Deobandi Books

عقیدہ

ن مضامی

4 - 14
’’نیشن آف اسلام‘‘ کا تاریخی پس منظر
امریکہ کے سیاہ فاموں کی نسلی تحریک ’’نیشن آف اسلام‘‘ اور اس کے موجودہ لیڈر لوئیس فرخان کے بارے میں کچھ گزارشات چند روز قبل ایک کالم میں پیش کی جا چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں اس سلسلہ میں ایک عربی کتاب ہاتھ آگئی جس سے اس تحریک کے بارے میں کچھ مزید معلومات حاصل ہوئی ہیں اور انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ کتاب ’’مالکم ایکس شہید‘‘ کی خود نوشت ہے جو انہوں نے ایلیکس ہیلی کو قلمبند کرائی تھی۔ لیلیٰ ابوزید نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ ساڑھے تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب ’’ملکوم اکس‘‘ کے نام سے بیروت کے اشاعتی ادارے ’’بیسان‘‘ نے 1996ء میں شائع کی ہے۔
مالکم ایکس شہیدؒ پہلے مالکم لٹل کہلاتے تھے، پھر نبوت کے دعوے دار ایلیجاہ محمد کے ہاتھ پر ’’اسلام‘‘ قبول کر کے مالکم ایکس کہلائے۔ پھر 1964ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ایلیجاہ محمد کے گمراہ کن عقائد سے توبہ کر کے صحیح العقیدہ مسلمان ہو کر ’’الحاج ملک شہباز‘‘ کا لقب اختیار کیا۔ انہیں 1965ء میں شہید کر دیا گیا۔ انہوں نے اس کتاب میں اپنے بچپن، خاندانی پس منظر، امریکہ میں کالے اور گورے کی تاریخی کشمکش، جرائم کی دنیا میں آگے بڑھنے، ایلیجاہ محمد سے متاثر ہو کر اس کا ساتھی بننے، رفتہ رفتہ ایلیجاہ محمد کے دست راست کی حیثیت اختیار کرنے، گوروں کے خلاف نفرت کی مہم چلانے، انہیں شیطان کی نسل قرار دے کر ان کی تباہی کی پیش گوئیاں کرنے، اور پھر حج بیت اللہ کے موقع پر اسلام کے صحیح عقائد سے آگاہی حاصل کر کے ملت اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں شامل ہونے کے واقعات تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ چنانچہ ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید بلکہ ضروری ہے۔
مالکم ایکس شہیدؒ نے بتایا ہے کہ 1930ء میں ’’ویلس دی فارد‘‘ نامی ایک شخص امریکہ کے شہر ڈیٹرائٹ میں آیا اور دعویٰ کیا کہ وہ مکہ سے آیا ہے، قریش سے تعلق رکھتا ہے، حضرت محمد رسول اللہؐ کی اولاد میں سے ہے، اور اسے امریکہ میں کالوں کو گوروں کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ فارد ریشمی کپڑے کے تاجر کی حیثیت سے آیا اور اس نے رفتہ رفتہ سیاہ فام لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنا شروع کر دیا اور ڈیٹرائٹ میں ایک مسجد بھی بنائی۔ ایلیجاہ محمد جو پہلے عیسائی تھا اور ایلیجاہ پول کہلاتا تھا، اس نے ویلس دی فارد کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور رفتہ رفتہ اس کا دست راست بن گیا۔
فارد نے کہا کہ وہ وہی مسیح اور مہدی ہے جس کا دو ہزار سال سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس نے کہا کہ سیاہ فام فطرتاً ’’مسلمان‘‘ ہیں اور اسلام ہی ان سب کا مذہب ہے لیکن گوروں نے برین واشنگ کر کے انہیں اسلام سے دور کر دیا ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے سیاہ فاموں کو اسلام کی طرف واپس آجانا چاہیے کیونکہ ان کے اسلاف سب مسلمان تھے اور وہ ملت اسلامیہ کی کھوئی ہوئی بھیڑیں ہیں جنہیں ملت میں واپس لانے کے لیے اسے بھیجا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ جنت اور دوزخ اس دنیا سے ہٹ کر کوئی الگ چیز نہیں۔ بلکہ اس دنیا میں انسانی معاشرہ کی مختلف کیفیات کا نام جنت اور جہنم ہے۔ اس وقت سیاہ فام سفید فاموں کی غلامی میں ہیں جو کہ ان کی جہنم ہے۔ اور اس کی مدت چار سو سال مقرر ہے اس کے بعد سفید فاموں کا اقتدار ختم ہو جائے گا اور سیاہ فام دنیا کی قیادت سنبھال لیں گے اور وہی ان کی جنت ہوگی۔ ویلس دی فارد 1934ء میں غائب ہوگیا اور ایلیجاہ محمد نے اس کی جگہ سنبھال کر یہ اعلان کیا کہ فارد اصل میں خود اللہ تھے (نعوذ باللہ) جو انسانی شکل میں آئے تھے اور اب ایلیجاہ محمد کو اپنا رسول بنا کر واپس چلے گئے ہیں۔ ایلیجاہ محمد نے کہا کہ وہ خدا کا رسول بلکہ خاتم المرسلین ہے اور اب دنیا کی نجات اس کے ساتھ وابستہ ہے۔
مالکم ایکس شہیدؒ نے بتایا ہے کہ جب وہ ایلیجاہ محمد کے دست راست کے طور پر مختلف اجتماعات میں خطاب کیا کرتے تھے تو خطبہ میں سورہ فاتحہ کے ساتھ یہ کلمہ شہادت پڑھا کرتے تھے (نعوذ باللہ من ذلک):
اشھد ان لا الہ الا انت واشھد ان محمد الایلیجاہ المحترم عبدک و رسولک-
ترجمہ: ’’اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محترم ایلیجاہ محمد آپ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
مالکم ایکس شہیدؒ نے ایلیجاہ محمد کے ایک لیکچر کا حوالہ دیا ہے جس میں کالے اور گورے کے فرق کے بارے میں ’’نیشن آف اسلام‘‘ کا نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ اس لیکچر میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی اصل آبادی سیاہ فاموں پر مشتمل تھی اور آدم علیہ السلام اور ان کی ساری اولاد سیاہ فام تھی۔ ایک وقت آیا کہ سیاہ فاموں کا ایک گروہ اپنی موجودہ حالت پر خدا سے ناراض ہوگیا، ان میں سے ’’یعقوب‘‘ نامی ایک صاحب کو حیوانی جرثوموں کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے اور ان سے نئی نسل پیدا کرنے پر دسترس حاصل تھی۔ چنانچہ اس نے مہارت کا استعمال کرتے ہوئے سفید فاموں کی نئی نسل پیدا کی اور تب سے سفید فام دنیا میں آباد چلے آرہے ہیں۔
ایلیجاہ محمد کا کہنا ہے کہ سفید فام دراصل شیطان کی نسل سے ہیں جو پہلے چار پاؤں پر چلا کرتے تھے اور جنگلوں اور غاروں میں وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام انہیں تہذیب و تمدن کی زندگی کی طرف لائے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات انہوں نے جلد فراموش کردیں اور حیوانیت اور شیطانیت کی زندگی کی طرف واپس لوٹ گئے۔ پھر ان سفید فاموں نے زمین پر غلبہ پا لیا اور سیاہ فاموں کو جانوروں کی طرح بحری جہازوں میں بھر کر شمالی امریکہ میں لائے اور انہیں غلام بنا لیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ گوروں کا اقتدار ختم ہو اور سیاہ فاموں کی حکومت قائم ہو جو دنیا کے لیے جنت ہوگی۔
مالکم ایکس شہیدؒ نے بتایا ہے کہ جب وہ ایلیجاہ محمد کے دست راست تھے ایک عجیب سانحہ ہوا کہ ایلیجاہ محمد کی دو سیکرٹری خواتین نے دعویٰ کر دیا کہ ان کے چاروں بیٹوں کا باپ ایلیجاہ محمد تھے، جس کے ساتھ کسی نکاح کے بغیر ان کے گزشتہ چھ سال سے گرم جوش جنسی تعلقات موجود ہیں۔ امریکی پریس نے اسے خوب اچھالا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس وجہ سے ایلیجاہ محمد سے الگ ہوگئی۔ لیکن مالکم ایکس شہیدؒ اور ایلیجاہ محمد کا بیٹا ’’ویلس دین محمد‘‘ (جو کہ اب بحمد اللہ صحیح العقیدہ مسلمان ہیں) اس دور میں قرآن کریم اور بائبل سے ایسے واقعات تلاش کرتے رہے جو ایلیجاہ محمد کے دفاع میں پیش کیے جا سکیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے بائبل کی بعض آیات کا سہارا لے کر یہ موقف اختیار کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام نشہ کیا کرتے تھے، موسیٰ علیہ السلام حبشی عورتوں کے ساتھ زنا کیا کرتے تھے، داؤد علیہ السلام نے ایک شخص کی بیوی ہتھیالی، اور لوط علیہ السلام نے اپنی حقیقی بیٹیوں سے زنا کر لیا تھا (نعوذ باللہ من ذلک)۔ اس لیے اگر ایلیجاہ محمد سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوگئی ہے تو اس کی نبوت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ بدستور خدا کا رسول اور دنیا کا نجات دہندہ ہے۔ مالکم ایکس شہیدؒ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ موقف ایلیجاہ کے سامنے پیش کیا تو نبوت کے اس دعوے دار نے کہا کہ ’’میرے بیٹے تم نے نبوت اور روحانیت کو صحیح طور پر سمجھا ہے، تمہیں بزرگوں کا فہم بخشا گیا ہے اور تم سمجھ گئے ہو کہ یہ جو کچھ پیش آیا ہے یہ بھی نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔‘‘
آج ایلیجاہ محمد کے جانشین کی حیثیت سے لوئیس فرخان اسی ’’نبوت‘‘ کا پرچم اٹھائے دنیا بھر میں ’’نیشن آف اسلام‘‘ کو امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تحریک کے طور پر متعارف کرا رہا ہے، اور بہت سے مسلم حکمران اور لیڈر اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کو اسلام اور مسلمانوں کی بڑی خدمت سمجھے ہوئے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۲ اگست ۱۹۹۸ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 ذکری فتنہ ۔ مولانا محمد الیاس سے انٹرویو 1 1
3 پاکستانی مہدی اور برطانوی ہوم آفس 2 1
4 کرنل قذافی کی دعوت اور لوئیس فرخان 3 1
5 ’’نیشن آف اسلام‘‘ کا تاریخی پس منظر 4 1
6 چودھری غلام احمد پرویز کے عقائد و نظریات 5 1
7 1- اس مباحثے کا پس منظر 5 6
8 2- قربانی کے مسئلے سے استدلال 5 6
9 3- لغت کے معانی سے استدلال 5 6
10 4- قرآنی الفاظ و عبارات کی تشریح کی اصل اتھارٹی کون؟ 5 6
11 5- اللہ تعالیٰ کی طرف سے حدیث و سنت کی توثیق 5 6
12 خوارج اور ان کا طرز استدلال 6 1
13 خوارج کے قیام کا پس منظر 6 12
14 حضرت جابر بن عبد اللہ انصاریؓ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ 6 12
15 حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ 6 12
16 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ 6 12
17 حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ 6 12
25 قادیانیت کے سو سال 7 1
26 عقیدۂ ختم نبوت اور قومی وحدت 8 1
27 عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد 9 1
28 تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے دائرے 10 1
29 واجد شمس الحسن کی تقریر 11 1
30 قادیانیوں کا ایک مغالطہ 12 1
31 تسلیمہ نسرین کا نیا مشورہ! 13 1
32 عقیدۂ ختم نبوت اور ایک قادیانی مغالطہ 14 1
Flag Counter