Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۱ھ - مارچ ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

9 - 11
علماء وطلباء کے خلاف خطرناک سازش !
علماء وطلباء کے خلاف خطرناک سازش

یہ زمانہ ڈپلومیسی اور چالبازی کا ہے، جس مخالف اور بزعمِ خود دشمن طبقہ اور اس کے مراکز کے خلاف جنگ کرنی ہوتی ہے، میدانِ حرب وضرب اور جبر واستبداد میں ”گرم جنگ،، لڑنے سے برسوں پہلے میدانِ صحافت میں ”سرد جنگ،، لڑی جاتی ہے یعنی پہلے اس کے خلاف اخبارات ورسائل میں مضامین ومقالات شائع ہوتے ہیں، تاکہ زمین یعنی ”رائے عامہ،، کو اس کے خلاف ہموار کرلیا جائے، اس کے بعدحکومت کی ”کنٹرولنگ مشینری،، حرکت میں آتی ہے اور ابتداءً صرف حکومت سے رکگنیشن یعنی الحاق کی دعوت دی جاتی ہے، ساتھ ساتھ ”ایڈ،، (مالی امداد) کا لقمہ ٴ چرب وشیریں اربابِ مراکز ومدارس کے منتظمین کے سامنے ڈالا جاتا ہے، اگر یہ حربہ کامیاب نہیں ہوتا تو پھر قانون کے ذریعہ رکگنیشن (الحاق) پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کے بعد نصاب اور درسی کتابوں میں کتربیونت کی جاتی ہے، قدیم علوم کی ٹھوس قابلیت پیدا کرنے والی کتابیں نکال کر ان کی جگہ عصری علوم وفنون کی کتابیں لائی جاتی ہیں، اس طرح دینی علوم کی جان تو نکال ہی لی جاتی ہے، اسی کے ساتھ ان ملحقہ مدارس کی سندوں کو وزارتِ تعلیمات سے منظور کرادیا جاتا ہے اور سرکاری ، نیم سرکاری، تعلیمی اور غیر تعلیمی اداروں میں ملازمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، یہ طلبہ کے لئے لقمہ ٴ چرب وشیریں ڈالا جاتا ہے اور پورے ملک سے ماہرین ِ علوم ِ دینیہ کو کھینچ لینے اور آزاد عربی مدارس کو ویران کردینے کی غرض سے ان نیم سرکاری یا سرکاری درس گاہوں میں کام کرنے والے ماہرین ومحققین علومِ دینیہ کے لئے گراں قدر مشاہروں والاؤنسز کے اعلان کئے جاتے ہیں، ان کی سالانہ ترقی اور آخری تنخواہ کے ”منہ میں پانی بھر لانے والے،، گریڈ مقرر کئے جاتے ہیں، یہ آزمودہ کار علماء ومحققین کے زبان وقلم کو حکومت کے خلاف بولنے اور لکھنے سے باز رکھنے کے لئے ”طلائی زنجیریں،، تیار کی جاتی ہیں، ان تدبیروں کے بعد بھی جو دین کو دنیا پر ترجیح دینے پر ایمان رکھنے والے علماء حق اور آزاد مدارس دینیہ عربیہ کے اساتذہ اور مبلغین وواعظین وخطباء اس ”دام ہمرنگ زمین،، میں گرفتار ہوکر اپنی کلمہ ٴ حق کہنے کی آزادی قربان کرنا نہیں چاہتے، ان کے خلاف حکومت کا قانون حرکت میں آتا ہے، اول ان کی قدر کفاف روزی پر حملہ کیا جاتا ہے اور ڈپٹی کمشنر کی منظوری کے بغیر پبلک سے چندہ وصول کرنا قانوناَ ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے، پھر ان کے گوشہٴ عافیت پر یورش ہوتی ہے اور محکمہ ٴ اوقاف کے ذریعہ یادگار ”صفہ ٴ مسجد نبوی،، علی صاحبہ الصلوٰة والسلام یعنی مدارس عربیہ اور مکاتب ِ دینیہ کی عمارتوں پر قبضہ کرکے انہیں خانماں برباد کردیا جاتا ہے، خدا کے گھروں یعنی مسجدوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور محکمہ ٴ اوقاف کے ذریعہ غیر سند یافتہ مؤذنین، ائمہ اور خطباء کے لئے مسجدوں کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اوقاف کی قائم کردہ منتظمہ کمیٹی کے سیکریٹری سے اعلان کرا دیا جاتا ہے کہ سیکریٹری کی اجازت کے بغیر کوئی بھی عالم دین مسجد میں وعظ نہیں کہہ سکتا، پبلک جلسوں میں علماء کو کلمہ ٴ حق کہنے سے روکنے کے لئے دفعہ ۱۴۴ لگادی جاتی ہے، ان علماء ومبلغین وواعظین کو جن سے حکومت کے خلاف بولنے کا خطرہ ہوتا ہے کسی خاص علاقہ میں ”ان کی بستی میں،، یا ”گھروں میں،، قانون تحفظ امن عامہ کے تحت نظر بند کردیا جاتا ہے یا زبان بندی کردی جاتی ہے اور جن علماء حق کے ملک میں موجود ہونے کو ہی حکومت اپنے مفاد کے لئے مضر سمجھتی ہے ان کو جلاوطن کردیا جاتا ہے، تا ایں کہ علماء حق کے لئے قانون شکنی کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا اور وہ قانون شکنی پر آمادہ ہوجاتے ہیں، تب گرم جنگ شروع ہوتی ہے اور جیلوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اگر جیلوں کی وحشیانہ اور ننگِ انسانیت ایذا رسانیاں بھی ان کو حق بات کہنے سے نہیں روک سکتیں تو حکومتیں ان کو سولی پر چڑھا دینے میں بھی دریغ نہیں کرتیں اور علماء حق امام مالک ، امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ کی سنت کو بے دریغ زندہ کرتے ہیں اور قید وبند کی تمام تر سختیوں بلکہ موت فی سبیل اللہ کو بھی لبیک کہتے ہیں۔
یہ ہوتے ہیں علماء حق پیدا کرنے والی علوم دینیہ کی درسگاہوں اور علماء حق کے بابرکت وجود کو کسی روئے زمین سے مٹانے کے دہ سالہ اور پنج سالہ منصوبے اور ان کے مختلف مرحلے۔ سادہ لوح عوام ان سے قطعاَ نا واقف ہیں مگر علماء حق ان سے خوب اچھی طرح واقف ہیں اور اعلاء کلمة اللہ کی راہ میں ہر مزاحمت کا مقابلہ کرنے اور ہرظلم وجور کو سہنے اور ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں مگر کسی مرحلہ پر بھی علوم دینیہ کی حفاظت کا فرض انجام دینے اور حکومت کے اثر سے آزاد دینی خدمت انجام دینے کی سعادت سے کسی قیمت پر بھی دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں، وماتوفیقنا الا باللّٰہ ہو مولانا نعم المولیٰ ونعم النصیر۔
یہی وہ ہتھکنڈے ہیں جس کے ذریعہ موجودہ عہد میں تمام اسلامی ملکوں کی حکومتوں نے آزاد علوم عربیہ دینیہ کی درسگاہوں اور مکتبوں کو علوم آخرت اور علوم انبیاء سے یکسر خالی کیا ہے۔ انہی اسلامی ملکوں کا نام مدارس عربیہ کے خلاف حالیہ سرد جنگ میں بار بار لیا جارہا ہے۔آج یہ تمام اسلامی ممالک علوم کتاب وسنت یعنی علم تفسیر واصول تفسیر، علم حدیث واصول حدیث، علم فقہ واصول فقہ اور ان کے معاون علوم کی ٹھوس اور باضابطہ تعلیم اور درس وتدریس سے یکسر محروم اور خالی ہوچکے ہیں، اس وقت برصغیر پاکستان وہندوستان کے سوا اور کسی ملک میں حکومتوں کے اثر سے آزاد علوم دینیہ کی درسگاہوں اور دینی مکتبوں کا وجود باقی نہیں رہا ہے اور صرف انہی دونوں ملکوں میں مذکورہ بالا علوم کتاب وسنت کی باضابطہ درس وتدریس اور تحفیظ وتجوید کلام اللہ کے سلسلے جاری ہیں اور اس آخیر زمانہ کے حسبِ حال علماء وحفاظ ومجودین قرآن، واعظین ومبلغین انہی دو ملکوں میں ان درسگاہوں سے فارغ ہوکر نکل رہے ہیں،اور مختلف دینی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کی مساعی کی بدولت دینی روح جس درجہ میں بھی ہے، زندہ ہے اور ان دونوں ملکوں کے مسلمانوں کا مزاج بہرحال دینی ہے۔ جو لوگ عہدِ حاضر کے ممالک ِ اسلامیہ کی درسگاہوں کو قریب سے دیکھ چکے ہیں یا ان کی اصلیت سے باخبر ہیں وہ ہمارے اس بیان کی تصدیق وتائید کریں گے، نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ علوم شرعیہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شیخ التفسیر، شیخ الحدیث اور شیخ الفقہ جیسے خالص دینی منصبوں پر تقرر کی پہلی اور لازمی شرط یہ ہے کہ امیدوار عالم دین حقیقی معنی میں ہو یا نہ ہو مگر امریکن یا یورپین ممالک کی کسی یونیورسٹی سے اس نے پی ایچ ڈی ضرور کیا ہو یعنی ”یورپ رٹرن،، اور مغرب زدہ ہو، یہودیوں اور نصرانیوں کا تریاق نما زہر جو اسلامی روح کے لئے سمِ قاتل ہے، اس نے چار سال تک ضرور پیا ہو۔
اس لئے اب علوم دینیہ عربیہ اور علمائے دین پیدا کرنے والی عربی درس گاہوں کی حفاظت ان ملکوں کے علمائے حق پر فرض کفایہ نہیں رہی، بلکہ فرض عین ہوگئی ہے۔
اگر فی الحقیقت حکومت کی نیت نیک ہے اور وہ واقعی ان مدارس عربیہ کے فارغ التحصیل طلبہ کو عصری علوم، عالمی حالاتِ حاضرہ اور انگریزی زبان سے واقف بناکر ان کو دینی خدمات انجام دینے کے لئے زیادہ کار آمد اور ان کی اسلامی دینی خدمات کو زیادہ مؤثر اور دور رس بنانا چاہتی ہے تو جیساکہ اس کو اب سے تین سال پہلے وفاق المدارس العربیہ کی جانب سے مشورہ دیا جا چکا ہے۔ ان مدارس عربیہ اور مکاتب ِ دینیہ کو اور ان کے درسی نصابوں کو علی حالہ قائم رہنے دے، اور کام کرنے دے۔ ہاں ان کے فارغ التحصیل طلبہ کے لئے علماء حق کے مشورہ سے صرف علوم عصریہ اور انگریزی زبان کا ایک چہار سالہ نصاب الگ تجویز کرے اور اس کے لئے دو تین مستقل درسگاہیں مرکزی شہروں مثلاً: کراچی، لاہور ، راولپنڈی یا پشاور میں قائم کرے یا موجودہ بڑے بڑے مدرسوں میں ہی یہ ”چہار سالہ نصاب،، اپنے خرچ پر یا اگر ان مدارس کے فنڈ میں گنجائش ہو تو انہی کے خرچ پر قائم کرے اور صرف دینی خدمات کے مناصب کے لئے اس کی سند کو تسلیم کرے، دفتری ملازمتوں کے لئے نہیں ،تو ان علمائے کی دینی خدمات زیادہ مؤثر اور دوررس ہوسکیں گی اور قدیم علوم دینیہ کی باضابطہ اور ٹھوس تعلیم اور دینی تربیت کو نقصان پہنچائے بغیر یہ طلبہ عصری علوم، حالاتِ حاضرہ اور انگریزی زبان سے ناواقفیت کے نقص کو دور کرسکیں گے اور حقیقی معنی میں ”علوم عصریہ،، سے واقف علماء دین بن سکیں گے اور اندرونِ ملک وبیرون ملک دینی خدمات انجام دے سکیں گے۔
محکمہ ٴ اوقاف کا ترتیب کردہ قدیم علوم دینیہ اور جدید علوم عصریہ کا ”مخلوط نصاب،،۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر، جو اس وقت محکمئہ اوقاف کی درسگاہ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں رائج ہے، علوم دینیہ عربیہ کے لئے تو تباہ کن ہے ہی، علوم عصریہ اور حالات ِ حاضرہ کی کما حقہ واقفیت اور انگریزی زبان کی قابلیت پیدا کرنے میں بھی ناکام ہے، جن ناطرف دار لوگوں نے جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے نصاب اور اس کی تعلیم وتدریس کی تفصیلات ۔ کہ بخاری سال میں کتنی ہوتی ہے اور ہدایہ کتنا ہوتا ہے اور جلالین کتنی ہوتی ہے ۔ کوقریب سے دیکھا ہے وہ اس کے شاہد ہیں۔ وما علینا الا البلاغ۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الاول:۱۴۳۱ھ - مارچ: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: محبت رسول اایمان میں سے ہے !
Flag Counter