Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

6 - 11
قرآنی اعجاز بیانِ حقائق کے رو سے !
قرآنی اعجاز بیانِ حقائق کے رو سے

حقائق کے بیان کے اعتبار سے قرآنی اعجاز کے متعلق حضرت شیخ کشمیری فرماتے ہیں کہ: ان حقائق سے میری مراد وہ پوشیدہ امور ہیں جن تک عقل وفہم کی رسائی نہیں ہوسکتی اور انسانی بساط کے پیش نظر بشری فکر وخیال ان امور کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی ہے۔ عقول انسانی ان امور کے متعلق ہمیشہ سرگرداں اور پراگندہ افکار کی حامل رہی ہیں اور ان کے متعلق باہمی نزاع اور مناقشہ کبھی نفع بخش ثابت نہ ہوسکا اور نہ ہی آراء واقوال کے تیر وتلوار ہدف پر پہنچ سکے ہیں ۔
مثلاً خلق افعال کے مسئلے ہی کو لے لیجئے، عقلاء وحکماء اس کے متعلق حیران وپریشان ہیں اور اس مسئلے کے متعلق سطحی ادراک سے بھی قاصر ہیں، ان کے طویل غور وخوض اب تک اس حقیقت کو آشکارا نہیں کر سکے ہیں کہ بندہ کا اپنے فعل کے ساتھ تعلق کیا ہے؟ اور کس کیفیت پر ہے؟ پھر اس فعل حادث کا قدرت ازلیہ قدیمہ سے کیا ربط ہے اور اس کی کیفیت کیسی ہے؟ قرآن کریم ان مشکل اور پیچیدہ مباحث کے بیان میں ایسی کامل اور واقعی تعبیر پیش کرتا ہے کہ بشری قدرت اس تعبیر سے زیادہ مفصل اور واضح عبارت کا تصور ہی نہیں کرسکتی ہے ۔
الحمد للہ! شیخ کی اعجاز قرآنی کے متعلق ذکر کردہ چاروں وجوہ: مفرداتِ قرآنی، مرکباتِ قرآنی، مقاصد‘ اورحقائق کی شرح وتفصیل سے راقم فارغ ہوا اور مجمل عبارات کی بھی خاطر خواہ تفصیل راقم نے بیان کردی۔
مجھے یہ بخوبی علم ہے کہ یہاں ذکر کردہ تفصیل ان زریں وجوہات کے پیش نظر ہرگز کامل ومکمل شمار نہیں کی جاسکتی ،بلکہ ان وجوہ اعجاز کی کما حقہ شرح وبسط کے لئے ایک مستقل دفتر کی ضرورت ہے، جس میں ہروجہ اعجاز کی مکمل ومفصل توضیح ہو۔ نیز مختلف نظائر کو پیش کرنے کے بعد امثلہ بھی وافر مقدار میں ذکر کردی جائیں، تاکہ اعجاز قرآنی کے متعلق یہ حسین مرقع خوب واضح ہوجائے، جیساکہ شیشے کے برتن کا شگاف اور فجر کی پوپھٹا خوب نمایاں ہوا کرتی ہے۔ بہرحال قابل قدر وقابل اعتبار مباحث میں نے بیان کردی ہیں اور محاورہ بھی یوں استعمال کیا جاتا ہے کہ: ”مالایدرک کلہ لایترک“ جس چیز کو مکمل حاصل نہ کیا جاسکتا ہو اس کو مکمل چھوڑدینا دانشمندی نہیں ہے ۔
راقم کے خیال میں حضرت شیخ کی تحریر کردہ عبارت کو بعینہ بیان کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس کا مضبوط متن ہے، اگرچہ اثنائے شرح وتفصیل کچھ عبارات میں ذکر کرآیا ہوں، لیکن اس تمام تحریرکو دیکھنے کے بعد اچھی طرح علم ہو جائے گا کہ شیخ کو بلاغت ایجاز اور جامع اختصار میں کس قدر ید طولیٰ حاصل تھا اور حضرت شیخ کس طرح ایک بھر پور مواد کو مختصر کلمات وعبارات میں بند کردیا کرتے تھے اور صاحبِ فہم وبصیرت اس بات کو بھی جان لے گا کہ شیخ کے کلام کا ایک ایک جملہ کبھی اپنی شرح وبسط میں ایک رسالہ کا محتاج ہوا کرتا ہے۔
اسی طرح تحقیق وتفتیش کی گہرائی وگیرائی تک پہنچنے والے علماء کا امتیاز دیگر علمائے امت سے جوان سے کم درجہ رکھتے ہیں، نمایاں ہوجائے گا۔ گویا کہ حضرت شیخ نے ہر بعد میں آنے والے مفسر قرآن کے لئے اعجاز قرآنی کی تفسیر وتوضیح کے متعلق چار بنیاد ی اصول وضع فرمائے ہیں اور یقینا ان چاروں امور کا پیش نظر رکھنا اور قرآن کی تفسیر میں ان کے متعلق بحث وتمحیص کرنا مفسر قرآن پر منجملہ واجب امور میں سے ایک اہم اور لائق قدر واجب امر ہے، چنانچہ اب میں ذیل میں شیخ کے الفاظ بعینہ نقل کرتا ہوں:
”قرآن مجید وحکیم کا اعجاز مفردات اور ترکیب وترتیب کلمات اور مقاصد وحقائق کی جملہ وجوہ سے ہے، مفردات میں قرآن مجید وہ کلمہ اختیار فرماتا ہے جس سے اوفی بالحقیقة واوفی بالمقام تلقین نہیں لاسکتے ، مثلاً جاہلیت کے اعتقاد میں موت پر توفی کا اطلاق درست نہ تھا، کیونکہ ان کے اعتقاد میں نہ بقاء جسد تھی نہ بقاء روح، قرآن مجید نے موت پر توفی کا اطلاق کیا اور بتلایا کہ موت سے وصولیابی ہوتی ہے، نہ فناء محض ، اس حقیقت کو کلمہ سے کشف کردیا اور کہیں اس لفظ کا اطلاق اپنے اصلی معنی سے جسد مع الروح کے وصول کرنے پر کیا ۔
ترکیب وترتیب جیسے ”وجعلوا لله شرکاء الجن “ ظاہر قیاس یہ تھا کہ عبارت یوں ہوتی ”وجعلوا الجن شرکاء الله“ لیکن مرادیہ ہے کہ اور وہ شریک بھی کون (جن ) پس یہ مراد اسی ترتیب اور نشست الفاظ سے حاصل ہوسکتے ہیں
مقاصد سے میری مراد مخاطبین کو سبق دینا یا لینا ہے ،جیسا علماء کرام نے اسماء حسنی کی شروح میں لکھا ہے ،مقاصد قرآن حکیم کے ہونے چاہییں جن سے مبدا ومعاش ومعاد اور فلاح ونجاح دنیا وآخرت وابستہ ہو۔
حقائق سے میری مراد وہ امور غامضہ ہیں جن سے عقول وافکار قاصر رہے اور تجاذب جوانب اور نزاع عقلاً باقی رہا ،جیسے مسئلہ ”خلق افعال عباد“ کہ عبد کا ربط اپنے فعل سے کیا ہے اور کیسے ہے ؟ اور اس فعل کا ربط قدرت ازلیہ سے کیا ہے ؟ قرآن مجید ایسے مقام میں وہ تعبیر اختیار فرمائے گا کہ جس سے اوفی بالحقیقة طوق بشر سے خارج ہو۔“
صاحب بصیرت اور وجوہ اعجاز کے متعلق کاوشیں صرف کرنے والے شخص کو چاہئے کہ وہ وجوہ اعجاز کے متعلق قدماء ومتأخرین کی بیان کردہ آراء کو خوب غور وخوض سے سمجھے اور پھر ہمارے حضرت شیخ امام العصر کے ان علمی افادات پر نظر کرے ،یقینا وہ واضح فرق محسوس کرے گا ۔اگر آپ عدل وانصاف کے دامن کو تھامیں گے اور بصیرت افروز نگاہ سے فیصلہ کریں گے اور اس راہ کی ہر پست ودرشت راہ کو ٹٹولیں گے تو را ت اور دن کا فرق نمایاں طور پر ادراک کرلیں گے، ان پر دو نوع آراء میں بہت تفاوت ہے اور بقول کسے: حلیمہ سعدیہ کا دن کوئی پوشیدہ تو نہیں ہے ۔
راقم عرض کرتا ہے کہ میں نے علمائے امت کے بیان کردہ اقوال کو خوب تلاش کیا، اللہ رب العزت ان علماء پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور ہمیں ان کی برکات سے مستفیض فرمائے ۔میں نے ان علماء کرام کی تالیف کردہ کتب ورسائل جو خاص وجوہ اعجاز کے موضوع پر رقم فرمائے گئے تھے، خوب دیکھا۔ ان کتب میں حضرت شیخ ابوبکر قلانی کی ”اعجاز القرآن“ ابو الحسن الرمانی کا رسالہ ”اعجاز القرآن“ اسی طرح فاضل ادیب علامہ رافعی بصری کی کتاب اعجاز القرآن ان کتب کامطالعہ کیا ،نیز جن علماء نے دیگر موضوعات کے متعلق تحریر کردہ تصانیف میں اس مبحث کو ذکر کیا ہے، ان کی کتب میں بھی خوب تمحیص وتفحص کیا، قاضی عیاض مالکی کی کتاب ”الشفاء“ امیر یمنی کی ”الطراز“ حضرت شیخ عبد القاہر جرجانی کے” دلائل الاعجاز “میں ذکر کردہ مضامین اور شیخ جلال الدین السیوطی کے اپنی کتاب ”الاتقان“ میں ذکر کردہ قدماء ومتاخرین کے اکابر علمائے امت کے اقوال وآراء کو دیکھا ہے ،باوجود اس بحث وتدقیق کے حضرت شیخ کے اس علمی افادے کے مانند جامع اور اعلیٰ طرز کی بحث مجھے کہیں نہیں مل سکی، شیخ اس میدان میں نمایاں ہوئے اور سب سے سابق رہے اور اپنے اس افادہ میں کمال کر گئے،اللہ موصوف کو اس کا بدلہ عطا فرمائے اور ان کی اخروی ودنیوی مقدرت ومرتبت کو بڑھائے۔
شیخ کے ان علمی جواہر پاروں کی چمک ودمک کو ذرا دیکھئے ،کس شاندار پیرائے میں تعجب خیز کمال فرما گئے ۔ حضرت شیخ کی ذکر کردہ ان انواع اعجاز میں کئی وہ جزوی وجوہ اعجاز بھی شامل ہوجاتی ہیں جو متقدمین ومتاخرین نے بیان فرمائی ہیں لیکن بہرحال جمیع جزئیات اعجاز کا حصر واستقصاء ناممکن ہے اور ان تمام پر اطلاع بھی صرف وہ ذات علیم وخبیرہی رکھتی ہے جس نے اس قرآن کو اپنے علم سے نازل فرمایا اور وہی تمام مغیبات کو مکمل طور پر جانتا ہے ،شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
وعلی تفنن واصفیہ بوصفہ
یفنی الزمان وفیہ مالم یوصف
ترجمہ :۔”اگر چہ اس کے وصف بیان کرنے والے اپنے بیان اوصاف میں مختلف ہیں لیکن رسالہ ختم ہوجائے گا اور پھر بھی اس کے ایسے اوصاف باقی ہوں گے جو بیان نہ کئے گئے ہوں گے۔“
البتہ میں نے سیوطی کی ”الاتقان“ اور جزائری کی ”توجیہ النظر“ میں امام خطابی کی ایک عبارت دیکھی ہے، اس عبارت سے زیادہ جامع ومختصر عبارت میں نے دیگر علماء کی اس باب میں نہیں دیکھی ہے اور دیگر اقوال کی بنسبت خطابی کی یہ عبارت حضرت شیخ کی مذکورہ رائے کے بہت قریب ہے۔
نیز بعض باتیں خطابی کے کلام میں ایسی بھی ہیں جن پر کسی کو تنبہ نہیں ہوا ہے اور خطابی ہی اس کے واقف کار ہیں اور اس پر مطلع ہوئے ہیں۔میرے مقالے کے تتمہ کے لئے اس عبارت کا نقل کردینا بھی عظیم فائدہ سے خالی نہ ہوگا ،چنانچہ ذیل میں میں ان کی جامع عبارت نقل کرتا ہوں ،سیوطی نے ”الاتقان“ میں امام خطابی کے قول کو یوں نقل فرمایا ہے:
”اکثر اہل نظر علماء اس طرف گئے ہیں کہ قرآن کی وجہ اعجاز اس کی جہت بلاغت ہے لیکن اس جہت ‘بلاغت کی تفصیل وتوضیح نہایت پیچیدہ ہے ،ان علمائے کرام نے بھی اس کے متعلق ذوق کو حکم بنانے کی طرف میلان ظاہر کیا ہے۔ تحقیقی بات یہ ہے کہ کلام کی مختلف اجناس وانواع ہیں اور بیان وبسط کے درجات میں کافی تفاوت پایا جاتا ہے ۔ بعض کلام کمال بلاغت اور مضبوط الفاظ رکھتے ہیں بعض کلام میں فصاحت ہوتی ہے، الفاظ سہل اور قریب الفہم ہوتے ہیں اور بعض کلام فصاحت بہرحال رکھتے ہیں، لیکن ان میں سلاست اور اطلاق وارسال بہت ہوتا ہے، یہ تمام درجات کلام قابل تعریف وتوصیف ہیں، ان میں پہلا درجہ اعلیٰ کا ہے۔ دوسرا درجہ اوسط کلام کا ہے اور تیسرا درجہ ادنیٰ کلام کا ہے۔
قرآنی بلاغت ان تمام اقسام سے حصہٴ وافرہ لئے ہوئے ہے اور ہر نوع سے ایک شعبہ اخذ کرتی ہے ،ان اوصاف کی ترتیب وتنظیم کے پیش نظر قرآن کریم ایک خاص نظم وطرز پیش کرتا ہے جو فخامت وعذوبت ہر دو صفت کا حامل ہوتا ہے اور فخامت وعذوبت فی ذاتہ دو مختلف ومتضاد انواع کے نام ہیں، اس لئے کہ عذوبت ‘ کلام میں سہل اندوزی سے پیدا ہوتی ہے اور جزالت ومتانت کلام میں سنجیدگی اور شدت کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں ،ان دو متضاد انواع کا ایک ہی نظم وطریق میں جمع ہونا بھی ایک خاص فضیلت ہے ،جو قرآن کے ساتھ مختص ہے،تاکہ یہ قرآن کریم باتم الوجوہ نبی ا کے لئے نمایاں معجزہ ہوسکے۔
بشری مقدرت اس طرح کا کلام پیش کرنے سے چند وجوہ کی بناء پر قاصر ہے:
۱: ایک تو یہ کہ انسانی علم لغت عرب کے تمام اسماء واوضاع جو معانی کے ظروف ہیں کا احاطہ نہیں کرسکتا ہے ،نیز انسانی فہم وفراست تمام اشیاء کے معانی اور اس کے لئے موضوع وموزوں الفاظ کا ادراک نہیں کرسکتی ،اسی طرح بیان وکلام کی تمام وجوہ جن سے کلام میں باہمی ربط وتعلق پیدا ہوتا ہے ،انسانی معرفت ان تمام وجوہ تک رسائی نا ممکن ہے ،(جس کی بناء پر یوں کہا جاسکے )کہ انسان ان وجوہ میں سے احسن وافضل کا انتخاب کرکے ایسا کلام پیش کرسکے جو اس قرآن کے مثل ہو ۔ کلام کا قوام تین اشیاء سے ہوتا ہے:
۱- الفاظ۔
۲- ان کے معانی جو الفاظ کے ساتھ قائم ہوں۔
۳- الفاظ اور معانی میں باہمی ربط اور تعلق جوان دونوں کو درست نظم وترتیب پر پیش کرسکے ۔
اور جب آپ قرآن کریم میں تأمل کریں گے تو یہ تمام امور آپ قرآن کریم میں انتہائی اعلیٰ واشرف پیمانے پر پائیں گے ،حتی کہ آپ قرآن کریم میں پائے جانے والے الفاظ سے بڑھ کر فصیح وبلیغ اور مضبوط الفاظ جن میں عذوبت وفخامت دونوں پائے جائیں ہرگز نہ پاسکیں گے ۔
اور قرآنی معانی تو وہ مرتب ومنزلت رکھتے ہیں کہ ہر ذی عقل وفہم اس باب میں قرآن کے تقدم وسبقت او راعلیٰ درجات پر فائز ہونے کی گواہی دے گا۔
اسی طرح قرآنی نظم سے بہتر اور بڑھ کر حسن تالیف اور شدت مناسبت کے ساتھ ساتھ نظم قرآنی کے باہمی مشابہت حسن وخوبی آپ کہیں نہ پائیں گے۔
اور کلام وبیان کے یہ تینوں فضائل ومحاسن مختلف انواع کلام میں تو علیحدہ علیحدہ پائے جاتے ہیں، البتہ ان سب کا بیک وقت ایک ہی نوع کلام میں پایا جانا سوائے علیم وقدیر کے کلام عالیشان کے ناممکن ہے ۔
ان مقدمات کے پیش نظر یہ بات ثابت ہوئی کہ قرآن کریم معجز اس وجہ سے ہے کہ وہ کلام کو حسن ترتیب وانتظام کے ساتھ، فصیح ترین الفاظ استعمال کرتا ہے اور تمام ابواب عقائد واحکام میں مثلاً:توحید وتقدیس باری تعالیٰ، دعوت عمل وطاعت، خداوند کی عبادت کے طریقے کا بیان حلت وحرمت اور حظر واباحت کی صورت میں، وعظ واصلاح، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، اخلاقی محاسن وفضائل کی دعوت، برے اخلاق سے زجر اور ان پر تنبیہ وغیرہ میں قرآن کریم، کلام کو محل کلام وموضع بیان کی رعایت کرتے ہوئے دلنشین اور قابل اعتناء ولائق معانی لئے ہوئے ایسی تعبیر پیش کرتاہے کہ اس سے بہتر تعبیر نہیں پائی جاسکتی ہے اور عقل وادراک کے پردے پر بھی اس لائقِ داد نظم وترتیب سے زیادہ احسن وافضل صورت نہیں جھلک سکتی ہے، ساتھ ساتھ گذشتہ عہود کے واقعات اور گذشتہ اقوام پر نازل خدائی قہر وسزا اور آئندہ عذاب وسزا کی پیش گوئی ،نیز آئندہ زمانے میں ہونے والے وقائع وحادثات کی بہترین طرز پر پیش گوئی ،یہ قرآن کے وہ خواص ہیں جن سے ہرگز صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے اور پھر ان تمام مباحث میں قرآن کریم نے دعویٰ اور حجت ، دلیل اور مدلول کو جمع فرمایا ہے ،تاکہ اس دعوت ودعویٰ کے لزوم کے لئے تاکید وتائید حاصل ہواور یہ قطعی طور پر معلوم ہے کہ ان تمام امور کی تالیف اور ان متفرق ومنتشر امور میں نظم ونسق کا قیام واہتمام ایسا پیچیدہ امر ہے کہ بشری قویٰ ایسا جامع ومانع کلام پیش کرنے سے عاجز ہیں اور یہ ان کی محدود ومحیط مقدرت سے بالا ہیں۔
چنانچہ تمام انسان کے تعارض وتقابل سے دور رہے اور اس کے معارض یا مناقض کلام اسی صورت وہیئت پر پیش کرنے سے یکسر عاجز رہے (کچھ آگے چل کر علامہ خطابی فرماتے ہیں) میں نے جو اعجاز قرآنی کی یہ وجہ بیان کی، محض خدا کا فضل ہے کہ اس وجہ کو اس طرز پر کسی نے پیش نہ کیا تھا اور یہی وجہ دل کو بھی بھاتی ہے اور نفوس میں بھی اثر پذیر ہے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رجب المرجب۱۴۳۰ھ - جولائی ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا توبہ نامہ !
Flag Counter