Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

4 - 10
سرمہ - سنتِ نبوی
سرمہ - سنتِ نبوی (۲)

”عن عائشة رضی الله عنھا: کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم اذا سافر حمل معہ خمسة اشیاء: المرآة والمکحلة و المقراض والسواک و المشط۔“ # (احیاء العلوم اُردو ج:۲ ص:۴۱۹، دسواں ادب)
ترجمہ:- ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کیا کرتے تو اپنے ساتھ پانچ چیزیں لے جاتے: آئینہ، سرمہ دانی، قینچی، مسواک اور کنگھی۔“ تشریح:- ایک دُوسری روایت میں چھ چیزوں کا ذکر ہے: آئینہ، شیشی، مقراض (قینچی)، مسواک، سرمہ دانی اور کنگھی (حوالہ بالا)
نوٹ:- مولانا محمد احسن نانوتوی سے ”مذاق العارفین“ ج:۲ ص:۴۱۹، میں اس روایت کے ترجمہ میں سہو ہوا ہے، موصوف نے آئینہ، سرمہ دانی، مسواک، کنگھی اور مدری (یعنی دانتا) ترجمہ فرمایا ہے، حالانکہ ”احیاء“ کی روایت میں مدری کا لفظ ہے ہی نہیں اور ”احیاء“ کی دُوسری روایت جس میں ستة کا لفظ ہے اس میں ”قارورة“ کی زیادتی ہے، واللہ اعلم۔ ایک صحابیہ حضرت اُمِّ سعد انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
”کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم لا یفارقہ فی السفر المرآة والمکحلة“۔ (حوالہ بالا)
یعنی سفر میں دو چیزیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتی تھیں: آئینہ اور سرمہ دانی۔ علامہ سیوطی نے جامع صغیر میں ان الفاظ سے یہ روایت نقل فرمائی ہے:
”کان لا یفارقہ فی الحضر ولا فی السفر خمس: المرآة، والمکحلة، و المشط، و السواک، و المدریُّ۔“ (فیض القدیر ج:۵ ص:۲۳۹ رقم الحدیث: ۶۹۰۶)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرمہ کتنے اہتمام سے استعمال فرماتے تھے، حتیٰ کہ سفر میں بھی اس معمول کو ترک نہ فرماتے۔
سرمہ کے متعلق ایک موضوع حدیث:
”من اکتحل بالاثمد یوم عاشوراء لم یرمد أبدًا۔“ (فیض القدیر ج:۶ ص:۱۰۶، رقم الحدیث: ۸۵۰۶)
ترجمہ:- ”عاشورہ کے دن جو اثمد سرمہ لگائے گا اس کی آنکھ میں کبھی درد نہ ہوگا۔“
یہ حدیث موضوع ہے، سرمہ کے متعلق اس مضمون میں اس حدیث کی تحقیق مناسب معلوم ہوئی، چند محدثین کے اقوال کا خلاصہ درج کردیتا ہوں:
’قال السخاوی: قلت: بل موضوع۔“ (المقاصد الحسنة ص:۶۳۳ رقم:۱۰۸)”قال محمد بن السیّد درویش الحوت: رواہ الحاکم و قال انہ منکر، واوردہ ابن الجوزی فی الموضوع۔“ (اسنی المطالب فی احادیث مختلف المراتب ص:۲۲۰ رقم:۱۳۴۶)
ٍ مزید تفصیل کے لئے درج ذیل کتب ملاحظہ فرمائیں:
۱:- الموضوعات الکبریٰ ص:۲۲۲ رقم: ۸۷۸
۲:- کشف الخفاء ج:۲ ص:۲۰۹ رقم الحدیث:۲۴۰۸
۳:- الفوائد المجموعة ج:۱ ص:۱۳۱ رقم الحدیث:۲۸۵
۴:- فیض القدیر ج:۶ ص:۱۰۶ رقم الحدیث:۸۵۰۶
مردوں کو زینت کے لئے سرمہ لگانا:
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”ویکرہ الکحول الأسود بالاتفاق اذا قصد بہ الزینة واختلفوا فیما اذا لم یقصد بہ الزینة عامتھم علی أنہ لا یکرہ۔“
(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الکراہیة ج:۴ ص:۱۱۴، اُردو ج:۹ ص:۹۷، بیسواں باب)
یعنی سیاہ سرمہ اگر زینت کے واسطے ہو تو بالاتفاق مکروہ ہے، اگر زینت مقصود نہ ہو تو اختلاف ہے، عامہٴ مشائخ کے نزدیک مکروہ نہیں۔فتاویٰ عالمگیری کے اس جزئیہ سے پتہ چلتا ہے کہ مردوں کے لئے زینت کی نیت سے سرمہ لگانا مکروہ ہے۔
سرمہ کی تیزی سے نکلنے والا پانی ناقض وضو ہے یا نہیں؟
سوال:- سرمہ کی تیزی یا سلائی کی چوٹ سے جو پانی آنکھ سے نکلتا ہے وہ ناقض وضو ہے یا نہیں؟
جواب:- ناقض وضو نہیں ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم مدلل مکمل ج:۱ ص:۱۰۷، سوال نمبر:۳۲)
روزہ دار کو سرمہ لگانا
”عن أنس بن مالک قال: جاء رجل الی النبی صلی الله علیہ وسلم قال: اشتکت عینی افأکتحل و أنا صائم؟ قال: نعم!“
(سنن ترمذی، ابواب الصوم، باب ما جاء فی الکحل للصائم)
ترجمہ:- ”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ایک شخص حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ: میری آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا میں سرمہ لگاسکتا ہوں؟ جبکہ میں روزہ سے ہوں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں!“
تشریح:- امام ترمذی اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں کہ: اس حدیث کی سند قوی نہیں، یوں تو کحل للصائم سے متعلقہ تمام روایات ضعیف ہیں، لیکن چونکہ اس مضمون کی متعدد روایات مروی ہیں، اس لئے ان کا مجموعہ قابل استدلال ہے۔ (درسِ ترمذی ج:۲ ص:۵۷۲) فقہی مسئلہ بھی اس روایت کی بنا پر یہی ہے کہ سرمہ لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ سرمہ کا اثر یعنی ذائقہ حلق میں محسوس ہو یا سرمہ کی سیاہی کا اثر و رنگ تھوک میں ظاہر ہو، یہی اَصح ہے اور یہی اکثر کا قول ہے، اس لئے کہ حلق میں اس کا وہ اثر ہے جو مسامات کے راستے سے جذب ہوکر داخل ہوا ہے، خود سرمہ نہیں، کیونکہ آنکھ اور دماغ کے درمیان کوئی راستہ نہیں ہے، آنسو بھی آنکھوں سے پسینے کی طرح رِس کر نکلتے ہیں، اور مسامات کے ذریعہ سے کسی چیز کا جسم میں داخل ہونا روزہ کے خلاف نہیں ہے، یعنی روزہ کو نہیں توڑتا۔ اور خوشبو وغیرہ ملا ہوا سرمہ آنکھ میں لگانا بھی روزہ دار کے لئے مکروہ نہیں ہے، اور فقہاء نے کسی قسم کے ساتھ اس کو مخصوص نہیں کیا، یعنی خوشبو ملا ہوا ہو یا کوئی اور سرمہ ہو، سب کا یہی حکم ہے کہ مکروہ نہیں۔ (عمدة الفقہ، ج:۳، ص:۳۶۰)
اس مسئلے کی مزیدوضاحت کے لئے دیکھئے:
۱:… فتاویٰ رحیمیہ ج:۲ ص:۱۶۔ ۲:… مظاہر حق ج:۲ ص:۳۳۶
۳:… فتاویٰ عالمگیری ج:۱ ص:۸۹، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد۔
۴:… فتاویٰ دار العلوم دیوبند ج:۶ ص:۴۱۲۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: اسلام ایک ابدی صداقت
Flag Counter