Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ - ستمبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

5 - 10
رمضان اور ذخیرہ اندوزی !
رمضان اور ذخیرہ اندوزی

الحمد للہ! رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہے، اللہ تعالیٰ ماہِ رمضان کی برکات امت مسلمہ کو نصیب فرمائیں، اسلام کے بنیادی پانچ ارکان ہیں، ان میں سے روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے، اس اہم رکن کی شریعتِ اسلامیہ میں بہت تاکید ہے، روزہ کا انکار کرنے والا کافر اور اس کا تارک، فاسق گناہ گار ہوتا ہے۔چنانچہ روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم ا نے فرمایا کہ:
”جب ماہِ رمضان شروع ہوتا ہے، تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، نیز شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔“ (مشکوٰة)
اس ماہِ مقدس کے شروع ہوتے ہی باری تعالیٰ کی پے در پے رحمت کا نزول شروع ہوجاتا ہے اور بندوں کے اعمال بغیر کسی مانع اور رکاوٹ کے صعود کرتے ہیں اور بندہ جو دعا مانگتا ہے، بارگاہ الوہیت میں شرفِ قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔اور روزہ دار ایسے کاموں سے بچتا رہے جو دوزخ میں داخل ہونے کا باعث ہوتے ہیں۔
بعض علماء کرام نے اس اہم ترین اور باعظمت رکن کے بے انتہاء فضائل دیکھ کر ا سکو نماز جیسی عظیم الشان عبادت پر ترجیح اور فضیلت دی ہے، اگرچہ یہ صرف بعض ہی علماء کا قول ہے جبکہ اکثر علماء کا مسلک یہی ہے کہ نماز تمام اعمال سے افضل ہے اور اسے روزے پر بھی ترجیح حاصل ہے مگر یہاں بتانا تو صرف یہی ہے کہ جب اس بات میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ نماز افضل ہے یا روزہ تو اب ظاہر ہے کہ نماز کے علاوہ اور کوئی بھی دوسرا رکن روزے کی ہمسری نہیں کرسکتا،چنانچہ ماہِ رمضان کی عظمت اور فضیلت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس مہینے اور قرآن کریم کے درمیان بڑا ربط وتعلق ہے، اس لئے کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم کو اسی مہینے میں نازل کیا ہے، جس کا تذکرہ خود قرآن کریم میں موجود ہے فرمایا:
”شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن“ ۔ (البقرہ:۱۸۵)
اس سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا چاہئے۔ رمضان المبارک ایسا باعظمت وباسعادت مہینہ ہے کہ اس کی پہلی رات شروع ہوتے ہی شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ روزہ داروں کو نہ بہکائیں اور ان کے دلوں میں وسوسوں اور گندے خیالات کا بیج نہ بوئیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ماہِ رمضان میں اکثر گناہ گار گناہوں سے بچتے ہیں اور اعمال صالحہ ، عبادت، تلاوت ذکر واذکار میں مشغول ہوکر اللہ رب العزت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ہر ایسے کام کو اختیار کرتے ہیں کہ جو اللہ رب العزت کی خوشنودی کا باعث ہو اور ہر ایسے کام سے گریز کرتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہو۔
مگر ایسے بعض ایسے محروم القسمت بھی ہوتے ہیں جو اس ماہِ مبارک میں بھی گناہ ومعصیت سے باز نہیں آتے ۔
ابھی چند برسوں سے ہمارے معاشرے میں اشیاء خورد ونوش کی ذخیرہ اندوزی کی صورت میں ایک نئے گناہ نے جنم لیا ہے اور اس گناہ کو ماہِ رمضان کے ساتھ ہی خاص کردیا ہے، جسے کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتے جب بھی ماہِ رمضان آتا ہے تو اس کے شروع ہونے سے قبل یوٹیلٹی سٹورز اور بازاروں سے انسانوں کی غذائی چیز یں غائب کردی جاتی ہیں اور یہ صرف اس مقصد کے لئے ہوتا ہے تاکہ ماہِ رمضان میں غریب عوام کو تکلیف میں مبتلا کرکے ان کو مہنگے داموں میں فروخت کریں۔
یاد رکھئے کہ مخلوقِ خدا کو مہنگائی اور گرانی کے اس دور میں گراں فروشی کی غرض سے اشیاء خورد ونوش کی ذخیرہ اندوزی کرکے تکلیف اور قحط میں مبتلا کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ شریعت نے اس کی مذمت بیان کی ہے اور اس قابل ِ نفرت فعل میں مبتلا ہونے والا شخص شریعت کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔چنانچہ حضرت معمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ#
” جو شخص احتکار (اشیاء خورد ونوش کی ذخیرہ اندوزی) کرے تو وہ گنہگار ہے“۔ (مشکوٰة)
اسی طرح حضرت عمرفاروق سے روایت ہے کہ نبی اکرم ا نے فرمایا کہ:
” تاجر کو رزق دیا جاتا ہے اور احتکار کرنے والا ملعون ہے“۔ (مشکوٰة)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشخص کہیں باہر سے شہر میں غلہ وغیرہ لاتا ہے کہ اسے موجودہ اور رائج نرخ پر فروخت کرے اور گراں فروشی کی نیت سے اس کی ذخیرہ اندوزی نہ کرے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے اور اس کے رزق میں برکت عطا کی جاتی ہے، لیکن اس کے برخلاف مخلوق خدا کی پریشانیوں اور غذائی قلت سے فائدہ اٹھاکر غلہ وغیرہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والا گناہ گار ہے اور خیر وبھلائی سے دور رہتا ہے۔ جب تک وہ اس لعنت میں مبتلا رہتا ہے اس کو برکت حاصل نہیں ہوتی۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ا نے فرمایا : جو شخص غلہ روک کر گراں نرخ پر مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جذام وافلاس میں مبتلا کردیتا ہے۔ (مشکوٰة)
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص مخلوقِ خدا کو خاص طور پر مسلمانوں کو تکلیف ونقصان میں ڈالتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے جسمانی ومالی بلاؤں میں مبتلا کرتا ہے اور جوشخص انہیں نفع وفائدہ پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم اور مال میں خیر وبرکت عطا فرماتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگ ایسے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو لاعلاج ثابت ہوتے ہیں لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں، ہسپتالوں کے چکر کاٹتے ہیں، ہر ڈاکٹر کی دوا آزما لیتے ہیں مگر کوئی چیز کار آمد نہیں ہوتی۔چنانچہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ کو روکے رکھا تو گویا وہ خدا سے بیزار ہوا اور خدا اس سے بیزار ہوا۔ (مشکوٰة)
خدا سے بیزار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا وہ عہد توڑ ڈالا جو اس نے احکام شریعت کی بجا آوری اور مخلوقِ خدا کے ساتھ ہمدردی وشفقت کے سلسلہ میں باندھا ہے اور خدا اس سے بیزار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس بدترین عمل کے ذریعہ مخلوق خدا کی پریشانی وتکلیف کا سامان کیا تو خدانے اس پر سے اپنی حفاظت اٹھالی اور اس کو اپنی نظر کرم سے دور کردیتا ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ماہِ رمضان میں ایسے کام اختیار کئے جائیں جس سے اللہ رب العزت کی رضا مندی حاصل ہو، ماہِ رمضان بڑا مبارک اور نیکیوں کا مہینہ ہے، ایک مسلمان ہونے کے ناطے رمضان میں عوام الناس کے ساتھ ترحم اور ہمدردی کا معاملہ کرنا چاہئے اور ماہِ رمضان میں گرانی کے اس زمانے میں غذائی اشیاء کو سستے داموں مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرنا باعثِ اجر وثواب بھی ہے اور حصولِ برکت کا ذریعہ بھی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں غرباء ومساکین کا بھی خیال رکھنا چاہئے، اگر ذخیرہ اندوزی کی صورت برقرار رہی توغریب عوام کا کیا بنے گا اور ایسے میں رمضان کی برکات کہاں حاصل ہوں گی۔ لہذا تاجروں کو چاہئے کہ دل کھول کر کم از کم رمضان المبارک میں خورد ونوش کی اشیاء سستے داموں میں فروخت کریں، تاکہ اس مقدس مہینے میں مالدار اور غریب دونوں یکساں رہیں۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۱ھ - ستمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: القصیدة المحمدیة
Flag Counter