Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

4 - 10
اظہار رائے اور توھین رسالت
اظہار رائے اور توھین رسالت


کسی بھی انسان کے علم حاصل کرنے کے لئے تین بڑے اور بنیادی ذرائع ہیں:
۱- حواس خمسہ‘ ۲- عقل سلیم‘ ۳- وحی الٰہی۔
۱- حواسِ خمسہ: دیکھنا‘ چکھنا‘ سونگھنا‘ چھونا اور سننا ہیں۔ان کا علم‘ اعضائے انسانی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے‘ اس میں عقل کے استعمال کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ دیکھنے‘ سننے میں عقل کی ضرورت نہیں۔
۲- دوسرا ذریعہٴ علم: عقل ہے‘ عقل کے ذریعے انسان اپنے مشاہدات میں غور وفکر کرکے نتیجے تک پہنچ سکتاہے ‘ تمام دنیا کے علوم وفنون عقل کی مدد سے حاصل ہوتے ہیں۔
۳- تیسرا ذریعہٴ علم: وحی الٰہی ہے‘ عقل کی حد جہاں ختم ہوتی ہے‘ وہیں سے وحی الٰہی کے علم کی ابتداء ہوتی ہے۔ اس لئے یہ علم عقل سے ماوراء ہے جو صرف نبی اکرم ا کے واسطے سے ہم تک پہنچا ہے‘ اس میں نری عقل کچھ نہیں کرسکتی‘ ہم اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کسی حکم یعنی حلال وحرام کا حکم اپنی عقل سے نہیں لگا سکتے‘ اسی لئے شریعت کے احکام کو مقدم رکھتے ہوئے عقل کو تابع رکھنا چاہئے‘ اگر شریعت کو عقل کے تابع کردیا تو یہ عقل گمراہی اور جہنم کی طرف لے جائے گی۔ آج کل ذرا نظر اٹھاکر دیکھا جائے تو بڑے بڑے پروفیسر اور دانشور ”کلمة الحق ارید بہ الباطل“ کا مصداق اسٹیجوں ‘ ذرائع ابلاغ اور درس قرآن کے حلقے سجاکر لوگوں کو اس بات کی تعلیم دے رہے ہیں کہ دینی احکام کو عقل کے ذریعہ پرکھا جائے‘ جو عقل میں آئے اور جس میں نفس کی چھوٹ دکھائی دے تو وہ دین ہے اور جو عقل میں نہ آئے تو وہ خالص بے دینی ہے ”اعاذ نا اللہ من ذلک“ حالانکہ دین خالص وہی ہے جو نبی ا لے کر آئے‘ اب عقل کے ذریعہ اس کے احکامات نہ تو بدلے جاسکتے ہیں اور نہ ہی تبدیل ہو سکتے ہیں‘ قرآن میں ارشاد فرمایا گیا:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“۔ (المائدہ:۶)
ترجمہ:․․․”آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو کامل ومکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا“۔
اب قیامت تک آنے والے ہر ہر انسان کے لئے یہ دین کافی وشافی ہے‘ اپنی طرف سے دینی احکام اور دین کے مسلمہ ضابطوں میں قطع وبرید قطعاً ناجائز ہے‘ اسی وجہ سے ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ آزادئ اظہار رائے کا تعلق عقل کے صحیح استعمال سے ہے اور اس کو دین کے کسی قطعی اور منصوصی حکم کی مخالفت میں استعمال کرنا بے دینی اور جہالت محض ہے‘ البتہ اس اظہارِ رائے کو دنیا اور اس کی چیزوں میں استعمال کرنا عقل اور رائے کا صحیح استعمال ہے‘ جیساکہ ڈاکٹروں اور طبیبوں کی رائے اور تجویز کسی مریض کے بارے میں درست سمجھی جاتی ہے‘ جبکہ کسی بھی عام آدمی کی رائے مریض کے مرض کے متعلق اگرچہ آزادی اظہار رائے ہے لیکن تسلیم نہیں کی جاتی‘ بلکہ دیوانے کی بڑ سمجھی جاتی ہے اور اس کو خبطی سمجھا جاتاہے‘ بالکل اسی طرح ایک عام غیر معتبر آدمی کی رائے دینِ اسلام میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی‘ بلکہ ایسے لوگ خبطی‘ جاہلِ دقیانوسی کہلاتے ہیں۔ البتہ مذہب اسلام کے مقتدر علمائے کرام قرآن وسنت کی روشنی میں کوئی رائے دیں تو ان کی رائے معتبر‘ معقول اور عقل سلیم کا نتیجہ ہے۔
ایسی اظہار رائے کی آزادی جس میں صرف اور صرف کوری عقل کو بنیاد بنا یا جائے‘ یہ خواہشاتِ نفسانی کی اتباع ہے‘ دین اسلام کی نہیں‘ جیساکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
”أفرأیت من اتخذ الہہ ہواہ افانت تکون علیہ وکیلا“۔ (الجاثیہ:۲۳)
ترجمہ:․․․”(اللہ کے رسول ا سے ارشاد ہے) بھلا اس شخص کا ذمہ آپ لے سکتے ہیں جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود اور الٰہ بنالیا“۔
یاد رکھئے! ایسی کورانہ عقل اور دقیانوسیانہ ذہنیت کی رائے‘ ضلالت اور گمراہی کے ساتھ ساتھ غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے‘ چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پر رضامند
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہٴ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
جب ایک غیر مسلم اپنی عقل‘ اسلام کے کسی حکم یا اسلام کی کسی عظیم شخصیت کے بارے میں استعمال کرتا ہے تو یہ اسلام دشمنی کی دلیل ہوا کرتی ہے‘ آج بھی اس فرسودہ عقل کے ذریعہ حضور ا کی ناموس پر حملہ کیا گیا اور اس کو اظہارِ رائے سے تعبیر کیا گیا‘ یہ اظہار رائے نہیں‘ بلکہ دلوں کی غلاظت اور مسلمانوں سے بغض وعداوت کا مظاہرہ ہے‘ کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب اس بات کی عقلاً اجازت نہیں دیتا کہ کسی دوسرے مذہب کے رہنما پر اس طرح کا بہتان باندھا جائے۔ حضور اکرم ا سے ایک مسلمان کی محبت کا اظہار یہ ہے کہ وہ شاتمینِ رسول سے توہینِ رسول کا بدلہ لئے بغیر چین سے نہ بیٹھے‘ اس لئے کہ یہ ایمان اور ایمانی غیرت کے منافی ہے۔ حضور ا کی عزت وناموس پر حملہ دین اسلام پر حملہ کے مترادف ہے‘ اس لئے کہ حضور ا کا ارشاد ہے:
”کوئی شخص اس وقت تک (کامل) ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین‘ اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں“۔(مشکوٰة:۱۳)
یہی وجہ ہے کہ حضور ا سے محبت جز وایمان ہے اور ایسی بنیاد ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ بنیاد ٹوٹ گئی تو ایمان بھی باقی نہیں بچتا۔ (اعاذنا اللہ من ذلک)
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
گراس میں ہو کچھ خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
اللہ رب العزت نے رسول اللہ اکو ایذاء دینے والے پر لعنت فرمائی ہے‘ جیساکہ ارشاد ہے:
”ان الذین یؤذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فی الدنیا والآخرة واعد لہم عذابا مہینا“۔ (الاحزاب:۵۷)
ترجمہ:․․․”بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء پہنچاتے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں ان پر لعنت بھیجتاہے اور ان کے لئے رسوا کر دینے والا عذاب تیار کررکھا ہے“۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دیا اور تکلیف چاہے جسمانی ہو ‘ سب وشتم یا گستاخی رسول کی صورت میں ہو‘ سب مراد ہے۔
اس آیت میں دو لعنتوں کا بیان ہے ۱- دنیا کی لعنت‘ ۲۔ آخرت کی لعنت۔
دنیاوی لعنت سے مراد ایمان سے اخراج اور سزائے موت کا دیا جانا اور آخرت کی لعنت سے مراد آخرت میں اللہ کی رحمت سے دوری اور رسواکر دینے والا شدید عذاب مراد ہے‘ خود حضور اکرم ا کی مبارک زندگی میں جس نے بھی توہینِ رسالت کا جرم کیا تو نبی کریم ا نے ان کے لئے قتل کی سزا تجویز کی ۔
فتح مکہ کے موقع پر شاتم ِرسول ابن خطل کعبہ کے پردے پر لٹکا ہوا تھا تاکہ کوئی اسے قتل نہ کرسکے‘ اس کے باوجود حضور ا نے حکم فرمایا: ”اقتلوہ ولو تشبت باستار الکعبة“ یعنی اس کو قتل کردو اگرچہ کعبہ کے پردوں سے چمٹا ہوا کیوں نہ ہو۔
چنانچہ حضرت ابوبرزہ اسلمی اور سعد بن حریث نے جاکر اس کو قتل کردیا اور دیوار کعبہ کے نیچے اس کا خون بہایا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ توہینِ رسالت اتنا قبیح جرم ہے کہ اگر مجرم کعبہ کے پردوں سے بھی لٹکاہوا ہو تو وہ مباح الدم ہوجاتاہے۔
اس ابن خطل کے ساتھ حضور انے دس مردوں اور چھ عورتوں کے بارے میں بھی توہین رسالت کے پیش نظر قتل کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا:
”اینما ثقفوا اخذو وقتلو تقتیلا“۔(الاحزاب:۶۱)
یعنی جہاں ملیں تو پکڑ لئے جائیں اور قتل کردیئے جائیں۔ چھ عورتوں میں سے ہندہ زوجہ ابوسفیان کو حضور انے معاف کردیا اور بقیہ دس مردوں اور پانچ عورتوں کو قتل کرادیا‘ اسی طرح ابولہب کے بیٹے نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا تو حضور ا نے اس کے حق میں بددعا فرمائی کہ:” یا اللہ! اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو اس پر مسلط فرمادے‘ ‘۔ آپ ا کی دعا قبول ہوئی اور اس کو کسی درندے نے ہلاک کردیا اور کتبِ تاریخ میں اس جیسے کئی واقعات منقول ہیں کہ سب ہی شاتمینِ رسول کے ساتھ قتل والا معاملہ کیا گیا اور بڑے بڑے علمأ فقہائے کبار کا اس بات پر اجماع ہے کہ مرتکب توہینِ رسالت کو فوراً قتل کردیا جائے چنانچہ قاضی عیاض مالکی ”الشفا“ میں تحریرفرماتے ہیں:
”امام ابوحنیفة امام مالک امام احمد بن حنبل امام شافعی امام اسحاق بن راہویہ کے نزدیک توہینِ رسالت کا مرتکب مباح الدم ہے یعنی اس کا خون بہانا جائز ہے “۔
(الشفا:ج:۲‘ص:۱۸۹)
مندرجہ بالا تحریر سے یہ بات واضح ہوئی کہ: شاتمینِ رسول کی سزا دنیا میں سزائے موت ہے۔ عقل کا شریعت کے کسی حکم کے بارے میں بلاضرورت استعمال کرنا (جبکہ شریعت کا واضح حکم عقل کے خلاف ہو) جرم عظیم‘ جہالت اور دین سے بیزاری کی علامت اور گمراہی کی راہ دکھانے والی ہے‘ اس لئے اظہار رائے کی آڑ میں حضور ا کی عزت وناموس کو نشانہ بنانا‘ اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ اس معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر ہمیں دوکام فوراً کرنے چاہئے:
۱- ہم میں سے ایک ایک فرد یہ نیت کرلے کہ اگر اللہ نے موقع عطا فرمایا تو میں سب سے پہلے شاتمینِ رسول کو واصل جہنم کروں گا اور یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔
۲- ان کے ممالک کی جتنی اشیاء ہیں‘ ان سب کا اس وقت تک مقاطعہ یعنی بائیکاٹ کیا جائے‘ جب تک شاتمینِ رسول اور ان کی حکومتیں اس پر اعلانیہ معافی نہیں مانگ لیتیں اور ساتھ ہی ایک دعا یہ بھی کرنا چاہئے کہ : یا اللہ ان کے اوپر اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو مسلط فرماکر ہلاک فرمادیجئے۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ۱۴۲۷ھ جون۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: قیامت کے ہولناک مناظر سے نجات دینے والے اعمال
Flag Counter