Deobandi Books

عقیدہ

ن مضامی

12 - 14
قادیانیوں کا ایک مغالطہ
جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کافی عرصہ سے ماہانہ اصلاحی بیان کا معمول ہے جس میں طلبہ سے تعلیمی، اخلاقی، فکری یا مسلکی حوالہ سے کسی موضوع پر مختصر گفتگو ہوتی ہے۔ ۱۱ جنوری کو اس کے ساتھ ساتھ جامعہ کے سہ ماہی امتحانات میں مختلف شعبوں کے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ میں انعامات کی تقسیم کا پروگرام بھی تھا، اس موقع پر جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج آپ حضرات سے عام طور پر قادیانیوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے ایک مغالطہ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہوں گا۔ قادیانی حضرات کا کہنا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے مستقل نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ جناب رسالت مآب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جو عقیدۂ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔ مگر یہ بات محض ایک مغالطہ ہے اور میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین بندوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یمامہ کے مسیلمہ کذاب، بنو اسد کے طلیحہ بن خویلد، اور یمن کے اسود عنسی نے خود کو نبی کے طور پر پیش کیا اور ان کے گرد اچھے خاصے لوگ جمع ہوگئے تھے۔ جبکہ ایک خاتون سجاح بھی نبوت کی دعوے دار تھی۔
ان میں سے اسود عنسی اور طلیحہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اسود عنسی نے صنعا میں آپؐ کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کر کے یمن کی حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ جبکہ طلیحہ بن خویلد نے نبی کریمؐ کے کمانڈر حضرت ضرار بن ازورؓ کے مقابلہ میں جنگ لڑی تھی۔ لیکن مسیلمہ کا دعویٰ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مستقل نبوت کا نہیں تھا بلکہ وہ حضورؐ کی رسالت پر ایمان لانے کے بعد ان کی پیروی میں نبی ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ اپنے ماننے والوں سے پہلے محمد رسول اللہ کا اقرار کرواتا تھا پھر اس کے بعد اپنی نبوت و رسالت کی بات کرتا تھا۔ ختم نبوت کے پہلے شہید حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو جب مسیلمہ نے شہید کیا تو پہلے یہ پوچھا تھا کہ کیا وہ حضرت محمدؐ کو رسول مانتے ہیں۔ اور پھر سوال کیا تھا کہ اس کے بعد کیا مجھے بھی اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہو؟ حبیب بن زیدؓ نے مسیلمہ کو رسول تسلیم کرنے سے انکار کیا تو مسیلمہ نے انہیں شہید کرا دیا۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق مسیلمہ کذاب کے دو قاصد خط لے کر حضورؐ کے پاس آئے تو خط کا عنوان یہ تھا کہ من مسیلمۃ رسول اللہ الی محمد رسول اللہ۔ یعنی وہ نبی کریمؐ کو رسول تسلیم کرتے ہوئے ان سے خطاب کر رہا ہے۔ ان دو قاصدوں سے آپؐ نے دریافت کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ مانتے ہیں اور پھر مسیلمہ کو بھی رسول تسلیم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض روایات کے مطابق کلمہ کے ساتھ ساتھ ان کی اذان کی ترتیب بھی یہی تھی کہ پہلے اشہد ان محمد رسول اللہ اور پھر اشہد ان مسیلمۃ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔
مسیلمہ کا دعویٰ یہ تھا جو اس نے اپنے خط میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اِنّی اُشرکت معک فی الامر کہ مجھے کارِ نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اور میں مستقل اور مقابل ہونے کی بجائے ’’شریک نبی‘‘ ہوں۔ اس خط میں اس نے یہ شکوہ بھی کیا کہ قریشی حضرات سخت مزاج ہیں جو کسی دوسرے کا حق تسلیم نہیں کرتے۔ اس خط کا اور اس کو لانے والے دو قاصدوں کا واقعہ بخاری شریف میں موجود ہے جسے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے روایت کیا ہے۔
ایک موقع پر مسیلمہ خود ایک بڑے وفد کے ساتھ مدینہ منورہ آیا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے۔ وہ اپنے ساتھ یہ پیش کش لے کر آیا تھا کہ آپؐ اپنے بعد مسیلمہ کو اپنا جانشین نامزد کر دیں، اور اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر علاقے تقسیم کر لیں۔ اس کا کہنا تھا کہ لنا و بر و لک مدر یعنی شہری علاقوں کے رسول آپ رہیں اور دیہاتی اور صحرائی علاقے مسیلمہ کے سپرد کر دیں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضورؐ نے مسیلمہ کی اس پیشکش کے جواب میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی کہ ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے۔ یعنی خلیفہ نامزد کرنا یا شہری اور دیہاتی علاقوں کی تقسیم اللہ تعالیٰ کا کام ہے، وہ جیسے چاہیں گے فیصلہ کریں گے ۔اور پھر حضورؐ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کھجور کی ٹہنی دکھا کر مسیلمہ سے کہا کہ میں تو تمہیں یہ ٹہنی دینے کا روادار بھی نہیں ہوں۔ چنانچہ مسیلمہ اپنے وفد کے ساتھ ناکام واپس لوٹ گیا۔
یہ سارے شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسیلمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مستقل نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ آپؐ کو رسول اللہ تسلیم کرتے ہوئے آپؐ کی پیروی میں خود کو شریک اور معاون نبی کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس کا تقاضہ مستقل نبوت تسلیم کرانے کا نہیں بلکہ نبوت میں شراکت کا تھا اور وہ اس شراکت کو تسلیم کیے جانے کی صورت میں مکمل وفاداری اور اطاعت کا اظہار کر رہا تھا۔ مگر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعوے کو تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ مسیلمہ کو کذاب کا ایسا خطاب دیا جو آج تک اس کے نام کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ بھی اسی نوعیت کا تھا اور مرزا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی کے دعویٰ کے ساتھ خود کو متعارف کرانے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ جس طرح حضورؐ نے مسیلمہ کے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا، مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے کو بھی پوری امت مسلمہ نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا۔ اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقل یا غیر مستقل کسی طرح کی نبوت کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہی چودہ سو سال سے امت کا اجماعی عقیدہ چلا آرہا ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۵ جنوری ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 ذکری فتنہ ۔ مولانا محمد الیاس سے انٹرویو 1 1
3 پاکستانی مہدی اور برطانوی ہوم آفس 2 1
4 کرنل قذافی کی دعوت اور لوئیس فرخان 3 1
5 ’’نیشن آف اسلام‘‘ کا تاریخی پس منظر 4 1
6 چودھری غلام احمد پرویز کے عقائد و نظریات 5 1
7 1- اس مباحثے کا پس منظر 5 6
8 2- قربانی کے مسئلے سے استدلال 5 6
9 3- لغت کے معانی سے استدلال 5 6
10 4- قرآنی الفاظ و عبارات کی تشریح کی اصل اتھارٹی کون؟ 5 6
11 5- اللہ تعالیٰ کی طرف سے حدیث و سنت کی توثیق 5 6
12 خوارج اور ان کا طرز استدلال 6 1
13 خوارج کے قیام کا پس منظر 6 12
14 حضرت جابر بن عبد اللہ انصاریؓ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ 6 12
15 حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ 6 12
16 حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ 6 12
17 حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ 6 12
25 قادیانیت کے سو سال 7 1
26 عقیدۂ ختم نبوت اور قومی وحدت 8 1
27 عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد 9 1
28 تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے دائرے 10 1
29 واجد شمس الحسن کی تقریر 11 1
30 قادیانیوں کا ایک مغالطہ 12 1
31 تسلیمہ نسرین کا نیا مشورہ! 13 1
32 عقیدۂ ختم نبوت اور ایک قادیانی مغالطہ 14 1
Flag Counter