Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ - دسمبر ۲۰۰۹ء,

ہ رسالہ

6 - 12
یوم سیاہ اور مروجہ طریقہ ٴ سوگ اسلامی نقطہٴ نظر سے !
یوم سیاہ اور مروجہ طریقہ ٴ سوگ اسلامی نقطہٴ نظر سے

مغربی تہذیب کی تقلید اور اس سے مرعوبیت کے نتیجے میں مسلمانوں نے اپنی ناراضگی کے اظہار اور سوگ وماتم کے بعض ایسے طریقے اپنائے ہیں جو سراسر غیر اسلامی ہیں۔ مثلاً: یوم سیاہ منانا‘ تھوڑی دیر خاموش رہنا‘ جھنڈے سرنگوں کردینا‘ سیاہ پٹیاں باندھنا‘ تابوت کی تعزیہ کرنا اور ماتمی دھن بجانا وغیرہ اظہار غم وناراضگی کے یہ سب ہی طریقے ناجائز اور غیر شرعی ہیں ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر کسی کے غم میں غیر اختیاری یا فطری طور پر بے ساختہ آنسو نکل پڑیں تو صرف اس کی اجازت ہے‘ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :
”عن انس بن مالک قال: دخلنا مع رسول اللّٰہ ا علی ابی سیف القین وکان ظئراً لابراہیم فاخذ رسول اللہ ا ابراہیم فقبلہ وشمہ ثم دخلنا علیہ بعد ذلک وابراہیم یجود بنفسہ فجعلت عینا رسول اللّٰہ ا تذرفان فقال لہ عبد الرحمن بن عوف وانت یا رسول اللّٰہ ا ‘فقال یا ابن عوف انہا رحمة ثم اتبعہا باخری فقال ان العین تدمع والقلب یحزن ولانقول الا ما یرضی ربنا وانا بفراقک یا ابراہیم لمحزون“ ۔ (صحیح بخاری‘ ج:۱‘ ص:۱۷۴)
ترجمہ:․․․”حضرت انس فرماتے ہیں کہ ہم حضور ا کے ساتھ ابی سیف القین کے گھر داخل ہوئے جو (حضور ا کے فرزند ارجمند) ابراہیم کے مرضعہ کا گھر تھا (ظئر اس مرد کو بھی کہا جاتا ہے جس کی بیوی کسی بچے کو دودھ پلاتی ہو) حضورا نے ابراہیم کو اٹھا کر چوما اور سونگھا‘ پھر ہم وہاں داخل ہوئے‘ اس دوران ابراہیم کا روح پرواز کررہا تھا تو حضورا کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے‘ حضورا کو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ آپ ا بھی (روتے ہیں) یا رسول اللہ ؟ تو حضور ا نے فرمایا: اے ابن عوف! یہ رحمت ہے‘ پھر دوبارہ اسی طرح کیااور فرمایا: بے شک آنسو بہتے ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم نہیں کہتے مگر وہ جو اللہ کی رضا ہو‘ اور اے ابراہیم تیری جدائی کی وجہ سے ہم غمگین ہیں“۔
اسلام سے پہلے بھی سوگ وماتم کے کچھ ایسے طریقے مروج تھے‘ مثلاً: نوحہ اور گریہ وزاری کرنا‘ کپڑے پھاڑنا اور رونا پیٹنا وغیرہ‘ لیکن حضورا نے ان سب سے منع کرتے ہوئے فرمایا: جو سر کے بال منڈالے‘ چلا کے روئے اور کپڑے پھاڑ لے‘ میں اس سے بری ہوں ‘ جیساکہ بخاری شریف کی حدیث میں ہے:
”ان رسول اللّٰہ ا برئ من الصالقة والحالقة والشاقة “۔
(صحیح بخاری‘ ج:۱ ص:۱۷۳)
ترجمہ:․․․”حضورا نوحہ کرنے والے‘ گلا نوچنے والے اور گریبان چاک کرنے والوں سے بری ہے“۔
اور صرف یہ نہیں بلکہ ایک حدیث میں حضور ا کا ارشاد گرامی ہے :
”عن عبد اللہ بن مسعود  عن النبی ا قال: لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاہلیة“۔ (صحیح بخاری‘ ج:۱ ص:۱۷۳)
ترجمہ:․․․”حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور ا نے فرمایا: ہم میں سے نہیں ہے وہ شخص جس نے اپنا منہ پیٹا اور گریبان چاک کیا اور شور مچایا‘ مانند شور مچانے وقت جاہلیت کے“۔
فقہاء نے بھی اس کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے‘ چنانچہ عبد الرحمن الجزیری لکھتے ہیں کہ:
”یحرم البکاء علی المیت برفع الصوت والصیاح عند المالکیة والحنفیة‘ وقال الشافعیہ والحنابلہ انہ مباح‘ امام ہطل الدموع بدون صیاح فانہ مباح باتفاق‘ وکذلک لایجوز الندب وہو عد محاسن المیت نحو قولہ ”واجملاہ‘ واسنداہ“ ونحو ذلک“۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ ج:۱‘ ص:۴۵۱)
ترجمہ:․․․”مالکیہ اور احناف کے ہاں میت پر بلند آواز اور چیخ وپکار کے ساتھ رونا حرام ہے اور شافعیہ وحنابلہ نے اسے مباح قرار دیا ہے‘ ہاں بغیر چیخ کے آنسو نکلنا بالاتفاق مباح ہے اور اسی طرح ندب یعنی میت کے محاسن واجملاہ اور واسنداہ جیسے اقوال وغیرہ کے ذریعے بیان کرنا بھی ناجائز ہے“۔
لہذا حضور ا نے شوہر کے علاوہ کسی کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں دی‘ صرف بیوی کو چار ماہ دس دن (عدت گزارنے) کے لئے شوہر کا سوگ کرنے کی اجازت دی ہے۔
(جدید فقہی مسائل‘ ج:۱‘ص:۳۰۶)
فقہاء نے اس مقصد کے لئے سیاہ کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے‘ جس طرح کہ عالمگیری میں درج ہے:
”لایجوز صبغ الثیاب اسود او اکہب تاسفاً علی المیت‘ لایجوز تسوید الثیاب فی منزل المیت“۔ (عالمگیری‘ ج:۵‘ص:۳۳۳)
ترجمہ:․․․”میت پر ماتم کرتے ہوئے کپڑے کو سیاہ رنگ میں رنگنا جائز نہیں ہے‘ نہ یہ جائز ہے کہ میت کے گھر کے کپڑے سیاہ رنگ میں رنگ دیئے جائیں“۔
مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی تعزیہ اور دور جدید کے مرثیہ وغیرہ کے متعلق فرماتے ہیں:
”تابوت کی تعزیہ کرنا‘ اس پر فاتحہ پڑھنا‘ مرثیہ پڑھنا‘ مرثیہ بنانا‘ مرثیہ سننا اور فریاد ونوحہ کرنا‘ چھاتی پیٹنا اور گلا نوچنا یہ سب ناجائز ہیں (کتاب السراج سے خطیب کی روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں )
”لعن اللّٰہ من زار بلامزار ولعن اللّٰہ من زارر شبھا بلاروح “ ( فتاوی عزیزیہ‘ ص:۱۹۵)
یعنی لعنت کی اللہ تعالیٰ نے اس پر جس نے زیارت کی بلامزار کے اور لعنت کی اللہ تعالیٰ نے اس پر جس نے زیارت کی کسی جسم بے جان کی ۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ: مرثیہ وکتاب پڑھنا جس میں احوال واقعی نہ ہوں، ناجائز ہے اور ایسا ہی نوحہ کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے اور حدیث میں اس بارے میں وعید ہے۔ (فتاوی عزیزیہ‘ ص:۱۸۸)چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
”عن ابی سعید الخدری قال: لعن رسول اللہ ا النائحة والمستمعة“
(مشکوٰة المصابیح‘ ‘ ص:۱۵۱)
ترجمہ:․․․”حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ لعنت فرمائی حضورا نے نوحہ کرنے والی پر اور اس عورت پر جو نوحہ سنے“۔
لہذا مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ دور حاضر کے غیر شرعی اور رسمی ماتموں سمیت یوم سیاہ منانا‘ تھوڑی دیر خاموش رہنا‘ سیاہ پٹیاں باندھنا‘جھنڈے سرنگوں کردینا وغیرہ کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ دراصل مغربی تہذیب کی تقلید ہے جو مسلمانوں نے اپنائی ہیں‘ اگر کوئی مسلمان شریعت کے واضح احکامات کے باجود بھی ان غیر شرعی امور سے اجتناب نہیں کرتا تو پھر ایسے لوگوں پر حضورا کایہ فرمان بالکل صادق آتا ہے کہ: ”من تشبہ بقوم فہو منہم“ یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے‘ لہذا جو اغیار کی رسم اپناتا ہے‘ وہ اغیار ہی میں سے گنا جائے گا۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: اخلاق حسنہ کی اہمیت وعظمت !
Flag Counter