حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
تقدیم الہام الْفُجُوْرْ عَلَی التَّقْوٰی کا راز اللہ تعالیٰ کا نفس کی قسم کھانا یہ دلیل ہے کہ کوئی بہت بڑا مضمون اللہ تعالیٰ بیان فرمانا چاہتے ہیں۔ا یک بڑے عالم و محدث کے ساتھ میں لاہور سے ریل میں کراچی آرہا تھا، راستہ میں انہوں نے نمازِ فجر کی امامت کی اور یہی سورۃ تلاوت کی، نماز ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو کیوں مؤخر فرمایا اور نافرمانی و فجور کے مادہ کو پہلے کیوں بیان فرمایا۔ میں نے ان عالم سے پوچھا تو ہنس کے فرمایا کہ تم ہی بتاؤ۔ مادّۂ فجور تقویٰ کا موقوف علیہ ہے میں نے عرض کیا کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی ہے کہ جس طرح سے بغیر وضو کے نماز نہیں ہوسکتی، بغیر موقوف علیہ پڑھے ہوئے بخاری شریف نہیں مل سکتی، اسی طرح یہ مادّۂ نافرمانی تقویٰ کا موقوف علیہ ہے، اگر یہ مادّہ نافرمانی کا نہ ہوتا تو اس کو روکنا کیسے ثابت ہوتا۔ ہر نہی اپنے منہی عنہ کے وجود اور اس کے ثبوت کے لیے ضروری ہے، مثلاً میرے ہاتھ میں تسبیح ہے، میں کہتا ہوں کہ بھئی میرے ہاتھ میں جو تسبیح ہے اس کو مت دیکھنا، تو تسبیح کا وجود ضروری ہوا یا نہیں۔ اگر میرے ہاتھ میں تسبیح نہ ہو اور میں کہوں کہ ہاتھ میں جو تسبیح ہے اس کو مت دیکھنا تو سب کہیں گے کہ غلط بات ہے، ہاتھ میں تسبیح ہے ہی نہیں۔ تقویٰ کے لیے تقاضائے معصیت کا وجود ضروری ہے تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ گناہ کے تقاضے کو روکو اور ہماری بات سنو، میرے غلام بن کر رہو، نفس نے تم کو نہیں پیدا کیا، میں نے تم کو پیدا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقاضائے معصیت کا وجود ضروری ہے جب ہی تو روکنے کے لیے فرمارہے ہیں، اگر تقاضائے گناہ نہ ہوتے تو تقویٰ کا وجود بھی نہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ تقویٰ کا معنیٰ ہیں کہ گناہ کا تقاضا ہو اور پھر اس کو روک کر اس کا غم اُٹھالے۔ راہِ حق کے غم کی عظمت اسی غم سے اللہ ملتا ہے، مگر افسوس ہے اور اس بات کو درد بھرے دل سے کہتا ہوں