Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ - ستمبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

7 - 10
تحریک پاکستان میں علماء کا روشن کردار اور آج !
تحریک پاکستان میں علماء کا روشن کردار اور آج

”سنو بھائی! مجھے بادشاہ کون کہتا ہے؟ میں تو فقیر ہوں۔ ایک تکیہ بنائے ہوئے اپنی اولاد کو لئے بیٹھا ہوں“۔
یہ بات آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر نے بے کسی کے عالم میں اس وقت کہی جب ان سے انگریز کے خلاف بغاوت کرنے والے سپاہیوں نے اپنی سرپرستی اور حمایت مانگی اور چاہی۔
۱۸۵۷ء برصغیر کی تاریخ کا وہ اہم سنگ میل ہے، جس نے اس خطے میں مسلمانوں کی ہشت صد سالہ منصف اور عادل حکومت کا آفتاب حسرتوں، مایوسیوں اور شکستہ دلی کے افق میں غروب ہوتے دیکھا۔ سردست امر یہ ہے کہ متحدہ بر صغیر دو مختلف المذہب، جداگانہ معاشرت وثقافت اور الگ الگ فکری ونظریاتی تشخص کی حامل قوموں کا باہم ملاپ اور میل جول دومتوازی خطوں اور لکیروں کی عدم یکجائی کی مانند ناممکن، غیر یقینی اور تصوراتی خواب وخیال سے زیادہ حیثیت نہ رکھتا تھا۔ دو قومی نظریہ کا یہ فرق ، تصادم اور ٹکراؤ اللہ والوں کی دیدہ ٴ بینا سے مخفی اور پوشیدہ ہر گز نہ تھا۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف ہندو مسلمانوں کے شانہ بشانہ شریک کارزار تھے، لیکن تحریک کی ناکامی پر ہندوؤں نے پینترا بدلا اور مسلمانوں کے درپے آزار ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ نے فرمایا:
”ہندوؤں کی قوم عالی حوصلہ نہیں، ان کے وعدے وعید کا اعتبار نہیں، غدر مسلمانوں اور ہندوؤں کے اتفاق سے ہوا تھا، مگر جب وقت آن پڑا تو حکومت کے سامنے ہاتھ جوڑکر کھڑے ہوگئے اور مخبریاں کراکر ہزاروں رئیسوں اور مسلمانوں کو نذر دار کروادیا۔انگریزوں سے اگر دشمنی کی بنا یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ہیں تو ہندو ان سے زیادہ مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں۔”مسلمانوں کی معاشی ترقی کا پہیہ روکنے اور جامد کرنے کے لئے انگریز سرکار نے ایسے قوانین نافذ العمل کئے جن سے تجارت ، زراعت اور مال گزاری جمع کرنے کے شعبوں میں مسلمانوں کا عمل دخل رک گیا۔ نتیجةً بنیئے کو معاشی ترقی ملی ، ہندوؤں کی جانب سے اسی پر اکتفاء نہیں کیا گیا، بلکہ مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی اقدار کو دیس نکالا دینے کے لئے سنیاسی، سنگھٹن اور شدھی جیسی متعصب، متشدد اور قوم پرستی کی مظہر تحریکیں بپاکی گئیں، جس سے مسلمانوں کے دلوں میں علیحدہ اسلامی اور فلاحی ریاست ومملکت کے وجود کی خواہش کو مہمیز ملی۔
اس موقع پر قومی شعور کی بیداری، عوامی جذبات کی ترجمانی اور مسلمانوں کے لئے الگ نظریاتی مملکت کے قیام کی طرف جن علمائے کرام نے تقریری وتحریری پیش رفت فرمائی، ان میں حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کا نام گرامی سرفہرست ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی بحالی میں عملی حصہ لیتے ہوئے دستوری معاملات کا شریعت کے مطابق فیصلہ کرانے کے لئے عدالتوں میں قاضیوں کے تقرر، پنجاب میں مسلمانوں کو شرعی وراثت کا حصہ دلوانے اور ۱۹۳۸ء میں حکومت کے ایماء پر بند کئے جانے والے مدارس کی بحالی ایسی تحریکوں میں بھر پور کردار ادا کیا۔ نیز قیام پاکستان کی جد وجہد کے لئے اپنے تلامذہ اور مسترشدین کی جماعت تیار فرمائی، جس نے آپ کے بعد آپ کی آرزو اور خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے حصول کی راہیں ہموار کرنے والی جماعت ”مسلم لیگ“ کے کار پرداز حضرات کی مذہب سے وابستگی اور دل بستگی کا معیار وہ نہیں تھا جو کسی درجہ میں ہونا ضروری اور لابدی تھا، چنانچہ اراکین مسلم لیگ کی دینی، مذہبی اور اصلاحی تربیت وتبلیغ کے پیش نظر مولانا تھانوی قدس سرہ نے تبلیغی وفود روانہ فرمائے۔ سب سے پہلا وفد مولانا شبیر احمد عثمانی کی زیر قیادت ۴/ جون ۱۹۳۸ء کو بمبئی میں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے موقع پر ترتیب دیا گیا۔ (بعد میں کسی عذر کی بنا پر یہ نمائندہ وفد شریک اجلاس نہ ہوسکا)۔ برموقع آداب تکلم کے جن امور کی جانب حضرت نے توجہ دلائی، اس سے قائدین لیگ کے ساتھ حضرت کا خلوص، نیک نیتی اور ہمدردانہ پہلو نمایاں اور واضح ہے۔ وفد کے جمیع ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ”جناح صاحب سے جو باتیں کرنی ہیں وہ میں نے لکھ کر مولانا شبیر احمد عثمانی کو دیدی ہیں۔ گفتگو میں اس بات کا لحاظ رکھنا کہ گفتگو نرم ہو، اختلافی مسائل درمیان میں نہ آئیں۔ اگر مخالف اختلافی مسائل درمیان میں لانا چاہے تو بہ لطائف الحیل اس سے گریز کرنا اور دوسری گفتگو شروع کردینا، اگر مخالف کے کسی عمل سے تنقید کرنا ہو تو وہ تنقید نہ ہو، بلکہ ہمدردانہ اور تبلیغی ہو، الفاظ بھی نرم ہوں جواب ایسا دینا چاہئے کہ مخاطب سمجھ سکے۔
تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے دیگر سرکردہ علماء کرام میں مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع نور اللہ مرقدہم کے اسماء بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یہ حضرات حضرت تھانوی کے صحبت وتربیت یافتہ اور ہم نوا تھے۔ استقلال وطن کی تحریک میں اثر پیدا کرنے کے لئے اور علماء کی تنظیم کو مزید بہتر بنانے کے لئے ۱۹۴۵ء میں علماء کے ایک بڑے اجتماع میں جمعیة علماء اسلام کا قیام زیر عمل لایا گیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اس کے پہلے صدر منتخب کئے گئے۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت صوبہ سرحد اور مشرق میں سلہٹ کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے یہ شرط عائد کردی گئی تھی کہ ان علاقوں کے باشندگان اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ سکتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ سرحد میں کانگریس کا ڈنگہ بج رہا تھا جبکہ سلہٹ میں ہندوؤں کی بڑی جمعیت سکونت پذیر تھی، ان حالات کے تناظر میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کی فرمائش پر مسلسل اسفار کرکے رائے عامہ ہموار ، دوقومی نظریہ پر مدلل اظہار خیال اور مسلم لیگ کے موقف کی پر شکوہ وضاحت کرنے پر اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔
دوسری جانب دستور ساز اسمبلی کے ایک ضمنی انتخاب میں نوابزادہ لیاقت علی خان لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوئے، ان کے مقابلہ پر کانگریس کی طرف سے مولانا ظفر احمد عثمانی کے ایک عزیز سرگرم عمل تھے، اس موقع پر مولانا نے اصولوں کو ترجیح دی اور ”استصواب رائے عامہ“ کے وزن سے لیگ کے پلڑے کو جھکا دیا، جس پر قائد ملت نے شکریہ کا پیغام بھیجا ،جس کا تذکرہ آگے چل کر آئے گا۔ ”مطالبہ ٴ پاکستان“ کو قرآن وحدیث اور عبارات فقہیہ سے مزین ومبرہن کرکے ایک مفصل ومدلل فتویٰ کی صورت پیش کرنے کا سہرا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کے سرجاتا ہے، آپ کے اس فتویٰ نے (جس کا عنوان ”کانگریس اور مسلم لیگ کے متعلق شرعی فیصلہ“تھا) حصول وطن کی سرگرم تحریک میں فیصلہ کن اور موثر کردار ادا کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے نتیجہ خیز کاوشیں اور کوششیں سرانجام دیں۔
ان علماء ربانیین کی تگ وتاز کا روشن پہلو ۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء کو قیام پاکستان پر ہی ختم نہیں ہوا۔ جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے مارچ ۱۹۴۹ء میں ”قرار داد مقاصد“ کے عنوان سے ایک قرار داد منظور کی تو مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے باہمت رفقائے کار نے اسلام کی بنیادی تعلیمات ، اساسی احکامات اور اہم جزئیات کو آئین کا حصہ بنانے میں پر جوش وپر خلوص انداز میں حصہ لیا۔ بقول ڈاکٹر معین الدین عقیل: ”وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اس قرار داد منظوری کو حصول آزادی کے بعد اس ملک کی زندگی کا اہم ترین واقعہ قرار دیا“۔
یہی وجہ ہے ”بانیان پاکستان“ بھی استخلاص وطن کی تحریک میں ان ”درویشان خدامست“ کی تائید وتسوید، کردار وعمل اور درددل کی آمیزیش کے کھل کر معترف وقدردان ہوئے۔ جس کا اظہار مشرقی ومغربی پاکستان میں قائد اعظم کی منشا پر پرچم کشائی کا عمل ان حضرات کے بابرکت ہاتھوں انجام پایا۔ مولانا ظفر احمد عثمانی نے ۱۹۴۵ء کے لیاقت کاظمی الیکشن میں جو کردار ادا کیا، اس پر تشکر وامتنان کے جذبات سے لبریز نوابزادہ لیاقت علی خان کا یہ خط ملاحظہ ہو : ”میں انتہائی مصروفیتوں کے باعث اس سے قبل آپ کو خط نہ لکھ سکا۔ مرکزی اسمبلی کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی کامیابی عطا کی ہے۔ اس سلسلے میں آپ جیسی ہستیوں کی جد وجہد بہت باعث برکت ثابت ہوئی۔ آپ حضرات کا اس موقع پر گوشہ ٴ عزلت سے نکل کر میدان عمل میں آنا اور اس سرگرمی سے جد وجہد کرنا بہت موثر ثابت ہوا۔ اس کامیابی پر میں آپ کو مبارک باد دیتاہوں، خصوصا حلقہ انتخاب سے جہاں ہماری جماعت نے مجھے کھڑا کیا تھا۔ آپ کی تحریروں اور تقریروں نے باطل کے اثرات بڑی حد تک ختم کردیئے ہیں… اور آپ کی تحریریں، تقریریں اور مجاہدانہ سرگرمیاں آنے والی منزل کی دشواریوں کو بھی معتدبہ حد تک ختم کردیں گی“۔
آج آزادی کے چھ عشرے بعد وطن عزیز ایک ایسا سفینہ بن چکا ہے جس کے سفر کی سمت ہی معلوم نہیں، بادبانوں کی حالت زار سے لے کر کھیون ہاروں اور مسافروں کی دنیا تک الگ الگ ہے۔ خلق خدا انتشار ذہنی، اضطراب قلبی، معاشی ابتری اور نظریاتی پراگندگی کا شکار ہوچکی ہے۔ قحط ، تنگدستی، خود کشی، بے روزگاری اور ملک کی داخلہ وخارجہ پالیسی کی کمزوری کا عفریت پوری طرح قوم پہ سایہ ٴ فگن ہوچکا ہے۔ ایسے میں خلوص صداقت کی راہوں میں سچائی، تقویٰ، ایمان اور نیک نیتی کی مشعل تھامنے والے انہی ”قافلہ ٴ رفتگاں“ کے جانشین ونائبین ہیں ،جن کی محنتوں کے لہو سے اس گلستان کو سینچا گیا۔ جو ”نظریہ ٴپاکستان“ کی حفاظت وصیانت اور دعوت واشاعت کا مشن نامساعد حالات کے باوصف پوری تندہی، جانفشانی اور جذبہ ٴ حب الوطنی کے ساتھ ادا کررہے ہیں۔ جس کا حالیہ ثبوت وہ پندرہ نکاتی قرار داد ہے جسے جامعہ اشرفیہ لاہور میں منعقد ہونے والے ملک بھر کے علماء ومشائخ کے نمائندہ اجلاس میں پیش کیا گیا۔ جس کا لفظ لفظ دلیل ہے اس بات کی کہ علماء عظام ملک کو پیش آمدہ مسائل سے پورے طور پر آگاہ وباخبر ہیں اور اپنے حصے کا کام بحسن وخوبی نبھا رہے ہیں۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۱ھ - ستمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: امریکی یہودی لابی کا آزادی اظہار کے منہ پر طمانچہ !
Flag Counter