Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

9 - 10
یادش بخیر
یادش بخیر

خاندانوں اور معاشرے کے استحکام کی بنیاد عمررسیدہ افراد‘ اور رشتے ناتے کا مرکز خاندان کے بڑے بوڑھے برزگ ہوتے ہیں‘ جوبلاشبہ اپنے خاندان کے لئے شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتے ہیں‘ پھر جبکہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہی انسانیت پروری‘ عفو وکرم‘ الفت ومحبت اور تعظیم وتکریم پر ہے‘ تواس میں خاندان کے اکابر کی اہمیت وعظمت کا انکار کیونکر ممکن ہے؟ ٹھیک اسی طرح مشرقی تہذیب میں ان کی قدر وقیمت اس کا طرہ امتیاز ہے۔
مگر بدقسمتی سے مغربی تہذیب کے خنجر سے مجروح ذہنوں نے ان کی عظمت ورفعت کو یکسر فراموش کردیا‘ چونکہ یہ طبقہ ظاہر ی نفع ونقصان کے پیمانوں سے چیزوں کو پرکھنے کا عادی ہے‘ اس لئے مذہب سے لے کر اخلاق تک جو چیزبھی ان کے خود تراشیدہ مغربی ترازو میں وزن حاصل نہ کرسکے‘ وہ لائقِ قبول نہیں ‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کا معاشرہ ان اعلیٰ اقدار اور انسان دوستی جیسی خوبیوں سے عاری ہوچکا ہے‘ اور مادیت کا تلاطم خیز ایک سیلاب ہے جو ہماری تہذیب وتمدن کو خس وخاشاک کی طرح بہاتا جارہاہے‘ ایسے میں ہم پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی خاندانی و معاشی اقدار کی بقاء اور تحفظ کا سامان کریں اور خاندانی رشتوں کی عظمت ورفعت اور اہمیت کا شعور اجاگر کریں‘ اور اس میں بنیاد واساس کا کردار ادا کرنے والی ان کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کو ہرممکن آرام وسکون پہنچانے کا اہتمام کریں‘ کیونکہ اگر زمانے کے سرد وگرم چشیدہ یہ بزرگ ہمارے اندر نہ رہے تو نہ صرف ہم ان کی برکت سے محروم ہوجائیں گے‘ بلکہ رحمتِ خداوندی بھی ہم سے روٹھ جائے گی‘ اس لئے کہ ہماری خوش بختیوں کا مدار اور سبب یہی بزرگ ہیں:
جنہیں حقیر سمجھ کر تم نے بجھادیا
وہی چراغ جلائیں گے تو روشنی ہوگی
ہماری خالہ‘ محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری کی بڑی صاحبزادی اور معروف عالم دین‘ حضرت مولانا محمد طاسین  کی اہلیہ کا وجود بھی ہمارے لئے ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند تھا‘ شمع حیات کی آخری جلوہ آرائی تک وہ ایسے حوادث ومصائب سے دو چار رہیں‘ جس کی تاب‘ خستہ تن سے متصور نہیں‘ مگر وقتِ رخصت ان کی پیشانی پہ ماضی کے کسی دکھ درد کا کوئی اثر نہ تھا‘ بلکہ وہی بے فکری ان کے چہرے سے عیاں تھی جو تازیست ان کا خاصہ رہی۔
طبیعت کی سادگی‘ مزاج کی خوشگواری اور بھولاپن ان کی وہ صفات تھیں جن کی بناء پر وہ خاندان کے ہر عمر کے افراد میں محبت کا مرکز ومحور تھیں‘ سوائے چند معصوم خواہشوں کے وہ دنیا سے کوئی واسطہ نہ رکھی تھیں‘ پھر ان کی معصومانہ ادائیں ہرمحفل کو کشت زعفران بنا ڈالتیں۔
خاندان بھر میں ان کی اہمیت کویہ چیز اور زیادہ قابل احترام بنا دیتی کہ انہوں نے حضرت بنوری کا وہ زمانہ دیکھا‘ پایا اور اس میں ان کی شفقتیں لوٹیں جب عالمگیر شہرت نے ابھی تک حضرت کی طرف رخ نہیں کیا تھا‘ یہ حضرت کی وہی صاحبزادی تھیں جنہوں نے حضرت بنوری کے ساتھ ہجرت کا کرب بھی اٹھایا تھا‘ اس آبلہ پائی کی وجہ سے حضرت بنوری کو ان سے جو انسیت رہی ہوگی اس کا اندازہ اہلِ نظر سے مخفی نہیں۔
حضرت بنوری کے تمام داماد‘ اپنی شرافت نسبی اور علمی قابلیت میں نمایاں حیثیت کے مالک تھے‘ حضرت مولانا محمد طاسین کو بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازاتھا‘ مرحومہ کے تین فرزند برادرم محمد عابد‘ محترم محمد عارف اور ڈاکٹر محمد عامر طاسین اور دو دختران: اہلیہ لطف الرحمن اور اہلیہ حاجی محمد الیاس حیدری ہیں‘ ماشاء اللہ تمام اولاد‘ خاندان کی بنیادی تعلیم وتربیت کے اثر سے مالامال اور خاندانی شعار کے مطابق شرافت نسبی‘ علمیت اور روحانیت کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کے لئے کوشاں اور زندگی کے سفر میں بھی کامیابی سے رواں دواں ہے‘ مرحومہ اس حوالہ سے بھی خوش قسمت تھیں کہ نیک اولاد کی شکل میں اپنے لئے صدقہ جاریہ کرگئیں۔
آج جب کہ ان کی حیات کی شام ہوچکی ہے اور ان کے تذکرے کے لئے ”یادش بخیر“ کے سوا کوئی عنوان موزوں نہیں‘ ہم خاندان کے تمام سوگوار‘ حضرت بنوری کے تمام متعلقین اور قارئینِ بینات سے مرحومہ کے لئے رفع درجات کی درخواست کرتے ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: مولاناقاری محمد عارف ہزاروی
Flag Counter