Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

9 - 10
حضرت اقدس سید نفیس شاہ الحسینی
حضرت اقدس سید نفیس شاہ الحسینی

کشادہ روشن جبین‘ شراب محبت سے مخمور فروزاں آنکھیں‘ نورانی بلند بینی مبارک‘ گھنی بھر پور ریش مبارک‘ وجیہ وشکیل‘ سرخ وسفید گلابی چہرہ‘ مسکرائیں تو دل موہ لیں‘ بات کریں تو پھول جھڑیں ”من راہ ہابہ ومن خالطہ احبہ“ کی سچی تصویر‘ ”اذا رأو ذکر اللہ“ کا اعلیٰ ترین نمونہ‘ میری مراد ان الفاظ سے ہمارے حضرت شیخ المشائخ حضرت اقدس سید نفیس الحسینی رحمہ اللہ ہیں۔ مولا پاک نے ظاہری طور پر جیسے آپ کو اجمل ،اکمل، احسن بنایا تھا‘ ایسے ہی باطنی طور پر کمالات واخلاق رفیعہ نبویہ کا حصہ وافر آپ کو عطا فرمایا تھا جو بلاشبہ سارا مشکوٰة نبوت کے نور سے ماخوذ ومستفاد تھا۔
آپ کے شب وروز‘ جلوت وخلوت‘ نشست وبرخاست‘ بلندی اخلاق وکردار‘ تقویٰ‘ تواضع وانکسار‘ صبر وتحمل قہر ومہر‘ فیاضی‘جود وسخا‘ مہمان نوازی‘ غرض یہ کہ آپ کا سب کچھ سنن وعادات نبویہ علی صاحبہا الصلاة والسلام کا عکس وپر تو تھا۔ آپ بلاشبہ دین کے جاری تمام شعبوں میں مقتدیٰ وپیشوا کی حیثیت رکھتے تھے اور سب کی سرپرستی فرماتے تھے ،لیکن آپ کا اپنا میدان عمل وہ دکان معرفت ومحبت تھی جس سے آپ ساری زندگی سودائے حق شناسی لٹاتے رہے‘ اپنی مجلس وتوجہ کی برکت سے سینکڑوں نہیں، ہزاروں کو سمجھایا بلکہ روشناس کرایا‘ ذائقہ چکھایا کہ علم ومطالعہ اور فکر ونظر کی جو لانیوں کے علاوہ بھی کچھ ایسے لذائذ وحقائق ہیں جن کا تعلق درون خانہٴ دل اور اندر کے جذبہ محبت وعشق سے ہے۔ الفاظ وگردان کی تعریف اور منبر ومحراب کے خطبہ وگونج سے ہٹ کر بھی کچھ ایسے علوم ومعارف ہیں جو ”از دل خیز د،بردل ریزد“ کا مصداق ہیں‘ جو انسانی قلعوں کو مسخر کرتے ہیں‘ فتح کرتے ہیں اور آپ  اس سلسلے میں اپنے وقت کے فاتح اعظم تھے۔ آپ کی مجلس ہمہ اوقات اللہ والوں کے تذکروں سے گرم رہا کرتی تھی‘ جن میں اکابرین علمائے دیوبند اور اہل بیت اطہار کا ذکر خیر غالب رہتا‘ اہل بیت سے لگاؤ اور تعلق والہانہ تھا‘ آپ ان کا تذکرہ بڑے جذباتی انداز میں فرمایا کرتے‘ آپ کو سیدنا حسین  اور سیدنا امام زید بن علی الشہید سے بے پناہ عقیدت ومودت تھی‘ بلکہ یوں کہنا مبالغہ سے خالی ہوگا کہ آپ کی ہرمجلس سیدنا حسنین بن علی ‘سیدنا زید بن علی الشہید‘ حضرت خواجہ گیسودراز‘ حضرت سید احمد شہید‘ حضرت رائے پوری کے تذکروں سے لبریز ہوا کرتی تھی۔حضرت حسین سے آپ کی محبت کا قدرے اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل اشعار سے لگایاجاسکتا ہے:
دوشِ نبی کے شاہ سواروں کی بات کر
کون ومکان کے راج دلاروں کی بات کر
جن کے نفس نفس میں تھے قرآن کھلے ہوئے
ان کربلا کے سینہ فگاروں کی بات کر
شہدائے کربلا کو اپنے اشعار میں یوں یاد فرماتے ہیں:
لایا جو خون رنگ دگر کربلا کے بعد
اونچا ہوا حسین کا سر کربلا کے بعد
ٹوٹا یزیدیت کی شب تار کافسوں
آئی حسینیت کی سحر کربلا کے بعد
جوہر کاشعر صفحہ ہستی پر ثبت ہے
پڑھتے ہیں جس کو اہل نظر کربلا کے بعد
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد
حضرت جی ! اہل بیت کی عظمت ومحبوبیت کے لئے بہت زیادہ حساس تھے اور ان حضرات میں خاطر خواہ تعلق گوارہ نہیں تھا جو حب ِ صحابہ کے خوبصورت عنوان کا سہارا لے کر اہل بیت اطہار پر طعن وتشنیع کے نشتر چلانے سے دریغ نہیں کرتے‘ چنانچہ آپ بڑے درد اور دکھی دل کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ:
”کیا یہ لوگ اسی لئے پید ا ہوئے ہیں کہ حضور اکو تکلیف پہنچائیں“۔
آپ نے ایک کتاب ”ریحان عزت“ تصنیف کرکے شائع فرمائی جس میں ایسے چالیس اولیائے کرام کا تذکرہ ہے جو اہل بیت  اطہار میں سے تھے۔ اسی طرح آپ نے ائمہ سادات کی تاریخ سے متعلق کتاب ”الافادة فی تاریخ الائمہ السادة“ تالیف الامام یحی بن الحسین بن ہارون الحسنی“ کو اپنے مطبع ”دار النفائس“ سے شائع فرمایا۔ آپ نے سیدنا ابو الحسین زید الشہید متوفی: ۱۲۲ھ بن سید علی الاوسط زین العابدین بن سیدنا حسین شہید کربلا سے متعلق کافی تحقیقی کام انجام دیا‘ چنانچہ آپ نے حضرت سیدنا زید بن علی الشہید کی اپنی تالیف مجموع اور حضرت امام موصوف کی ”مسند امام زید“ جمعہ عبد العزیز بن اسحاق البغدادی اور حضرت امام کی حیات ‘ آراء‘ فقہ‘ سے متعلق امام محمد ابو زہرہ کی تصنیف ”الامام زید وعصرہ وآرائہ وفقہہ“ اسی طرح ”الامام زید بن علی  “جو تالیف ہے الشیخ صالح ․․․․ کی اور ”ثورہ زید بن علی“ جو تالیف ہے ناجی حسن کی، ان تمام مذکورہ کتابوں کو جو صرف زر کثیر اور تلاش بسیار کے بعد حاصل ہوئی تھیں، اپنے ادارے دار النفائس سے شائع فرمایا ،اور اس گوہر نایاب (امام موصوف زید بن علی) سے ایک عالم کو روشناس کرایا۔
حضرت جی خود سادات میں سے تھے اور آپ کا سلسلہ نسب ۱۵/پندرہ واسطوں سے سر زمین ہند کی عظیم علمی وروحانی شخصیت قطب الاقطاب خواجہٴ دکن حضرت سید محمد حسینی گیسودراز قدس سرہ سے جاملتا ہے‘ آ پنے ”شمائم گیسودراز کے نام سے ایک کتاب تالیف فرمائی ہے، جس میں اپنا سفرنامہ گلبرگہ (جو مدفن ہے خواجہ گیسودراز کا) اور تذکرہ سادات گیسودراز پنجاب کے علاوہ حضرت خواجہ قدس سرہ کی اولاد واحباب کا تذکرہ نہایت محبت آمیز اور ولولہ انگیزانداز میں فرمایا ہے‘ حضرت خواجہ گیسودراز سے آپ کی عقیدت ومحبت کیسی تھی؟ اس کا اندازہ آپ کے ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے ۱۹۶۴ء میں تحریر کئے تھے ،جس کا عنوان تھا:
اے رونق بزم چشتیائی
اے مظہر شان کبریائی
اے پر توِ نور مصطفائی
اے پیکر زہد وپارسائی
اے وارث مقر مرتضائی
اے خواجہٴ خواجگان عالم
اے رشک اجودھنی وطائی
ہرنقش تو آداب بادہ
تاحشر منشاندہ روشنائی
یکبار کہ باریاب کردی
ہم بادگر کرم نمائی
شاق است چو بدل نفیسم
اے جان جہاں چراجدائی
حضرت نے پانچویں شعر میں اپنے ایک رویائے صادقہ کی جانب اشارہ فرمایا ہے‘ آپ رقم طراز ہیں کہ حضرت خواجہ گیسودراز قدس سرہ کو خواب میں دیکھاکہ ایک پہاڑ کی جوٹی پر ہیں‘ میں بچہ ہوں‘ حضرت کی انگشت مبارک تھا مے ہوئے چل رہا ہوں۔جذبہ جہاد آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا‘ اعلائے کلمة اللہ کے لئے جان نچھاور کرنے والے آپ کے بڑے منظور نظر اور آنکھوں کے تارے تھے‘ جس کا اظہار آپ کی مجالس میں سید احمد شہید اور شہید ان بالاکوٹ  کے تذکروں سے ہوا کرتا تھا ۔جہاد سے قلبی تعلق ومحبت ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے اپنی خانقاہ کا نام اپنے وقت کے امام المجاہدین مجاہد اعظم سید احمد شہید کے نام سے موسوم فرمایا تھا‘ جب افغانستان میں جہاد شروع ہوا تو آپ نے عملًا اس میں حصہ لیا اور تاحیات مجاہدین کی سرپرستی وخبرگیری فرماتے رہے۔ شہدائے بالاکوٹ کے حضور کچھ اس طرح آپ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں:
قبائے نور سے سبح کر،لہو سے باوضو ہوکر
وہ پہنچے بارگاہ حق میں کتنے سرخرو کر
جہاں رنگ وبو سے ماوراء ہے منزل جاناں
وہ گزرے اس جہاں سے بے نیاز رنگ وبو ہوکر
وہ رہباں شب کو ہوتے تھے تو فرساں دن میں رہتے تھے
صحابہ کرام کے چلے نقش قدم پر ہو بہو ہوکر
شہیدوں کے لہو سے ارض بالاکوٹ مشکیں ہے
نسیم صبح آتی ہے ادھر سے مشکبو ہوکر
نفیس ان عاشقان پاک طینت کی حیات وموت
رہے گی نقش دہر اسلامیوں کی آبرو ہوکر
آپ کی مجالس مبارکہ کی یہ اہم خصوصیت تھی کہ نہ کسی کی غیبت کی جاتی نہ عیب جوئی‘ نہ کسی کا تمسخر نہ کسی کی ایذاء رسانی کا تصور ‘ بلکہ اگر غیروں کے اندر بھی کوئی کمال وخوبی ہو اسے آپ بڑے شوق وذوق اور جذبہٴ قدر دانی کے ساتھ سنتے اور سناتے اور یہ فیضان تھا احسن الناس اخلاقا اکی مجالس پر انوار کا۔
مجھے یاد ہے ایک مرتبہ بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے عالم دین کا تذکرہ آپ نے یوں فرمایا کہ لاہورہی میں ایک جگہ مولانا قمر الدین سیالوی تشریف لائے‘ کچھ ساتھی لوگ مجھے بھی وہاں لے گئے‘ میرا ان سے اور ان کا مجھ سے کوئی تعارف نہیں تھا کہ کس مسلک سے تعلق ہے‘ مجلس میں کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے‘ کسی نے ان سے سوال کیا کہ حضرت تحذیر الناس (نامی کتاب) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ علامہ سیالوی  نے جواباً فرمایا :اس کتاب میں مولانا محمد قاسم نانوتوی جو فرما رہے ہیں ہمارے علماء وہاں تک پہنچے ہی نہیں ،(تحذیر الناس کی جس عبارت کی طرف سیالوی صاحب اشارہ کررہے تھے دوسرے لوگوں نے اس عبارت پر حضرت نانوتوی کی تکفیر کی تھی)دوران گفتگو علامہ سیالوی نے ایک بات اور بھی فرمائی کہ: علامہ محمد انور شاہ کشمیری کا حافظہ سرکاردو عالم ا کا معجزہ ہے ۔ حضرت خاتم المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کی زبانی ہم نے یہ بھی سنا کہ حضرت کشمیری جب شرق پور تشریف لائے تو اس وقت کے مرد الخلائق حضرت میاں شیر محمد شرقپوری نے حضرت کا بہت زیادہ اکرام فرمایا‘ رخصت کرتے وقت خانقاہ سے باہر راستے تک آئے‘ کسی نے کہا کہ حضرت یہ تو دیوبندی ہیں‘ تو حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ: دار العلوم دیوبند میں چار نوری وجود ہیں، جن میں سے ایک شاہ صاحب (علامہ کشمیری) ہیں۔ یہ واقعہ میاں شیر محمد شرقپوری  کی سوانح میں موجود ہے جو اول اول چھپی تھی‘ حضرت شاہ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ: شرقپور میں مولانا محمد ابراہیم صاحب جو شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ کے شاگرد اور حضرت میاں صاحب شرقپوری کے خادم تھے‘ مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے جانے کے بعد شام کو میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میاں صاحب نے فرمایا:
”مولوی محمد ابراہیم تسی موجود نئیں سی‘ آج مولانا محمد انور شاہ کشمیری آئے سی، اناں دے دل وچ اللہ دے عشق کا سورج چمکداسی“۔
یہ ہمارے بڑے لوگوں کے حالات ہیں‘ فروعی اور مسلکی اختلافات کے باوجود دوسروں کے کمالات کا اعتراف‘ ان کی قدردانی ہمارے اکابرین کا طرز عمل اور شیوہ رہا ہے‘ بعد کے لوگوں نے‘ چھوٹوں نے اس میں شدت پیدا کی‘ ایک دوسرے سے دور ہوئے‘ فاصلے بڑھے اور ایسا لگتا ہے کہ کبھی قریب تھے ہی نہیں۔ ہمارے اکابرین خصوصا اکابرین دیوبند میں اس سلسلے میں بڑی وسعت تھی اور اس معاملے میں ان کا بڑا حوصلہ تھا‘ سیاسی اختلاف کے باجود ان کی آپس کی محبت قابل رشک تھی‘ چنانچہ حضرت شیخ الہند کو شریف مکہ نے گرفتار کرایا‘ انگریزوں نے مع احباب قید کرکے مالٹا بھیج دیا‘ حضرت تھانوی ‘ حضرت مدنی کا نام لے کر دکھ کا اظہار کررہے تھے، مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ حضرت! مولانا مدنی تو خود گرفتار ہوئے ہیں تو آپ نے بڑے دکھ بھرے انداز میں فرمایا: ہاں! حضرت امام حسین بھی کربلا میں خود گئے تھے۔
سیاسی رجحان سے متعلق شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ اور حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی کے درمیان اختلاف تھا‘ اول الذکر حضرت کا رجحان جمعیة علماء ہند اور دوسرے حضرت کا رجحان مسلم لیگ کی طرف تھا‘ لیکن اللہ‘ اللہ‘ ایک دوسرے کی عظمت کا احساس‘ قدردانی اور آپس میں احترام کا تعلق کیا تھا؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگاسکتے ہیں کہ ایک مرتبہ سہارنپور میں سالانہ دینی عوامی جلسہ تھا‘ علامہ عثمانی نے تقریر فرمائی اور اپنے موقف کی حمایت اور مخالفین کی پر زور تردید فرمائی‘ اس کے بعد دوسری کسی نشست میں حضرت مدنی کا بیان شروع ہوا ،مجمع میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ حضرت عثمانی  نے آپ کے موقف کی تردید کی ہے‘ آپ بھی ان کے بارے میں کچھ فرمائیں تو حضرت مدنی نے فرمایا کہ: میرا اختلاف محمد علی جناح سے ہے‘ حضرت علامہ سے نہیں‘ اس لئے میں ان کے بارے میں ایک حرف بھی نہیں کہوں گا۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: نزولِ مسیح اور قرآن کریم
Flag Counter