Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ - دسمبر ۲۰۰۹ء,

ہ رسالہ

11 - 12
پاکستان کے بحران کے باطنی اسباب !
پاکستان کے بحران کے باطنی اسباب

کچھ عرصہ سے ہماری یہ اسلامی مملکت شدید ترین بحران سے دو چار ہے، یہ بحران سیاسی بھی ہے اور اقتصادی بھی اور فوجی بھی، حق تعالیٰ کے تکوینی نظام کے کچھ اسباب بھی ہوا کرتے ہیں، یہ اسباب ظاہری بھی ہوتے ہیں اور باطنی بھی،ہمیں اس وقت ظاہری اسباب کے بارے میں کچھ کہنا نہیں،ان صفحات میں بارہا ان کی طرف اشارات وتنبیہات کرچکے ہیں اور وہ اتنے دقیق اور گہرے بھی نہیں ہیں کہ عوام کے فہم سے بالاتر ہوں، اس وقت تو باطنی اسباب یا اسرار قدرت کے بارے میں کچھ عرض کرنا مقصود ہے۔
گذشتہ ستمبر ۶۵ء میں لطیفہ ٴ غیبیہ کا جس طرح ظہور ہوا اور نصرتِ الٰہی اور غیبی برکات نے جس طرح اس ملک کو مالا مال اور دشمنانِ اسلام کی تدبیروں سے محفوظ فرمایا اور مغربی پاکستان پر ہندوستان کی یلغار کو اس طرح روکا اور ناکام بنایا کہ مسلمانوں میں حق تعالیٰ کی طرف رجوع اور انابت کی روح پیدا ہوگئی، دشمن کا رعب دلوں سے نکل گیا، پوری قوم چند لمحوں میں اپنے ناپسندیدہ اخلاق وکردار سے تائب ہوگئی، اخلاقی حالت میں تو عظیم الشان انقلاب آگیا، جرائم تقریباً ختم ہوگئے اور جرائم پیشہ افراد وطبقات تائب ہوگئے، مسجدیں نمازیوں سے آباد اور تلاوتِ قرآن سے گونجنے لگیں، گھروں میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور ختماتِ قرآن کے جلوے نظر آنے لگے، سنگ دل تاجروں کے دلوں میں بھی رقت پیدا ہوگئی۔ یہ افسانہ نہیں، واقعات ہیں۔ کل کی بات ہے، سب جانتے ہیں، مغربی پاکستان کی سالمیت کو اللہ تعالیٰ نے بدستور محفوظ وبرقرار رکھا، دشمنانِ اسلام کے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے منصوبے خاک میں مل گئے۔
حق تعالیٰ کے عظیم احسان کا قوم کو شکر ادا کرنا تھا لیکن جو کچھ ہوا، آپ کے سامنے ہے، عیاں راچہ بیان۔
چنانچہ اس کے چند ہی روز بعد اس سرعت سے معاشرے کی حالت بگڑنی شروع ہوئی اور اس حیرت انگیز انداز سے تمام فواحش ومنکرات نے ترقی کی کہ عقل انگشت بدنداں ہے،اس ناشکری اور ان معاصی اور گناہوں کے ناگزیر قدرتی اثرات رونما ہوئے، تمام ملک ان کی لپیٹ میں آگیا، جس طرح زہر کھانے سے موت آتی ہے اور جمال گوٹا کھانے سے دست آتے ہیں، ٹھیک اسی طرح ہر معصیت اور گناہ کی ایک تاثیر ہوتی ہے، اس کا ظاہر ہونا ناگزیر ہے۔
ہمارے ملک میں جو مہلک بیماریاں اس وقت روز بروز ابھر رہی اور پیدا ہورہی ہیں، ملک کے عوام وخواص سب ہی شدید معاشی، اقتصادی اور سیاسی اضطراب میں مبتلا ہیں، محکوم وحاکم دونوں ناقابلِ برداشت حد تک پریشان ہیں، قلوب میں سکون واطمینان کلی طور پر مفقود ہوگیا ہے، دشمنوں کا رعب اور دباؤ حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے، ان کی چیرہ دستیوں سے زبردستی چشم پوشی کررہے ہیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے خطرات خطرناک صورت میں پیدا ہوگئے ہیں اور دوبارہ پاکستان کی سالمیت مخدوش ہورہی ہے، ان سب خرابیوں اور امراض کے کچھ باطنی اسباب ہیں، ہمارے معاشرے میں جو خرابیاں ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہیں وہ یہ ہیں: سود ہے ، رشوت ہے، شراب نوشی ہے، زنا ہے، قتل ہے، بے محاباغارتگری اور چوری ہے، بے پردگی اور عریانی ہے، ان مفاسد اور جرائم کی اتنی کثرت ہوگئی ہے کہ عقل حیران ہے، سود نے تمام معاشرے کو مفلوج کردیا ہے، اس معصیت کو نہ چھوڑنے پر حق تعالیٰ کی طرف سے صریح اعلانِ جنگ ہے، فرمایا ہے:
”فان لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللّٰہ ورسولہ،،۔ (البقرہ:۲۷۹)
ترجمہ:”اگر تم بقیہ سود نہیں چھوڑوگے تو اللہ اور اس کے رسول کا اعلان ِ جنگ سن لو۔ العیاذ باللہ،،۔
رشوت کے لئے بارگاہِ نبوت سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو رشوت لینے اور دینے والے پر۔شراب کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو شراب پیئے یا پلائے یا جولائے اور جس کے لئے خریدے اور جو فروخت کرے اور جو تیار کرے وغیرہ وغیرہ اور اتنی وعیدیں آئی ہیں کہ سنگدل لوگوں کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، حدیث شریف میں صاف اور صریح الفاظ میں آیا ہے:
”علانیہ سود خوری اور زنا کاری پر دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے،،۔
الغرض بے شمار گناہ اور جرائم ہیں کہ روز بروز دن دونی رات چوگنی ان کی کثرت ہوتی جارہی ہے، حکومت ہے کہ شراب اور زنا کے لائسنس دے رہی ہے، حرام بچوں کی شرح پیداوار بھی روز افزوں ترقی پر ہے، ماہِ رمضان المبارک میں ہوٹل کھلے رہتے ہیں، علی الاعلان قانونِ خداوندی سے بغاوت اس ملک میں ہوتی رہی ہے، مختصر یہ کہ کون سی معصیت ہے جو ہمارے معاشرے میں نہیں ہور ہی، یہ تمام گناہ ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب کو دعوت دے رہے ہیں اور رحمت الٰہی سے محروم کررہے ہیں، دوسری طرف عبادات، نماز ، روزہ، تقویٰ وطہارت کی زندگی، دینداری وغیرہ جو حق تعالیٰ کی رحمت کے نزول کا ذریعہ ہیں وہ تیزی کے ساتھ روز افزوں تنزل پر ہیں ، ختم نبوت جو اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، اس کے نہ ماننے والوں کو اقتدار سونپا جارہا ہے، جن اکابرِ امت کے صدقے اسلام کی یہ نعمت آج تک محفوظ رہی ہے، ان کو برملا برا کہا جارہا ہے اور ان کہنے والوں کے ہاتھوں میں ہی اقتدار آرہا ہے، ان تمام خرابیوں کا ہی لازمی نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت روز بروز دور ہوتی جارہی ہے، لعنتیں برس رہی ہیں، قلوب سے سکون واطمینان مفقود ہو رہا ہے، دماغوں میں صحیح شعور وادراک کا مادہ ختم ہورہا ہے۔
یہاں تک میں تقریباً آخر شعبان میں لکھ چکا تھا دو بارہ ماہِ رمضان المبارک کے بعد حرمین شریفین سے واپسی پر چند حرف سپردِ قلم کرہا ہوں۔
بھارت کا مشرقی پاکستان پر حملہ
آخر وہ شدید خطرہ جو لاحق تھا اس کا ظہور ہوگیا اور دشمنِ اسلام طاقتوں کے ایماء پر مشرقی پاکستان پر دو بارہ با قاعدہ حملہ کردیا، بلاشبہ ہمارے اعمال تو اسی لائق ہیں کہ ان کی سزا دی جائے، کیونکہ جو نعمت پاکستان کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی تھی ہم نے اس کا شکر نہیں ادا کیا، نہ صرف یہ بلکہ ۶۵ء کی عظیم الشان نعمتِ خداوندی اور نصرتِ غیبی کے شکر کا جو تقاضا تھا اس سے بھی ہم نے مجرمانہ غفلت اختیار کی، خطرہ تو ہے کہ کہیں یہ اسی جرم کی سزا نہ ہو، لیکن حق تعالیٰ کی رحمت بے غایت اور بے انتہاء ہے اگر وہ ہمارے گناہوں پر ہمارا مؤاخذہ فرماتا تو ہم مدتوں پہلے ختم ہوگئے ہوتے اور ہم میں سے کوئی متنفس بھی زندہ نہ ہوتا، لیکن اس کی بے پایاں رحمت ہے کہ ہم اب تک زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال ہیں، امید ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی اب بھی پاکستانی مسلمانوں کی دستگیری فرمائے گی اور جس طرح ۶۵ء میں غیبی نصرت کے خوارق ومعجزات پیش آئے تھے، اسی طرح اب بھی پیش آئیں گے۔ دعا ہے کہ رب کریم اپنے لازوال کرم سے دوبارہ ہمیں معاف فرمادے۔
بلاشبہ حالات انتہائی خوف ورجاء اور امید وبیم کی صورت اختیار کررہے ہیں، ہماری حالت تو اگرچہ پاداش وسزا کی متقاضی ہے، لیکن حدیثِ قدسی میں ارشاد ہے: ”میری رحمت میرے غضب سے پہلے اور غالب ہے“۔ اس لئے امید ہے کہ پروردگارِ عالم اپنے فضل وکرم سے امید و رجاء کا پہلو خوف وبیم پر غالب رکھیں گے اور اس میں تو شک ہی نہیں کہ توبہ کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا ہے، اب ضرورت ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے بصدقِ دل توبہ کریں اور اپنی تقصیرات وناشکری کی معافی مانگیں اور حضرت رسول کریم ا کی جو سنت ہے یعنی ایسے نازک مواقع پر نماز میں ”قنوتِ نازلہ،، پڑھنا اس کو صدقِ دل سے اختیار کریں، صبح کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع کے بعد اسلام ، عساکر ِ اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کی دعائیں مانگی جائیں، امام بآواز ِ بلند دعائیہ کلمات کہے اور مقتدی پوری توجہ اور خشوع وخضوع کے ساتھ آمین کہتے رہیں، کراچی کے بعض مخلصین نے عوام کی رہنمائی کے لئے ”قنوتِ نازلہ“ اور اس کے پڑھنے کے طریقے کتابچہ کی شکل میں طبع کراکے شائع کردیئے ہیں اور نماز ہی کی کیا تخصیص ہے، اپنی تمام دعاؤں میں اسلام اور مسلمانانِ عالم کی فتح ونصرت خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کی کامیابی اور دشمنانِ اسلام کی تباہی کی دعائیں کرنی چاہئیں۔
پاکستان میں اسلامی شعائر کا احترام اور اس کی وجہ
اگر قریب سے تمام عالمِ اسلام کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ الحمد للہ! پاکستان میں اب بھی اسلامی شعائر کی تعظیم واحترام بقیہ ملکوں سے بہت زیادہ موجود ہے، پاکستانی عوام کے ذریعہ آج بہت کچھ دینی چہل پہل برقرار ہے، پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہ تمام مسجدیں، دینی ادارے، مدرسے، مکتب اور ان میں حکومت کے اثر سے آزاد دینی خدمات جس قدر انجام پارہی ہیں، یہ سب پاکستان کے عام اربابِ خیر کی دینی حمیت اور کوششوں کا نتیجہ ہے، روئے زمین کے کسی ملک کے مسلمان بھی اس معاملہ میں پاکستانی اربابِ خیر کی ہم سری نہیں کر سکتے۔
برطانوی اقتدار کے دور میں ہمارے اکابر واسلاف نے جب یہ محسوس کیا کہ حکومت اور طاقت اب غیر اسلامی ہاتھوں میں جارہی ہے اور آئندہ حکومتوں سے کسی خیر اور دینی حمیت کی توقع نظر نہیں آتی، اب تو عام مسلمانوں کی مذہبی اور اخلاقی رہنمائی کی غرض سے دینی خدمات جو بھی ہوں،آزاد دینی معاہد ومدارس اور دار الافتاء یا مساجد وخانقاہوں کے ذریعہ انجام دینی ہوں گی اور خود مسلمانوں خصوصاً عوام کو ان کی کفالت کرنی ہوگی ،اس ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے کہ دینی شعائر کا قیام حکمرانوں کے ہاتھوں سے منتقل ہوکر عام مسلمانوں کے ہاتھ میں آگیا اور تمام دینی نظام کا دار ومدار آزاد اربابِ خیر اور آزاد اربابِ علم وفکر کی مساعی وتوجہات پر ہوگیا، چنانچہ حکمران کافر تھے جب بھی دین اس ملک میں اسی طرح باقی رہا اور خدا کے فضل سے یہی سنت مستقل طور پر قائم ہوگئی، لیکن دوسرے اسلامی ممالک میں حالات اس سے مختلف رہے، آج تک مساجد کی تعمیر، جامعات ومعاہد کی تأسیس اور تمام دینی نظام یک کفالت حکومت کے ذمہ ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان ملکوں میں جہاں اسلامی حکومت کا دینی مزاج بگڑ گیا ،تمام دینی نظام بھی اس سے متأثر ہوئے، کم وبیش یہی تمام اسلامی ممالک کا حال ہے، الحمد للہ کہ تمام پاکستان میں جو کچھ دینی رونق ہے وہ پاکستانی مسلمانوں کی جد وجہد کی مرہونِ منت ہے اور اس کا افسوس ہے کہ حکومت اسلامی کہلانے کے باوجود اس میں کوئی حصہ نہیں لیتی اور شاید حق تعالیٰ کے تکوینی نظام کی مصلحت وحکمت یہی ہو۔
برطانوی اقتدار اور حکومت سے جہاں روح فرسا اذیتیں مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں پہنچیں، وہاں ایک عظیم فائدہ بھی مسلمانوں کو پہنچا کہ انہوں نے دینی خدمتوں کی خود کفالت کرنا اور ان کو حکومت کے اثر سے آزاد رکھنا سیکھ لیا۔ بلاشبہ آج بھی پاکستان تمام عالمِ اسلام کی دینی قیادت کی اہلیت رکھتا ہے اور دینی اقدار تمام عالم سے زیادہ اس خطہٴ پاک میں نمایاں ہیں، تمام عالمِ اسلام خصوصاً عربی ممالک میں حکومت کے اثر سے یورپ کی نقالی کی جو وبا پھیل گئی ہے ،الحمد اللہ! پاکستان بدرجہا ان سے بہتر حالت میں ہے، خدانخواستہ پاکستانی مسلمان بھی اگر اپنی خصوصیات کھو بیٹھیں تو بس اللہ تعالیٰ ہی اسلام کی حفاظت فرمائے گا۔ ضرورت ہے کہ اس عام دینی روح اور اس عمومی دینی مزاج کو بہر صورت وبہر حالت باقی رکھا جائے، اسی وسیلہ سے اہالی پاکستان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی کچھ امید ہوسکتی ہے۔
ربنا لاتؤاخذنا ان نسینا او اخطأنا،ربنا ولاتحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا، ربنا ولاتحملنا مالاطاقة لنا بہ، واعف عنا، واغفرلنا، وارحمنا، انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین۔ (آمین)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: جدید تعلیم اور اس کے نتائج !
Flag Counter