Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

9 - 10
علامہ محمد عبداللہ
علامہ محمد عبداللہ (۲)


۱۰:… علامہ ابن قیمکتاب میں ا یک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ پانچ مواقع پر عورت کو مرد سے نصف حیثیت حاصل ہے‘ جن میں سے ایک عقیقہ ہے‘ اس پر جعفری صاحب نے فٹ نوٹ کی شکل میں حضرت مصنف کے خلاف اختلافی نوٹ دیا ہے‘ اس کے چند جملے قارئین کی ضیافت کے لئے نقل کئے جاتے ہیں:
”اگر کسی معاملہ میں مرد کو عورت پر تفوق حاصل ہے تو کسی معاملہ میں عورت‘ مرد پر تفوق رکھتی ہے‘ مثلاً پاکدامن عورت پر بدچلنی کا اتہام لگانے کی سزا اسی کوڑے ہے‘ لیکن پاکدامن مرد پر بدچلنی کی تہمت پر یہ سزا نہیں ہے (ج:۱‘ ص:۱۲۹‘ حاشیہ)
مدارس عربیہ میں ایک جملہ بولا جاتا ہے: ”من لم یعرف الفقہ‘ قد صنَّف فیہ کتاباً“ تعجب ہے کہ ایک شخص علم سے اتنا بے بہرہ، اور جرأت یہ کہ شریعت کے طے شدہ مسائل میں ائمہ دین کے برخلاف رائے زنی کی جارہی ہے‘ معلوم نہیں حد قذف کے مسئلہ میں عورت اور مرد کا فرق جعفری صاحب نے کہا ں سے نکال لیا۔ اسی پر صادق آتی ہے‘ مثل:
”انف فی الماء واست فی السماء۔“
۱۱:… ایک مقام پر کتاب میں یہ الفاظ آئے ہیں:
اتی سباطة قوم‘ وھو ملقی الکناسة‘ ویسمی المزبلة۔“
اس کا صحیح ترجمہ: ”آپ الوگوں کی کوڑی کے پاس آئے اور کوڑی اس جگہ کو کہتے ہیں‘ جہاں کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا ہو‘ اور اس کو عربی میں ”مزبلة“ بھی کہا جاتا ہے۔“ جعفری صاحب نے اس موقع پر حد کردی ہے‘ غلطی نہیں بلکہ ”غلطاڑ“ کے مرتکب ہوئے ہیں‘ لکھتے ہیں:”آپ اایک کوڑے کے ڈھیر کے پاس تشریف لائے‘ آپ ا مزبلہ نام کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔“ (ج:۱‘ ص:۱۳۸)
لاحول ولا قوّة الاّ باللّٰہ‘ کناسہ کے معنی چادر کے کردیئے اور مزبلہ اس کا نام تجویز کرلیا‘ یوں عربی زبان کا بھی ستیاناس کیا اور سیرت نگاری کا بھی۔ ۱۲:… کتاب میں اس مسئلہ پر مبسوط بحث ہے کہ مونچھوں کو کتروانا چاہئے یا منڈوانا؟ اس سلسلہ میں حافظ ابن القیم نے حضرت امام مالک کا ایک قول نقل کیا ہے:
”و اریٰ ان یؤدب من حلق شاربہ“
اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ”میری رائے میں جو شخص مونچھیں منڈوائے‘ وہ تنبیہ اور تادیب کا مستحق ہے۔“ مگر جعفری صاحب اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ”اور میں سمجھتا ہوں کہ مونچھیں مناسب طریقہ سے بنائے۔“ (ج:۱‘ ص:۱۴۱)
اسی بحث میں جعفری صاحب نے ایک اور بڑا دلچسپ لطیفہ پیدا کیا ہے‘ مصنف لکھتے ہیں:
”واحتج المحفون باحادیث الامر بالاحفاء“
یعنی جو لوگ مونچھیں منڈوادینے کے قائل ہیں‘ وہ ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں ”احفاء“ (مونڈنے) کا حکم آیا ہے‘ آپ نے خط کشیدہ لفظ کو دیکھا ہے‘ یہ ”احفاء“ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے‘ مگر جعفری صاحب یہ سمجھے کہ یہ کسی محدث یا فقیہ بزرگ کا نام ہے‘ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ”اور محفون نے اس حدیث سے دلیل پیش کی ہے…“ (ج:۱‘ ص:۱۴۲)
کتابت کی غلطی سے محفون کی بجائے مظعون لکھا گیا ہے یا ممکن ہے یہ تصحیح بھی جعفری صاحب نے فرمادی ہو۔ مدارس دینیہ میں ”امام توقان“ کا لطیفہ پہلے سے چل رہا تھا‘ اب ”امام محفون… یا مظعون“… کا تعارف جعفری صاحب نے کرادیا ہے۔“ حضرت مولانا علامہ محمد عبداللہ صاحب کے علمی‘ تحقیقی اور متواضعانہ مکتوب اور جعفری صاحب کے ترجمہ پر پُرمغز اور لطیف تنقید کے جواب میں حضرت شہید نے درج ذیل مکتوب لکھا:
”حضرت مخدوم و محترم زیدت معالیہم …السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ‘
آنجناب کے نامہ کرم کے حسن ظاہر و باطن دونوں سے بے حد متاثر ہوا‘ اس ناکارہ کی کتاب ”اختلاف امت“ سے جس غلطی کی نشاندہی فرمائی ہے اس کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ بوقت تحریر میرے پاس زاد المعاد نہیں تھی۔ مدرسہ کے کتب خانہ سے منگوائی تھی‘ اس پر ”وکذالک“ ہی ہے۔ …اس کا فوٹو بھیج رہا ہوں… یہ مصطفی البابی و اولادہ کا مطبوعہ ۱۳۳۷ھ بمطابق ۱۹۲۸ء کا نسخہ ہے۔ اب اس ناکارہ کے پاس دو نسخے ذاتی ہیں‘ ایک موسسة الرسالہ بیروت کا چودھواں ایڈیشن مطبوعہ ۱۴۰۷ھ بمطابق ۱۹۸۶ء اس میں ”لذالک“ ہے‘ اور دوسرا نسخہ شرح مواہب للزرقانی کے حاشیہ پر ہے‘ اس میں ”وکذالک“ ہے۔ بہرحال اس ناکارہ کا حوالہ توصحیح ہے‘ اب نسخہ کے راجح مرجوح کا فیصلہ اہل علم فرمائیں‘ یہ ناکارہ تو مکھی پرمکھی مارنے والا طالب علم ہے۔ آنجناب نے رئیس احمد جعفری کے ترجمہ پر جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ خاصے کی چیز ہے‘ اس کو ضرور شائع ہونا چاہئے‘ اس ناکارہ کا ناقص خیال یہ ہے کہ اگر آنجناب اس کے فوٹو اسٹیٹ بھجوادیں تو پہلے اس کو بینات میں شائع کردیا جائے‘ جس سے علمی حلقوں میں تعارف ہوجائے گا‘ پھر کسی ناشر سے کتابی شکل میں شائع کرنے کو کہا جائے۔ دعوات صالحہ کا محتاج و ملتجی ہوں۔…
والسلام محمد یوسف عفااللہ عنہ“
حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب نے اس تعارف کے بعد مضامین تو بھیج دیئے، مگر انہیں‘ ان کی رسید کی اطلاع نہیں مل سکی تو انہوں نے حضرت شہید کے نام یاد دہانی کا خط لکھا، جس کے جواب میں حضرت شہید نے لکھا:
”حضرت مخدوم و معظم‘ زیدت مکارمہم… السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ‘
مزاج گرامی! قریباً ایک سال سے ”بینات“ کا کام براہ راست مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ صاحب زید مجدہم کی نگرانی میں ہوتا ہے‘ مجھ سے جو چیز لکھوانی ہو۱، ان کا نمائندہ لکھواکر لے جاتا ہے۔ رئیس احمد جعفری کے ترجمہ پر آپ کی تنقید میں نے ان کے حوالہ کردی تھی‘ اور خود اس کو بھول گیا تھا‘ آنجناب کے کرامت نامہ پر مجھے یاد آیا‘ اور میں نے ان سے پتا کرایا تو معلوم ہوا کہ آپ کا مقالہ کمپوز ہوچکا ہے‘ شاید اگلے مہینے لگ جائے گا۔ ”کاروان جنت“ کی تالیف پر مبارکباد قبول فرمایئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس خوش قسمت کاروان کے ساتھ ملحق فرمادیں۔ اگر لاہور کا ناشر اسے چھاپ دیتا ہے‘ فبہا ،ورنہ مجھے بھجوادیجئے‘ میں انشاء اللہ چھپوادوں گا۔ دعوات صالحہ کا محتاج اور ملتجی ہوں۔
والسلام
محمد یوسف عفااللہ عنہ“
اس سلسلہ جنبانی اور تعارف کے بعد مرحوم نے دوسرے کئی ایک مکتوبات لکھے اور اپنے مضامین بھی بغرض ملاحظہ و اشاعت بھیجے‘ جن پر حضرت شہید نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا‘ چنانچہ اس سلسلہ کا ایک خط اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:
”بخدمت گرامی فخر العلماء حضرت مولانا محمد یوسف صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ‘…… مزاج گرامی!
راقم السطور ایک دیرینہ نیاز مند ہے‘ کئی سال سے بذریعہ خط و کتابت‘ جناب سے راہ و رسم ہے‘ زیارت کا از حد اشتیاق ہے‘ لیکن ”کیف الوصول الی سعاد“ والا معاملہ ہے‘ بندہ متعدد امراض اور عوراض کا شکار ہونے کی وجہ سے زیادہ سفر کے قابل بھی نہیں ہے۔ گزشتہ سال حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی‘ مدینہ منورہ میں عزیز مولانا عبدالقادر صاحب‘ نزیل مدینہ شریف کی زبانی معلوم ہوا کہ جناب بھی وہیں قیام فرما ہیں۔ معاً یہ معلوم ہوا کہ جناب کا قیام میری فرودگاہ… نزل البارہ… کے قریب ہی ایک مدرسہ میں ہے‘ لیکن مولانا موصوف کے ذریعے دریافت کرایا تو جناب مکہ معظمہ کے لئے روانہ ہوچکے تھے‘ یوں مجھے اپنی حرماں نصیبی کا بڑا افسوس اور قلق ہوا‘ خیر‘
ماشاء اللہ کان ومالم یشاء لم یکن۔
جناب والا! یہ بات آپ مجھ سے بدرجہا بہتر جانتے ہیں کہ ”علم“ رخصت ہورہا ہے‘ اب قلم و قرطاس اور منبر جاہلوں کی تحویل میں ہے۔ رئیس احمد جعفری مرحوم نے ”زادالمعاد“ کے اردو ترجمہ میں جو کرشمے دکھائے ہیں‘ ان کے سلسلہ میں ایک مختصر سا مضمون میں نے دو سال پیشتر ”بینات“ میں چھپوانے کے لئے جناب کی خدمت میں بھجوایا تھا‘ مگر وہ طبع نہ ہوسکا‘ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیوں نہ چھپ سکا‘ بعد میں مجھے جناب کی علالت کی خبریں ملتی رہیں‘ ایک ہی مرتبہ یاددہانی کراکے میں خاموش ہوگیا‘ بار بار زحمت دینا مناسب معلوم نہ ہوا۔ اس وقت بھی اسی سلسلہ میں یہ عریضہ لکھ رہا ہوں‘ گزارش ہے کہ کم و بیش بیس سال قبل جناب ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب یہاں بہاول پور تشریف لائے اور انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی میں مختلف عنوانات پر بارہ خطبات دیئے‘ ان خطبات میں جہاں موصوف نے سامعین تک بہت سی کام کی باتیں پہنچائیں‘ وہاں انہوں نے اس قسم کے مسائل بھی بیان فرمائے: ۱․․․․ عورت نماز میں مردوں کی امام بن سکتی ہے۔ ۲․․․․اسلام میں موسیقی جائز اور حلال ہے۔۳․․․․ڈارون کا نظریہ ارتقاء ایک اسلامی نظریہ ہے۔۴․․․․زکوٰة کی رقم رفاہی مدات میں خرچ ہوسکتی ہے وغیرہ‘ وغیرہ۔
”خطبات بہاول پور“ کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے نزدیک یہ ایک حوالہ کی کتاب بن چکی ہے۔ راقم نے اپنی بے مائیگی کے باوجود چند مسائل پر کچھ لکھا ہے‘ اب خواہش یہ ہے کہ ایک تو یہ مسودہ جناب کی نظر سے گزر جائے‘ دوسرے اگر جناب کی توجہ سے کراچی ہی کا کوئی ادارہ اسے چھاپ دے‘ تو اہل علم کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوجائے گا‘ جناب کی طرف سے اجازت نامہ موصول ہوگا تو مسودہ ارسال خدمت کردیا جائے گا۔ ایک گزارش اور بھی ہے وہ یہ کہ جناب کے شہر کراچی سے صحیفہ ہمام بن منبہ ایک صاحب نے چھپواکر مفت تقسیم کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر دے‘ مگر ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ صحیفہ با ترجمہ طبع ہوا ہے‘ مترجم جناب ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کے برادر بزرگ جناب حبیب اللہ صاحب ہیں‘ ان حضرت کے علمی حدود اربعہ سے میں واقف نہیں ہوں‘ بہرحال ان سے ترجمہ میں کہیں کہیں فاش غلطیاں ہوئی ہیں‘ اس سلسلہ میں بھی راقم نے ایک مختصر سا مضمون لکھا ہے‘ جو تاحال طبع نہیں ہوا‘ اگر اجازت مرحمت فرمائیں تو اس کی بھی ایک نقل بھیج دوں۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ اس سلسلہ میں جناب کو زحمت دے رہا ہوں‘ لیکن اس دور میں کتنے علماء رہ گئے ہیں‘ جن کو اس قسم کی زحمت دی جاسکے‘ میں امید کرتا ہوں کہ جناب میری گزارش کو شرفِ پذیرائی بخشیں گے۔ فقط والسلام مع الاکرام دعا گو و دعا جو:
محمد عبداللہ عفی عنہ“
اس پر حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی قدس سرہ نے مندرجہ ذیل جواب لکھا:
”مکرم و محترم زیدت معالیکم… السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
مجھے یہ پڑھ کر بہت قلق ہوا کہ آپ مدینہ منورہ میں مجھے تلاش کرتے پھرے ،لیکن میں وہاں سے جاچکا تھا‘ اللہ کرے کہ کوئی صورت ملاقات کی ہوجائے‘ یہ ناکارہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا، فی الجملہ معذور ہے‘ خط بھی کسی سے لکھواتا ہوں۔ رئیس احمد جعفری کے سلسلہ میں آپ نے جو مضمون بھیجا تھا میرے ذہن میں نہیں رہا‘ میں نے اپنے ساتھیوں سے اس کو تلاش کرنے کے لئے کہا ہے‘ اگر مل گیا تو انشاء اللہ! اس کو بینات میں چھاپ دیں گے‘ ممکن ہو تو اس کا فوٹو بھیج دیں۔ (بعد میں وہ مضمون بینات میں چھپ گیا تھا۔ ناقل) ”خطبات بہاول پور“ کا نسخہ میری نظر سے نہیں گزرا‘ میں کہیں سے منگواکر اس کا مطالعہ کروں گا‘ آنجناب نے اس پر جو لکھا ہے وہ مجھے ضرور بھجوادیں‘ میں انشاء اللہ!ا س کو چھپوا دوں گا…لیکن اصل نسخہ اپنے پاس محفوظ رکھیں‘ اگر ممکن ہوسکے تو اس کے فوٹو مجھے بھیجیں‘ کیونکہ بعض دفعہ اصل مسودہ ضائع ہوجاتا ہے…۔ ”صحیفہ ہمام بن منبہ“ کے ترجمہ میں جو غلطیاں ہوئی ہیں اور اس پر آنجناب نے جو مضمون لکھا ہے وہ بھی مجھے بھجوادیں‘ میں انشاء اللہ اس کو بھی چھاپ دوں گا‘ حق تعالیٰ شانہ آپ کو کار خیر پر برکتیں عطا فرمائے۔
والسلام…
محمد یوسف لدھیانوی عفااللہ عنہ“
حضرت مرحوم کے مرسلہ مضامین کی وصولی اور اشاعت میں بعض وجوہات کی بنا پر تاخیر ہوئی تو انہوں نے ایک عرصہ بعد پھر یاددہانی کرائی۔ اس سلسلہ کا ایک مکتوب اور اس کا جواب درج ذیل ہے:
”بجناب مستطاب فخر العلماء حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب دامت مکارکم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ… مزاج اقدس!
احقر نے ایک عریضہ مرقومہ ۱۸/رجب المرجب ۱۴۲۰ھ جناب کی خدمت میں ارسال کیا تھا‘ جس کی یاددہانی کے طور پر میرے ایک عزیز (محمد منصور احمد خان) نے دوسرا عریضہ بھیج دیا تھا۔ جناب کا ۲۱/ذوالقعدہ۱۴۲۰ھ کا تحریر فرمودہ گرامی نامہ‘ جس کے لفافہ پر ۴/ مارچ کی ڈاک خانہ کی مہر ثبت ہے‘ عزیز موصوف کو موصول ہوا اور جناب کا مفصل جوابی عنایت نامہ مورخہ ۱۹/شوال ۱۴۲۰ھ ڈاک خانہ کی ۸/ مارچ کی مہر کے ساتھ ملا‘ یہ تقدیم تاخیر کیونکر پیش آئی‘ اللہ ہی جانتا ہے۔ احقر کو اللہ تعالیٰ نے اس سال حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائی۔ ۱۶/ فروری کو یہاں سے براستہ ملتان روانگی ہوئی اور ۲۵/ مارچ کو واپس احمد پور شرقیہ پہنچا‘ فللّٰہ الحمد۔ یہاں پہنچ کر میں فوراً اپنے غریب خانہ واقعہ تحصیل لیاقت پور ضلع رحیم یار خان گیا اور کئی روز وہاں گزار کر واپس یہاں آگیا۔ جناب کے ہر دو مکتوب گرامی ملے‘ توجہ اور کرم فرمائی کا از حد شکریہ! جناب کی علالت کا حال معلوم ہوتا رہا ہے۔ بارگاہ ایزدی میں دست بہ دعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جناب کو صحت کاملہ سے نوازیں اور تادیر آپ کا سایہ‘ طلبہ علم کے سروں پر قائم رکھیں:
”ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد“
حسب فرمائش‘ صحیفہ ہمام بن منبہ کے ترجمہ اور رئیس احمد جعفری کے ترجمہ زادالمعاد کے بارے میں اپنی تحریروں کی فوٹو نقلیں‘ ہمراہ ہذا ارسال خدمت کررہا ہوں‘ اگر یہ دونوں مضمون بینات میں آجائیں تو باعث صد شکریہ ہوگا‘ اور ایک علمی خدمت بھی۔ جناب والا! حقیقت یہ ہے کہ احقر خود بھی امراض مزمنہ کا شکار ہے۔ صحت روز بروز پست ہوتی جارہی ہے۔ تاہم تحریف الغالین‘ انتحال المبطلین اور تاویل الجاہلین کی جب کوئی صورت سامنے آتی ہے‘ تو دینی حمیت کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ غیر مقلدیت (بلفظ دیگر) آزاد روی اس وقت ایک فتنہ کی صورت اختیار کرچکی ہے، اور آئے دن کوئی نیا معرکہ پیش آتا رہتا ہے۔ تھوڑا عرصہ پہلے لاہور سے ایک نیا ترجمہ قرآن مجید شائع ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں میں نے کچھ لکھا تھا اور ایک عزیز کے نام سے ماہ نامہ نقیب ختم نبوت ملتان سے غالباً ۸۔۹ صفحات میں یہ مضمون شائع کرایا‘ نیا لکھا پڑھا طبقہ مسئلہ نزول المسیح علیہ السلام کا منکر ہورہا ہے‘ بہت سے دینی معتقدات اور مسائل کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ دل یہ چاہتا ہے کہ اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ کرتا رہوں‘ لیکن آپ جیسے بزرگوں کی سرپرستی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے‘ اس لئے ایک دفعہ پھر اجازت چاہتا ہوں کہ وقتاً فوقتاً زحمت دیا کروں تو آنجناب بار خاطر نہیں محسوس فرمائیں گے۔ مزید عرض ہے کہ جناب ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کے خطبات بہاول پور کے سلسلہ میں احقر کے تنقیدی مضمون کی نقل‘ عزیزم محمد منصور احمد خان نے جناب کی خدمت میں ارسال کردی تھی۔ امید ہے کہ یہ مضمون جناب کی نظر سے گزر چکا ہوگا‘ اس کے متعلق آنجناب کی رائے گرامی جاننے کے لئے بے تابانہ منتظر ہوں‘ اگر یہ کوئی کام کی چیز ہو تو اس کی اشاعت کا بندوبست ہونا چاہئے‘ ورنہ تو : ”لا تنبثوا بیننا ماکان مدفونا“ کے بمصداق خاموشی اختیار کرلی جائے۔
والسلام محمد عبداللہ عفااللہ عنہ“
موصوف کے مفصل مضمون کی وصولی پر حضرت شہید نے اپنی درج ذیل رائے لکھی:
”حضرت مخدوم و معظم‘ زیدت معالیہم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ‘
آنمخدوم کا تنقیدی تبصرہ میں نے فوراً پڑھا‘ ماشاء اللہ! بہت ہی خوب لکھا ہے‘ انشاء اللہ! اس کو بینات میں ضرور شائع کراؤں گا۔ حق تعالیٰ شانہ آنجناب کو صحت و عافیت عطا فرمائیں۔․․ ․․․
والسلام
محمد یوسف لدھیانوی عفاللہ عنہ“
بہرحال ابتدائی طور پر حضرت شہید کے ذریعے آپ سے تعارف ہوا‘ اور حضرت شہید کے حکم پر وقتاً فوقتاً آپ سے خط و کتابت بھی رہی۔ حضرت کی شہادت کے بعد یہ تعارف مزید گہرا ہوا اور بہاول پور اور احمد پور شرقیہ کے متعدد اسفار میں آپ سے براہ راست ملاقاتیں بھی نصیب ہوئیں۔ آپ کی خط و کتابت‘ تحقیق و تنقید اور تحریر و انشأکو دیکھ کر ہم نے اپنے دل و دماغ میں موصوف کی شخصیت کا جو خاکہ اور تصور قائم کر رکھا تھا‘ بلا مبالغہ حضرت کی شخصیت اس سے کہیں بلند و بالا تھی، بلاشبہ آپ بیان و گفتار کے دھنی‘ میدان علم و تحقیق کے شہسوار تھے‘ مگر بایں ہمہ حد درجہ سادگی‘ عجز و انکسار اور زہد و تکشف کا نمونہ تھے۔ ہم ایسے خورد اور چھوٹے جو ہر اعتبار سے کوتاہ اور ان کے شاگردوں کی صف کے تھے‘ مگر انہیں ہم جیسے نالائقوں کے اکرام میں بھی سراپا احترام پایا‘ چنانچہ ایک سفر میں تو باوجود ضعف اور پیرانہ سالی کے ازراہ محبت احمد پور شرقیہ کے متعدد پروگراموں میں اس ناکارہ کے ساتھ ساتھ رہے‘ اس دوران ان کی شخصیت کے متعدد مخفی گوشوں کو دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس دوران انہوں نے اکابر علمائے دیوبند کے شاندار ماضی سے جس خوبصورتی سے پردہ اٹھایا اور اکابر کے تذکرہ کو جس عشق و محبت اور والہانہ انداز میں بیان فرمایا‘ یہ انہیں کا حصہ تھا‘ وہ جب اکابر کا نام لیتے یا ان کے کسی کارنامہ کا تذکرہ فرماتے تھے تو آبدیدہ ہوجاتے‘ ان کی آواز بھرَّا جاتی‘ ایسا لگتا کہ ان کی جدائی کا سانحہ ابھی ابھی پیش آیا ہے‘ بلاشبہ ان کی صحبت و مجلس میں بیٹھنے والا اپنے اسلاف و اکابر کا گرویدہ اور عاشق زار بن جاتا۔ اسی طرح انہوں نے قادیانیوں کے خلاف مشہور مقدمہ‘ مقدمہ بہاول پور کی تاریخ‘ پس منظر اور اس دور کے معروضی حالات اور علمائے حق کی مساعی‘ امام العصر حضرت مولانا سیّد محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ اور دوسرے علمائے ربانی کے بیانات کی تفصیلات کی جس خوبصورتی کے ساتھ منظر کشی کی‘ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پون صدی قبل ہونے والی اس کارروائی میں ہم شریک ہیں اور یہ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہورہا ہے‘ یہ بھی اسی سفر میں معلوم ہوا کہ حضرت مرحوم کا اس علاقہ کے دینی‘ علمی اور عوامی حلقوں پر کس قدر اثر ہے؟ اور علماء و طلبہ کس قدر ان کے گرویدہ ہیں؟ چنانچہ بہت سے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اتباع شریعت کا مظہر پایا‘ انہیں میں سے ایک نوجوان منصور احمد خان بھی تھے جو ان کے خصوصی عقیدت کیش ہیں‘ جنہیں تحریر و انشأ کا ستھرا ذوق ہے اور یہی ان کے علمی خزانوں کے محافظ و نگران ہیں‘ اور حضرتِ موصوف سے خط و کتابت میں زیادہ تر رابطہ کا ذریعہ بھی وہی رہے۔ موصوف کے دل میں حضرت علامہ کی شخصیت کا کس قدر گہرا اثر ہے؟ اس کا اندازہ موصوف کے اس پیش لفظ سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے حضرت کی تصنیف ”علمی مقالات“ کے شروع میں ”تعارف“ کے عنوان سے لکھی ہے‘ چونکہ ہم حضرت علامہ کا صحیح معنی میں تعارف نہیں کراسکے‘ اس لئے درج ذیل تحریر کو حضرت موصوف کے تعارف اور جناب منصور احمد خان کی ان سے عقیدت و محبت کے زادیہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے پڑھئے! چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: ”قرنِ اول سے آج تک دینِ اسلام پر خارجی اور داخلی حملے جس قدر مسلسل اور پہیم ہوتے آئے ہیں‘ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے علماء دین کو اس کی حفاظت پر مامور نہ فرمایا ہوتا تو اس کی بقا اور اصلیت پر قائم رہنا مشکل تھا‘ ہر دور میں خلافِ اسلام حملوں اور تنقیدوں کی نوعیت مختلف اور جداگانہ رہی ہے اور اسی نوعیت کے اعتبار سے علماء حقانی نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے یہ معرکے سر کئے ہیں۔ فاضل مصنف ہمارے محترم بزرگ علامہ محمد عبداللہ صاحب مدظلہ العالی بھی اسی کاروانِ علماء حق کے شریک سفر ہیں‘ آپ کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں‘ ان کی مشہور تصنیف ”کاروانِ جنت“ کے شروع میں ہمارے عزیز دوست سیّد محمد ارشد بخاری صاحب کا لکھا ہوا تعارف موجود ہے۔ ہمارے ممدوح بلحاظِ علم بھی بزرگ ہیں اور بلحاظِ عمر بھی‘ کم و بیش ۷۵ سال کے لگ بھگ وہ زندگی کی بہاریں اور خزائیں دیکھ چکے ہیں‘ ان کی ظاہری و باطنی نسبتیں بڑی قوی ہیں‘ جامعہ عباسیہ بہاول پور کے کبار اساتذہ حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی فقیہ العصر حضرت مولانا محمد صادق صاحب اور حضرت مولانا عبیداللہ صاحب جیسے جلیل القدر اکابر علماء سے انہیں شرف تلمذ حاصل ہے‘ خانقاہ عالیہ راشدیہ دین پور شریف …نزد خان پور… سے روحانی وابستگی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ حضرت اقدس شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ سے دورئہ تفسیر پڑھا‘ علوم دینیہ کے علاوہ فنون عصریہ سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہیں‘ اس لئے مولانا کی علمی زندگی میں قدیم و جدید‘ علمی تبحر‘ وسعتِ نظر و وسعت مطالعہ، رسوخ فی العلم اور اس پر ادبی ذوق اور فطری ذکاوت نے مولانا کو اپنے معاصرین میں ایک ممتاز مقام پر فائز کردیا ہے‘ اور اپنے حلقہ تلامذہ اور مستفیدین میں بہت مقبول بنادیا ہے۔ حضرت مولانا کتب بینی اور مطالعہ کے بہت شوقین ہیں‘ انہوں نے اس شوق کی بنا پر ایک عمدہ کتب خانہ بنارکھا ہے‘ تفسیر‘ حدیث‘ شروحِ حدیث‘ فقہ اور تاریخ وغیرہ کی بڑی بڑی کتابیں جمع کررکھی ہیں۔ مولانا میں دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے‘ دینی اقدار کے تحفظ کے لئے اسلاف کے ساتھ وابستہ رہنے کو از حد ضروری قرار دیتے ہیں… حضرت مولانا بڑے ہی لطیف المزاج ہیں‘ وہ رسوم سے حد درجہ اجتناب‘ نمائشی تکلفات سے احتراز اور دوسروں کو زحمت سے بچانے کا کامل اہتمام فرماتے ہیں… وہ بڑے خطیب یا مناظر نہیں ،بلکہ شعلہ بیانی اور مناظرانہ انداز ان کی طبیعت سے میل نہیں کھاتا‘ کیونکہ فطری طور پر ان میں شرم و حیا کا غلبہ ہے‘ اسی لئے وہ پبلک میں ا پنی شخصیت کو نمایاں (Prominent) کرنے کو بھی پسند نہیں کرتے‘ راقم الحروف کے نزدیک مولانا خالصتاً تحقیق و تدریس کی دنیا کے آدمی ہیں‘ غالباً یہی وجہ ہے کہ حافظ العصر حضرت مولانا انور شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ کے بہت ہی عقیدت مند ہیں۔ حضرت کشمیری کے نام پر ایک گراں قدر مقالہ بعنوان ”امام العصر علامہ سیّد محمد انور شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ اکابر کی نظروں میں“بھی تحریر فرماچکے ہیں‘ اللہ نے مجلسی گفتگو کا سلیقہ حد سے سوا عطا فرمایا ہے‘ اس لئے مولانا کی تحریر کے علاوہ تقریر اور مجلسی گفتگو میں بھی ایک خاص علمی شان اور تحقیق و تدقیق کا عنصر غالب ہوتا ہے جو سننے والوں کے لئے بہت سی کتب بینی سے زیادہ نفع بخش ثابت ہوتی ہے… یہی وجہ ہے کہ ملک کی ایک نمایاں پبلشنگ کمپنی کے مالک… جو مولانا کے علم سے بہت ہی متاثر ہیں… نے راقم سے کہا تھا کہ مولانا کی مجلسی گفتگو ریکارڈ کرکے ان تک پہنچادی جائے تاکہ وہ ان علمی مجالس کو باقاعدہ چھاپنے کا انتظام کرسکیں‘ ظاہر بات ہے کہ مولانا اپنی گفتگو کو ریکارڈ کرنے کی اجازت کب دیتے‘ اسی لئے یہ منصوبہ کی حد تک ہی محدود رہا۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: تسخیر کائنات اور اسلام
Flag Counter