Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

7 - 10
چند اہم اسلامی آداب
چند اہم اسلامی آداب
(۲)
ادب :۴
جب آپ کے گھر کے افراد میں سے کوئی فرد کسی علیحدہ کمرے میں ٹھہرا ہوا ہو اور آپ اس کے پاس جانا چاہتے ہوں تو اس سے پیشگی اجازت لیں، تاکہ آپ اسے ایسی حالت میں نہ دیکھیں ،جس حالت میں وہ یا آپ خود دیکھنا ناپسند کرتے ہوں ،چاہے وہ بیوی ہو یا محارم وغیرہ میں سے کوئی ہو، جیسے آپ کی والدہ ،والد ،بیٹیاں اور بیٹے۔ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے ” موطأ ،کتاب الاستیذان“ میں عطاء بن یسار سے مرسلا نقل کیاہے کہ:
”ایک شخص نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ:حضرت ! کیا میں اپنی ماں سے بھی اجازت لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں،اس شخص نے عرض کیا: میں تو اپنی ماں کیساتھ گھر میں رہتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجازت لے کر جاوٴ، کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تواپنی ماں کو ننگی حالت میں دیکھے ؟ اس نے عرض کیا: نہیں ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس اجازت لے کر جاوٴ۔“
ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آکر سوال کیاکہ: کیا میں اپنی ماں سے بھی اجازت لوں؟ انہوں نے فرمایا : تو ہر حالت میں اس کو دیکھنا پسند نہیں کر تا،(لہٰذا اجازت لو)۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب کسی کام سے گھر لوٹتے تو کھنکھارتے، تاکہ ہماری کسی ایسی حالت پر نگاہ نہ پڑے، جسے وہ پسند نہیں کرتے۔
ابن ماجہ میں کتاب الطب کے آخر میں ایک روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ جب گھر آتے تو پہلے کھنکھار تے اور آواز لگاتے ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا: کیا میں اپنی ماں سے بھی اجازت لوں؟ تو آپ انے فرمایا: ہاں، اگر تو اجازت نہیں لے گا تو اسے ایسی حالت میں دیکھے گا،جسے تو پسند نہیں کرتا۔
حضرت موسیٰ تابعی جو صحابی جلیل حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں، فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ والدہ صاحبہ کے پاس گیا، جب والد صاحب کمرہ میں داخل ہوئے تو میں بھی پیچھے پیچھے داخل ہوگیا تو والد صاحب نے اتنے زور سے میرسے سینے سے دھکا دیا کہ میں زمین پر گرگیا اور کہنے لگے :کیا بغیر اجازت داخل ہوتے ہو؟
حضرت نافع مولیٰ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کی عادت مبارک تھی کہ ان کا کوئی صاحبزادہ بلوغت کو پہنچ جاتا تو اسے الگ کردیتے۔ یعنی اپنے کمرہ سے الگ کردیتے ، اور اس کے بعد وہ بغیر اجازت ان کے کمرہ میں داخل نہ ہو تا تھا۔
ابن جریج ،عطاء بن ابی رباح سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا : کیا میں اپنی دو بہنوں سے بھی اجازت لوں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے عرض کیا: وہ میری پرورش میں ہیں، یعنی میرے گھر میں ہیں اور میری ذمہ داری میں ہیں اور میں ہی ان کی پرورش کرتا ہوں اور ان پر خرچ کرتا ہوں، فرمایا: کیا تجھے پسند ہے کہ تو ان کو ننگی حالت میں دیکھے ، پھر حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی :
﴿وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَأْذِنُوْا کَمَا اسْتاْذَنَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾ (نور:۵۹)
ترجمہ :…” اور جب پہنچیں لڑکے تم میں کے عقل کی حد کو تو ان کوویسی ہی اجازت لینی چاہیے ،جیسے لیتے رہے ہیں ان سے اگلے “۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اجازت لینا سب لوگوں پر واجب ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہر شخص کو اپنے والد ، والدہ،بھائی اور بہن سے اجازت لینی چاہیے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہر شخص کو اپنے بیٹے سے اجازت لینی چاہیے، اپنی ماں سے اگر چہ وہ بوڑھی ہو، اپنے بھائی سے، اپنی بہن سے ،اور اپنے باپ سے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان روایات میں اکثر کو اپنی کتاب ” الادب المفرد“میں ذکر کیا ہے اور بعض کو امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس سابقہ آیت کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔
ادب ۵:
جب آپ اپنے کسی بھائی ، دوست ،جاننے والے یا جس شخص سے آپ کو ملنا ہو ،اس کے دروازہ کو کھٹکھٹائیں تواتنی نرم آواز سے کھٹکھٹائیں، کہ جس سے پتہ چلے کہ دروازہ پر کوئی آیاہے ،اور اتنی زور اور شدت سے نہ کھٹکھٹائیں،جیسے کوئی سخت دل اورظالم انتظامیہ کے لوگ کھٹکھٹاتے ہیں ،جس سے صاحب خانہ پریشان ہو جائے ،کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے۔
ایک خاتون حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہاں کوئی دینی مسئلہ پوچھنے آئیں ،اور دروازہ اس طرح کھٹکھٹایا جس میں کچھ شدت تھی، امام صاحب باہر تشریف لائے اور فرمانے لگے: یہ تو پولیس والوں جیسا کھٹکھٹانا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت ادب کی بناء پر وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ کو ہاتھ کے ناخنوں سے کھٹکھٹاتے تھے ،جیسا کہ امام بخاری نے ” الادب المفرد“ میں ذکرکیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ نرمی سے کھٹکھٹا نا اس صورت میں ہے کہ جب صاحبِ خانہ دروازہ کے نزدیک بیٹھا ہو، لیکن اگر صاحبِ خانہ دروازہ سے دور ہو ،تو پھر اتنے زور سے کھٹکھٹانا چاہیے کہ صاحب خانہ آواز سن لے، اور اس میں بھی زیادہ شدت سے اجتناب کرے،اس سے پہلے حدیث شریف گزر چکی ہے کہ(نرمی جس چیز میں ہو گی وہ اسے خوبصورت بنادے گی،او ر جس چیز سے نرمی سلب کرلی جاتی ہے تو وہ اسے بد صورت بنادیتی ہے،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص نرمی سے محروم کردیا گیا وہ ہر خیر سے محروم کر دیا گیا۔“( مسلم شریف )
نیز اگر آپ کے دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد کسی نے دروازہ نہیں کھولا تو دوسری دفعہ کھٹکھٹانے سے پہلے اتنا وقفہ دیجے کہ وضو کرنے والا وضو سے اطمینان سے فارغ ہو جائے ، نماز پڑھنے والا اطمینان سے نماز سے فارغ ہو جائے، اگر کھانا کھارہا ہے تو حلق سے اطمینان سے لقمہ اتار لے، بعض علماء نے اس کی مقدار چاررکعت کی بیان کی ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ جب آپ نے دروازہ کھٹکھٹا یا ،اسی وقت اس نے نماز کی نیت باندھی ہو، تین بار وقفہ وقفہ سے کھٹکھٹانے کے بعداگر آپ کو اندازہ ہوجائے کہ اگر صاحبِ خانہ مشغول نہ ہوتا توضرور باہر نکل آتا ، توآپ واپس لوٹ جائیں ،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
” جب تم میں سے کوئی تین بار اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ ملے تو اسے چاہیے کہ واپس چلا جائے ۔“ ( بخاری و مسلم)
نیز جب آپ اندر جانے کی اجازت مانگیں تو دروازہ کے بالکل سامنے مت کھڑے ہوں ، بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کے دروازہ پر تشریف لے جاتے تو بالکل دروازہ کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے ،بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے ۔ ( ابو داوٴد)
ادب ۶:
جب آپ نے اپنے کسی بھائی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر سے آوازآئی :آپ کون؟ تو آپ اپنا وہ پورا نام بتلائیں جس سے آپ کو پکاراجاتا ہو کہ میں فلاں ہوں،لہٰذا یہ نہ کہیں کہ:کوئی ایک ہوں ،یا میں ہوں ،یا ایک شخص ہوں ،کیونکہ اندر سے پوچھنے والا ان الفاظ سے آنے والے کونہیں پہچان سکتا ،اور آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ صاحب خانہ آپ کی آوازپہچانتے ہیں، کیونکہ آوازیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور انداز بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں، لہٰذا ضروری نہیں کہ گھر والے آپ کی آواز کو پہچان سکیں یا امتیاز کرسکیں، کیونکہ کان بھی آواز کے پہچاننے میں غلطی کرتے ہیں ،اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ”میں“ کہنے کو ناپسند کیاہے، کیونکہ اس سے صحیح پہچان نہیں ہوتی ۔
حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہما سے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورجب میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : کون ؟ میں نے جواب میں عرض کیا : ”میں “تواس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بطور نکیر فرمایا : ”میں،میں“ گویا آپ صلی الله علیہ وسلم کو میرا ”میں “کہنا ناگوار گزرا۔یہی وجہ ہے کہ جب صحابہ کرام رضی الله عنہم سے کہاجاتا: کون ؟تو وہ اپنا نام لیتے تھے ۔
بخاری اورمسلم میں حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ایک رات جب میں اپنے گھر سے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تنہا تشریف لے جارہے ہیں ،میں چاند کے سائے میں چلنے لگا ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مڑکر دیکھا تومجھے دیکھ لیا اور فرمایا : یہ کون ہے؟میں نے عرض کیا: ابوذر!
نیز امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ کی بہن اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی چچازاد بہن ام ہانی سے روایت نقل کی ہے کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ، آپ غسل فرمارہے تھے اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا پردہ پکڑے ہوئے تھی ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کون ہیں ؟ تو میں نے کہا : میں ام ہانی ہوں ۔
ادب ۷
جب آپ بغیر کسی پیشگی وعدہ کے کسی بھائی سے ملاقات کے لیے جائیں ،یا پہلے کوئی وعدہ تھا، مگر اس نے اس وقت ملاقات سے معذرت کرلی تھی، تو آپ اس کی معذرت کو قبول کرلیں، کیونکہ وہ اپنے گھر کے حالات اور اپنی معذوریوں کو خوب جانتا ہے ،ممکن ہے کہ اسے کوئی خاص مانع پیش آگیا ہو، یا کوئی خاص ایسی حالت درپیش ہو کہ اس وقت وہ آپ کا استقبال نہ کرسکتاہو ،اور ایسے حالات میں آپ سے معذرت کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا، جلیل القدر تابعی حضرت قتادہ بن دعامة السدوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسے لوگوں کے دروازے پر مت کھڑے ہوں جنہوں نے آپ کو اپنے دروازہ سے واپس کر دیا ہو ، کیونکہ اگر آپ کی ضرورتیں ہیں تو ان کی بھی مصروفیات ہیں، لہٰذاان کو عذر کرنے کا زیادہ حق ہے۔
حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ہر آدمی اپنا عذر بیان نہیں کرسکتا، اسی لئے سلف صالحین کی عادت تھی کہ کسی کی ملاقات کے لئے جاتے تو اس سے کہتے: ممکن ہے، اس وقت آپ کو کوئی مشغولیت ہو! تاکہ صاحبِ خانہ اگر عذر پیش کرے تو اس کے لئے آسانی ہو۔
مذکورہ ادب کی اہمیت اور صاحبِ خانہ کی جانب سے معذرت کی صورت میں بعض حضرات کے نفس میں احساس پیدا ہو نے کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زیارت اور اجازت کے ضمن میں فرمایا:
”وَاِنْ قِیْلَ لَکُمْ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ“۔ ( نور،:۲۸)
ترجمہ :…”اوراگر تم کو جواب ملے کہ پھر جاؤ، تو پھر جاؤ، اس میں خوب ستھرائی ہے تمہارے لیے “۔
قرآن کریم کے اس ادب سے اس شخص کوبھی سہولت ہے ،جو بعض غلطیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے،مثلاً یہ کہ اُ سے کسی سے ملنا ناگوار ہو تا ہے تو وہ مجبوراً جھوٹ بولتا ہے، اور کسی سے کہلواتا ہے کہ وہ گھر میں نہیں ہے، حالانکہ وہ گھر میں موجود ہو تا ہے ،اس طرح اس سے جھوٹ کا گناہ سرزد ہوتا ہے ،اور اس سے گھر میں موجود چھوٹے بچے بھی یہ ناپسندیدہ عادت سیکھتے ہیں اور بسا اوقات اس غلط تصورسے دلوں میں دشمنی اور کینہ پیدا ہو تا ہے ۔
قرآن کریم کی ہدایت ہمیں اس بُرائی میں پڑنے سے روکتی ہے ،اس لئے وہ صاحبِ خانہ کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ بڑی نرمی سے اپنے آنے ولے بھائی سے معذرت کرلے ،اور آنے والے کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ صاحبِ خانہ کا عذر قبول کرے ۔اس لئے فرمایا:
”﴿وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ﴾۔“
ادب ۸
جب آپ کسی کے گھر میں جانے کی اجازت لیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی نگاہ گھر کے اندر یا کسی خاتون پر نہ پڑے ،کیونکہ وہ عیب اور بُرائی ہے۔
امام ابو داوٴد اور طبرانی نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا اور دروازہ کی طرف نگاہ کرتے ہوئے اندر آنے کی اجازت چاہی ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ: اس طرح کھڑے ہوا کرو، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہاں سے ہٹایا اور حکم دیا کہ دروازہ کے سامنے سے ہٹ کر کھڑے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اجازت تو اسی لئے لی جاتی ہے تاکہ نگاہ کی حفاظت ہو ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب” الادب المفرد “ میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لا یحل لامرئ أن ینظر إلی جوف بیت حتی یستأذن ،فإن فعل فقد دخل“۔
ترجمہ:…”کسی شخص کے لئے یہ حلال نہیں کہ بغیر اجازت کسی کے گھر کے اندر دیکھے ،پس اگر اس نے ایسا کیا تو گو یا وہ گھر میں داخل ہوگیا“۔
یعنی اجازت لینے سے پہلے اگر اس نے گھر کے اندر دیکھ لیا تو ایسا ہے جیسے وہ بغیر اجازت گھر کے اندر داخل ہوگیا، اور یہ اس کے لئے حرام فعل ہے۔
نیز امام بخاری اور امام ابو داوٴد اور امام ترمذی رحمہم اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”إذا دخل البصر فلاإذن لہ۔“
ترجمہ:”جب نگاہ اندر پڑگئی تو اجازت نہیں ہے“۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمار بن سعیدتتجیبی سے روایت کی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا :
”من ملأ عینہ من قاعة بیت أی ساحتہ وداخلہ قبل أن یؤذن لہ، فقد فسق۔“
یعنی جس شخص نے اجازت ملنے سے پہلے گھر میں خوب جی بھر کے دیکھ لیا تو وہ فاسق ہوگیا۔
نیز امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ ائمہ حدیث نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کے دروازے کے سوراخ سے جھانک رہا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجلانے کی لکڑی تھی جس سے آپ اپنا سر مبارک کھجلارہے تھے، جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھانکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اگر مجھے معلوم ہو تا کہ تم اندر جھانک رہے ہو تو میں اسی لکڑی سے تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا! اجازت لینے کا حکم اسی لئے دیا گیا ہے تاکہ نگاہ اندر نہ پڑے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: اعجاز قرآنی باعتبار مفردات
Flag Counter