Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

10 - 11
حضرت مولانا شمس الہادی  کی رحلت!
حضرت مولانا شمس الہادی کی رحلت!

۲۹/مارچ ۲۰۰۹ء کی صبح ربیع الثانی کا چاند نکلتے ہی علمی دنیا کا آفتاب غروب ہوا۔ یہ المناک اطلاع دل پر بجلی کی طرح گری ‘ ٹیلیفون اور اخبارات کی اطلاع کے مطابق اسی روز اتوار کو ۴/بجے ان کے بڑے صاحبزادے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب مدظلہم نے نماز جنازہ پڑھا کر شاہ منصور کے قبرستان میں سپرد خاک کیا‘ دفن کرنے والوں میں بہت سے کم لوگوں کو اس بات کا حقیقی علم وادراک ہوگا کہ وہ کس جامع کمالات ہستی‘ عقلیات ونقلیات کے کس مجمع البحرین اور علم وعمل کے کس خزانہ کو جو عمر بھر ”کنز مخفی“ رہا‘ ہمیشہ کے لئے زمین میں دفن کررہے ہیں اور شاہ منصور کے قصبے کو خطاب کرکے (جو ہمیشہ علم وعمل اور کمال کا حقیقی مرکز رہا ہے) غالب کا یہ شعر سنانا صحیح ہوگا۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنجہائے گراں مایہ کیا کئے
اس علمی آفتاب کے غروب کے بعد جب یہ یقین ہوگیا کہ اس کے عروج کا دیکھنا تو درکنار اب تو مسافتوں کی دوری کی وجہ سے آخری دیدار بھی نصیب نہیں ہوگا‘ تو پھر مجبوری اور مایوسی کے چند آنسو بہا دیئے‘ جس سے داغ کہن تازہ ہوگئے اور پرانی صحبتیں‘ ان کی پُر لطف مجلسیں‘ان کے علمی افادات وتحقیقات ایک ایک کرکے حافظہ کے اندر بھرنے لگے اور تصویر کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔ پس قلم ہاتھ میں اٹھاکر ارادہ کیا کہ ان کے متعلق لکھوں اور جو نہیں جانتے ان کو بتانے کی کوشش کروں کہ ۲۹/مارچ کو نہایت گمنامی اور خاموشی کے ساتھ علم وکمال کی کونسی شمع گل ہوگئی؟ علماء اسلاف کی کونسی نشانی نگاہوں سے ہمیشہ کے لئے مستور ہوگئی‘ لیکن ساتھ ساتھ آپ کی بے پناہ شفقت وعنایت اور گیارہ سالہ طویل تعلق اور صحبت کی یاد زخمِ دل وجان بنی ہوئی ہے‘ مگر زبان اس کے بیان سے عاجز ہے اور قلم اس کو معرض تحریر میں لانے سے قاصر ہے۔
زدل می خیزد وبردل ہمی ریزد سحاب غم
دمید ازاندرون کشتی من موج طافانم
بہرحال علمی دنیا کا آفتاب بقیة الاسلاف قطب العالم قدوة المفسرین والمحدثین شیخ الحدیث حضرت مولانا شمس الہادی  ۱۹۱۶ء کو ایک دیندار‘ متبع شریعت اور علمی خانوادے میں پیدا ہوئے‘ جس کے فیض سے گذشتہ پانچ سو سال تشنگان علم وادب اپنی پیاس بجھاتے آرہے ہیں اور جس کی علمی فضیلت اور روحانی بزرگی آج بھی نویں‘ دسویں پشت میں جاری وساری ہے‘ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا سرور شاہ صوابی کے مشہور عالم اور حضرت شیخ الہند کے ابتدائی شاگرد حضرت مولانا عبد الحکیم کے تلمیذ خاص تھے‘ آپ کی پیدائش ضلع صوابی کے مشہور قصبہ شاہ منصور میں ہوئی‘ جس کا دلچسپ تاریخی پس منظر ہے اور علمی حلقوں میں بغداد ثانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ جس نے عظیم محدث حضرت مولانا عبد الرزاق  (سابق شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ دہلی ہندوستان)امیر المؤمنین في التفسیر علامہ عبد الہادی… جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا فضل الٰہی صاحب اور شیخ القرآن حضرت مولانا نور الہادی صاحب مدظلہم اور دیگر بڑے بڑے شیوخ کو جنم دیا۔ حضرت شیخ الحدیث نے ابتدائی تعلیم وتربیت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور ابتدائی فارسی اور فنون کی کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھیں‘ اس کے بعد والد صاحب نے آپ کو اور آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا فضل الٰہی  کو اپنے قابل فخر دوست فقیہ الوقت حافظ الکتب حضرت مولانا حبیب اللہ کے پاس تعلیم کے لئے بھیجا‘ جو بعد میں زروبی سے مردان منتقل ہوئے ‘ چنانچہ آپ نے بھی استاد محترم کے ساتھ رخت سفر باندھا‘ وہاں پر آپ نے حضرت مولانا سمندر خان اور حضرت مولانا عبد الحنان تاجک سے بھی بعض کتابیں پڑھیں اور درجہ موقوف علیہ اور کتب دورہٴ حدیث محدث کبیر حضرت مولانا عبد الرزاق سے پڑھیں۔درس نظامی سے فراغت کے بعد فوراً درس وتدریس کا سلسلہ ۱۹۴۷ء سے شروع کیا اور تا وفات جاری رکھا‘ جس میں آپ  نے مختلف جامعات ومدارس میں پڑھایا۔ چونکہ آپ قوی حافظہ اور مضبوط استعداد کے مالک تھے اور تمام علوم وفنون میں فوق العادة قدرت رکھتے تھے‘ اس لئے آپ نے ابتدائی درجات سے لے کر آخری درجات تک مختلف علوم وفنون کی اکثر کتب کئی مرتبہ بے مثال تدریسی خدمات کے ساتھ پڑھائیں۔
حضرت شیخ الحدیث کے دروس میں درس حدیث اور چھٹیوں میں دورہٴ ادب ومیراث (جس میں سراجی‘ شریفیہ اور قصیدہ بردہ وغیرہ شامل تھے)کو بہت مقبولیت اور شہرت ملی اور کافی عرصہ تک دورہٴ حدیث کی پوری کتابیں اکیلے پڑھاتے رہے۔ آپ کے درس کی اعلیٰ خصوصیات کا احاطہ کرنا تو ناممکن ہے‘ البتہ چند خصوصیات کا ذکر کرنا ضروری سمجھوں گا۔
ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ نہایت سادہ‘ سہل اور جامع انداز میں دقیق سے دقیق مسائل کو دلنشیں انداز میں حل فرماتے‘ ہمیشہ مقررہ وقت پر تشریف لاتے اور مقررہ وقت پر جاتے‘ بخاری اور ترمذی کی دونوں جلدوں کی تمام حدیثوں کی پوری عبارت اور ترجمہ خود کرتے‘ فقہی اختلافات کی طرف جامع انداز میں اشارہ کرتے‘ عبارت کے ایک ایک لفظ کی وضاحت کرتے اور علوم عربیہ صرف‘ نحو‘ بلاغت وغیرہ کے مسائل تحقیقی انداز میں حل فرماتے‘ حضرت ناغہ بالکل نہیں فرماتے تھے‘ پورا سال سبق کا اوسط برابر رہتا تھا‘ دوران سبق تکیہ نہیں لگاتے تھے۔
علوم ظاہرہ کے ساتھ ساتھ آپ علوم باطنہ میں بھی بے مثال تھے‘ کیونکہ گھر کے صاف ماحول کے ساتھ ساتھ آپ کی نسبت شیخ العرب والعجم حضرت مولانا عبد الغفور عباسی مدنی سے بھی اور ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت مولانا عبد الحق سے اصلاحی تعلق قائم کیا‘ انہوں نے خلافت مرحمت فرمائی‘ ان کے انتقال کے بعد آپ نے حضرت مدنی کے بھتیجے حضرت شیخ لطف اللہ عباسی مدنی سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور انہوں نے بھی خلافت عطاء فرمائی۔
حضرت شیخ الحدیث طبعی طور پر علمی ذوق رکھتے تھے اور زیادہ وقت درس وتدریس میں صرف کرتے تھے اور تصوف کے سلسلہ کے لئے صرف جمعہ کے دن وقت دیتے‘ لیکن ۱۹۹۷ء میں جب عمرہ کے سفر پر بیت اللہ گئے تو وہاں حضرت مولانا لطف اللہ عباسی نے اس کی طرف خصوصی توجہ دلائی تو عمرہ سے واپسی کے بعد آپ نے تصوف پر زیادہ توجہ دی اور اس چشمہ فیض سے عوام وخواص کا ایک بڑا حلقہ فیض یاب ہوا۔ اصلاح الناس کی غرض سے آپ نے ملک کے بیشتر علاقوں کا سفر کیا‘ اس کے علاوہ بیرون ممالک میں سے آپ کا جنوبی افریقہ‘ مصر اور سعودی عرب میں بھی جانا ہوا۔
حضرت شیخ الحدیث علماء حق کی جیتی جاگتی تصویر تھے‘ قرون اولیٰ کی سادگی کا انمول تھے اور صحیح معنوں میں متقی تھے‘ زبان‘ آنکھ‘ کان اور دل سب کو بدی اور بدخیالی سے رو کے ہوئے تھے‘ انکسار وفروتنی ہر ادنیٰ واعلیٰ کے مقابلے میں برتتے ‘ عبادت کثرت سے کرتے تھے‘ مگر راز بناکر‘ بے لوثی اور بے نفسی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی‘ اپنی زندگی میں کبھی ابھرنے کی کوشش نہیں کی‘ اور مزاج میں انتہائی سادگی اور بے تکلفی تھی‘ خوب سیرتی اور خوبصورتی کا مجموعہ تھے‘ آپ  لمبے قد وقامت‘ سفید مائل جاذب نظر‘ جس پر تقویٰ کے اثرات ”سیماہم فی وجوہہم من اثر السجود“ کے مصداق ظاہر تھے‘ تیکھے نقوش‘ سیاہ چمکدار آنکھیں اور کشادہ پیشانی جرأت اولو العزمی اور اعلیٰ ظرف کی شہادت دیتے تھے‘ مسنون خوبصورت داڑھی ”اوفروا اللحیٰ“ کا مظہر اتم تھے‘ سر پر نہایت سفید عمامہ جو ”در لباس فقر دارم تاج سلطانی بسر“ کی حقیقت‘ ہر وقت صاف اور سفید کپڑے اور جبہ زیب تن فرماتے‘ ہلکے جوتے جو آپ کے نرم ونازک قدموں کے ساتھ ”طابق النعل بالقدم“ کا نقشہ پیش کرتے۔
بس کیا کہنا: آپ سرتا پا ”عباد الله اذا روٴا ذکر الله“ کی تصویر تھے‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ چند الفاظ ایسی باکمال اور بے مثال زندگی کا تو مشت نمونہ خروار بھی نہیں۔
دامان نگاہ تنگ وکل حسن تو بسیار
کل چین تواز تنگی دامن گلہ دارد
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ الحدیث کی کامل مغفرت فرمائے اور حضرت شیخ کے جانشینوں کو حضرت شیخ کے نقش قدم پر قائم ودائم رکھیں۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: سبق آموز پیغام !
Flag Counter