Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

4 - 9
مسئلہ بشریت انبیاء ،علم غیب ومختار کل تفسیر”ضیاء القرآن “ کی روشنی میں
مسئلہ بشریت انبیاء ،علم غیب ومختار کل
تفسیر”ضیاء القرآن “ کی روشنی میں

محترم قارئین! پیر محمد کرم شاہ صاحب الازہری (بھیرہ )نے قرآن مجید کی اردو میں ایک تفسیر ”ضیاء القرآن“ کے نام سے لکھی ہے جس میں انہوں نے رضا خانی عقائد ونظریات کی بھر پور وکالت کی ہے‘ لیکن قرآن پاک کی آیات صریحہ سے رضا خانی عقائد متصادم ہیں‘ ان خانہ ساز عقائد کے تحفظ اور دفاع کے لئے نصوص صریحہ میں تاویلات باردہ کا ارتکاب‘ کتاب اللہ میں تحریف کے مترادف ہے (اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے آمین) لیکن ان کے باوجود پیر محمد کرم شاہ صاحب کئی مقامات پر سپر انداز ہوگئے ہیں۔
زیر نظر مضمون میں ہم وہی اقتباسات پیش کررہے ہیں‘ اس تفسیر میں ہمیں منفرد خصوصیت یہ نظر آئی ہے کہ قرآنی آیات میں اللہ تعالیٰ کی شانِ توحید کا جو زور بیان نظر آتا ہے‘ تفسیر میں اس زورِ بیان کو انتہائی کمزور طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اور مندرجہ ذیل اقتباسات خدا جانے ان کے قلم سے کیسے نکلے ہیں؟ ہوسکتاہے کہ وہ آیات قرآنیہ کے زورِ بیان کے سامنے نہ ٹھہر سکے ہوں۔ واللہ اعلم! بہرحال یہ اقتباسات متنازع مسائل میں تنازعہ کو کم کرنے میں کافی مفید ثابت ہوسکتے ہیں‘ ملاحظہ ہو :
مسئلہ بشریتِ انبیاء علیہم السلام
”انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی انسان کو ہی نبی بناکر مبعوث فرمایا جاتاہے“۔
اس کے تحت لکھتے ہیں:
”کفار کے اس شبہ کا ازالہ کیا جارہاہے کہ آپ بشر ہیں اس لئے نبی کیسے ہوسکتے ہیں؟فرمایا: ہماری سنت ہی یہی ہے کہ آج تک بنی نوع انسان کی طرف جتنے انبیاء کرام بھیجے گئے وہ انہی کے ہم جنس تھے‘ کیونکہ افہام وتفہیم کا مقصد اسی طرح پورا ہوسکتاہے‘ اگر نبی فرشتہ ہوتا تو اس کے آنے کی دو صورتیں تھیں‘ اگر وہ اپنی ملکوتی شکل میں آتاہے تو تم اس کی ہیبت سے دم توڑ دیتے اور اگر انسانی صورت میں آتا تو تم پھر وہی اعتراض کرتے کہ یہ ہماری طرح کا بشر ہے۔ پھر تمہیں کون سمجھاتا کہ یہ بشر نہیں‘ فرشتہ ہے۔ اس لئے سنت الٰہی یہی ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی انسان کو ہی نبی بناکر مبعوث فرمایا جاتاہے“۔(ضیاء القرآن ص:۱۵۴ ج‘۳)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
” رسول کی آمد کا مقصد تعلیم وہدایت ہے۔ جب زمین پر بسنے والے انسان ہیں تو ان کی رہنمائی کا فریضہ ان کا ایک ہم جنس ہی احسن طریقہ پر ادا کرسکتا ہے‘ اگر یہاں فرشتے آباد ہوتے اور ان کی رہنمائی کے لئے کسی رسول کو مبعوث کیا جاتا تو ان میں کسی فرشتہ کو ہی یہ ذمہ داری سونپی جاتی“ ۔ (ضیاء القرآن ص:۲۸۶ ج‘۲)
مسئلہ علم غیب ومختار کل
” آیة کریمہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ زمین وآسمان میں جو بھی موجود ہیں فرشتہ‘ جنات اور دیگر لوگ کوئی بھی غیب کو نہیں جان سکتے ‘صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ عالم الغیب ہے‘ جس طرح اس کی ذات میں اور اس کی دیگر صفات میں کوئی ہمسری کا دم نہیں مار سکتا‘ اسی طرح صفتِ علم میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی شخص اس کی صفتِ علم میں کسی کو اس کا شریک بنائے گا تو وہ بھی اسی طرح مشرک ہوگا اور دائرہ اسلام سے خارج ہوگا‘ جس طرح اس کی دوسری صفات میں کسی کو شریک بنانے والا یا اس کی ذات کی طرح کسی اور کو واجب الوجود ماننے والا مشرک ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے“۔
(ضیاء القرآن ص:۴۵۷ ج:۳)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سارے خزانے میرے قبضہ میں ہیں‘ خود بخود جیسے چاہوں ان میں تصرف کروں یا مجھے غیب کا خود بخود علم ہوجاتاہے اور بغیر اللہ کے بتلائے اور سکھلائے میں ہرغیب کو جانتا ہوں‘ میرا یہ دعویٰ نہیں میر اگر کوئی دعویٰ ہے تو فقط یہ کہ: ”ان اتبع الا ما یوحی الیّ“جو کچھ میری طرف وحی کیا جاتاہے میں اس کی پیروی کرتا ہوں قول اور فعل میں‘ علم اور عمل میں“۔ (ضیاء القرآن ص:۵۵۸ ج‘۱)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
” اللہ تعالیٰ اپنے محبوب مکرم ا کو فرماتے ہیں کہ ان عقل کے دشمنوں کو صاف صاف بتادو کہ تمہاری اس خواہش کا پورا کرنا میرے حیطہٴ امکان سے خارج ہے‘ قدرت نے مجھے اپنے کلام کا امین بنایاہے‘ میں اس میں خیانت کا تصور تک نہیں کرسکتا‘ میرا فرض تو بس اتنا ہے کہ جو کچھ میرا رب حکم فرمائے‘ بلاکم وکاست اسے پہنچادوں‘ تم سرکشی اور نافرمانی کی جرأت کرسکتے ہو‘ مجھ سے تو یہ ہو نہیں سکتا‘ اس کے قہر وغضب کی جو بجلیاں کوند رہی ہیں‘ تمہاری آنکھیں تو نہ دیکھ سکتی ہوں گی‘ لیکن میں تو ان سے چشم پوشی نہیں کرسکتا‘ اگر میں تمہیں خوش کرنے کے لئے کلام الٰہی میں ذرہ بھر کمی بیشی کروں تو کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ روزِ حشر خداوند ذو الجلال کے عذاب سے مجھے چھڑا سکو“۔ (ضیاء القرآن ص:۲۵۸ ج‘۲)
مسئلہ علم غیب کے بارے میں مفسرین کرام کی تصریحات بحوالہ علامہ بغوی  اورمعالم التنزیل ضیاء القرآن میں لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ جس کو اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے اس کو جس غیب پر چاہتاہے‘ آگاہ کردیتاہے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں: پھر ان رسولوں کو جن کو اس نے چنا ہے مستثنیٰ کردیا‘ بس ان کو جتنا چاہا اپنے غیب کا علم بطریقہ وحی عطا فرمایا۔
ابوحیان اندلسی رقمطراز ہیں:
یعنی رسول مرتضیٰ اکو جتنے غیب پر وہ چاہتاہے مطلع کردیتاہے۔
علامہ ابن جریر طبری نے حضرت عباس‘ قتادہ اور بنی زید سے آیت کی یہی تفسیر نقل کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ رسولوں کوچن لیتاہے اور انہیں غیب میں سے جتنا چاہتاہے اس پر آگاہ کردیتاہے۔(ضیاء القرآن ص:۳۹۷‘ج:۵)
پیر محمد کرم شاہ صاحب نے اصل کتب تفاسیر سے عربی عبارات بھی نقل کی ہیں‘ ہم نے ان کے قلم سے صرف اردو ترجمہ نقل کیا ہے‘ اسی صفحہ کے آخر میں پیر صاحب نے خلاصہ درج فرمایاہے جو یہ ہے :
”سلامتی اسی میں ہے کہ ہم آیات کو وہ معانی نہ پہنائیں جن کو ان کے کلمات قبول نہیں کرتے (کاش! کہ پیر صاحب اور ان کے پیشرو”اعلیٰحضرت“ و”صدر الافاضل“ یہی طریقہ اختیار کرتے۔ ناقل) اور سیدھی اور صاف بات جو قرآن نے فرمائی ہے‘ اس کو صدق دل سے تسلیم کرلیں کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام غیبوں کو جاننے والا ہے اور اپنے ان علوم غیبیہ پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا‘ بجز اپنے رسولوں کے ان کو جتنا چاہتاہے‘ علوم غیبیہ عطا فرماتاہے“۔
قارئین کرام! تفسیر ضیاء القرآن کے مندرجہ بالا اقتباسات سے مسئلہ بشریت انبیاء علیہم السلام‘ مسئلہ علم غیب اور مسئلہ مختار کل کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے اور ان مسائل میں دیوبندی‘ بریلوی تنازع کافی حد تک کم ہوسکتاہے‘ بالخصوص تفسیر ضیاء القرآن کا آخری اقتباس تو مذکورہ تنازع کو حل کرنے کے لئے ایک بنیاد فراہم کرتاہے‘ اگرچہ پیر صاحب کے آخری اقتباس کے آخری الفاظ میں اپنے اصول سے انحراف کرتے ہوئے ڈنڈی مار گئے ہیں:”جتنا چاہتاہے علوم غیبیہ پر مطلع فرماتاہے“ کا جملہ زیادہ بہتر تھا پیر صاحب والے جملہ کو قرآن پاک کے کلمات قبول نہیں کرتے‘ لیکن پیر صاحب بیچارے ذاتی وعطائی کے چکر میں اعلیٰ حضرت کی اقتداء بلااہتداء میں پھنسے ہوئے ہیں‘ حالانکہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کے علاوہ انبیاء ورسل کے لئے اطلاع اور اخبار کا لفظ استعمال کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کوافتراق وانتشار سے محفوظ فرمائے اور قرآن وسنت کے نورانی راستہ پر چل کراپنی عاقبت کے سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین․
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: معرکہٴ حق وباطل اور فلسفہٴ عروج وزوال
Flag Counter