Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۱ھ - مارچ ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

3 - 11
اخلاق کی اہمیت وضرورت !
اخلاق کی اہمیت وضرورت

حضور اکرم ا کو اللہ تعالیٰ نے جہاں بہت سارے کمالات وامتیازات وصفات سے مالا مال فرمایا تھا‘ ان میں سے ایک بڑی صفت ”خلق عظیم“ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اخلاق کی تعریف بھی فرمائی‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وانک لعلیٰ خلق عظیم“۔ ( سورة القلم:۴)
ترجمہ:․․․․”اور بے شک آپ اخلاق (حسنہ) کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں“۔
جو شخص بھی آپ ا کے قریب ہوا ،وہ آپ کے اخلاق کو دیکھ کر مفتوح ہوکر رہ گیا۔
خلق کے لغوی معنی ہیں :عادت اور خصلت۔ اور حسن خلق سے مراد خوش اخلاقی‘ مروت‘ اچھا برتاؤ‘ اچھا رویہ اور اچھے اخلاق ہیں ۔
اخلاق کی دو قسمیں ہیں
۱:-عام اخلاق‘ ۲:-اعلیٰ اخلاق ۔
اخلاق کی معمولی قسم یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق جوابی اخلاق ہو کہ جو مجھ سے جیساکرے گا‘ میں اس کے ساتھ ویسا کروں گا۔ یہ اس کا اصول ہو‘ جو شخص اس سے کٹے وہ بھی اس سے کٹ جائے‘ جو شخص اس پر ظلم کرے وہ بھی اس پر ظلم کرنے لگے‘ جو شخص اس کے ساتھ برائی کرے وہ بھی اس کے لئے برا بن جائے‘ یہ عام اخلاق ہے۔
اس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویے کی پرواہ کئے بغیر اپنا رویہ متعین کرے۔ اس کا اخلاق اصولی ہو ،نہ کہ جوابی۔ اعلیٰ اخلاقیات اس کا ایک عام اصول ہو‘ جس کو وہ ہرجگہ برتے‘ خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ‘ وہ جوڑنے والا ہو ،حتی کہ اس کے ساتھ بھی جو اس سے براسلوک کرے‘ اور وہ نظر انداز کرنے والا ہو حتی کہ اس سے بھی جو اس پر ظلم کرتا ہو۔
حضرت حذیفہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا:
”تم لوگ امتعہ نہ بنو کہ یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور لوگ براکریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے‘ بلکہ اپنے آپ کو اس کا خوگر بناؤ کہ لوگ اچھا سلوک کریں تب بھی تم اچھا سلوک کرو اور لوگ براسلوک کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو۔ “ (مشکوٰة المصابیح)
اور فرمایا جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو‘ جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو اور جو تمہارے ساتھ براسلوک کرے تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
حضرت سعید ابن ہشام تابعی رحمة اللہ علیہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  سے پوچھا کہ رسول اللہ ا کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے جواب دیا:
”کان خلقہ القرآن“ یعنی آپ ا کا اخلاق تو قرآن تھا۔
گویا قرآن کی صورت میں مطلوب زندگی کا نقشہ آپ ا نے جو دوسروں کے سامنے پیش کیا‘ خود آپ ا اسی نقش میں ڈھل گئے۔
حضرت انس بن مالک  فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال تک آپ ا خدمت کی مگر کبھی آپ نے اف تک نہ کہا اور نہ کبھی میرے کسی کام کے بابت آپ نے کہا کہ تم نے اس کو کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہیں کیا اس کے بابت آپ نے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے اس کو کیوں نہیں کیا؟وہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔ (صحیحین)
حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ یہودی عالموں کی جماعت رسول اللہ ا کے پاس آئی‘ جب وہ لوگ آپ ا کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا:”السام علیکم“ (تباہی ہو تم پر) حضرت عائشہ  نے سنا تو ان سے برداشت نہ ہو سکا‘ انہوں نے کہا بلکہ تم لوگ غارت ہوجاؤ اور تم پر خدا کی لعنت ہو‘ آپ ا نے حضرت عائشہ کو اس قسم کے جواب سے منع فرمایا اور کہا: خدا مہربان ہے اوروہ ہر کام میں مہربانی کو پسند کرتا ہے۔
حقیقت بھی یہ ہے کہ مخالف کا دل جیتنے کے لئے اس سے بڑا کوئی حربہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی بدزبانی کا جواب نرم باتوں سے دیا جائے‘ کسی نے خوب کہا ہے:
” ہتھیار کے حملے کی تاب لانا تو ممکن ہے مگر کردار کے حملے کے مقابلے میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا“
یہاں ہرشخص کو اپنی ہار ماننی پڑتی ہے۔
اخلاق کی بلندی یہ ہے کہ کہنے والا جو کچھ کہے اس پر خود عمل کرتا ہو‘ کمزوروں کے ساتھ وہ رعایت وشرافت کا وہی طریقہ اختیار کرے جو کوئی شخص طاقتورکے ساتھ کرتا ہے‘ اپنے لئے جو اس کے پاس معیار ہو وہی معیار دوسروں کے لئے بھی ہو‘ مشکل حالات میں بھی وہ اپنے اصولوں سے نہ ہٹے‘ حتی کہ دوسروں کی طرف سے پریشان کرنے کے وقت یا کسی کی طرف سے پست کردار کا مظاہرہ ہو تب بھی وہ اعلیٰ کردار پر قائم ہے‘ رسول اللہ ا اس اعتبار سے اخلاق کے کمال درجہ پر تھے‘ آپ ا نے کبھی اعلیٰ اخلاق کو نہیں چھوڑا‘ کوئی مصلحت یا کوئی اختلاف یا ذاتیات آپ کو اخلاق سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
ایک بوڑھی عورت کا قصہ مشہور ہے وہ ہر روز آپ ا پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی‘ ایک دن حضور ا اس کے مکان کے پاس سے حسب معمول گزرے تو آپ ا پر کسی نے کوڑا نہ پھینکاتو آپ ا نے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ فلاں مائی خیریت سے تو ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو بیمار ہے‘ آپ ا یہ سنتے ہی صحابہ کو ساتھ لے کر اس بڑھیا کی تیمار داری کے لئے اس کے گھر چلے گئے‘ مائی نے دیکھا یہ وہی شخص ہے جس پر میں روزانہ کوڑا پھینکا کرتی تھی مگر وہ برا ماننے اور کچھ کہنے کے بجائے خاموشی اور شرافت سے برداشت کرکے چلاجاتا تھا اور آج وہی میری تیمارداری کے لئے آگیا ہے‘ یہ دیکھ کروہ بہت متأثر ہوئی اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ عام انسان نہیں‘ واقعی خدا کا پیغمبر ہے‘اسے اپنی غلطی کااحساس ہوگیا‘اس نے حضور ا سے معافی مانگی اور آپ پر ایمان لے آئی‘ گویا یہ آپ کے اخلاق کا اثر تھا‘ اسی طرح بے شمار واقعات ایسے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اخلاق انسان کی وہ صلاحیت ہے جس میں انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے اور اگر انسانیت میں سے اخلاق کی صفت نکال لی تو باقی صرف حیوانیت رہ جاتی ہے‘ اس لئے آپ ا نے ارشاد فرمایا:”اکمل المؤمنین ایمانا احسنہم اخلاقا“۔
امام بخاری نے ”ادب المفرد“ میں حضرت ام الدرداء  کی زبانی رحمت عالم ا کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ:
”میزان عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے بھاری نہ ہوگی“۔
حضرت معاذ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کو جب رسول اللہ ا نے یمن کا عامل بناکر بھیجا تو وصیت فرمائی کہ:
” لوگوں کے ساتھ آسانی کا برتاؤ کرنا اور سختی سے پیش نہ آنا اور ان کو خوشخبری سنانا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں متفق رہنا اور اختلاف نہ کرنا“۔(بخاری)
ایک حدیث میں آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ:
”قیامت کے روز مجھے سب سے زیادہ محبوب اور مجھ سے سب سے زیادہ قریب تر وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے۔“
دین اسلام میں اخلاق کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ ا جو دعا مانگتے تھے اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہوتا تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ
: ”مجھے بہترین اخلاق کی ہدایت فرما‘ بہترین اخلاق کی ہدایت نہیں کرسکتامگر تو‘ مجھ سے برائیاں دور رکھ ان برائیوں کو نہیں ہٹا تا مگر تو“۔
کبھی آپ ا یہ دعا مانگتے :
”اے اللہ جس طرح تونے مجھے خوبصورت پیدا فرمایا ہے اسی طرح مجھے خوبصورت اخلاق بھی عطا فرما“۔
آپ ا نے اخلاق حسنہ کے لئے اتنی دعائیں اور اتنی تاکید اس لئے فرمائی ہے کہ انسان اخلاق ہی سے بنتا ہے اور عمدہ سیرت سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے اور انسان کی پہچان بھی اخلاق سے ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے پیارے نبی ا والے اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی جملہ تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تو روح زمن‘ رنگ چمن ابربہاران
تو حسن سخن‘ شان ادب‘جان قصیدہ
تجھ ساکوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ
یا رب صل وسلم دائماً ابداً
علی حبیبک خیر الخلق کلہم
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الاول:۱۴۳۱ھ - مارچ: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: مسجد میں کرسیاں رکھنااور ان پر نماز پڑھنا !
Flag Counter