سبق آموز پیغام !
سبق آموز پیغام
تمام امت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر ہوچکا ہے، ہرجگہ اضطراب ہی اضطراب ہے، نہ حکمرانوں کو چین نصیب ہے، نہ محکوم آرام کی نیند سو سکتے ہیں، مصیبت بالائے مصیبت یہ کہ کوئی بھی صحیح علاج نہیں سوچ رہا ہے جو زہر ہے اس کو تریاق سمجھ لیا گیا ہے ،جو تباہی وبربادی کا راستہ ہے اس کو نجات کا راستہ سمجھا جارہا ہے ،جو تدبیریں شقاوت کو دعوت دے رہی ہیں، انہی کو ذریعہ سعادت خیال کیا جارہا ہے، ماسکو ہو یا واشنگٹن تمام جہنم کے راستے ہیں،کوئی بھی سرور کونین ا کے مدینہ کا راستہ جوسراسر نجات وسعادت کا اعلیٰ ترین وسیلہ ہے ،نہیں سوچ رہا ہے ۔جو صراط مستقیم جنت کو جارہا ہے اس سے بھٹک گئے ہیں، نہ معلوم کہ ارباب عقول کی عقلیں کہاں چلی گئیں؟ ارباب فکر کیوں فکر سے عاری ہوگئے؟ آخر تاریخ کی یہ عبرتیں کس لئے ہیں؟ حقائق سے کیوں چشم پوشی کی جارہی ہے؟ خاکم بدہن ایسا تو نہیں کہ تکوینی طور پر امت پر تباہی وبربادی کی مہر لگ چکی ہے؟ اس امت کا زوال مقرر ہوچکا ہے؟ عروج کا دور ختم ہوگیا ہے؟ حق تعالیٰ نے تو اسلام اور صرف اسلام کی نعمت کو آخری نعمت فرمایا تھا، اور یہ صاف اور صریح اعلان ہوچکا تھا کہ اس کے سوا کوئی رشتہ ورابطہ، کوئی دین ومسلک قابل قبول نہ ہوگا۔ نجات اسی دین اور اسلام میں ہے اور اسی دینی رابطہ میں فلاح وسعادت ہے ،باقی تمام راستے شقاوت وہلاکت اور تباہی وبربادی کے راستے ہیں اور یہ ابدی اعلان آج بھی حق تعالیٰ کے آخری پیغام میں کیا جارہا ہے:
”ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ،، (آل عمران:۸۵)
ترجمہ:۔”اور جو کوئی چاہے سوا اسلام کی حکم برداری کے اور دین، سو اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا،،۔
اور سورہٴ عصر میں تاریخ عالم کو گواہ بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ جن لوگوں میں ایمان باللہ، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر یہ چار باتیں نہیں ہوں گی ان کا انجام تباہی وبربادی ہے، کیا اسی اسلام سے روگردانی کی اتنی بڑی سزا پاکستان اور پاکستانیوں کو نہیں ملی کہ چند لمحوں میں بارہ کروڑ آبادی کا عظیم ملک ۵ کروڑ کا چھوٹا سا ملک بن گیا؟ کیا بنگلہ دیش کے قضیہ سے دونوں طرف کے مسلمان عذابِ الٰہی میں نہیں مبتلا ہوئے؟ اسلامی روابط، اتحاد واخوت ختم کرکے کیا دولت کمائی؟ آخرت سے پہلے دنیا کی رسوائی اور خسران وتباہی بھی دیکھ لی۔ افسوس کہ وہی غیر اسلامی سبق پھر یہاں مغربی پاکستان میں دہرایا جارہاہے، وہی سندھی، پنجابی، بلوچ اور پٹھان کے ملعون نعرے یہاں بھی ابھر رہے ہیں۔ ارحم الراحمین کے غضب کو دعوت دینے والی صورتیں اختیار کی جارہی ہیں، طاغوتی طاقتیں جن کا ڈورا باہر کے شیاطین کے ہاتھ میں ہے، اسلام اور مسلمانوں پر ایک اور کاری ضرب لگانے کی فکر میں لگ گئے ہیں۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔
نہ اربابِ حکومت مرض کا صحیح علاج سوچ رہے ہیں ،نہ اربابِ دین ، دین کے تقاضوں کو پورا کررہے ہیں، نہ اربابِ قلم زور قلم اصلاح حال پر خرچ کررہے ہیں، غور کرنے سے یہی معلوم ومحسوس ہوتا ہے کہ اس قوم کا آخرت پر یقین یا تو ختم ہوگیا ہے یا اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے، جنت وجہنم اور حیاتِ ابدی کے تصور سے دل ودماغ خالی ہوگئے ہیں، تمام نعمتیں وآسائشیں صرف دنیا کی چاہتے ہیں، جب مرض یہ ہے یعنی دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت، تو اب رہنمایان قوم کا فرض یہ ہے کہ اسی کا تدارک کریں اور اسی کا علاج سوچیں، گذشتہ چند سالوں کے تجربات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو طریقہ علاج کا سوچا گیا اور عملاً اس کو اختیار بھی کیا گیا، وہ صحیح قدم نہ تھا۔ اخبارات بھی جاری کئے گئے، جلوس بھی نکالے گئے،مظاہرے بھی کئے گئے ، جھنڈے بھی اٹھائے گئے، نعرے بھی لگائے گئے، الیکشن بھی لڑے گئے، کچھ ممبر بھی منتخب ہوگئے، اسمبلی ہالوں میں پہنچ بھی گئے، کچھ تقریریں بھی کیں، کچھ تجویزیں بھی پاس ہوئیں، لیکن یہ سب نقارخانے میں طوطے کی آواز بن کر رہ گئے، قوم سے چندے کئے گئے، کروڑوں روپے خرچ بھی کئے، لیکن قوم جہاں تھی کاش وہیں رہتی، ہزاروں میل پیچھے ہٹ گئی، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تدابیر اختیار نہ کی جائیں اور یہ بالکل عبث اور ضیاع وقت ہے لیکن اتنا تو واضح ہوگیا کہ یہ پورا علاج نہیں یا اصل علاج نہیں اور یہ نسخہ مفید ثابت نہ ہوا، مرض کا ازالہ اس سے نہیں ہوسکا۔ بہرحال ان سیاسی تدبیروں کے ساتھ اب دینی سطح پر کام کی ضرورت ہے، اگر آپ کا شوق اس بات کا متقاضی ہے کہ سیاسی تدبیریں اختیار کی جائیں اور سیاسی حربے بھی استعمال ہوں اور آپ کی طبیعت اور ذوق ان وسائل کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں، اگرچہ ہماری دیانتدارانہ رائے یہی ہے کہ ان کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں اور ”کوہ کندن وکاہ برآوردن،، والی مثال صادق آتی ہے، وقتی اور سطحی عوامی فائدے ہیں، لیکن تاہم اگر آپ کا ذوق تسلیم نہیں کرتا تو ترک نہ کیجئے لیکن اصلی اور حقیقی وبنیادی کام اصلاح معاشرہ ہے، اللہ تعالیٰ کی اس مخلوق کو بھولا ہوا سبق یاد دلائیں، اور انبیاء کرام اور مصلحین امت کے طریقوں کو آسمانی ہدایات کی روشنی میں اصلاح امت پر خرچ کریں، گھر گھر بستی بستی پہنچ کر دعوت الی الخیر کا ربانی پیغام پہنچائیں، اجتماعات ہوں تو اسی مقصد کے لئے، جلسے اگرہوں تو اسی بنیاد پر، مجلات ہوں تو اسی کام کے لئے، اخبارات کے صفحات ہوں تو اسی مقصد کے لئے، اور کاش کہ اگر حکومت کے وسائل حاصل ہوں اور ریڈیو وغیرہ کی پوری طاقت بھی اس پر خرچ ہو تو چند مہینوں میں یہ فضا تبدیل ہوسکتی ہے۔ بہرحال اس وقت یہ آرزو تو قبل از وقت ہے کہ حکومت کی سطح پر جو وسائل نشر واشاعت ہیں وہ ایمان کی روح سے آراستہ ہوں اور ایمانی حرارت اور نور ان میں جلوہ گر ہو، ان کے ذریعہ اصلاح ہو، اب ضرورت اس کی ہے کہ آج کی نسل کل حکمران ہو، تو تمام وسائل نشر واشاعت اور خبر رساں ایجنسیاں سب کے سب اشاعت اسلام وتزکیہ اخلاق کے سر چشمے ہوں، پوری قوم نہ سہی ،اکثریت یا قابل اعتبار اہم اقلیت کی ہی اصلاح ہوجائے تو کل کرسئی صدارت یا کرسئی وزارت یا منصب سفارت ہو یا وسائل نشر واشاعت ہوں، یہ سب کے سب تعلیم اسلام وتعلیم دین کے مراکز بن سکیں گے۔ اب تو حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پاسبان خود چور بن گئے ہیں، جو رہبر تھے وہ رہزن بن گئے ہیں، تفصیلات میں جانے کی حاجت نہیں ”عیاں راچہ بیان،، جو صورت حال ہے ،وہ سامنے ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس وقت دین کی اہم ترین پکار یہی ہے کہ خدا کے لئے اٹھو اور خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور سفینہٴ حیات کوساحل مراد تک پہنچانے کی پوری جد وجہد کرو۔
نیز یہ چیز پیش نظر رہے کہ طاغوتی طاقتیں اور تمام فتنہ وفساد برسرپیکار ہیں اور نہایت تیزی سے سیلاب آرہا ہے، کمزور ناتواں کوشش کافی نہیں، فساد معاشرے میں ایٹم کی رفتار سے پھیل رہا ہے، ظاہر ہے کہ کیڑے مکوڑوں کی رفتار سے مقابلہ کیا گیا تو کیونکر اصلاح ممکن ہوگی؟ خدارا یہ آگ جو لگ چکی ہے، جلد سے جلد بجھانے کی کوشش کرو، ورنہ تمام قوم وملک اس کے شعلوں کی نذر ہوجائے گا۔ افسوس وتعجب سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر کسی کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو وہ فوراً بجھانے کی تدبیر میں لگ جاتا ہے ،کوئی کوتاہی نہیں کرتا، لیکن دینِ اسلام کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، صدیوں کا جمع کیا ہوا ذخیرہ نذر آتش ہونے کے قریب ہے، لیکن ہم اطمینان سے بیٹھ کر تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ہمارے ملک میں بحران دو ڈیڑھ سال سے رہا ہے ،وہ مشرقی پاکستان کو موت کی نیند سلادینے کے بعد بھی تھمنے نہیں پایا ، بلکہ اس کا سارا زور سمٹ کراب نیم جان مغربی پاکستان پر لگا ہوا ہے، مریض کے حالات اتنے غیر یقینی اور مستقبل اتنا بھیانک ہے کہ اسے ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں، ہم علماء سے، طلبہ سے، حکام سے، صحافیوں سے، وکیلوں سے، کسانوں سے، مزدوروں سے اور ہر ادنیٰ واعلیٰ سے خدا کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ اگر اس ملک کی اور خود اپنی زندگی کچھ دن اور مطلوب ہے، اگر ہمارے دل پتھر، ہمارے ذہن مفلوج، ہمارے دماغ ماؤف اور ہمارے اعضاء شل نہیں ہوگئے ہیں اور اگر ہمارے بدن میں زندگی کی کوئی رمق اور ہماری آنکھ میں عبرت وغیرت کا کچھ پانی ابھی موجود ہے تو سارے دھندے چھوڑ کر سارے ضروری کام ملتوی کرکے اور سارے مشاغل سے ہٹ کر چند دن کے لئے دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہوگا، اس کے لئے سب کو نکلنا ہوگا، سب کے پاس جانا ہوگا، در بدر کی ٹھوکریں کھانی ہوں گی، اگر ملک کا معتدبہ حصہ اس فرض کو انجام دینے کے لئے اٹھ کھڑا ہوگاتو حق تعالیٰ اس ملک کی اور اس کے ساتھ ہماری بقاء کا فیصلہ فرمادیں گے اور پھر بھارت اور روس بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور اگر ہم بدستور اپنی اپنی لے میں مست اور اپنے اپنے کام میں مگن رہے اور دعوت الی اللہ کے کام کے لئے اپنے اوقات ،اپنے مال اور اپنی جان کو خرچ کرنے کی ہمت نہ کی تو خدا ہی جانتا ہے کہ اس فرض ناشناسی کی پاداش کن کن شکلوں میں ظاہر ہوگی، ہماری تدبیریں ، ہماری حکومتیں، ہماری وزارتیں، ہماری اسمبلیاں، ہمارے وسائل خدا کے فیصلے کو نہیں بدل سکتے۔
میٹنگیں بلانے، عمائد کو جمع کرنے، اتحاد کے نعرے لگانے اور مشترک لائحہ عمل تیار کرنے پر بہت وقت ضائع کیا جاچکا ہے، اب وقت ہمیں ایک لمحہ کی مہلت دینے کو بھی تیار نہیں، نہ دعوت واصلاح کے خاکے مرتب کرنے پر مزید اضاعت وقت کی ضرورت ہے، مولانا محمد الیاس رحمة اللہ علیہ والی، تبلیغی تحریک ہی بس امید کی آخری کرن ہے، اپنے ذوق، اپنے تقاضوں اور اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیجئے، ملت کی شکستہ کشتی کے ٹوٹے ہوئے اس تختہ کو، جس پر پانچ کروڑ نفوس سوار ہیں، اگر بچانا ہے تو بس یہی ایک تدبیر ہے کہ ہم سب اخلاص کے ساتھ خفا فاو ثقالاً اس کام کے لئے نکل کھڑے ہوں اور دعوت کے کام کو سیکھیں اور کریں، ہم ایک بار پھر علماء اور دانشور طبقہ سے عرض کریں گے کہ خدارا مقتضائے حال کو سمجھو، ہمارے موجود مشاغل ہمارے پاؤں کی زنجیر بن جائیں گے، اگر محمد ا کی امت کے لئے دعوت واصلاح کی محنت والا کام نہ سنبھالا گیا اور ہماری بے التفاتی، لاپروائی اور بے اعتنائی کی یہی کیفیت رہی جو ابتک ہے تو وقت کا فیصلہ بڑا ہی شدید اور بھیانک ہوگا، مشرق والوں کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے، ہمیں اسی سے عبرت پکڑ لینی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں اور ملت بیضاء کی حفاظت کی توفیق امت کو نصیب فرمائیں
کچھ دن ہوئے لاہور کے ایک صاحب کا گرامی نامہ موصول ہوا ،ہم اس مکتوب اور اس کے ساتھ منسلکہ خواب کو بصائر وعبر کی مناسبت سے یہاں پیش کرتے ہیں:
”…السلام علیکم ورحمة اللہ۹، ۱۰ جنوری کی درمیانی شب کو میں نے ایک خواب دیکھا جس کی کاپی جناب کو روانہ کررہا ہوں، اس خواب میں، میں نے کچھ علماء کو جناب نبی کریم ا کی خدمت میں بیٹھے دیکھا ہے، جن میں ایک آپ بھی ہیں، پہلی صف میں مولانا محمد حسن، مولانا محمد یوسف دہلوی، مولانا عبد القادر رائے پوری، مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری اور جناب (مولانا محمد یوسف بنوری) تشریف فرماہیں ،پچھلے سے پچھلے رمضان المبارک کو ایک خواب دیکھا تھا جس میں دیکھا تھا کہ چاند اپنی گولائی میں موجود ہے، اس پر پاکستان کا نقشہ بنا ہوا ہے، مشرقی حصے کے نقشہ پر یہ حروف لکھے ہیں۔”سنہلک الارض واہلہا،، ہم ا س سرزمین کو اور یہاں کے رہنے والوں کو عنقریب ہلاک کردیں گے۔
اب خواب کے بعد جو یہاں نقل کیا جارہا ہے، طبیعت خاصی پریشان ہے ،سوچتا ہوں کہ اس پیغام کا حق کیسے ادا ہو، امید ہے آپ کوئی تسلی بخش جواب دیں گے۔ والسلام
خواب اور پیغام
”جناب رسول اللہ ا ایک مکان میں مشرق کی جانب رخ کئے ایک ممبر پر تشریف فرماہیں، میں آپ ا کی بائیں جانب کھڑا ہوں اور ایک دبلے پتلے گورے چٹے بزرگ آپ کی دائیں جانب کھڑے ہیں، علماء کا ایک گروہ بھی حاضر خدمت ہے ، ایک عالم دین کھڑے ہوکر رسول اللہ ا کی خدمت میں پاکستان کے حالات بیان کررہے ہیں، واقعات سناتے ہوئے جب وہ یہ کہتے ہیں۔ ”پھر یا رسول اللہ! ہندوستان کی فوجیں فاتحانہ انداز سے ہمارے ملک میں داخل ہوگئیں،، تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ جناب رسول مقبول ا اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی پیشانی تھام لیتے ہیں اور آپ ا کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہنے لگتے ہیں ، یہ دیکھ کر تمام محفل پر گریہ طاری ہوجاتا ہے اور بعض حضرات تو چیخیں مارمار کر رونے لگتے ہیں۔
کچھ دیر بعد آپ ا علماء کی جماعت کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرماتے ہیں: ”اس حادثہٴ عظیم پر ملائکہ بھی غمزدہ ہیں مگر ان کو تمہارے اعمال کی بدولت تمہاری مدد کے لئے نہیں بھیجا گیا،، پھر آپ ا کا چہرہ ٴ انور سرخ ہو گیا، آپ فرماتے ہیں: تمہیں معلوم ہے تمہاری اسی مملکت میں میری نبوت کا مذاق اڑایا گیا، میرے صحابہ کو گالیاں دی گئیں اور میری سنت کی تضحیک واہانت کی گئی،، اس کے بعد آپ ا نے فرمایا:
”اے جماعت علماء! امت کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ جب تک حکام عیاشی، ظلم اور تکبر نہیں چھوڑیں گے، اغنیاء جب تک بخل، حق تلفی اور بے حیائی ترک نہیں کریں گے۔ علماء جب تک کتمان حق، حرص دنیا اور ریاکاری وخود نمائی سے باز نہیں آئیں گے۔ عورتیں جب تک بدکاری، ناچ رنگ، فحش گانے، شوہروں کی نافرمانی اور عریانی وبے پردگی نہیں چھوڑیں گی اور پوری قوم جبتک جھوٹی گواہی، غیبت، زنا، لواطت، شراب نوشی، سود خوری اور اعمال شرک سے توبہ نہیں کرے گی، خوب یاد رکھو اس وقت تک عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکتی،،۔
آپ ا نے فرمایا: ”تم مجھے ان باتوں کے ترک کردینے کی ضمانت دو، میں تمہیں دنیا وآخرت کی بھلائی کی ضمانت اور دشمن پر غلبہ کی بشارت دیتا ہوں، لیکن اگر تم اب بھی ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہو تو خوب یاد رکھو، عنقریب ایک سخت ترین عذاب بصورت نفاق آنے والا ہے، جس سے تمہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں بچاسکتا،،۔ (العیاذ باللہ) اس کے بعد آپ ا نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
”واتقوا فتنة لاتصیبن الذین ظلموا منکم خاصة واعلموا ان الله شدید العقاب،،۔ (الانفال:۲۵)
ترجمہ:۔”اور تم ایسے وبال سے بچو کہ جو خاص انہیں لوگوں پر واقع نہیں ہوگا، جو تم میں ان گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں، اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔،،
اس آیت کے سنتے ہی ہم سب پر گریہ طاری ہوگیا۔ ہم رورہے تھے اور رسول اللہ ا بار بار یہ آیت دہراتے تھے:
”وتوبوا الی الله جمیعاً ایہا المؤمنون لعلکم تفلحون،،۔ (النور:۳۱)
ترجمہ:۔”اور اے مسلمانو! (تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہوگئی تو) تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔،،
اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ”عذاب بصورت نفاق،، کی تعبیر صوبائی عصبیت، گروہی مفادات کا وہ طوفان ہے جو ملک کے درودیوار سے ٹکرارہا ہے جس میں علمأ، صلحأ اور عوام وحکام سب ہی جارہے ہیں اور جسے برپا کرنے میں اوپر سے نیچے تک تمام عناصر اپنی پوری قوتیں صرف کررہے ہیں، پورا ملک، آتش نفاق کے مہیب لہروں کی لپیٹ میں ہے جس پر توبہ واستغفار، تضرع وابتہال اور دعوت الی اللہ کے ذریعہ آج تو قابو پایا جاسکتا ہے مگر کچھ دن بعد یہ تدبیر بھی کار گر نہیں ہوگی اور پھر خداہی جانتا ہے کہ کیا حالات ہوں گے، کون رہے گا اور کس کی حکومت ہوگی اور انسان محکوموں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں اور پوری امت کو اپنی مرضیات کی توفیق عطا فرمائیں۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ صفوة البریة سیدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 7
پچھلا مضمون: چند اہم اسلامی آداب !