Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

3 - 9
معرکہٴ حق وباطل اور فلسفہٴ عروج وزوال
معرکہٴ حق وباطل اور فلسفہٴ عروج وزوال


دنیا کی تباہ حالی کسی پر پوشیدہ نہیں ،ہرطرف سے جاہلیت کرہٴ ارض پر امڈ آئی ہے اور اسے مکمل تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے، کہیں زخمی زخموں کی شدت کی بناپرسسکیاں لے رہے ہیں‘ تو کہیں خون میں لت پت سڑکوں پر بے یارو مددگار پڑے ہیں‘ انسانیت اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کرنے میں مصروف ہے‘ ہرشخص دوسرے سے دست وگریباں ہے ،انسانیت انتہائی تنزل کا شکار ہے، بلند فکری اور سلامتِ عقل کا عالمگیر فقدان ہے۔
زندگی کامقصد صرف یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ لذات وشہوات کو پورا کرنے کے لئے خداوند تعالیٰ نے مرحمت فرمائی اور یہ دنیا صرف اپنے جذبات اور غلط خیالات کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے معرض وجود میں لائی گئی ہے‘ اس دنیا کاکوئی خاص مقصد ومطلب انسان سے متعلق نہیں، دنیا میں انسان کا مقصد صرف کھانا‘ پینا ‘ دوسرے کے حقوق پرڈاکہ ڈالنااور اپنے حقوق چھین کر حاصل کرنا ہے، گویایہ دنیا اسی قضیہ وقاعدے کے تحت چل رہی ہے۔
لیکن حق کچھ اور ہے‘ حق‘ حق ہی رہتا ہے اور باطل‘ باطل ! باطل کے مقابلہ میں حق کبھی بھی نہ دبا ہے اور نہ ہی اس کو دبایاجاسکتاہے، ازل سے حق وباطل کی یہ جنگ جاری ہے اور انسانیت بھی انہی دو گروہوں میں منقسم ہے، ایک فرقہ حق کا ساتھ دیتا ہے اور دوسرا فرقہ باطل کا۔ ایک جماعت حق کی سفیر اور اسی کی نمائندگی کرتی ہے تودوسری جماعت باطل کی گرویدہ اور اسی کی نشر واشاعت میں ہمہ وقت کوشاں ہے، یہ حالت بقول علامہ اقبال:
ستیزہ کار رہاہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرر بولہبی
کی مصداق ہے‘ جب کہ اہل باطل نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حق کا علَم جب بھی لہرایاہے اور جب بھی حقیقی اور ظاہری دونوں اعتبار سے حق کو مانا گیا ہے تو چین وسکون کی ہوائیں چلی ہیں، لوگوں کو امن وامان اور خوش حالی نصیب ہوئی ہے :”والفضل ما شہدت بہ الاعداء“ کے مصداق، بہرحال حق اور اہل حق ہی ہمیشہ بلند اور غالب رہے ، اہلِ باطل کا نام ازل سے کافر ومنکر ہی چلا آرہاہے‘ لیکن نبی اکرم ا کی بعثت کے بعد وہ اہل حق جنہوں نے حق کا دامن تھامے رکھا اور آپ ا پر ایمان لاکر دونوں جہانوں کی خیراور بھلائیوں کو اپنے نام کیا،ان کو مومن ومسلم کہا جانے لگا ،اور یہی دونوں گروہ اب انہی نئے ناموں سے برسرپیکار ہوئے ‘ لیکن مومنین ومسلمین حق کا ساتھ دینے کی وجہ سے کامیابیوں اور کامرانیوں سے سرفراز ہوئے، جبکہ کافرین ومنکرین باطل کو قائد بنانے کی وجہ سے ذلت ورسوائی کے حقدار ٹھہرے۔
اس پہلے گروہ یعنی مسلمین ومؤمنین اہل حق کا تعلق ایک بلند پایہ‘ اعلیٰ سماوی قانون ”اسلام“ سے ہے اور اسی نسبت ان کو مسلم کہاجاتاہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٴ حیات اور قانون زندگی ہے جو سلامتی وامن اور صلح وآشتی کا پیغام دیتاہے اور اپنے ماننے والوں کو اندھیروں اور ظلمتوں سے بقعہٴ نور کی جانب لے آتا ہے، جہاں لوگ اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھ لیتے ہیں اور اپنے طرز ِفکر وطرزِ عمل کو جاہلیت کے بالمقابل شرافت واخلاق سے تبدیل کرکے گویا برسرعام علانیہ طور پر جاہلیت کا انکار اور اس کے حامیوں پر جرح کرتے ہیں۔یہ قانون سماوی اپنے ماننے والوں کو اعتدال ومیانہ روی کا سبق دیتا ہے اور ان کو ناجائز لذات وشہوات میں احتیاط برتنے کا حکم دیتا ہے، اور ان کو اس بات کا قائل کرتا ہے کہ حد سے تجاوز کرنا ہلاکت ہے۔ یہ قانون الہی انسانی لذات وشہوات کو مکمل معطل نہیں کرتا ‘ بلکہ حد اعتدال میں رہ کر ان کو پورا کرنے کے سامان مہیا کرنے کی اجازت دیتا ہے اور انسانی جذبات وخیالات کی مکمل نگہبانی کرتا ہے۔ اس ضابطہٴ حیات کے بالمقابل کفر کی اندوہ ناک وادیاں ہیں،جہاں جہالت وضلالت اورذلت ورسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں، ان وادیوں کے ساکنین کافرین ومنکرین کے قبیح لفظ سے موسوم ہیں، یہ لوگ اسلامی قانون اور اس کے ماننے والوں سے ہمہ وقت برسرپیکار رہتے ہیں اورانہیں ہلاکت ہی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں،قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”وطبع اللہ علی قلوبہم فہم لایعلمون“۔ (التوبہ:۹۳)
ترجمہ:․․․”اور مہر کردیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر پس وہ لوگ جانتے نہیں ہیں“۔
یہ مہر اتنی کڑی اورپکی ہوتی ہے کہ عقل وشعور کی تمام راہیں انسان پر بند کردیتی ہے ،ان پر پردے پڑجاتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں جس پر انسان کی صحیح فہم وفراست کا مدار ہے، ناکارہ ہوجاتیں ہیں ،پھر درست کو غلط اور غلط کو درست ماننے پر وہ لوگ مصر ہوجاتے ہیں اور قرآن میں موجود اس ارشاد باری کے مستحق ہوجاتے ہیں:
”اولئک کالانعام بل ہم اضل“۔
ترجمہ:․․․”وہ لوگ تو مثل چوپاؤں کے ہیں بلکہ وہ لوگ اس سے بھی زیادہ گمراہ ہیں“۔
پھر یہ لوگ اپنی باطل پرستی کے درست ہونے پر لوگوں کو آمادہ کرنے کے لئے ایک نقال کی طرح مناظر پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کاسامان پیدا کرتے ہیں، اور یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ہم ہی چین وسکون کے علمبردار ہیں اور ہم ہی سلامتی کے سودائی ہیں!! لیکن یہ دعویٰ کہاں تک درست ثابت ہوا ہے، اس کا اندازہ ہم ان کی ظاہری قیادت وسیادت سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ اس زمانہ میں سینکڑوں جانوں کے ضیاع‘ قتل وغارتگری کے انتشار اور شب وروز کے دل ہلا دینے والے واقعات وحادثات اس پر شاہد ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کے ہاتھوں نے زمام حکومت تھامی ہے بالعموم انسانیت نے چین سکون پایاہے ،خدا طلبی کا عالمگیر رجحان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا ہے اور جب سے ان کافروں کے ہاتھوں نے اس نازک باگ ڈور کو لیا ہے سوائے قتل وقتال‘ جنگ وخونریزی کے دنیا کو کچھ نہیں دیا ،ہرطرف بدحالی ہی پھیلی ہے اور امن وسلامتی معدوم ہوئی ہے اور تمام انسانیت نے سخت ترین عذاب جھیلیں ہیں ،خدافراموشی اور خود فراموشی کی کالی آندھیاں برپا ہوئیں ہیں اور زمین باوجود اپنی وسعت کے انسانوں پر تنگ ہوئی ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اسلام حق ہے اور اس کے ماننے والے اہل حق ہیں اور حق کبھی دبایا نہیں جاسکتا تو پھر اسلام کو اور مسلمانوں کو زوال وانحطاط کیوں ہوا؟ کیا وجہ تھی کہ مسلمانوں کو شکست فاش کھانی پڑی ؟ان سے حکومت چھینی گئی اور ان کو سربازار ذلیل کیا گیا؟ اس کا جواب انتہائی سہل وآسان ہے کہ جب مسلمانوں نے اس ضابطہٴ حیات کو کتابوں کی زینت بناکر اپنی زندگی سے فراموش کردیا‘ احکام خداوندی اور اتباع رسول ا سے روگردانی کی تب حالات نے پلٹا کھایا اور اہل حق ظاہری طور سے پست وذلیل ہوئے اور باطل عمومی طور پر پھیل گیا۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل حق نے آخر حق سے روگردانی واعراض کیوں کیا؟ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہی وہ چیزہے کہ جس سے امن وسلامتی چار سو عالم میں بکھری اور نکھری نظر آتی ہے تو اس کی تفصیل یوں ہے کہ جب اسلام وکفر کی آپس میں کشمکش اور مڈبھیڑ ہوتی ہے تو کافر‘ باطل پرست نقال گر اور تماشہ ساز کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں اور لذات وشہوات کی ظاہری تسکین دکھلا کر مسلمانوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کمزور عقل وشعور رکھنے والے مسلمان ان کی ایکٹنگ سے متأثر ہوکر ان کے طرفے تماشے کی طرف مائل ہو ہی جاتے ہیں اور پھر ظاہری دعویدار اسلام کے ہوتے ہیں لیکن ان کا باطن خواہش پرست اور باطل پرست بن چکا ہوتا ہے ،پھر یہ لوگ مزید تنزل کا شکار ہوتے ہیں اور ظاہری دعوے سے بھی سبکدوش ہوکر مکمل ظاہر وباطن سے باطل پرست ہوجاتے ہیں اور اب صرف وہ زبانی مسلمان رہ جاتے ہیں۔لیکن بہرحال جن کے عقول واذہان مسخ نہیں ہوئے ہوتے اور وہ ذکاوت وبصیرت دونوں روشنیوں سے سرفراز ہوتے ہیں وہ ان ظاہری رنگ رلیوں کو جان لیتے ہیں اور ان تماشہ سازوں کو پہچان لیتے ہیں ،یہ مسلمان ان نقاب پوش تماشہ گروں کے نقابوں کے پردے تلے باطل کے خوفناک دھبے اورا ندھیرے اپنی فراست نظر سے دیکھ لیتے ہیں اورسمجھ لیتے ہیں کہ یہ ڈرامہ چند گھنٹوں کا کھیل ہے اور پھر یہ روشنیاں تاریکیوں میں تبدیل ہوجائیں گی اور اسٹیج خالی ہو جائے گا۔یہ لوگ اس ابدی ضابطہٴ حیات کے بیان کردہ احکامات اور اس کے وضع کردہ قوانین پر عمل پیراہوتے ہیں اور حدود اللہ وحقوق اللہ سمیت حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی کار بند رہتے ہیں ،وہ قصاص کو جان لیوا سزا کے بجائے اس کے تحت حیاة کے چھپے فلسفے کو سمجھ لیتے ہیں اور ”ولکم فی القصاص حیاة“ کی حکمت کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں بھوک کے بے قید زندان کو پسند کرتے ہیں اور کھانے پینے اور فطری حاجات کو خداوند تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے ترک کرتے ہیں اور ”لعلکم تتقون“ کے انعام وبدلے کو اپنے لئے کافی وشافی سمجھتے ہیں وہ کوڑے لگنے کو تو برداشت کرتے ہیں لیکن باطل کی عیش پرستی اور راحت پسندی کو اپنانے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے یہی وہ لوگ ہیں جنہیں باری تعالیٰ حزب اللہ ارشاد فرماتے ہیں اور ان کو فلاح وکامیابی کی عظیم سند مرحمت فرماتے ہیں ارشاد خداوندی ہے:
”اولئک حزب اللہ الا ان حزب اللہ ہم المفلحون“۔ (المجادلة)
ترجمہ:․․․”وہی لوگ ہیں گروہ وجماعت اللہ کی اور باخبر رہو کہ بیشک اللہ کی جماعت ہی فلاح وکامیابی پانے والی ہے“۔
مگر افسوس اور صد افسوس! کہ :”وقلیل من عبادی الشکور“ کے قضیہ کے مطابق ایسے مسلمان جو مکمل ایمان واطمینان رکھتے ہیں اور قانون خداوندی کی مکمل پاسداری کرتے ہیں بہت تھوڑے ہیں جبکہ عمومی فضا ایسے ہی مسلمانوں کی ہے جو نام کے مسلمان اورعملاً باطل پرست ہیں جنہوں نے اسلامی ہدایات کو پس پشت ڈال کر باطل قوانین کو مضبوطی سے پکڑا ،انہی لوگوں کی وجہ سے مسلمانوں کو زوال ہوا اور مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے پر تمام انسانیت نے دکھ درد جھیلے اور ساری انسانیت کو پے در پے خساروں کے باعث تنزل وانحطاط کا شکار ہونا پڑا، ظاہری سائنس نے بہت ترقی کی، ہواؤں میں منوں ٹنوں بھاری لوہے کو تواڑا دیا، سمندروں اور دریاؤں پر تو حکمرانی سیکھ لی لیکن انسانیت کے دلوں پر حکمرانی کا نہ ان کو کچھ ذوق ہے نہ ڈھنگ‘ اخلاقی ومذہبی اعتبار سے خسارے اٹھائے اور دنیوی ومادی اعتبار سے نت نئی ایجادات سے دنیا کو روشناس کروایا، راحت طلبی کا بحران ہوتا گیا لیکن نتیجہ بالکل بھیانک ہوا اور آئے دن خود کشیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں تمام دنیا میں سب سے زیادہ خود کشی کرنے والوں کی تعداد دریافت ہوئی ،اس سارے انحطاط وتنزل کے اسباب وہی مسلمان ہیں جنہوں نے باطل پرست کافروں کے طریقوں کو اپنایا اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی حکمرانی لٹوادی اور خداوند وحدہ لاشریک لہ کے ایک دروازے کو چھوڑ کر سینکڑوں دروازوں کا بھکاری بن گئے۔
انہی جیسے متأثرین باطل مسلمانوں کی وجہ سے اسلامی اقتدار سخت تنزل کا شکار ہوا اور حالات بگڑتے ہوئے یہاں تک آں پہنچے ہیں کہ قبلہٴ اول بیت المقدس بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور عرب کی مقدس زمین کے اردگرد جاہلیت اپنے ٹھکانے بنانے میں مصروف عمل ہے مسلمان تو کفار کے مقابل ٹھہرے کفار کے ہم نشیں وہم جماعت بھی ان باطل پرست کفاروں سے ناخوش اور نا امید ہوچکے ہیں روز بروز کے احتجاجات‘ فتنہ وفسادات خانہ جنگیاں یہ واضح شواہد ہیں کہ باطل اب سرعام ذلیل ورسوا ہوچکا ہے اور جاہلیت کی مکار ی کو لوگ پہچان چکے ہیں لوگ جان چکے ہیں کہ کفار دنیا کی قیادت وسیادت سنبھالنے کے بالکل بھی اہل نہیں ان کو مسلمانوں اور اسلامی قوانین کی ماتحتی ہی زیب دیتی ہے۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: غیر مسلموں کا کردارادا کرنے والوں کے ایمان کا حکم
Flag Counter