Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

6 - 10
اعجاز قرآنی باعتبار مفردات
اعجاز قرآنی باعتبار مفردات:

حضرت نے فرمایا کہ: قرآن کریم تمام کا تمام معجز ہے اور قرآن کا یہ اعجاز قرآن کے مفردات ‘ مرکبات، اس کے کلمات کی ترکیب والتیام اور اس کے مقاصد وحقائق میں جاری وساری ہے ،چنانچہ لفظاً ‘ ترکیباً ترتیباً بھی قرآن کریم معجز ہے ،نیز اپنے اغراض ومقاصد اور عالی مرتبت علوم وحقائق کے اعتبار سے بھی قرآن کریم معجز ہے۔
اعجاز قرآنی باعتبار مفردات:
ارشاد فرمایا کہ: مفردات قرآن کے اعتبار سے قرآنی اعجاز کے ثبوت کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن مجید کسی ایسے معاملہ کے متعلق بحث کرتا ہے جس میں عقلاء کی آراء میں اختلاف واقع ہوا ہو اور اس بحث کے مختلف پہلو آشکارا کئے گئے ہوں ،لیکن عقول متحیر وسرگرداں رہیں اور حقیقت حال کا ادراک نہ کر سکیں،نیز کسی جہت کی صحت واضح نہ ہوتی ہو اور حقیقت کی جانب راہ یابی نہ ہوسکے، تب ایسے معاملہ میں قرآن کریم مفرد کلمات سے وہ تعبیر پیش کرتا ہے جو اس تعبیر سے زیادہ حقیقت کو واضح کرنے والی موقع ومقام کے مناسب اور مقصد کو پورا ادا کرنے والی تعبیر ناممکن ہوا کرتی ہے اور ثقلین بھی اگرجمع ہوکر اس مقام پر کوئی اور لفظ جو حقیقت کے قریب تر اور مقصد ومطلب کو واشگاف کرنے والا ہو، لانا چاہیں تو خائب وخاسر ہی لوٹیں اور اپنے عجز وقصور کو سمجھ لیں۔،اس لئے کہ قرآنی تعبیر کے علاوہ اس مطلوبہ غرض کو کسی اور کلمہ سے مکمل طور پر بیان کر دینا محال اور ناممکن ہے۔قرآن کریم کی یہی عالی مرتبت شان ہے کہ وہ ایسے سنجیدہ اور غامض حقائق کو جن کے متعلق افکار برگراں رہیں اور ان کو تفصیلی ابحاث میں بھی بیان نہ کیا جاسکے ،ایک کلمہ مفردہ میں واضح کردیتا ہے ۔ذیل میں ہم اس کی ایک مثال پیش کرتے ہیں جو اگلی سطور میں پیش کی جانے والی غرض اوربحث کی تمہید بھی ہے۔
عام کفار عرب بعث بعد الموت کے منکر تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے جسمانی جوڑ بکھر جاتے ہیں اور اس کے اجزائے بدن کچھ اس طرح فناء ہوجاتے ہیں کہ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا ،قرآن کریم نے مختلف ومتعدد مواقع میں ان کے اس باطل خیال کو ذکر فرمایا ہے ۔ سورةالانعام میں باری جل شانہ کا فرمان عالیشان ہے:
”وقالوا ان ہی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیی وما نحن بمبعوثین“
اور صحیح بخاری میں کسی عرب شاعر کا یہ شعر نقل کیا گیا ہے:
یخبرناالرسول بأن سنحیی
وکیف حیاة اصداء وھام
ترجمہ:۔” یہ رسول ہمیں بتلاتا ہے کہ ہم عنقریب (مرنے کے بعد) زندہ کئے جائیں گے، حالانکہ صدائیں اور کھوپڑیاں کیونکر زندہ ہوسکتی ہیں۔“
اس شعر میں مستعمل لفظ ”اصداء“ ”الصدی“ سے مأخوذ ہے اور چونکہ عرب کا یہ خیال تھا کہ جب کوئی شخص قتل کیا جاتا ہے تو اس کے سر سے ایک پرندہ نکلتا ہے اور وہ با آواز بلند یہ صدائیں بلند کرتا ہے کہ مجھے قاتل کا خون پلاؤ ،مجھے قاتل کا خون پلاؤ ۔اور وہ یہ پکار اس وقت تک جاری رکھتا ہے جب تک کہ اس کا انتقام نہ لے لیا جائے ۔اسی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ”الصدی“ کی یہی تشریح صحیح بخاری کی مختلف شروح ،نیز فرید وجدی کی ”دائرہ المعارف“ میں مادہ ”الصدی“ کے ذیل میں مذکور ہے ۔
چنانچہ عرب میں مرنے کے بعد حساب وکتاب ،آخرت ومعاد کا کوئی تصور ہی نہ تھا، ان کا گمان تھا کہ یہ دنیا اسی طرح قائم رہے گی اور کبھی فنا ہی نہ ہوگی ،صاعد اندلسی نے ”بقات الامم“ ص:۶۸ اور شہرستانی نے ”الملل والنحل“ اور دیگر علماء نے عرب کے اس تصور عدم فنا کو بیان فرمایا ہے اور انہی عرب میں ایک مختصر جماعت معاد کی قائل بھی تھی، جیساکہ بعض شعرائے جاہلیت کے اشعار میں اس معاد کا تذکرہ موجود ہے ،پھر اس مختصر جماعت (جو معاد کی قائل تھی) کے درمیان بھی اس لغت کی کیفیت میں اختلاف تھا اور کوئی قابل اطمینان واعتماد بات ان کے لئے بھی واضح نہ ہوئی تھی، جیساکہ باری تعالیٰ نے ان کی اس بے اطمینانی کی کیفیت کو یوں فرمایا: ”فہم فی امر مریج“ اسی طرح ”ابو الطیب متنبی“ نے اس حقیقت کی طرف ان اشعار میں اشارہ کیا ہے:
ترجمہ:۔” ۱۔لوگ اپنی آراء میں اس قدر مخالف ہیں کہ کسی معاملہ میں ان کا اتفاق نہیں ہے، ہاں صرف موت کے وقوع میں ان کا اتفاق ہے بلکہ موت کے بارے میں بھی آپس میں اختلاف ہے۔
۲-بعض کہتے ہیں کہ انسان کی صرف روح تو صحیح سلامت نکلتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس ہلاکت میں روح اورجسم دونوں شریک ہوتے ہیں ۔
۳-جو شخص دنیا اور دنیوی زندگی کے متعلق غور وتأمل میں لگے گا تو یہ غور وفکر اس کو ناتوانی، عاجزی اور تھکن کے درمیان کھڑا کر دیگی۔“
زمانہ جاہلیت میں عرب نے موت کے لئے اپنے قید وادراک کے اعتبار سے مختلف نام متعین کررکھے تھے۔ ابن سیدة اندلسی نے یہ نام ”المخصص“ جلد ۶ ص:۱۱۵ پر شمار کئے ہیں جو درج ذیل ہیں:۱- ہمیغ‘ ۲- النیط‘ ۳- الرہر‘ ۴- المنون‘ ۵- الشعوب‘ ۶- الفود‘ ۷- الحمام‘ ۸- السام‘ ۹- المقدار‘ ۱۰- قتیم‘ ۱۱- جباز‘ حلاق‘ ۱۳- القاضیة‘ ۱۴- الطلاطل‘ ۱۵- الطلاطلة‘ ۱۶- العول‘ ۱۷- الذام‘ ۱۸- الکفت‘ ۱۹- الجداع‘ ۲۰- الحزرہ‘ ۲۱- الحتف‘ ۲۲- الخالج
اور ان اسماء میں سے اکثر کے لئے زمانہ جاہلیت کے شعراء کے اشعار سے شواہد بھی پیش کئے ہیں اور لفظ ۲۳- التوفی بھی من جملہ اسماء موت ذکر فرما کر اس کے لئے قرآنی آیت سے شاہد پیش فرمایا ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزول سے قبل لفظ ”توفی“ ان کے ہاں موت کے لئے مستعمل نہ تھا۔ اسلام کے آنے کے ساتھ جب نزول قرآن ہوا، قرآن کریم نے عقیدہ ٴ معاد وبعث بعد الموت ‘ عقیدہ ٴ قیامت اور عقیدہٴ حساب وکتاب کو بیان کیا اور ان کے عقیدہ ٴ فنا ء محض ‘ عقیدہ ٴ عدم بقائے روح‘ ومرکز ،دوبارہ جی اٹھنے کو مستعبد سمجھنے اور اجزاء بدن کے پارہ پارہ ہوجانے کے بعد از سر نو اجتماع پر ان کے تعجب ومضحکہ کی شدید تردید وتنقیدکی اور یہ واضح کیا کہ ظاہری جسم کو بقاء حاصل ہوگی اور اس عقیدہ کے اثبات پر بعث بعد الموت کی حقیقت کے متعلق مختلف امثلہ بیان فرمائیں جو عام عقول واذہان کے لئے نہایت آسان فہم تھیں ،نیز ان کے استبعاد اور بعث بعدالموت جو ان کے لئے ایک پوشیدہ وپیچیدہ معمہ تھا کچھ اس طرح آشکارا فرمایا کہ قلوب سلیمہ کو اطمینان اور نفوس طیبہ کو شفایابی ہوسکتی تھی ،اس حقیقت کو آشکارا کرنے کے لئے لفظ ”توفی“ استعمال فرمایا گیا، جس کے معنیٰ کسی چیز کو کامل ومکمل اور صحت وسلامت کے ساتھ لے لینے کے ہیں، اس طور پر کہ اس لینے میں ذرہ بھر نقص وخلل کو دخل نہ ہو، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان ارواح کے لئے اللہ رب العزت کے ہاں ایک علیحدہ مقام ہے اوران اجزاء بدن کے لئے بھی مستقل علیحدہ مقام ہے ،جہاں یہ دونوں صحیح وسلامت موجود ہیں اور جب خداوند علیم وخبیر چاہیں گے ،ان کو جمع فرمادیں گے۔ جیساکہ باری جل وعلا کا فرمان ہے: ”وہو علی جمعہم اذا یشاء قدیر“ بدن کا کوئی ذرہ بھی خداوند تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ان اجزاء بدن میں خداوند تعالیٰ کو کوئی اشتباہ واختلاط ہوسکتا ہے ۔ اسی عدم اشتباہ والتباس کو رب العزت نے یوں فرمایا: ”وعند نا کتاب حفیظ“۔
شیخ نے فرمایا کہ: عرب کے وہ ناتجربہ کار ادباء (جو باوجود یہ کہ فصاحت وبلاغت میں طاق تھے لیکن قرآنی تعبیرات میں ناتجربہ کار اور بھولے بھالے تھے) قرآنی کلمات کی مانند جو کلمات حقیقت ومعرفت سے بھرپور‘ وقار ومرتبت کی چاشنی لئے ہوئے اور مضبوطی ‘ شدت ومخالفت میں بے مثل ‘ کلمات وجمل کہاں پیش کرسکتے ہیں؟ آپ بھی ذرا دیکھئے: لفظ شہادت کو قتل کے لئے کس خوبی سے استعمال کیا گیا اور موت کے لئے جو یوں تعبیر فرمائی گئی :”فمنہم من قضیٰ نحبہ“ کی لطافت وجرأت کو دیکھئے! ”تحیة الاسلام“ میں حضرت شیخ کشمیری فرماتے ہیں کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ”توفی“کا موت کے لئے شائع وذائع استعمال بھی اسلامی ادوار ہی میں قرآن کی اتباع کرتے ہوئے ہوا ،اور شاید اسی وجہ سے شیخ ازہری نے ”تہذیب الالفاظ“ اور ثعالبی نے ”فقہ اللغة“ میں لفظ ”توفی“ کو موت کے اسماء میں ذکر نہیں فرمایا ہے۔
راقم عرض کرتا ہے کہ: شیخ کے کلام کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ صاحب ”المخصص“ صاعد اندلسی نے بھی جو لفظ ”توفی“ کو اسمائے موت میں ذکر فرمایا ہے تو قرآن کریم کی آیت ہی بطور شاہد پیش کی ہے، جیساکہ ماقبل میں بیان بھی کیا جاچکا۔
اسی طرح ان کے ہاں موت کی وہ حقیقت ہرگز نہیں تھی جو اسلام نے پیش کی، چنانچہ وہ کیسے موت کی تعبیر لفظ ”توفی“ سے کرسکتے تھے۔ ”توفی“ کے اس معنی کی ان کو واقفیت ہی نہ تھی ،بلکہ لفظ ”توفی “کا معنی لغوی ان کے ہاں صرف یہ تھا کہ کسی چیز کو پورا علی جہة الکمال لے لینا ،جیساکہ ”طرفہ“ کی بہن نے ”طرفہ“ کے مرثیہ میں لفظ توفی کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے:
ترجمہ:۔”۱- ہم نے اس کی عمر کے چھبیس سال شمار کئے، جب اس نے چھبیس سال اپنی عمر میں سے پورے پورے وصول کرلئے تو وہ ایک عالی قدر سردار کے رتبہ پر فائز ہوگیا۔
۲- ہمیں اچانک اس کا صدمہ پہنچا کہ جب ہم اسکی عمدہ حالت میں واپسی کی امید میں تھے،جو نہ بچپنے کی حالت تھی اور نہ بڑھاپے کی۔“
حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ لفظ توفی میں ایک اور باریک نکتہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے اور وہ یہ کہ ”متوفی“ متوفی ٰکا حق ہوا کرتا ہے ،چنانچہ ایک شخص نے اپنے گم کردہ گھوڑے کو صحراء میں پکڑلیا تو یہ نہ کہا جائے گا کہ ”توفیت الفرس“ میں نے اپنے گھوڑے کو پورا لے لیا ،بلکہ کہا جائے گا کہ ”توفیت حقی“ یعنی میں نے اپنا حق حاصل کرلیا ۔اور فارسی میں اس کا ترجمہ یوں ہوگا ”وصول کردم حق خویش را“ چنانچہ جب لفظ توفی اپنے حق کی وصولیابی کے لئے ہوتا ہے اور اپنا حق کسی غیر کے پاس صرف عاریت کے طور پر ایک مقررہ مدت کے ہوا کرتا ہے اور اس جہت سے ضمنی طور پر مدت مقررہ کے پورا کرانے کو بھی شامل ہوتا ہے، اس لئے کہ صاحب حق اپنے حق کی وصولیابی کا جس وقت چاہے مستقل طور پر مختار ہے، جیساکہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ترجمہ:۔”۱- وہ لوگ اپنی عمر شباب کے گھوڑے سرپٹ دوڑانے لگے اور وہ خائف تھے کہ یہ گھوڑے ان سے لے لئے جائیں گے، اس لئے کہ یہ گھوڑے بطور عاریت ان کو دیئے گئے ہیں۔ (اور صاحب حق جس وقت چاہے لے سکتا ہے)۔“ ترجمہ:۔”۱- روح اور جسم تو محض ودیعت کردہ ہیں اور ایک دن ضرور آتا ہے، جبکہ ودائع واپس لے لی جاتی ہیں ۔“
شیخ فرماتے ہیں کہ : لفظ ”توفی“ کے حق جل شانہ کی طرف مسند ومنسوب ہونے میں ایک اور باریک نکتہ ہے اور وہ یہ کہ لفظ توفی مشیر ہے اس بات پر کہ متوفی کا صحیح تر مالک باقی رہنے والی ملک ہے جس پر کبھی فنا وہلاکت نہ آئے گی۔ حضرت شیخ کہ الفاظ ”تحیة الاسلام“ ص:۳۳ میں یوں ہیں
اور جا ن لیجئے کہ لفظ توفی جس کے معنی حق کی وصولیابی کے ہیں جب اس کی اسناد مقام اختصاص میں اللہ رب العزت کی طرف ہو تو یہ لفظ دلالت کرتا ہے اس بات پر کہ متوفی چونکہ ”باقی“ کی ملکیت میں داخل ہوگیاہے (اور باقی کی ملکیت بھی باقی ہوتی ہے) اس لئے اب اس متوفی پر بھی کبھی ہلاکت اور فنا نہ آئے گی، یہی معنی مراد ہیں حق جل شانہ کے اس مبارک فرمان سے: ”وکنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون“ یعنی دوسری مرتبہ کا جلانا اور مارنا پہلی مرتبہ کی طرح نہ ہوگا کہ اس کی انتہاء ”ثم الیہ ترجعون“ (یعنی اسی رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے) پر ہوگی اور اسی طرح اس احیاء کی انتہاء ”ما عندکم ینفد وما عند اللّٰہ باق“ (جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے) پر ہوگی
چنانچہ جب روح متوفی ہوتی ہے ،ا س لئے اب وہ خداوند تعالیٰ کے ہاں ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گی ،معلوم ہوا کہ لفظ توفی ”متوفی“ کے باقی رہنے پر بھی دلالت کررہا ہے، چونکہ سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام کے بدن مبارک اور ان کی روح دونوں کو اللہ رب العزت نے اٹھالیا تھا اور ان کے علاوہ کسی کی روح اس کے بدن کے ساتھ نہ اٹھائی گئی تھی ،اس لئے سورہ آل عمران میں حضرت عیسی علیہ السلام کی رفع جسمانی وروحانی کو یوں بیان فرمایا گیا کہ لفظ ”متوفیک“ کے بعد ”ورافعک الی“ کا بھی اضافہ کردیا گیا، نیز لفظ توفی کی اسناد اللہ رب العزت کی طرف یا تو مقام اختصاص میں یا مطلقاً لفظ توفی کے استعمال کے وقت ہوئی ہے، وگرنہ لفظ توفی کی اسناد ملائکہ کی طرف ہوتی ہے
توفی کے اسی معنی کو (یعنی جسم اور روح دونوں کے ساتھ مان لینا) امام راغب نے اپنی ”مفردات القرآن“ میں یوں تعبیر فرمایا ہے ”توفی اختصاص وشرف لا توفی موت“ پھر چونکہ نیند میں بھی ایک قسم کی توفی والی کیفیت ہوتی ہے ،اس لئے قرآن کریم نے نیند کے لئے بھی لفظ توفی استعمال فرمایا ہے ،باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اللّٰہ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا“ اسی طرح اس ارشاد گرامی میں: ”وہو الذی یتوفاکم باللیل“ الخ
حضرت کشمیری فرماتے ہیں کہ: باری جل شانہ کے فرمان ”اللّٰہ یتوفی الانفس“ میں لفظ ”الانفس“ کو صراحةً اس لئے ذکر کیا گیا کہ موت کے وقت کی توفی لوگوں کو قرآن کریم سے معلوم ہورہی تھی ،لیکن نیند کے وقت جو توفی ہوتی ہے وہ تو ایک انوکھی بات تھی، چنانچہ قرآن نے ان کو یہ بتلایا کہ نیند میں بھی توفی نفس وقوع پذیر ہوتی ہے ،اس لئے صراحةً نفس کا ذکر کیا گیا
پھر جب ایک مرتبہ نیند کے وقت کی توفی باور کرادی گئی تھی اس لئے بعد ازاں ”توفی منام“ کے لئے بھی مطلقا لفظ توفی مستعمل ہوا اور یوں فرمایا گیا: ”وہو الذی یتوفاکم باللیل“
راقم کہتا ہے کہ شیخ کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ جب حق جل شانہ نے لوگوں کو یہ بات باور کروانی چاہی کہ بوقت منام بھی ایک قسم کی توفی واقع ہوتی ہے تو وہاں لفظ ”الانفس“ کی صراحت فرمائی ،تاکہ بوقت منام توفی کی حقیقت سے معرفت وواقفیت حاصل ہوجائے ،پھر جب لوگوں میں بوقت منام کی توفی کی واقفیت عام ہوئی، تب بعد ازاں لفظ ”الانفس“ ذکر کرنے کی حاجت باقی نہ رہی، اور توفی بوقت منام کے لئے بھی مطلقاً لفظ ”توفی“ وارد ہوا، چنانچہ فرمایا گیا (وہو الذی یتوفا کم باللیل)
حضرت کشمیری نے اس لطیفے کے بیان میں وہ اشکال جو عموماً دلوں میں کھٹکتا ہے کہ ایک آیت میں ”توفی منام“ کے ساتھ ”الانفس“ کی تصریح فرمائی گئی اور دوسری آیت میں تصریح ذکر نہ ہوئی، اس اشکال کو کس عمدہ لطیفہ ومعرفت کے عکس میں زائل کردیا اور کس قدر عمدہ علمی جواہر اپنی تصانیف میں بکھیر دیئے فللہ درہ پھر شیخ نے فرمایا کہ: ”میری مراد یہ ہے کہ لفظ ”الانفس“ کی تصریح فرماکر اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ بوقت نوم اور بوقت موت ہر دو مواقع پر علیحدہ علیحدہ نوع کی توفی واقع ہوتی ہے ،جس میں اللہ رب العزت کے بلا واسطہ فعل کا دخل ہوتا ہے، قرآن کریم بعض مواضع میں ایسے حقائق کا اظہار کرتا ہے ،جنہیں اہل عرف نہ پہنچانتے تھے اور ممکن ہے کہ اہل عرب بھی واضح طور پرنہ جانتے ہوں بوقت موت بھی توفی واقع ہوتی ہے جو تحصیل کے معنی میں ہے …الخ ۔حضرت شیخ نے ”تحیة الاسلام“ کے اسی مقام پر ایک خاص بحث فرمائی ہے، جس کا خلاصہ یوں ہے:
جان لیجئے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب موت کو فنائے محض اور انعدام صرف خیال کرتے تھے، قرآن کریم نے ان کو بتلایا کہ موت کا معاملہ اس طرح نہیں ہے، جیساکہ وہ خیال کررہے ہیں، بلکہ بوقت موت خداوند تعالیٰ کی طرف سے توفی کا وقوع ہوتا ہے، اگرچہ ”توفی“ بعینہ موت نہیں ہے ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ موت پر توفی کا استعمال ہوا ہے، لیکن بہرحال محل ذکر موت میں لفظ توفی کا استعمال اہل عرب کو قرآن ہی سے معلوم ہوا تھا اور قرآن ہی سے اس حقیقت کی طرف ان کی راہ یابی کی تھی اور ان کو یہ حقیقت سمجھائی تھی ،حقیقةً لفظ توفی ہر اس مقام پر مستعمل ہوسکتا ہے جہاں ”اخذ“ یعنی لے لینے کے معنی ہوں ، چنانچہ موت ،نوم اور رفع ہر تین پر لفظ توفی صادق آتا ہے ۔
لغوی اعتبار سے لفظ توفی کی یہی حقیقت ہے اور قرآن کریم کا منصب ومقصد بھی حقائق کو واشگاف کرناہے جس شخص کو اللہ جل شانہ کی طرف سے قرآنی بلاغت میں ذوق بخشا گیا ہو اور عربیت کا حظ عطا ہواہو، وہ یہ بات بخوبی جان سکتا ہے کہ قرآن کریم کا طرز عامیانہ گفتگو کی طرح ہرگز نہیں ہے، بلکہ الفاظ کے چناؤ میں قرآن کریم کا ایک امتیازی طرز وطریقہ ہے ،جس میں وضع اصلی کا بھی خوب لحاظ ہے اور معنی موضوع لہ کے حقائق ومعارف کی بھی عمدہ رعایت رکھی گئی ہے ،اسی بناء پر قرآن کریم کے کسی لفظ کے بدل میں کوئی دوسرا لفظ وضع کرنا متعذر ہی نہیں ،بلکہ محال ہے ،جس کی وجہ مختلف اشیاء کی مختلف حقائق سے ناواقفیت ،نیز اس مقام خاص کے حق کو پورا ادا کرنے سے عاجز ی ہے، قرآن کریم اس قدر باریک طرز پر اور ایسی انوکھی تعبیر سے فوائدمتعین کرتا ہے جس کے بدل لانے سے عقول وافہام قاصر اور سرخیل دانشوران قوم کے مدارک شعور عاجز رہ جاتے ہیں ۔
بعدازاں شیخ کشمیری نے آیت توفی یعنی باری جل شانہ کے ارشاد گرامی ”یا عیسی انی متوفیک ورافعک الیّ“ کے ذیل میں فصاحت وبلاغت کے عجیب وغریب نکات واضح فرمائے ہیں اور نظم قرآنی کے لطائف ومعارف واضح کئے ہیں یہ تمام ترتفصیلات حضرت شیخ کی کتاب ”عقیدة الاسلام فی حیاة عیسی“ اور اس پر شیخ کی تعلیقات موسوم بہ ”تحیة الاسلام“ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۰ھ - مارچ ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں
Flag Counter