Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

8 - 9
دین اسلام سے مسلمانوں کی روگردانی
دین اسلام سے مسلمانوں کی روگردانی


حق تعالیٰ کی ان تمام نعمتوں میں جو اس دنیا کو عطا کی گئی ہیں صرف دینِ اسلام ”نعمتِ عظمیٰ“ ہے‘ امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوات والتحیات والتسلیمات کو اس نعمت سے سرفراز فرمایاگیاہے۔ جس طرح حضرت محمدرسول اللہ ا کو ”ختمِ نبوت“ اور سیادتِ انبیاء اور رسل کی نعمتِ کبریٰ سے مشرف کیا گیا اور تمام انبیاء کرام کی جماعت میں اعلیٰ ترین منصب پر فائز کیا گیا‘ اسی طرح کتبِ الٰہیہ میں ”قرآن ِ حکیم“ اعلیٰ ترین کتاب ان پر نازل فرمائی گئی‘ اور ظاہر ہے جس امت میں خاتم الانبیاء ا جیسے رسول ہوں اور قرآنِ حکیم جیسی کتاب موجود ہو اور ان دونوں سرچشموں سے جس دین کا خمیر تیار ہوا ہو‘ وہ دین بھی اعلیٰ ترین دین ہوگا تو ہرحیثیت سے ”دینِ اسلام“ اعلیٰ ترین ہوا اور اس امت کے ذریعہ تمام کائنات کو یہ اعلیٰ ترین نعمت دی گئی ہے اور اسی لئے وحی آسمانی الٰہی ابدی میں یہ اعلان کیا گیا ہے:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا“۔ (مائدہ:۳)
ترجمہ:․․․”میں نے آج کے دن تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور اپنا احسان بھی پورا کردیا ہے اور صرف اسلام کو تمہارے لئے دین پسند کیا ہے“۔
اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا گیا:
”ومن یبتغ غیر الإسلام دیناً فلن یقبل منہ وہو فی الآخرة من الخاسرین“۔ (آل عمران:۸۵)
ترجمہ:․․․”اور جو کوئی اسلام کو چھوڑ کر اور کوئی دین اختیار کرے گا وہ ہرگز قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں تباہ وبرباد ہوگا“۔
حضرت رسالت پناہ انے بھی ارشاد فرمایا:
”لوکان موسیٰ حیاً لما وسعہ الا اتباعی“۔(مشکوٰة:۳۰)
ترجمہ:․․․”اگر حضرت موسیٰ (جیسے اولو العزم پیغمبر) بھی زندہ ہوتے تو میری ہی اتباع کرتے اور اس کے سوا چارہٴ کار نہ ہوتا“۔
اور ظاہر ہے کہ آفتاب ِ عالم تاب کے طلوع کے بعد تاروں کی روشنی تلاش کرنا یا چراغوں سے نور حاصل کرنا انتہائی غیر معقول حرکت ہے‘ لیکن وائے محرومی! اتنی بڑی نعمت کے ہوتے بھی آج مسلمان اس کو چھوڑ کر یورپ اور امریکہ وبرطانیہ سے روشنی تلاش کررہے ہیں‘یہ حق تعالیٰ کی اس نعمتِ عظمیٰ ‘ اس نعمتِ کبریٰ کی کتنی بڑی توہین ہے‘ اگر دینِ موسوی اور دینِ عیسوی مسیحی اپنی اصلی شکل میں محفوظ بھی ہوتے اور اس پر دنیا عمل بھی کرتی ہوتی‘ تب بھی اسلام آنے کے بعد اس کی طرف توجہ کرنا‘ اسلام کی بڑی تحقیر ہوتی اور جب کہ یہ ادیان تمام تر ”تحریف “ کی نذر ہو چکے ہیں‘ کوئی آسمانی چیز ان میں محفوظ نہیں رہی‘ پھر بھی اس کی پیروی بجز ضلالت وحماقت کے اور کیا ہوسکتی ہے۔
معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا‘ مسلمان نہ صرف دینی شعائر‘ بلکہ وہ غیر دینی معاشرت کی چیزیں بھی اس قوم سے لے کر اپنا رہے ہیں‘ جس پر حق تعالیٰ کا غضب نازل ہوچکا ہے‘ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی زبانی ان پر لعنت نازل ہوچکی ہے‘ پھر کاش کہ معاملہ یہیں تک محدود ہوتا‘ مسلمان قوم نے تو اپنی تمام اسلامی خصوصیات کو یک قلم چھوڑ دیا اور زندگی کے تمام ہی شعبوں میں ان کافروں کی نقالی شروع کررکھی ہے‘ لباس‘ پوشاک‘ خوراک‘ سونا جاگنا‘ چلنا پھرنا‘ دفتری نظام‘ گھریلو نظام‘ تعلیم کا نظام حتیٰ کہ تمام کے تمام طرزِ معیشت ومعاشرت میں ان کی حیرت انگیز نقالی کو اپنے لئے سرمایہٴ سعادت وفخر سمجھ لیا ہے‘ انا للہ وانا الیہ راجعون․
اس سے بڑھ کر حق تعالیٰ کی نعمتوں کی کیا تحقیر وتذلیل ہوگی؟ فسق وفجور‘ لہو ولہب‘ تفریح وعیاشی میں بھی ایسی تقلید کہ عقل حیران ہے‘ فحاشی وعریانی‘ فواحش ومنکرات میں انہماک اس درجہ ترقی پر ہے کہ نقل اصل سے بڑھ گئی‘ یہ تو ہو مسلمانوں کی زندگی اور یہ ہو ان کی تہذیب ومعاشرت‘ اس پر انتہائی بے حیائی سے یہ پوچھا جاتاہے کہ ہم کیوں ذلیل ہیں؟ کیوں خوار ہیں؟ کیوں روز بروز قعرِ مذلت میں گرتے چلے جارہے ہیں؟
باقی یہ کہنا کہ یورپ پر عذابِ الٰہی کیوں نہیں آتا؟ اول تو یہ نظر کا فرق ہے‘ ”وان جہنم لمحیطة بالکافرین“ وہ یقیناً جہنم کے شعلوں میں جل رہے ہیں‘ ان کے ملک قہر الٰہی کی آگ میں پھک رہے ہیں‘ جس عذاب میں یورپ مبتلا ہے الامان والحفیظ‘ قلب کا سکون جو زندگی کی اصلی روح ہے‘ وہ یورپین ممالک میں سراسر ختم ہوچکا ہے‘ تقویٰ وطہارت کی زندگی سے جو قلوب میں نورانیت وطمانیت پیدا ہوتی ہے‘ وہ یکسر ختم ہے۔ وہ انتہائی حیران وپریشان ہیں‘ قلب کو منشیات ومسکرات کے استعمال سے عارضی آرام پہنچانے کی کوشش وکاوش میں اپنی زندگیاں ختم کررہے ہیں‘ گویا قانون کی گرفت سے بچ کر خود کشی کررہے ہیں‘ ان ممالک کی تفصیلات اگر ذرا بھی کسی کو معلوم ہو جائیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں پوری زندگی جہنم بن چکی ہے‘ اور اس سے پناہ مانگی جائے اور اگر کسی کو اس نمائشی چہل پہل اور تروتازگی پر کچھ شبہ ہو اور وہ قصداً حقائق سے چشم پوشی کرے تو اس کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ قومیں حق تعالیٰ کے محبوب دین ”اسلام“ سے منکر ومنحرف اور کافر ہیں‘ حق تعالیٰ کے قانون ِ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جب آخرت کی نعمتوں سے ایک قوم سراسر محروم ہو تو دنیا کی نعمتیں تو اسے ملنی چاہئیں‘ یہی قرآن کہتا ہے‘ یہی حدیث کہتی ہے۔
دین اسلام سے بغاوت اور اس کی سزا
سزا تو باغی قوم کو ملتی ہے‘ مسلمانوں نے تو اسلام قبول کیا ہے اور پھر اسلام کو چھوڑا ہے جس کے دو ہی محمل ہوسکتے ہیں یا تو وہ باغی ہیں یا منافق ہیں۔ بغاوت کا جرم بھی انتہائی سخت ہے اور نفاق کا جرم بھی انتہائی شدید ہے‘ اسی لئے قرآنِ کریم میں منافقین کے لئے جہنم کا آخری اور سب سے نچلا طبقہ تجویز کیا گیا ہے‘ گویا کفار سے بہت زیادہ سخت عذاب ان کو ہوگا‘ آج مسلمان قوم بھی یا تو عملی بغاوت میں مبتلا ہے یا پھر شدید نفاق کا شکار ہے۔
بہرحال کہنا یہ ہے کہ مسلمان قوم نے حق تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ کی شدید تحقیر کی ہے جو یقیناً ناقابلِ برداشت جرم ہے‘ یہ حق تعالیٰ کے دین کا استخفاف‘ یہ توہین‘ اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ حلیم نہ ہوتے اور ان کا حلم کار فرما نہ ہو تا تو ایک لمحہ کے لئے بھی ان کو روئے زمین پر رہنے نہ دیا جاتا اور اس صفحہٴ ہستی سے اس قوم کا نام ونشان تک مٹ جاتا۔
بلاد عربیہ کو دیکھئے‘ حق تعالیٰ نے ان کو دنیا کی بھی عظیم نعمت نصیب فرمائی‘ دنیا کے کلیدی مقامات ان کے ہاتھوں میں ہیں‘ زمینی خزانے ان کے دروازوں پر بہادیئے ہیں‘ یورپ وامریکہ ان کے محتاج ہیں‘ لیکن خالقِ کائنات کی نعمت”اسلام“ سے انحراف اور دنیا کے سامانِ تعیش میں انہماک کی وجہ سے کس بری طرح یورپ کی گندی زندگی کی نقالی میں مبتلا ہیں‘ اور چھانٹ چھانٹ کرتمام یورپین معاشرے اور تہذیب کی جو غلاظتیں ہیں ان کو اختیار کر رکھا ہے‘ اور حیرت ہے کہ ان کی محنتیں‘ مشقتیں‘ جفاکشی وفرض شناسی وغیرہ جو بعض خوبیاں ہیں‘ ان کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے‘ آخرسب عذابِ الٰہی میں مبتلا ہوگئے ہیں‘ باوجود عددی کثرت کے قلت میں ہیں‘ باوجود اسبابِ عزت کی فراوانی کے ذلت میں ہیں‘ باوجود ثروت وغنا کے فقر وتنگ دستی میں مبتلا ہیں‘ صرف اس لئے کہ تمام دولت وثروت عیش پرستی وراحت کوشی کے نذر ہورہی ہے‘ تازہ بتازہ نیو ماڈل کاروں‘ یورپین طرز کی عمارتوں اور فرنیچر وسامانِ آرائش میں سارا سرمایہ جھونکا جارہاہے‘ پیرس کو مات کرنے والے ہوٹل اور کلب روز افزوں ہیں افرنجیت کا ایک بھوت ہے جو دماغوں پر سوار ہوگیا ہے‘ انہی کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ انہی کے کانوں سے سنتے ہیں‘ آخر اس کا نتیجہ یہی ہوانا کہ کروڑوں افراد پر مشتمل عرب آبادی چند مٹھی بھر یہودیوں سے لرزہ براندام ہے۔ مانا کہ یہودی طاقت کے پیچھے امریکہ ․․․ کی طاقت ہے‘ لیکن اگر یہی مسلمان آج حق تعالیٰ کی نصرت پر یقین رکھتے اورآسمانی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے تو آج نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور یہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا‘ کون سی تنبیہ ہے جو قرآنِ حکیم نے نہیں کی اور کون سی نصیحت ہے جو خدا ورسول نے نہیں کی‘ لیکن اس سے استفادہ کے لئے گوشِ عبرت نیوش اور نگاہِ بصیرت افروز چاہئے‘ اگر مسلمان قوم کو اب بھی عبرت نہیں ہوتی اور یہی خدا فراموش زندگی ہے‘ یہی بے حیائی ہے‘ یہی عریانی ہے‘ یہی اسراف وتبذیرکی شیطانی زندگی ہے تو خاکم بدہن انہیں اپنی آخری تباہی وبربادی کا انتظام کرنا چاہئے۔ حق تعالیٰ رحمة للعالمین کے طفیل اپنی رحمتِ کاملہ سے اپنے عذاب سے بچالے اور ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین۔
آزادی اور اس کا مقصد
کسی مملکت کی آزادی یا کسی مسلمان قوم کی آزادی درحقیقت حق تعالیٰ کی نعمت ہے‘ لیکن یہ آزادی بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں‘ بلکہ یہ صحیح ترین اور اعلیٰ ترین مقاصد کے لئے بہترین وسیلہ ہے اور صحیح مقاصد تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ ہے‘ چنانچہ مسلمان قوم کی آزادی کا مقصد یہ ہوتاہے کہ وہ کافرانہ اور ظالمانہ حکومت کے تسلط سے آزاد ہوکر اللہ تعالیٰ کی رحمت وعدل کے زیر سایہ آجائے‘ تاکہ حق تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانینِ عدل ورحمت پر عمل کرکے دنیا وآخرت کی نعمتوں کی مستحق بن جائے اور دنیاوی زندگی کے اس عبوری دور میں قانون الٰہی پر عمل کرکے اس امتحان میں اعلیٰ کامیابی کے نمبر حاصل کرے‘ تاکہ آخرت کی غیر فانی نعمتوں وبرکتوں سے مالامال ہوسکے۔
اسی لئے جب کوئی مسلمان قوم آزادی کے صحیح مقصد کو فراموش کردیتی ہے اور اس نعمت کو غلط طریقے پر ناجائز مقاصد واغراض کے لئے استعمال کرتی ہے تو حق تعالیٰ کا قانونِ قدرت اس سے انتقام لے کر اس آزادی کی نعمت کو اس سے چھین لیتا ہے‘ یہی تمام اسلامی تاریخ کا لبِ لباب ہے اور یہی مسلمانوں کے عروج وزوال کا خلاصہ ہے۔
متحدہ ہندوستان کے مسلمان اپنے سیاہ کارناموں کی پاداش میں اس نعمتِ آزادی سے عرصہ دراز تک محروم رہے‘ لیکن پھر بعد خرابی بسیار ہوش آنے پر عرصہ دراز تک آہ وبکا میں مبتلا رہے اور ساتھ ہی اس نعمت کے حصول کے لئے مسلسل کوشش اور جد وجہد میں لگے رہے‘ آخر حق تعالیٰ کی رحمت نے مسلمانوں کو پھر اپنی آغوشِ رحمت میں لے کر ایک قطعہٴ ملک دوبارہ ان کے حوالے کردیا‘ تاکہ دوبارہ امتحان لیا جائے۔ ”لینظر کیف تعملون“۔
لیکن انتہائی صدمہ کی بات ہے کہ نہ صرف حکمران اور عوام‘ بلکہ ہرخاص وعام سب کے سب اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں مقصر (کوتاہی کرنے والے) رہے‘ نہ صرف مقصر بلکہ اصل مقصد کے برعکس ہرشخص اس نعمت کے ذریعہ اپنی اپنی اغراض وخواہشات کے حصول میں مشغول ہوگیا‘ جس کا نتیجہ خاکم بدہن نہایت خطرناک ہے‘ حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ جلد سے جلد اسلامی قانون نافذ کرتے اور حکومت کی طاقت سے لوگوں کو صحیح مسلمان بناتے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے‘ محاکم احتساب تمام ملک میں قائم کرتے اور قرآن حکیم میں جو فرائض حکمرانوں کے ہیں‘ پورے کرتے۔ ”الذین ان مکناہم فی الارض“۔
علمأ کا فریضہ تھا کہ دعوت واصلاح کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتے‘ تاکہ دینی رہنمائی کا صحیح تقاضا پورا ہوتا‘ عوام امت کا فرض تھا کہ عقائد وعبادات‘ اسلامی تہذیب واخلاق اور اسلامی معاشرت کے اختیار کرنے میں کوشش کرتے‘ لیکن اس کے برعکس جو کچھ ہورہا ہے‘ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں‘ ”عیاں راچہ بیان“۔ آج کل جو بحران ملک پر مسلط ہے اور اس کے نتیجہ میں جو انقلابات رونما ہورہے ہیں یا ہونے والے ہیں‘ یہ سب کچھ صرف اسی تقصیر وکوتاہی کے نتائج ہیں جو سامنے آرہے ہیں۔ اگر حکمران اور کارکنانِ حکومت صحیح معنوں میں عادل وقوم پر ور ہوتے اور خود اپنی زندگی میں ظاہر وباطن دونوں لحاظ سے اسلام کے تقاضے پورے کرتے تو آئے دن جو یہ بحران اور انقلابات رونما ہورہے ہیں‘ امت ان سے محفوظ رہتی‘ دیکھتے دیکھتے ان چند سالوں میں نہ صرف پاکستان‘ بلکہ تمام ممالکِ اسلامیہ خصوصاً ممالکِ عربیہ کا کیا سے کیا نقشہ ہوگیا‘ یہ سب کچھ اسی خدافراموشی کے نتائج ہیں جو سامنے آ رہے ہیں‘ صبح شام روزانہ اخبارات کے صفحات میں کسی نہ کسی ملک میں تباہ کن انقلاب کی خبر نظر آتی ہے‘ لیکن ان حقائق وواقعات کے مشاہدہ کے باوجود کسی کو بھی عبرت نہیں ہوتی۔
غیر اللہ کو عزت وطاقت کا سرچشمہ سمجھنے کی سزا
مملکتِ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ ہندوستان اور اعداءِ اسلام کی متحدہ طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بننے سے محض اپنے فضل وکرم سے محفوظ فرمایا‘ اس نعمت کا شکرادا کیا جانا چاہئے اور شکر یہی ہے کہ پاکستان کا خالص اسلامی دستور ہو‘ حکومت صحیح اور خالص اسلامی قوانین ملک میں نافذ کرے‘ تاکہ تمام امتِ پاکستان اسلامی قانون کی برکات سے مالامال ہو اور ہرطرح کے بحرانوں سے محفوظ رہے‘ بارہا ہم اس حقیقت کو واضح کرچکے ہیں کہ اس ملک اور قوم کو کمیونزم اور سوشلزم کی لعنت سے یا سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے اور استحصال سے صرف اسلامی قانون ہی بچا سکتا ہے اور صرف اسلامی قانون پاس کردینے سے نہیں‘ بلکہ اسلامی قانون کی دیانت داری سے تنفیذاور اجراء اور پھر قوم کے ہرطبقہ کے اس پر عمل پیرا ہونے سے یہ لعنتیں دور ہوسکتی ہیں‘ صحیح اسلام ہی وہ نعمت ہے اور وہ دولت ہے جس کے حصول کے بعد خود ملک اپنی ضروریات کے لئے مکتفی ہوسکتاہے اور اغیار سے بھیک مانگنے سے نجات پاسکتا ہے۔ آج ہمارا ملک بے رحم دشمنوں سے لئے ہوئے قرضوں اور ان کے سود سے اتنا دبا ہوا ہے اور کراہ رہاہے کہ نہ معلوم اس کا انجام کارکیا ہوگا۔ جب تک اسلامی قانون کے محکمہ ہائے احتساب قائم نہ ہوں گے اور اس ملک سے رشوت کا خاتمہ نہ ہوگا‘ نہ حکومت کا خزانہ حسبِ ضرورت بھر سکتا ہے‘ نہ ٹیکسوں اور مال گذاریوں کی صحیح مقدار حکومت کو حاصل ہوسکتی ہے‘ چاہے کتنے ہی بھاری ٹیکس حکومت لگائے‘ عوام ضرور تباہ ہوں گے‘ مگر حکومت کی ضرور تیں ہرگز پوری نہ ہوں گی اور عوام کی قربانیوں اور خدا کاریوں کے باوجود دشمنوں سے قرض کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوگی۔
آج اگر سرکاری محکموں میں رشوت لینی اور دینی ختم ہوجائے اور بیرونی ممالک کے بینکوں میں خفیہ اور علانیہ جمع کرایا ہوا سرمایہ ملک میں واپس آجائے اور زندگی کی غیر ضروری اشیاء یعنی تعیشات ہر طبقہ کی زندگی سے خارج کردی جائیں تو حکومت ان دشمنانِ اسلام کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور قرض کی بھیک مانگنے کی لعنت سے بآسانی بچ سکتی ہے‘ آج انہی دشمنانِ اسلام اور درپئے آزار طاقتوں کے ہم رہینِ منت ہیں کہ عقل حیران ہے اور صرف اسی وجہ سے وہ ہمارے اندرونی معاملات میں نہایت دلیری کے ساتھ دخل اندازی کرتے ہیں‘ اپنی پارلیمنٹوں میں ہمارے داخلی معاملات میں بحثیں کرتے رہتے ہیں اور نہ صرف مشورے دیتے ہیں بلکہ مغرورانہ انداز سے اوامر واحکامات صادر کرتے ہیں اور ان احکامات کی تعمیل میں ذرا بھی کوتاہی دیکھتے ہیں تو طرح طرح کی دھمکیاں دیتے ہیں اور ہمارے خلاف پروپیگنڈے کرکے آسمان سر پر اٹھاتے ہیں‘ دراصل ان کی امدادوں اور قرضوں نے جہاں ان کے حوصلے بڑھادیئے ہیں‘ وہاں ہمارے حوصلے پست کردیئے ہیں‘ اسی وجہ سے ان کو یہ جرأت ہوتی ہے کہ تحقیقات کے لئے اپنے وفود بھیجتے ہیں‘ خود ساختہ صحافی بھیجتے ہیں اور وہ ان کے حسبِ منشا ان کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرتے اور آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں‘ اس کے علاوہ صحافی ہمارے دشمنوں کے لئے مخبری بھی کرتے ہیں اور ہمارے کمزور پہلوؤں سے ان کو آگاہ کرتے ہیں‘ تاکہ بصورت جنگ ہمیں خاطرخواہ نقصان پہنچا سکیں۔
کیا اسی کا نام آزادی ہے‘ اس سے بڑھ کر اور کیا غلامی ہوسکتی ہے‘ یہ سب کچھ اسی کے نتائج ہیں کہ ہم ان کے محتاج ہیں‘ قرضوں کے علاوہ اپنی ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز ان سے درآمد کرتے ہیں‘ انا للہ۔
بہرحال کہنا یہ ہے کہ جو دردناک صورتِ حال اس وقت پیش آرہی ہے‘ اس کی اصلی وجہ یہی ہے کہ عزت وطاقت کا سرچشمہ اعداءِ اسلام کو سمجھا گیاہے۔ آج اگر مسلمان حکومتیں حق تعالیٰ کی ذات کو عزت وطاقت کا سر چشمہ سمجھیں اور اس حقیقت کو سمجھ لیں جو حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”وللہ العزة ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لایعلمون“۔ (المنافقون:۸)
ترجمہ:․․․”عزت تو اللہ کے اس کے رسول کے اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے لیکن منافق سمجھتے نہیں“۔
ان حکومتوں کی ظاہری مادی ترقیات نے ہماری نگاہوں کو خیرہ کردیا ہے اور اپنی ”ترقیات“ کی وجہ سے جس اخلاقی بحران میں یہ قومیں مبتلا ہیں اس سے ہم قطعاً غافل ہیں۔ بالفرض! اگر باہر کی امدادوں اور قرضوں کے ہم محتاج ہی ہیں اور بغیر قرضوں کے ہمارا کام نہیں چل سکتا تو پھر ہماری متعدد عرب حکومتوں کو اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ان سے با آسانی سود کے بغیر قرض لے سکتے ہیں تو پھر ہم ان سے قرضے کیوں نہ لیں؟ ایک کویت کی دولت اللہ کے فضل سے اتنی ہے کہ اگر انگلستان کے بنکوں سے اس کی دولت نکال لی جائے تو انگلستان کا دیوالیہ نکل جائے‘ اگر بھیک مانگنا ضروری ہی ہے تو پھر اپنوں سے کیوں نہ مانگیں‘ وہ یقیناً ہمارے دشمن ہیں نہ ان کی طرح بے رحم ‘ ہماری تمام مشکلات ان کے تعاون سے حل ہوسکتی ہیں‘ آج اگر ایک طرف حکومت کو ان اعداء اسلام کے سودی قرضوں نے تباہ کررکھا ہے اور سرمایہ دارانہ سودی نظام نے قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں پہنچا دیا ہے تو دوسری طرف شراب کے لائسنسوں نے اور عریاں کلبوں کے اجازت ناموں نے فواحش ومنکرات کو فروغ دینے کی نت نئی تدبیروں اور فریب کاریوں نے تمام امت کو بے حیائی وبے شرمی اور بربادی وتباہی میں مبتلا کردیا ہے‘ یہ ہے وہ بدترین صورتِ حال جس کے تصور سے دماغ پھٹا جارہاہے‘ قلم تحریر سے عاجز ہے‘ زبان بیان سے قاصر ہے‘ کیا کیا لکھا جائے اور کیا کیا کہا جائے؟
خدارا اپنی حالت پر رحم کرو! ابھی وقت ہے‘ اس ملک کو تباہی سے بچانے کا عزم کرلو‘ اسلامی قانون نافذ کر دو‘ اسلامی تعزیرات جاری کرکے صالح معاشرے کی تشکیل کرلو‘ غیر اسلامی تعزیرات کے ذریعہ جان ومال وآبرو کی حفاظت کی توقع بالکل بے معنی ہے‘ رشوت پربلارو رعایت سخت سے سخت سزا دو‘ یورپ وامریکہ کی خدا فراموش تہذیب کی بیخ کنی کرو‘ فوجیوں اور نوجوانوں میں جہاد کی روح پیدا کرو‘ قوم کو ایثار سکھاؤ‘ اس اسراف وتبذیر پر قائم شیطانی معاشرے کوملک سے باہر کرو‘ جب تک ان باتوں پر عمل نہیں کیا جائے گا اسلامی ترقی کا خواب کبھی شرمندہٴ تعبیر نہ ہوگا۔”اللہم اہد قومی فانہم لایعلمون“․
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: قادیانیت کا مکروہ چہرہ 
Flag Counter