Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

5 - 11
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا توبہ نامہ !
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا توبہ نامہ
(آخری قسط)

اکتوبر۱۹۵۶ء کا واقعہ ہے کہ میں لی مارکیٹ کراچی میں بس کے انتظار میں کھڑا تھا کہ ایک کار میرے قریب آکر رکی اور اس میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری صاحب باہر نکلے اور میری طرف بڑھے‘ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا‘ حضرت نے حسب معمول مجھے معانقے سے سرفراز فرمایا‘ اس کے بعد فرمایا کہ :اگر تمہیں فرصت ہو تو میرے ساتھ چلو ،تم سے ایک ضروری گفتگو کرنی ہے۔ میں نے عرض کی: بسر وچشم‘ حضرت نے ڈرائیور سے کہا کہ: برنس گارڈن چلو‘ وہاں پہنچ کر ہم نے مغرب کی نماز پڑھی‘ اس کے بعد حضرت  مجھے اپنے ساتھ لے کر ایک بنچ پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ: میرے میزبان نے کل مجھ سے کہا کہ: ایک صاحب نے جن کا نام پروفیسر یوسف سلیم چشتی ہے ”ارمغان حجاز“ کی شرح میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی کی شانِ اقدس میں گستاخی بھی کی ہے اور ان اشعار کی شرح میں جو اقبال نے حضرت مدنی کے بارے میں لکھے ہیں‘ اقبال کے اعتراف کو بھی نظر انداز کردیا ہے‘ جس کے بعد ان اشعار کا وجود ہی کالعدم ہوچکا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ میں نے ان سے کہا ،میں شارح کو بخوبی جانتا ہوں‘ انشاء اللہ! لاہور پہنچ کر ان سے اس معاملے میں گفتگو کروں گا‘ لیکن حسنِ اتفاق سے آج تم مجھے یہیں مل گئے‘ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ تمہاری توجہ اس طرف مبذول کروں اور تمہاری غلط فہمی کا ازالہ بھی کروں۔ یہ سن کر میں نے معذرت آمیز انداز میں نیچی نگاہ کرکے عرض کیا کہ:
”حضرت بلاشبہ مجھ سے بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے‘ شرح لکھتے وقت میرا ذہن اس طرف منتقل ہی نہیں ہوا کہ علامہ اقبال نے اپنی وفات سے تین ہفتے پیشتر اپنا بیان روز نامہ ”احسان“ میں شائع کردیا تھا کہ حقیقتِ حال منکشف ہوجانے کے بعد اب مجھے مولانا حسین احمد صاحب پر اعتراض کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تینوں اشعار کالمعدوم کا مصداق ہوگئے اور ”ارمغان حجاز“ میں اس کے اندراج کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا“۔
میرے اظہار ندامت اور اعترفِ تقصیر کے بعد حضرت لاہوری نے مجھ سے دریافت کیا: ”تم میری بابت کیارائے رکھتے ہو“؟ میں نے عرض کیا کہ ”حضرت میں آپ کو ۱۹۲۹ء سے جانتا ہوں اور آپ کو اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں میں شمار کرتا ہوں“۔ یہ سن کر فرمایا: ”میری بات کا یقین کروگے؟ “ میں نے کہا: ”ضرور یقین کروں گا‘ کیونکہ اللہ والے جھوٹ نہیں بول سکتے“ یہ سن کر فرمایا: ”تو سنو! میں تمہاری بدگمانی دور کرنے کے لئے تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میری رائے میں اور میرے علم کی رو سے اس وقت روئے زمین پر کوئی شخص روحانیت‘تقویٰ اور تعلق مع اللہ کے اعتبار سے حضرت اقدس شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے بڑھ کر نہیں ہے“۔ میں نے پوچھا: ”آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟“ فرمایا: ”میں حج کے مواقع پر خاصانِ حق کے اجتماع میں برابر شریک ہوتا رہاہوں‘ ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس وقت روئے زمین پر حضرت موصوف کا جواب نہیں ہے“۔ میں سراپا حیرت بناہوا حضرت لاہوری کی زبان سے حضرت مدنی کی عظمت اور اعتراف سن رہا تھا‘ اس کے بعد حضرت موصوف نے فرمایا:
”حضرت مدنی کی جوتیوں کا تلا بھی میری داڑھی سے زیادہ محترم ہے‘ بلاشبہ وہ اس زمانے میں اللہ کی ہستی کی نشانیوں میں سے ایک واضح نشانی ہیں‘چونکہ میں تمہیں عزیز رکھتا ہوں‘ اس لئے تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ حضرت مدنی کی شان میں تم سے جو گستاخیاں سرزد ہوئی ہیں ان سے رجوع کرلو اور اللہ تعالیٰ سے التجا کرو کہ وہ تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے‘ اگر تم حضرت اقدس کے مقام سے آگاہ ہوتے تو ہر گز ایسی گستاخی کا ارتکاب نہ کرتے‘ میں دعا کروں گا کہ اللہ تم پر حضرت اقدس کا مقام واضح کردے‘ تم اس بات پر غور کرو کہ مولانا محمد اشرف علی تھانوی حضرت اقدس کے سیاسی خیالات سے متفق نہیں تھے‘ اس کے باوجود ان کا نہایت احترام کرتے تھے اور اپنی مجالس میں ان کی روحانی عظمت کا اعتراف کرتے تھے“۔
اس گفتگو کے بعد حضرت لاہوری مجھے میرے مکان پر پہنچا کر اپنے میزبان کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت کی اس تلقین کا اس سیہ کار پرایسا اثر ہوا کہ دل کی دنیا ہی بدل گئی‘ ایسا معلوم ہوا کہ وہ پردہ جو میرے اور حضرت مدنی کے مابین حائل تھا یک لخت ہٹ گیا اور ان کی عظمت کا ایک نہ مٹنے والا نقش میرے دل پر قائم ہوگیا‘ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ میں حضرت لاہوری سے ۲۵/۲۶ سال سے واقف تھا اور مجھے یقین تھا کہ جھوٹ ان کی زبان سے نہیں نکل سکتا‘ اس لئے ان کی گواہی کے بعد پھر مجھے کسی دلیل کی حاجت باقی نہیں رہی۔
مارچ ۱۹۵۷ء میں کراچی سے نقل مکانی کرکے لاہور واپس آیا تو زندگی میں پہلا انقلاب یہ رونما ہوا کہ حضرت لاہوری کی مجالس ذکر میں شرکت شروع کی‘ حضرت اس سیہ کار پر خصوصی توجہ فرماتے تھے‘ یعنی مجلس ذکر میں اپنی بائیں پہلو میں جگہ دیتے تھے۔ اس کے علاوہ جب کبھی تنہائی میں ملاقات ہوتی تھی تو بالالتزام شیخ الاسلام حضرت اقدس کے کمالاتِ روحانی کا تذکرہ فرماتے‘ ان تذکروں کا میرے دل پر یہ اثر مرتب ہوا کہ چند ماہ کے بعد مجھے حضرت اقدس سے وہ رابطہ ٴ قلبی پیدا ہوگیا جسے عشق سے تعبیر کرسکتے ہیں‘ چنانچہ جب ۵/ دسمبر ۱۹۵۷ء کو اخباروں سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کا وصال ہوگیا تو مجھ پر زندگی میں پہلی مرتبہ فراق کی کیفیت طاری ہوئی‘ میں اس زمانے میں مسجد شاہ چراغ ہی میں ہر اتوار کو مثنوی کا درس دیا کرتا تھا اور اہل علم جانتے ہیں کہ مثنوی کا سارا تار وپود عشق اور فراق انہی دو چیزوں سے مرکب ہوا ہے اور کل مثنوی ان دو ابتدائی شعروں کی تفسیر ہے:
بشنواز نے چوں حکایت می کند
ازجدائی با شکایت می کند
کزنیستاں مراتا ببریدہ اند
از نفیرم مرد وزن نالیدہ اند
یعنی روحِ انسانی جو ازل سے محبوبِ حقیقی میں مبتلا تھی جب دنیا میں آئی تو فراق کی کیفیت سے دو چار ہوگئی۔
قصہ مختصر عشق اور فراق یہ مثنوی کے دو بنیادی تصورات ہیں اور اس کا قصرِ رفیع انہی بنیادوں پر استوار ہوا ہے۔
مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں اپنے محبوب سے جدا ہوگیا ہوں‘ اللہ اکبر! یہ کتنا عظیم انقلاب تھا جو میرے ضمیر کی گہرائیوں میں رونما ہوا۔ وہ شخص جس سے مدتوں تک نفرت کرتاتھا‘ وہ شخص اب میرا محبوب بن چکا تھا اور اسی لئے اس کی وفات کی خبر پڑھ کر مجھ پر فراق کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔
میں نے مثنوی کا درس ملتوی کردیا اور مجلس میں یہ اعلان کیا کہ آئندہ مجالس میں حضرت اقدس کے کمالات روحانی کا بیان کروں گا‘ چنانچہ یہ سلسلہ چار ماہ تک جاری رہا۔ عام قارئین کی آگاہی کے لئے یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت لاہوری کی تلقین پر میں نے ”نقش حیات“ اور ”مکتوبات شیخ الاسلام“ کا مطالعہ کرلیا تھا۔
۱۹۵۷ء سے ۱۹۶۱ء تک حضرت لاہوری کی مجالس ذکر میں شرکت کا سلسلہ جاری رہا اور اس عرصے میں حضرت موصوف نے اپنے ارشادات سے مجھے حضرت اقدس کے مقام سے بڑی حد تک آگاہ کردیا تھا۔ ان ارشادات کی روشنی میں اگر ایک طرف مجھ پر حضرت اقدس کے کمالاتِ روحانی سے آگاہی حاصل ہوئی تو دوسری طرف یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ حضرت اقدس انگریز کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن یقین کرتے تھے‘ چنانچہ حضرت اقدس سے تعلق کی بدولت میرے دل میں بھی انگریزی زبان‘ انگریزی لباس‘ انگریزی وضع قطع اور انگریزیت سے زندگی میں پہلی مرتبہ نفرت کا جذبہ پیدا ہوا‘ حالانکہ میں اپنی زندگی کے ساٹھ سال اسی لعنت میں گذار چکا تھا‘ اور اکبر کا یہ شعر ہو بہو مجھ پر صادق آتا تھا:
چیز وہ ہے بنے جو یورپ میں
بات وہ ہے جو پانیرہ میں چھپے
حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا اصلی دشمن ہندو نہیں‘ انگریز ہے۔ چنانچہ جب میں نے اس نگاہ سے تاریخ عالم کا مطالعہ کیا تو اس ارشاد کی صداقت مجھ پر روزِ روشن کی طرح آشکار ہوگئی‘ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے اکبر الہ آبادی کو‘ انہوں نے ان شعروں میں کتنی سچی بات کہی ہے:
زیادہ ان سے رہو محترز کہ ہندو سے
یہ خود ہی سوچ لو‘ دل میں اگر نہ کچھ کد ہو
یہ چاہتے ہیں کہ ختنہ میاں کا ہو موقوف
وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانی ہی ندارد ہو
اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تشریح سے بلاغت کا خون ہوجائے گا تو ختنے اور مسلمانی کے مفہوم اور ان دونوں میں فرق کو بھی واضح کردیتا۔
حضرت لاہوری کے وصال کے بعد زندگی میں ایک ایسا خلاسا محسوس ہونے لگا‘ ذکر حبیب سننے کو کان ترس گئے‘ بالآخر ۱۹۶۴ء میں محترمی قاضی زاہد الحسینی مد ظلہ کو اپنی باطنی کیفیت سے آگاہ کیا اور لکھا کہ تبریز سے جدائی کے بعد دل کسی صلاح الدین کو ڈھونڈتا ہے‘ انہوں نے از راہِ لطف اس عاجز کو مشورہ دیا کہ: ”خوش قسمتی سے حضرت اقدس کے خلیفہ مجاز مولانا سید حامد میاں لاہور میں سکونت پذیر ہیں‘ وہ تمہارے حق میں صلاح الدین بھی ثابت ہوں گے اور حسام الدین بھی“۔
چنانچہ ۱۹۶۵ء میں اس عاجز نے حضرت مدنی کے خلیفہ ٴ مجاز حضرت مولانا سید حامد میاں مہتمم جامعہ مدنیہ لاہور سے رشتہٴ ارادت وعقیدت استوار کیا اور استواری کے بعد یہ محسوس ہوا کہ نظامی مرحوم نے یہ مصرع میرے ہی لئے کہا تھا: شکر کہ جمازہ بمنزل رسید
جب میں نے اس بات کی اطلاع قاضی صاحب موصوف کو دی تو انہوں نے مجھے لکھا کہ اب جبکہ حضرت اقدس کا مقام آپ پر واضح ہوچکا ہے اور آپ ان کے دامن سے وابستہ ہوگئے ہیں تو آپ کو لازم ہے کہ گذشتہ زمانے میں آپ کے قلم اور آپ کی زبان سے جس قدر گستاخیاں حضرت اقدس کی شان میں سرزد ہوچکی ہیں‘ اب اس کا صدق دل سے اعتراف کیجئے اور توبہ نامہ شائع کیجئے تاکہ قیامت کے دن مواخذہ اور عتاب دونوں سے محفوظ ہوجائیں‘ حضرت اقدس کی توجہ اور ان کے روحانی فیض سے بہرہ ور ہوسکیں‘ اور ان لوگوں کا بھلا ہوسکے جو عدم واقفیت کی وجہ سے آج بھی حضرت اقدس کی طرف سے سوء ظن رکھتے ہیں‘ جس طرح آپ خود عرصہ دراز تک اس غلطی میں مبتلا رہ چکے ہیں۔
دوسری مرتبہ ۲۰/جنوری ۱۹۶۵ء کے خط میں لکھا: ”میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اکثر اوقات لوگ اہل اللہ کا صرف ایک ہی رخ دیکھتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے آپ پر خصوصی فضل فرمایا ہے‘ اگر آپ صیانة للناس اس موضوع پر ایک مقالہ سپرد قلم فرمادیں جس میں حضرت الشیخ نور اللہ مرقدہ سے آپ کی نسبت کا ذکر بھی آجائے تو بڑا مفید رہے گا اور بہت سے لوگوں کا راہنما ہوگا“۔
تیسری مرتبہ یکم اپریل ۱۹۶۶ء کے خط میں لکھا: ”آج ایک بہت پاکیزہ مجلس میں آپ کا ذکر خیر آگیا ،اس لئے بطور یا ددہانی عرض ہے کہ ضرور ایک جامع مضمون اپنی انابت پر تیار فرمائیں‘ اس سے انشاء اللہ دوسروں کو بہت فائدہ پہنچے گا“۔
چوتھی مرتبہ ۱۲/اپریل ۱۹۶۷ء کے خط میں لکھا: ”آپ کے اس مضمون سے انشاء اللہ بھٹکے ہوئے اور گستاخ ذہن انسانوں کو نور ہدایت مل جائے گا اور وہ سوء خاتمہ سے محفوظ رہیں گے“۔
پانچویں مرتبہ اپنے ۲۴/ اپریل ۱۹۶۸ء کے خط میں لکھا: ”کلام اقبال کی شرح میں جہاں جہاں جناب کا قلم حدود ادب سے تجاوز کر گیا ہے‘ اگر فی الحال بہت جلد ان عبارتوں سے رجوع فرمالیں تو یہ بھی صرف بہتر نہیں‘ بلکہ ضروری ہے“۔
میں نے یہ اقتباسات قصداً درج کئے ہیں تاکہ قارئین پر یہ حقیقت واضح ہوسکے کہ اس قدر تاکید کے باوجود میرا نفس اپنی گستاخیوں‘ غلطیوں اور کوتاہیوں کے اعتراف پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ قارئین غور کریں کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف نفس پر کس قدر شاق گذرتا ہے‘ قاضی صاحب مسلسل متوجہ کررہے ہیں مگر نفس ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہوتا‘ مسلسل مجھ سے یہی کہتا رہتا ہے کہ اس اعتراف سے تیری کس قدر سبکی ہوگی‘ دنیا کی نظروں میں کس قدر ذلیل ہوجائے گا۔ وغیر ذلک من الخرافات اس عرصے میں ایک دفعہ بھی میں نفس کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکا یعنی اسے یہ نہ کہہ سکا کہ جب قیامت کے دن خدا مجھ سے پوچھے گا تو نے میرے مقرب بارگاہ بندے کی شان میں یہ گستاخی کس بناء پر کی تھی تو کیا جواب دوں گا؟ اور جب فرمائے گا کہ حقیقتِ حال سے آگاہ ہوجانے کے بعد کیا چیز تجھ کو اعتراف گناہ سے روکتی رہی؟ تو کیا عذر پیش کروں گا؟ اور جب بھری محفل میں یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میری رسوائی ہوگی تو کیا وہ رسوائی اس دنیا کی سبکی یا تحقیر سے بدرجہا زیادہ نہ ہوگی؟
سچ ہے ریت سے تیل نکالنا آسان ہے مگر نفسِ امارہ کے پھندے سے اپنے آپ کو نکالنا بہت مشکل ہے‘ انسان ضعیف الایمان جتنا دنیا والوں سے ڈرتا ہے‘ اگر خدا سے اتنا ڈرنے لگے تو بلاشبہ فرشتہ بن جائے‘ سچ کہا شیخ سعدی نے:
گر وزیر ازخذابتر سیدے
ہمچناں کز ملک‘ ملک بودے
جب قاضی صاحب نے دیکھا کہ میں مسلسل لیت ولعل سے کام لے رہاہوں اور وعدوں کے باوجود ایفائے وعدہ نہیں کرتا تو انہوں نے میری عاقبت سنوارنے کے لئے اپنے دینی ترکش سے آخری تیر نکالا یعنی ۲۲/مئی ۱۹۶۸ء کے خط میں لکھا:
”بہرحا ل آپ کی طرف سے فی الحال اگر چند سطور ہی ”خدام الدین“ میں آجائیں تو بہتر ہیں‘ مثلاً شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہ العزیز کی شانِ گرامی میں میرے قلم اور میری زبان سے جو کلماتِ ناشائستہ صادر ہوچکے ہیں‘ میں ان سے صدق دل سے نادم ہوکر رجوع کرتا ہوں ‘ اس پر تفصیلی مقالے کا انتظار فرمائیں۔
یہ بھی فاستبقوا الخیرات کا مصداق ہوجائے گا۔ میں آپ سے بار بار اس لئے عرض کررہا ہوں کہ سالک کے اکثر مقامات شیخ کی شان میں بے ادبی سے نہ صرف رک جاتے ہیں‘ بلکہ لطائف بجھ جاتے ہیں“۔
جس وقت میں نے یہ آخری جملہ پڑھا تو مجھ پر جو کیفیت طاری ہوئی اسے مصرع سے واضح کیا جاسکتا ہے:
تزلزل در ایوانِ شیطاں افتاد
دوسرے لفظوں میں اس فقرے نے میری خودی کو بیدار کردیا‘ چنانچہ میں نے اپنی ہمت اور اپنے اختیار دونوں ہتھیاروں سے بیک وقت کام لے کر نفس سے کہا: ”میری ہستی عبارت ہے لطائف سے نہ کہ تجھ سے! اگر لطائف ہی بجھ گئے یعنی دل ہی مرگیا تو پھر وجود یوسف اور عدم یوسف دونوں یکساں ہوگئے ! کیا تونے اقبال کا یہ شعر نہیں پڑھا؟
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے
کہ زندگانی عبارت ہے‘ تیرے جینے سے
اے نفس ! اگر میرا دل مرگیا تو پھر مجھ میں اور حمار میں کوئی فرق نہیں رہے گا‘ میں نے برسوں تیرا کہا مانا اور حقیقتِ حال سے آگاہ ہوجانے کے باجود اعتراف ِ گناہ نہیں کیا، لیکن اب میرے سامنے زندگی اور موت کا سوال درپیش ہے‘ اس لئے تیرا کہنا نہیں مانوں گا‘ چونکہ میں اندھا تھا یعنی حضرت اقدس کے مقام سے آگاہ نہ تھا‘ اس لئے میں نے واقعی حضرت موصوف کی اپنے قلم اور اپنی زبان سے ان کی شان میں گستاخیاں کی ہیں‘ میں غلط پروپیگنڈہ کے سحر سے مسحور ہوگیا تھا‘ حق اور باطل میں تمیز کی صلاحیت مفقود ہوگئی تھی‘ الحمد للہ کہ اس نے مجھے قبل از وفات توبہ اور انابت کی توفیق عطا فرمائی۔
جب تک خداوند تعالیٰ کے ساتھ رابطہ استوار نہ ہو‘ انسان کسی بدی‘ کسی برائی‘ کسی بدکاری اور کسی بدمعاشی سے باز نہیں آسکتا۔
عقل سے صرف یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اس دنیا کا بنانے والا کوئی ہے ضرور‘ یہ خود بخود تو نہیں بن گئی ہے‘ بس یہاں عقل کا کام ختم ہوجاتا ہے‘ لہذا انسان کا خدا سے رابطہ تو قائم ہوجاتا ہے مگر وہ رابطہ زندہ یا مؤثر نہیں ہوتا یعنی اس کی بدولت زندگی میں انقلاب پیدا نہیں ہوسکتا‘ لیکن عشق خدا کی ہستی کا یقین پیدا کردیتا ہے اور یقینِ کامل کے بعد جو رابطہ پیدا ہوتا ہے وہ زندہ یا مؤثر ہوتا ہے یعنی سالک کی زندگی میں انقلاب پیدا ہوجاتاہے۔
دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کسی فلسفی یا منطقی نے اپنے شاگردوں کی زندگی میں انقلاب پیدا نہیں کیا‘ یہ نعمت صرف عاشقوں کی جوتیاں سر پر رکھنے سے حاصل ہوتی ہے‘ اس لئے امیر خسرو نے سلطان جی کی جوتیاں سرپر رکھ لی تھیں۔
عام قارئین کے لئے یہ وضاحت ضروری تھی وہ محترمی قاضی صاحب کے اس تہدیدی جملے کی اہمیت کا اندازہ نہیں کرسکتے تھے کہ شیخ کی شان میں بے ادبی سے نہ صرف اکثر مقامات رک جاتے ہیں بلکہ لطائف ہی بجھ جاتے ہیں۔
ان تفصیلات کے بعد اب میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے وفات سے پہلے مجھے توبہ اور انابت کی توفیق عطا فرمائی‘ اس کے بعد حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے لئے دعائے خیر کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے حضرت اقدس کے مقام سے آگاہ فرمایا اور اس کے بعد محترم قاضی زاہد الحسینی صاحب کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ انہوں نے مجھے اس کارِ خیر پر آمادہ کیا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کے بارگاہ میں عرض کرتا ہوں کہ اے غافر الذنب وقابل التواب! اے غفور الرحیم!لا الہ الا انت، ولا قاضی الحاجات الا انت، ولا غافر الذنوب الا انت، ولا موجود فی الحقیقة الا انت! رحیم وکریم! میں اپنے گناہوں کا صدق دل سے اعتراف کرتا ہوں‘ میری ساری زندگی نافرمانیوں میں بسر ہوئی ہے:
واپس آمد بندہٴ بگر یختہ
آبروئے خودز عصیاں ریختہ
بے گنہ نگذشت برمن ساعتے
با حضور دل نکر دم طاعتے
اے ستار العیوب! میں بصمیم قلب اقرار کرتاہوں کہ میں نے تیرے مقبول بارگاہ اور برگزیدہ بندے شیخ الاسلام‘ مجاہد اعظم‘ قدوة العارفین‘ زبدة الکاملین‘ سیدی وشیخی وسندی ووسیلتی فی الدارین مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز کی شان اقدس میں اپنے قلم اور اپنی زبان سے بڑی گستاخیاں کیں‘ میں اپنی اس نالائقی اور حماقت کو کسی پردے میں نہیں چھپانا چاہتا‘ اعلانیہ صاف لفظوں میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں۔
اے اللہ! میں اندھا وجاہل اور احمق اور عقل وخرد سے بیگانہ ہوگیا تھا‘ یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے حرم نبوی میں بیٹھ کر چودہ سال تک دین کی تعلیم وتبلیغ کی اور ساری عمر اتباع رسول میں بسر کردی تھی‘ اسے مقام رسول سے بے خبر قرار دیتا رہا‘ بلکہ اس کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان گستاخیوں پر فخر کرتا رہا۔
اے اللہ! یہاں کی ذلت اور رسوائی مجھے منظور ہے‘ میں تو یوں بھی سراپا خطا اور مجسم گناہ ہوں‘ مجھ میں اور کونسی خوبی ہے جس پر ناز کرسکتا ہوں‘ مجھے قیامت میں اپنی خفگی اور اپنے محبوب کی ناراضگی سے محفوظ رکھیو۔
اے اللہ! میں ڈرتاہوں اور سخت لرزہ براندم ہوں اس بات سے کہ قیامت میں جب حضور انور ا کی نگاہ مجھ پر پڑے گی تو آنحضور کہیں مجھ سے اس انداز میں خطاب نہ فرمائیں: ”اچھا تم ہو وہ گستاخ اور دریدہ دہن! جس نے میرے اس عاشق صادق کی شان میں بے ادبی کی تھی‘ جس نے میرے دین کی سربلندی کی خاطر اور میری محبت میں ساری عمر قید وبند کو دعوت دی اور طوق وسلاسل کو لبیک کہا‘ جس نے میری محبت میں میرے دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور تادم آخر کلمہٴ حق کہا‘ جس نے میری خاطر مالٹا میں مصائب جھیلے‘ جس نے میری محبت میں کراچی کی جیل کاٹی‘ جس نے اعلاء کلمة الحق کے لئے انگریز سے ٹکرلی‘ جس نے میری امت کی بہبود کے لئے دن میں قرآن وحدیث کا درس دیا اور رات میں دشمنانِ اسلام کے خلاف لسانی جہاد کیا‘ جس نے اسلام کی خاطر غیروں کے طعنے سنے اور اپنوں سے گالیاں کھائیں اور گالیاں کھاکر بے مزہ ہونا تو درکنار ان گالیاں دینے والوں کے حق میں دعائیں کیں‘ جس نے اپنی تمام متاع حیات مجھ پر نثار کردی“ تو اس وقت میرا کیا حال ہوگا؟ کون سا آسمان مجھے پناہ دے گا اور کون سی زمین مجھے ٹھکانا دے گی؟
اے اللہ! حضور ا کی ایک نگاہ ِ عتاب سے بچنے کے لئے میں ا س دنیا میں ہرقسم کی ذلت اور رسوائی برداشت کرنے کو تیار ہوں۔
اے اللہ! میں صدقِ دل سے توبہ کرتا ہوں‘ میری لغزشوں‘ خطاؤں اور گستاخیوں کو معاف کردے ،جو میں نے شیخ طریقت ‘ مخدوم ملت ‘ محرم راز نبوت‘ واقف اسرار رسالت اور آشناء مقام محمدی ا کی شان میں روارکھی تھیں۔
اے اللہ! اپنے مقبول بارگاہ بندوں کو توفیق عطا فرما کہ وہ میری معافی کے لئے دعا کریں‘ مجھے یقین ہے کہ تو ان کے وسیلے سے مجھ پر کرم کرے گا اور مجھے میرے شیخ بلکہ شیخ العرب والعجم حضرت مدنی کی نسبت عالیہ سے حصہ وافر عطا فرمائے گا اور مجھے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: گھر کے سربراہ پر گھر کی حفاظت لازم ہے !
Flag Counter