوگا، اس پر قربانی واجب ہوگی۔ محدثین نے اس حدیث کو جس باب کے تحت ذکر فرمایا ہے ،اس کا عنوان انہوں نے ”باب وجوب الاضحیة“ یعنی یہ باب قربانی کے واجب ہونے کے بیان میں ہے، رکھا ہے۔
اگر زیرِ بحث حدیث شریف کی ایک اور توجیہ سامنے رکھی جائے تو اس سے مسئلہ بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے، اور ہر ہر حدیث کا موقع ومحل بھی متعین ہوجاتا ہے، وہ توجیہ یہ کہ ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر مستقل طور پر قربانی کرنا واجب ہے، اور جہاں گھر کے صرف ایک فرد یا سربراہ صاحبِ نصاب ہوں وہ اکیلے ہی قربانی کرلیں، اور اس کے ثواب میں اپنے تمام اہلِ خانہ کو شریک کرلیں، اور نیت کرتے ہوئے یوں کہیں کہ اے اللہ! یہ میری قربانی ہے، اس کے ثواب میں میرے ان اہلِ خانہ کو بھی شریک فرما جو قربانی کی اِستطاعت نہیں رکھتے، یا ان پر قربانی واجب نہیں ہے۔ جیسا کہ حضور انے اپنی طرف سے ایک قربانی فرمائی اور دُوسری قربانی اپنی اُمت کے ایسے افراد کی طرف سے فرمائی جو قربانی کی اِستطاعت نہ رکھتے ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ جس قربانی میں متعدّد لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے، وہ محض نفلی قربانی ہے، یا واجب قربانی کا اجر وثواب ہے، اور ایسے ثواب میں شرکت کے لئے صرف اہلِ خانہ نہیں، بلکہ پوری اُمت کی نیت کی جاسکتی ہے۔ زیرِ بحث حدیث کی یہی صحیح توجیہ ہے جو فقہائے کرام اور محدثین کے پیش نظر بھی رہی ہے، اس لئے اس حدیث کو جس عنوان کے تحت ذِکر کیا جاتا ہے وہ یوں ہے: ”باب التضحیة بالشاة وتشریک الغیر فی الثواب أو ایثارہ لہ بہ“ (یہ باب بکری کی قربانی کرنے اور دُوسروں کو اس کے ثواب میں شریک کرنے یا اس قربانی کے ثواب کو اس (دُوسرے) کے لئے ایثار کرنے کے بیان میں ہے)، دیکھئے اعلاء السنن ،ج:۱۷ ص:۲۰۸ طبع کراچی۔
زیرِ بحث حدیث شریف کے پس منظر کے بارے میں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اِبتدائے اسلام میں مسلمانوں کا جذبہ ایثار اِنتہا درجے کا تھا، مگر وسائل کم تھے، شدید حسرت کے باوجود نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کی اِستطاعت نہ تھی، ایسے لوگوں کی تسلی کے لئے یہ صورت ممکن تھی کہ سربراہِ اہلِ خانہ قربانی کرلے اور اہلِ خانہ کو بھی اس کے ثواب میں شریک کرلے۔ آخری ادوار میں جب فراوانی آئی تو خوب دِل کھول کر لوگوں نے قربانی کا فریضہ بجالایا۔ ایک ایک آدمی نے کئی کئی قربانیں کیں، خود حضور ا نے ۶۳اُونٹ اپنے دستِ اقدس سے قربان فرمائے، اور سو کی بقیہ تعداد خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوری کروائی۔ اس کے علاوہ حضراتِ صحابہ کرام علیہم الرضوان جن کی تعداد اس وقت تقریباً سوا لاکھ کے قریب تھی، انہوں نے کتنے جانور ذبح فرمائے ہوں گے؟ ان کے صحیح اعداد وشمار جمع کرنے والے معاشی ماہرین اس وقت شاید موجود نہیں تھے، ورنہ عرب جیسے بے آب وگیاہ صحراوٴں میں زندگی گزارنے والوں کے لئے گوشت کی قلّت اور شیرخواروں کے لئے دُودھ کی نایابی کے خدشات پیش کرکے وہ ماہرین نہ جانے کہاں پہنچ چکے ہوتے․․․!
حدیثِ مذکور سے یہ بات بھی صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ فراوانی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان تفاخرانہ انداز میں ایک دُوسرے پر دُنیاوی برتری ظاہر کرنے اور دِکھلاوے کے لئے قربانی میں مقابلے شروع کردیں، یہ مسلمانوں کا شیوہ نہیں، ایسی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت کا درجہ نہیں پاتیں، سورہٴ حج کی آیت ۳۶،۳۷ میں یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ مذکورہ حدیث کا سورہٴ حج والی آیتوں کے ساتھ یہی تعلق ہے۔
چوتھی بات
جناب سبزواری صاحب کا بنیادی اِرشاد کہ جانوروں کی قلّت اور بے تحاشا قربانیوں سے مزید کمی ہوگی اور ملک کو غذا کے لئے گوشت اور بچوں کے لئے دُودھ نہ مل سکے گا، اس بات کی ایک مسلمان کی حیثیت سے کیا اہمیت ہے؟ وہ ہر مسلمان جانتا ہے
معیشت دانوں کے اعداد وشمار، خدشات واندیشے اور فاضل وخاسر بجٹ کے جداول کا نظام اپنی جگہ، آخر اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزّاقیت بھی تو ایک عظیم بندوبست کا نام ہے، اس صفت کے تحت اللہ تعالیٰ کی لاتعداد مخلوقات کیسے رزق یاب ہو رہی ہیں، جبکہ دیگر مخلوقات کے ہاں نہ تو معاشی ماہرین ہیں، نہ وہ گزشتہ یا آئندہ کا کوئی بجٹ بناکے رکھتے ہیں۔ آخر رِزق کے حوالے سے بحیثیت مسلمان ہمارا کم از کم عقیدہ تو صحیح ہونا چاہئے، اور یہ ”انفاسِ قدسی“ تو ہر مسلمان تقریباً ہر جمعہ کے خطبے میں سنتا ہوگا کہ کوئی بھی نفس اس وقت تک ہرگز نہیں مرے گا جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ اپنا رزق پورا نہ کرلے۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ حلال وحرام کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے، وہ ”برکت“ کا فرق ہے۔ برکت کا مفہوم یہ ہے کہ: کوئی چیز اپنی قلّت کے باوجود افادیت ونفع بخشی میں زیادہ ثابت ہو۔ اس کی مثال یہی گائے، بکری، بھینس ہیں، اور دُوسری طرف کتیا، بلی وغیرہ ہیں۔ کتیا چھ چھ بچے، بسااوقات سال میں دو مرتبہ دیتی ہے، مگر ان کا وجود ریوڑ کی صورت میں موجود ہونے کی بجائے کہیں کہیں ایک آدھ نظر آتا ہے، کیونکہ اس کی بہتات برکت سے عاری ہے، جبکہ گائے، بھینس ایک ایک بچہ سال میں ایک مرتبہ دیتی ہیں، اور ہر دِن لاکھوں ہزاروں کی تعداد میں کٹتے ہیں اور ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں، اور کسی کو قلّت کی شکایت نہیں ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نظامِ رزّاقیت اور حلال کی برکت کا مظہر ہے۔ ہاں رزق میں برکت کو ختم کرنے والی چیز ”حرص“ ہے، ہمیں ”حرص“ سے اِجتناب کرنا چاہئے، اور ریاکاری سے اعمال کی رُوح ختم ہوجاتی ہے، اس لئے ریاکاری سے بھی اِحتراز کرنا چاہئے۔
پانچویں بات
آخری گزارش کے طور پر اِنتہائی معذرت کے ساتھ یہ عرض کرتا چلوں کہ میرے جیسے طالب علم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں سبزواری صاحب جیسے معمر بزرگ صحافی کو صحافت کے بارے میں کوئی مشورہ دُوں کہ وہ کالم کیسے لکھیں؟ اِبتدا واِنتہا میں ربط رکھیں، ہر قاری ان کی عمر اور دِماغ کا نہیں ہے، ان کے کالم میں حشو وزوائد کی بجائے معنویت ومقصدیت اور وہ بھی مرتب انداز میں ہونی چاہئے۔ مجھے یہ حق اس لئے نہیں کہ ان کی سنیارٹی اور شعبے سے وابستگی ان کے ہر ”طریق“ کو ”صحیح“ کہنے کا حق جتلائے گی، اور یہ بات معقول بھی ہے۔ کیونکہ سونے کے بارے میں سونار کی رائے کا اِعتبار ہوگا نہ کہ لوہار کی بات کا۔ میڈیکل کے بارے میں ڈاکٹر سے پوچھا جائے گا نہ کہ کمہار سے۔ انجینئرنگ کے بارے میں انجینئر ہی بتاسکتا ہے نہ کہ کسان وکاشت کار۔ اشیاء کی خاصیات کے بارے میں سائنس دان ہی رائے دے سکتا ہے نہ کہ چمار۔ اسی طرح ہم اپنے قلم کاروں، دانشوروں اور اس سے بڑھ کر میڈیا کے مالکان وذمہ داروں سے یہ گزارش کرنا دِینی فریضہ اور دِینی خیرخواہی سمجھتے ہیں کہ دین، دینی مسائل، شرعی اَحکام اور کتاب وسنت کے بارے میں عامیانہ گفتگو اور صحافیانہ تجزیات سے اِجتناب کیا جائے، اور اس سلسلے میں دین وشریعت کے ماہرین سے رُجوع کیا جائے، اور دین ودینی اَحکام کے بارے میں ماہرین، علمائے دین کی تفہیم، تعبیر اور تشریح کو قبول کیا جائے۔ عقل مندی اور ذمہ داری کا تقاضا یہی ہے۔
عیدالاضحی کے حوالے سے شعوری یا لاشعوری طور پر جو خلافِ شرع غیرذمہ دارانہ باتیں لکھنے، پڑھنے اور چھپوانے کی صورت میں سرزد ہوئی ہیں، ان پر سب کو توبہ واِستغفار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نوعیت کے مسائل میں صحافیانہ تجزیوں کی بجائے علماء کی طرف رُجوع کیا جائے، دین کے بارے میں دین کے ماہرین کی رائے ہی کو قبول کیا جائے۔ اس بارے میں بخل اور تنگ دِلی سے کام نہ لیا جائے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۲ھ - جنوری: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: قانون توہینِ رسالت کیا اور کب سے ہے؟
Flag Counter