Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۱ھ - مارچ ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

7 - 11
حضرت شیخ الہند اور مطالعہ قرآن !
حضرت شیخ الہنداور مطالعہ قرآن

ترجمہ قرآن پاک کے لئے وسیع مطالعہ، محنت اور انہماک
خلاصہ کلام یہ کہ صحیح اور معتبر ترجمہ وتفسیر کے جتنے مبادی اور اسباب تھے، خداوند کریم نے حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ میں اس طرح مہیا کردیئے تھے کہ ان کا اجتماع عادةً نہایت ہی اقل ہوا کرتا ہے۔
مولانا رحمة اللہ علیہ نے ہر قسم کے کمالات میں جب مراحل کو طے کرلیا اور آخری حصہ عمر کو پہنچ گئے، یعنی جب کہ جملہ مبادی اور اسباب کو تکملہ ہوگیا، اس وقت قدرت نے مولانا رحمة اللہ علیہ سے یہ کام لیا۔
ابتدائی ترجمہ میں مولانا رحمة اللہ علیہ نے نہایت چھان بین اور کدووکاوش، کتب بینی، تحقیق وتدقیق سے کام لیا، موجودہ ہرقسم کے اردو ،فارسی تراجم بھی پاس ہوتے تھے، تفسیر کی متعدد کتابیں بھی ہر ہر آیت پر دیکھتے تھے، وقت کے گذرنے کا خیال نہ تھا، بلکہ حقیقت پر پہنچنے کا قصد ہوتا تھا۔ غور وخوض میں ادنیٰ تکاسل کو راہ نہ دیتے تھے،ہندوستان میں عرصہ دراز تک کام کرتے رہے، مگر ہجوم خلائق اور کثرت واردین واشغال نے جب تک تکمیل نہ ہونے دی تو قدرت نے مالٹا میں غالباً اسی کام کے لئے ڈال دیا، جہاں بالکل فرصت ہی فرصت تھی۔ مولانا رحمة اللہ علیہ نے وہاں نہایت فراغت کے ساتھ نہ صرف ترجمہ کو تمام ہی کیابلکہ مکرر نظر بھی ڈالی اور اصلاح فرماتے رہے۔ جس طرح مولانا رحمة اللہ علیہ کو بخاری شریف پڑھاتے پڑھاتے بخاری شریف کے تراجم ابواب اور احادیث کے متعلق خاص ملکہ ہوگیا تھا، اسی طرح اس مدت میں تفسیر آیات کے متعلق بھی نہایت عجیب اور کامل ومکمل ملکہ ہوگیا تھا، مگر افسوس کہ زمانے نے مہلت نہ دی، اگر فوائد کی تکمیل ہوجاتی تو خلائق کو بہت زیادہ انتفاع کی صورت حاصل ہوتی۔
مولانا رحمة اللہ علیہ اور ان کے اسلاف کرام خصوصاً حضرت مولانا نانوتوی اور مولانا گنگوہی قدس اللہ اسرارہما کو حضرت شاہ عبد القادر صاحب (ا) رحمة اللہ علیہ کے ترجمہ (موضح قرآن) پر بہت زیادہ اعتبار تھا اور حقیقت میں وہ ہے بھی تمام تراجم میں زیادہ تر قابل واعتماد۔حضرت شاہ صاحب مرحوم ومغفور ہرقسم کے ظاہری اور باطنی کمالات کے گلدستہ ہیں، اس لئے ان پر اعتماد ہونا ضروری ہے۔ مقدمہ میں مولانا رحمة اللہ علیہ نے کچھ ا س کا اظہار بھی فرمایا ہے اور زبانی جو کچھ فرمایا کرتے تھے اس کے لئے دفاتر کی ضرورت ہے۔ اس ترجمہ کو مولانا رحمة اللہ علیہ نے اپنا امام بنایا ہے اور حسب تغیر زمانہ محاورات کے متبدل ہوجانے کی وجہ سے کچھ تغیر دیا ہے، جس کی تفصیل اور حالت مقدمہ سے ظاہر ہوگی۔
ہم اس ترجمہ کوسہووخطا سے پاک نہیں سمجھتے
اس میں شک نہیں کہ بے عیب فقط ذات خداوندی ہے، انبیاء علیہم الصلاة والسلام ہی فقط معصوم ہیں، انسان خواہ کتنا ہی کامل کیوں نہ ہو عیوب سے منزہ، خطاؤں سے مطہر نہیں ہوسکتا، (اس لئے) ہم کسی طرح بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کا ترجمہ قطعی طریقہ پر ہرجگہ خطاؤں سے مبراہی ہے، مگر واقعہ یہ ہے کہ جو جو سامان اللہ تعالیٰ نے ترجمہ کی صحت اور تفسیر کی واقعیت کے مولانا رحمة اللہ علیہ میں جمع کردیے تھے اور جس اخلاص اور کوشش سے مولانا رحمة اللہ علیہ نے اس کو تحریر فرمایا ہے، ہم حلفیہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں تو درکنار پہلے زمانہ میں بھی عموماً یہ امور کہیں پائے نہیں گئے؟یوں تو انکار کرنے والے، عیب چینی کرنے والے جن کی قسمت میں ازلی محرومیت لکھی ہوتی ہے، وہ خدا اور رسول اور اس کی سچی کتاب کو بھی نہیں چھوڑتے، اس پر بھی طعنے کستے رہتے ہیں: یضل بہ کثیراً ویہدی بہ کثیراً الآیة، خود قرآن میں موجود ہے، مگر ہم نکتہ چینی والے حضرات سے یہ ضرور کہہ دینا چاہتے ہیں، کہ ذرا مقام ترجمہ کی تنگی اور مولانا کے لئے اسباب ووسائل کی فراہمی وغیرہ پر غور کرکے اعتراض اور نکتہ چینی کریں۔ والله یقول الحق وہو یہدی السبیل۔
مولانا مجید حسن کا شکریہ
مولانا مجید حسن صاحب شکر اللہ سعاہم نے اس ترجمہ کی تصحیح اور تحسین کتابت وطباعت وغیرہ میں جو عرق ریزی فرمائی ہے وہ بھی انہی کا حصہ تھا، خداوند کریم ان کو اس خدمت کتاب اللہ کا اجر جزیل دنیا اور آخرت میں عطا فرمائے۔ آمین۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح یہ ترجمہ واقع میں مکمل تھا ،اسی طرح اس کو ظاہری زیور بھی مولوی صاحب موصوف کی سعی بلیغ سے حاصل ہوا۔ اب ہم مولوی صاحب موصوف کی ثنا وصفت اور دعا کرتے ہوئے ناظرین سے سمع خراشی کی معافی مانگتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں۔
خداوند کریم ناظرین کو اپنی رحمت خاصہ سے نوازے اور کاتب وطابع اور جملہ سعی کرنے والوں کو دارین میں خوش وخرم رکھے، حضرت مولانا قدس اللہ سرہ العزیز اور حضرت شاہ عبد القادر صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کے لئے یہ ترجمہ بہترین باقیات صالحات ہو۔
حوالہ جات
۱- حضرت شاہ عبد القادر ،حضرت شاہ ولی اللہ کے چوتھے صاحبزادے ۱۱۶۷ھ (۵۴-۱۷۵۳ء) میں ولادت ہوئی اور تریسٹھ سال کی عمر میں رجب ۱۲۳۰ھ (جون ۱۸۱۵ء) میں وفات ہوئی-رحمہ اللہ تعالیٰ ہرچہ گویم بوصفش غیر کافی۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الاول:۱۴۳۱ھ - مارچ: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: صحیح بخاری کی حجیت پر اعتراضات کا علمی جائزہ !
Flag Counter