Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

3 - 11
ایک خط کا جواب !
ایک خط کا جواب

مندرجہ ذیل نوسوالوں پرمشتمل ایک خط بینات کے ایک قاری کی طرف سے موصول ہوا،سائل کی خواہش کے احترام کے پیش نظر خط کاجواب بینات کے صفحات پرہدیہ قارئین ہے ۔


سوالات مندرجہ ذیل ہیں:
۱:۔ یزید پر لعنت جائز ہے یا ناجائز؟ اور لعنت کرنا اہل سنت والجماعت کا فعل ہے یا اہل تشیع کا؟
۲۔ یزید کو امیر یزید کہنے والا اہل سنت والجماعت سے خارج ہے یا نہیں؟
۳۔ کیا امام علی بن الحسین نے یزید کو اپنے والدمحترم کا قاتل یا قتل کا حکم دینے والا بتایا ہے؟
۴۔ خانوادہٴ حسینسے کسی نے یزید کو مورد الزام ٹھہرایا ہے یا نہیں؟
۵۔ کیا ستر صحابہ کرام  نے یزید کی بیعت کی ہے یا نہیں؟
۶۔ جنگ صفین میں حضرت علی کے مقابل حضرت امیر معاویہ کو خطاء اجتہادی کا مرتکب بتایاجاتا ہے، جن کا موقف قصاص دم عثمان تھا‘ لیکن کیا ہم حضرت حسین کو بھی مخطئ مجتہد کہہ سکتے ہیں؟ اور ان کی رائے کو ان کی اجتہادی خطأ گردان سکتے ہیں؟
۷۔ کیا تمام اغلاط کا صدور بنوامیہ سے ہوسکتا ہے اور بنوہاشم سے غلطی کا صدور ناممکنات میں سے ہے؟
۸۔ جو شخص یزید کو امیر یزید کہتا ہے ،اس کی امامت میں نماز ادا کی جاسکتی ہے؟
۹۔ ”حیات سیدنا یزید“ کتاب کا مطالعہ کرنا کیسا ہے؟
براہِ کرم ان سوالوں کے جوابات مرحمت فرماکر بینات میں شائع فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی۔
عبد المنان معاویہ
خریداری نمبر ۱۰۸۷۰ اللہ آباد‘ تحصیل لیاقت پور‘ ضلع رحیم یارخان پنجاب
السلام علیکم ورحمة اللہ
آپ کانو سوالوں پر مشتمل نصف ورقی خط کافی دنوں پہلے موصول ہوا، کوشش کے باوجود جواب لکھنے کی نوبت نہیں آسکی، تأخیر در تأخیر ہوتی رہی۔ شاید اس کی وجہ محض تکوینی ہو، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صدیوں پہلے پیش آمدہ حادثات وسانحات کی تحقیقات کی بجائے موجودہ حادثات وسانحات میں اگر کوئی مثبت کردارادا کیا جاسکے تو یقینا امت اسلامیہ کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا۔
۲:۔ جو لوگ دنیا سے جاچکے ہیں، ان کا قضیہ بڑی عدالت میں پیش ہوچکا ہے اور ایسی عدالت کہ جس کے مقابلے میں کسی اور عدالت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔
۳:۔ اس موضوع پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ طالب ہدایت کے لئے کسی نئی کھود کرید کی کوئی حاجت باقی نہیں رہی، اس لئے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ بلاحاجت وضرورت ایسے سانحات سے اپنی زبانوں کو محفوظ رکھا جائے جن سے ہمارے ہاتھ محفوظ ہیں۔
اگر آنجناب کی دسترس میں مکتوبات شیخ الاسلام حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ ہوں تو اس مجموعہ کی پہلی جلد میں حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کا مکتوب ۸۸-۸۹ مطالعہ فرمالیں، حضرت مدنی اور حضرت نانوتوی رحمہما اللہ کا عقیدہ ونظریہ ہی ہماری فکری اساس ہے، ہم اسی نظریہ کے حرف بحرف پیروکار ہیں۔
تاہم سوالوں کے مختصر جوابات پیش خدمت ہیں:
۱- یزید یا اس جیسے کسی متنازع شخص سے قطع نظر شریعت اسلامیہ کا عام اصول ہے جو یزید سے پہلے بھی معمول بہ تھا اور اس کے بعد بھی فقہاء امت نے اسے پوری صراحت کے ساتھ جابجا ذکر فرمایا ہے کہ کسی معین شخص کو نام لے کر لعنت کرنا درست نہیں ہے ،کیونکہ ”لعنت،،کی حقیقت یہ ہے کہ رحمت خداوندی سے کسی کو دور کرنا، جبکہ رحمت خداوندی کے فیصلے خدا تعالیٰ ہی کو زیب دیتے ہیں، البتہ جن لوگوں کے بارے میں قرآن وسنت میں تصریح کے ساتھ لعنت اور بددعاء کا ذکر ہے ان کے بارے میں بطور حکایت لعنت کرنا مباح ہے، اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ وعمل ہے، اہل تشیع کے خود ساختہ مجوسی معیار پر توصحابہ کرام  بھی پورا نہیں اترتے، یزید کے بارے میں ایسے لوگوں کے طرز عمل کا استفسار لایعنی ہے۔
۲-یزید کو ”امیر یزید،، کہنے والا اہل سنت والجماعت سے خارج ہے یا نہیں؟ یزید کی امارت کا مطلق انکار نہیں کیا جاسکتا، وہ ایک امر واقعی ہے، بایں معنی اگر کوئی یزید کو امیر کہے تو اس میں کوئی نزاع کی بات نہیں، کیونکہ وہ بلاشبہ امیر تھا۔ ۲۲/رجب ۶۰ھ سے لے کر تقریباً ۱۴/ربیع الاول ۶۴ھ تک اس کی امارت،حکومت، سلطنت اور ولایت رہی ہے ،یہ اعتراف اہل سنت والجماعت کے زمرے میں شامل رہنے کے منافی ہرگز نہیں ہے۔ اگر ”امیر،، سے یہ مراد ہو کہ وہ حضرات خلفاء راشدین کی طرح امیر المؤمنین تھا اور جناب یزید کی امارت، خلافت راشدہ کا تسلسل تھی تو ہمارے علم کے مطابق علماء اہل سنت میں سے کوئی بھی قائل تھااور نہ ہے، یہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ نہیں ہے، ایسی فکر کے حامل افراد کو اہل سنت والجماعت میں شامل سمجھنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ وہ خود ناصبی شناخت کو اپنے لئے مفید اور پسندیدہ سمجھتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ حضرات اہل بیت کے بارے میں ان کی دریدہ دہنی کی ضرورت اہل سنت کے دائرہ میں رہتے ہوئے پوری نہیں ہوسکتی۔
۳:۔ حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ نے یزید کو اپنے والد محترم کا قاتل یا قتل کا حکم دینے والا بتایا ہے؟ اس سوال پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ حضرت حسین  کے سانحہ کے وقت ان کے صاحبزادے کی عمر کیا تھی؟ کیا ان میں مدعی بننے کی لیاقت واہلیت تھی؟ اگر ہوتی بھی تو کسی عدالت سے انصاف مانگتے، اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے بلوغ کے بعد اس قسم کا دعویٰ یاعندیہ دیا ہو تو اس وقت مدعی علیہ دار فناء سے دار بقاء منتقل ہوچکے تھے، دعویٰ اور عندیہ بے سود تھا، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت، یزید کے دور امارت میں ہوئی، اسی کے نامزد کردہ لشکریوں کے ہاتھوں ہوئی ،جس کو یزید کے حکم اور مرضی کے خلاف قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لئے جو لوگ یزید کی امارت کو خالص اسلامی سمجھتے ہیں انہیں تو اس بات کا علی الاعلان اعتراف کرنا چاہئے کہ حضرت حسین کی شہادت کا ذمہ دار یزید ہی ہے، کیونکہ جب یزید حاکم تھا تو حضرت حسین  کا ناحق خون حدیث شریف کی رو سے حاکم وقت (یزید) کی گردن پر ہے، اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ حضرت حسین  کے اولیاء میں سے کوئی دعویٰ کرے یا نہ کرے ، یزید (حاکم وقت) بہرحال آپ کے خون کا ذمہ دار ہے۔
۴:۔ اس کا جواب بھی تقریباً وہی ہے جو اوپر گزرا یعنی خانوادہٴ حسین رضی اللہ عنہ میں سے بچا کون تھا جو یزید کو مورد الزام ٹھہراتا، اگر ا س کی حیات میں ٹھہراتا تو کس کے سامنے ٹھہراتا؟ اور اگر موت کے بعد ٹھہراتا تو اس کا فائدہ کیا تھا؟ کیونکہ مردوں کو گالیاں دینا اور قبروں کو پیٹنا یا پوجنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔
۵:۔ بلاشبہ متعدد صحابہ کرام نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، مگر اس سے یہ استدلال پکڑنے کی قطعاً گنجائش نہیں کہ یہ بیعت جناب یزید کے صفاء ظاہر وباطن پر کلی اعتماد کے نتیجے میں تھی، اس بیعت میں اس بات کی بھی کوئی ضمانت موجود نہیں کہ موصوف کی آخری اور واقعی حالت وہی تھی جو بیعت یا بیعت کے فیصلے کے وقت موجود تھی، یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں اہل السنت والجماعت کے عقیدے کی وضاحت حضرت عبد اللہ بن عمر  کے مندرجہ ذیل اثر کے بغیر بیان نہیں ہوسکتی ، ارشاد ہے:
”وقد روی انہ لما ولی یزید بن معاویہ قال ابن عمر: ان یکن خیراًشکرنا، وان یکن بلاءً صبرنا، ثم قرأ قولہ تعالیٰ : فان تولوا فانما علیہ ما حمل وعلیکم ما حملتم…الخ (شرح السیر الکبیر ۱/۱۰۸)
۶:۔جنگ صفین میں حضرت علی اور حضرت معاویہ کے قضیہ میں حضرت علی کو برحق کہا جاتا ہے، کیونکہ آپ بالاتفاق امام برحق تھے، حضرت معاویہ کو ان کی امامت وخلافت سے اختلاف نہیں تھا، اس لئے حضرت معاویہ کا اقدام اصطلاحی معنوں میں بغاوت اور خروج کے زمرے میں نہیں آتا ،اس کی بنیادی وجہ ان کا مقام صحابیت ہے، دوسری وجہ ان کی نیت اور مطالبہ کی صحت ہے، گوکہ اس سلسلے میں حضرت علی کا موقف بھی بہت وزنی تھا، اس لئے اہل سنت والجماعت جادہٴ حق کی پیروی میں حضرت معاویہ  کے اقدام کو ادب واحترام کا پاس رکھنے کے لئے ”اجتہادی غلطی،، سے تعبیر کرتے ہیں اور اجتہادی غلطی مقام عصمت کے منافی نہیں، چہ جائیکہ ”مقام حفاظت،، کے منافی قرار دیا جائے، بلکہ اس پر تو عام مجتہدین کے لئے اجر وثواب کا وعدہ ہے۔جبکہ حضرت حسین  اور جناب یزید کے درمیان اولاً وہ وجہ ٴ تقابل ہی معدوم ہے جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان موجود تھی یعنی مقام صحابیت اور رتبہٴ عدالت، کیونکہ حضرت حسین  کا صحابی ہونا اہل سنت کے ہاں اتفاقی ہے جبکہ جناب یزید کا ایمان وصلاح خود اہل سنت کے ہاں مختلف فیہ ہے۔
دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے حکمران سے علانیہ فسق وفجور سرزد ہونے کے بعد وہ حکمران فقہی لحاظ سے یا تو خود بخود معزول ہوجاتا ہے یا اسے معزول کرنے کے لئے ہرنوع کوشش کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہوجاتا ہے بلکہ بسا اوقات اقامت عدل کے لئے ایسی کوششیں اپنے آداب وشرائط کے ساتھ واجب بھی ہو جایا کرتی ہیں، اس اسلامی نقطہٴ نظر کے تناظر میں حضرت حسین  کے اقدام کو دیکھا جائے تو انہیں ناحق اور مخطئ قرار دینے کی کوئی شرعی وجہ بیان نہیں کی جاسکتی، اس لئے واقعہ کربلا میں حضرت حسین  کو جناب یزید کے مقابلے میں مخطئ مجتہد قرار دے کر ان کی رائے کو اجتہادی خطاء گرداننا، اہل سنت کے عقیدے کے مطابق درست نہیں ہے، بلکہ یوں کہنا حق وصواب ہے کہ حضرت حسین  کا اقدام شریعت کے دائرے میں شرعی اقتضاء کے تحت تھا اور ان کے معارض حضرات کا کا رنامہ شریعت سے متصادم تھا، یہی اہل سنت والجماعة کا عقیدہ ہے، اہل رفض کی عداوت میں شرعی حدود کو نہیں پھلانگنا چاہئے۔
۷:۔ تمام اغلاط کا بنوامیہ سے صدور اور بنوہاشم سے غلطی کے صدور کا عدم امکان یہ ایسا نظریہ ہے جسے اسلامی بلکہ پوری انسانی تاریخ جھٹلاتی ہے ،کیونکہ انبیاء ورسل ہوں یا صلحاء واتقیاء، خاندانوں کی تخصیص وتحدید کے ساتھ کبھی نہیں آئے، بلکہ انبیاء کے خاندانوں اور اولادوں میں ان کے منکر ومخالف بھی پیدا ہوتے رہے ، کہیں نبی کے گھر کافر پیدا ہوتا ہے کہیں کافر کے گھر نبی پیدا ہوتا ہے، کہیں غیر صلحاء کے ہاں اولیاء اللہ جنم لیتے ہیں کہیں اولیاء اللہ کے ہاں عاصی ونافرمان پیدا ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بعض مواقع پر اپنے خاص مقرب انبیاء وصلحاء کی خواہش کے باوجود ان کے بعض قریبی اعزہ کو ایمان ونجات کی دولت عطا نہیں ہوئی، حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے اور حضور اکرم ا کے عزیز چچا کا قصہ اس کی واضح مثال ہے ،کئی ہاشمی تھے جو حضور ا پر ایمان نہیں لائے اور حالت کفر میں حضور ا کے ساتھ لڑتے لڑتے اپنے انجام کو پہنچے، دوسری طرف کئی بنوامیہ تھے جو حضور ا پر ایمان لائے اور مسلمانوں کے سرخیل وجرنیل کہلائے اور انہوں نے رسول ہاشمی ا کے لائے ہوئے دین کو پھیلانے اور پہنچانے میں ایسا کردار ادا کیا کہ اس کردار کے بغیر نہ صرف اسلامی تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے بلکہ عین ممکن تھا کہ اسلام کو اس قدر وسعت نہ ملتی، بالخصوص پاکستان میں رہنے والے مسلمان جو اپنے آپ کو کسی بھی تصور کے تحت مسلمان کہتے ہیں یہ اس اسلامی معرکہ کی بدولت ہے جو بنوامیہ کے دور حکومت میں محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی قیادت میں سندھ کی دھرتی پر پیش آیا تھا۔اس لئے یہ سمجھنا چاہئے کہ شعوب وقبائل کی تقسیم تعلیمات نبویہ کے مطابق محض پہچان اور شناخت کے لئے ہے ،تفاضل وتفاخر کا مدار ومعیار ہرگز نہیں ہے، فضیلت وکرامت کا معیار ”تقویٰ،، ہے، جو حضور ا کے دین پر چل کر اللہ تعالیٰ کا قرب پائے گا وہی زیادہ عزت وکرامت والا ہوگا خواہ اس کا تعلق بنوہاشم سے ہو، بنوامیہ سے ہو یا کسی اور قوم وقبیلے سے ۔
مذکورہ فاسد خیال کے حاملین کو حضور ا کے خطبہٴ حجة الوداع اور مندرجہ ذیل ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے:”کل بنی آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون،،۔(مشکوٰة:۲۰۴)
۸:۔یزید کو امیر یزید کہنے والا امر واقعی کی حکایت کے طور پر کہتا ہو تو اس میں اشکال کی بات نہیں، اگر ناصبی اعتقاد کے تحت کہتا ہو تو یہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کے خلاف ہے، اس لئے اہل سنت والجماعت کی نماز ایسے شخص کی اقتداء میں مکروہ ہوگی، وجہ یہ ہے کہ ایسا شخص فسق یا بدعت کے حکم سے باہر نہیں ہوسکتا۔
۹:۔ ”حیات سیدنا یزید،، نامی کتاب یا اس جیسی دیگر کتابوں کا مطالعہ اس آدمی کے لئے درست ہے، جو علمی رسوخ اور فکری سلامتی سے بہرہ مند ہو، تعصب وعناد کا مریض نہ ہو اور صحیح وسقیم میں تمیز کی صلاحیت رکھتا ہو، اور جو ناپختہ ذہن رکھتا ہو، اہل سنت والجماعت کے متوارث نظریہ وعقیدہ سے باخبر نہ ہو اور اس کے بہک جانے کا اندیشہ ہو اور دین کے عنوان سے بے دینی، انصاف کے نام پر گستاخی اور روافض کی عداوت میں اہل بیت اطہار کی توہین وتنقیص کے ارتکاب کا خدشہ ہو تو اس کے لئے اس قسم کی کتابوں کا پڑھنا دینی وایمانی نقصان کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ (عالمگیری ۵/۳۷۷)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: متاثرین سوات کے لئے جامعہ کی خدمات !
Flag Counter