Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

9 - 12
درس ختم بخاری شریف
درس ختم بخاری شریف


مورخہ ۶/رجب المرجب ۱۴۲۹ھ مطابق ۱۰/جولائی ۲۰۰۸ء کو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ختم بخاری شریف کی مناسبت سے سالانہ تقریب منعقد ہوئی‘ جس میں شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہم کے روحانی ونسبی جانشین حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہم، استاذ حدیث وناظم تعلیمات دار العلوم دیوبند‘انڈیاتشریف لائے اور بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا۔
حضرت مدظلہم نے حدیث شریف کی درسی ابحاث کے ساتھ ساتھ دین کے نام پر ابھرنے والے بعض فتنوں کی نشاندہی بھی فرمائی اور ان سے نجات کا حل بھی بتایا اور اس پر خوب زور دیا کہ اپنے اسلاف پر اعتماد اور ان کے مسلک و مشرب پر سختی سے کاربند رہیں‘ دین حق اور اور صراط مستقیم کی موزوں تعبیر مسلک علماء دیوبند ہے‘ یہ مسلک ہر انسان کو اس کا مقام دیتا ہے‘ اس لئے اسی مسلک پر کاربند رہیں۔
حضرت مدظلہم نے بڑی تاکید کے ساتھ فضلاء کرام کو نصیحت فرمائی کہ بہت سے ادارے ”گلابی مسلک“ رکھتے ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ادھر ہوں تو خود کو ہماری صفوں میں شمار کروائیں اور ادھر ہوں تو نجدیہ وظاہریہ کے ترجمان بننے لگیں‘ ایسے ڈانواں ڈول لوگوں کی پیروی کی بجائے اپنے اکابر کے مسلک پر پہاڑ کی طرح جمے رہیں‘ اسی میں ثبات ہے‘ اسی میں عافیت ہے‘ ورنہ فتنوں کی جو ہوائیں چل رہی ہیں‘وہ خس وخاشاک کی طرح اڑا کر لے جائیں گی۔
حضرت مدظلہم نے فضلاء کرام اور حاضرین مجلس علماء کرام کو مشروط اجازت حدیث دیتے ہوئے فرمایا کہ ”جو حضرات اس عقیدے (اکابر دیوبند کے عقائد) کی قدر وقیمت پہنچانتے ہیں اور دل وجان سے اسے قبول کرتے ہیں‘ ان کو میں اجازت دیتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ قبولیت سے نوازے“ آمین۔
حضرت کی پوری تقریرافادہٴ عام کے لئے آپ مدظلہ کے انداز والفاظ میں قارئین بینات کی خدمت میں پیش ہے: (ادارہ )
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
بسم اللہ الرحمن الرحیم
باب قول اللّٰہ تبارک وتعالیٰ: ”ونضع الموازین القسط لیوم القیامة ،وان اعمال بنی آدم وقولہم یوزن“۔
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب کے آخری باب میں قرآن شریف کی اس آیت کو پیش فرمارہے ہیں‘ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو یہ خبر دے رہے ہیں کہ ہم قیامت کے دن ایک ترازو کو میدان محشر میں رکھیں گے۔
مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ کررہے ہو اور جو کچھ زبان سے نکال رہے ہو ”ونکتب ما قالوا“ ان دونوں چیزوں کو‘ اگر وہ از قبیل خیر ہیں ان کو بھی جمع کیا جارہا ہے‘ لکھا جارہا ہے۔ اوراگر وہ از قبیل شر ہیں تو وہ بھی لکھے جارہے ہیں: ”ورسلنا لدیہم یکتبون“ یہ نظام خداوندی ہے‘ فرشتے متعین ہیں‘ اگر عمل اور قول میں صلاح ہے تو فرشتہ فوراً اس کو لکھتا ہے اور اگر صلاح نہیں ہے اور دوسرا فرشتہ لکھنے پر آمادہ ہوتا ہے تو داہنہ فرشتہ اس کو تنبیہ کرتا ہے کہ رک جا‘ہوسکتا ہے کہ توبہ کی توفیق ہوجائے‘ اگر توبہ کی توفیق نہیں ہوتی تو اس کو بھی لکھ لیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ باخبر فرما رہے ہیں کہ ہم اس میزان کو قیامت کے دن رکھیں گے اور وہ میزان کیوں رکھیں گے؟ اس کی علت بھی بتارہے ہیں کہ قسط یعنی عدل وانصاف کے اظہار کے لئے رکھیں گے‘ ہمارا نظام‘ عادلانہ نظام ہے‘ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہیں ہوگا‘ چنانچہ اس آیت میں فرماتے ہیں:
”فلا تظلم نفس شیئا، وان کان مثقال حبة من خردل اتینا بہا“
اسی طرح
” فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرة شرا یرہ“ ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ نظام ہے‘ اہل سنت والجماعت کا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر ایمان ویقین ہے۔ ہر زمانے میں اس طرح کی جماعتیں اور افراد رہے ہیں جو اپنی عقل کو خیر اور باطل‘ صحیح اور غلط کے لئے کسوٹی مانتے ہیں‘ اسلام کے اندر بھی اس طرح کے افراد رہے ہیں اور قرون اولیٰ کے اندر معتزلہ اور خوارج کا ذکر اور دیگر فِرَق باطلہ کا آپ نے کتاب الایمان کے اندر پڑھا ہوگا اور اساتذہ نے ذکر کیا ہوگا۔
ہمارے اعمال یعنی جو کچھ ہم کرتے ہیں خواہ وہ از قبیل خیر ہوں یا از قبیل شر ہوں ہمارے سامنے ان کا وجود نہیں رہتا‘ انسان عمل کرتا ہے‘ وہ ختم ہوجاتا ہے‘ نظر نہیں آتا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب کوئی چیز دنیا میں وقوع پذیر نہیں ہورہی تو قیامت کے دن اس کا وزن کیسے ہوگا؟اور چونکہ ان کے نزدیک عقل کسوٹی ہے‘ اس لئے انہوں نے اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے خلاف اس کی تاویلات باطلہ کیں‘ جس کو اہلسنت والجماعت نے قبول نہیں کیا۔ ہاں ان کی تردید کے اندر ان وجوہ کو پیش کیا جو وجوہ‘ وجوہ صحیحہ ہیں۔یعنی یہ ہوسکتا ہے کہ میزان عمل کے اندر وہ نامہ اعمال جن کو فرشتے تیار کررہے ہیں اور وہ انسان کے ساتھ ساتھ ہیں، یہاں تک کہ انسان میدان محشر میں پہنچے گا‘ ہوسکتا ہے کہ انہیں نامہ اعمال کو ترازو کے دو پلڑوں کے اندر رکھ دیا جائے اور ان کا اپنا وزن ہو‘ اعمال کے اعتبار سے جو بھی عند اللہ مقدر ہے‘ اسی اعتبار سے یہ فیصلہ کیا جائے گاکہ کس کے اعمال صالحہ ثقیل ہیں؟ اور کس کے اعمال غیر صالحہ ثقیل ہیں؟ اور اس کے لئے بھی ترمذی میں روایت موجود ہے کہ:
” آدمی کے نامہ اعمال کو اس کے سامنے بچھا دیا جائے گا اور تاحد نظر وہ اپنے نامہ اعمال کو دیکھے گا اور جہاں تک نظر کام کریگی‘ وہاں تک وہ بالکل سیاہ ہوں گے اور وہ دم بخود ہوگا‘ اپنے قصور کا معترف ہوگا، کہیں اس کو اپناعمل صالح نظر نہیں آئے گا سوائے ایک بطاقہ اور پرزے کے جو اس نے کبھی اپنی زندگی میں صدق دل سے ”اللّٰہ“ کہا ہوگا اور پھر اس عقیدے پر اس کی موت بھی آگئی‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ ”احضر وزنک“ جا اپنی میزان پر جاکے کھڑا ہو اور دیکھ۔ یہ کہے گا کہ: الٰہٰ العالمین! یہ ایک ”بطاقہ“ ان اعمال کے مقابلہ میں جو ترازو کے ایک پلڑے کے اندر ہیں،کیا جوہر دکھلائے گا؟ اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائیں گے ”احضر وزنک“ تیرے اوپر ظلم نہیں کیا جائے گا‘ یہ وہ بطاقہ لے کرجائے گا۔ نبی کریم افرماتے ہیں کہ :یہ بطاقہ جس میں کسی وقت اس کے دل کی گہرائیوں سے لفظ” اللہ“ نکلا ہوگا‘ یہ اس کی زندگی بھر کے گناہوں کے مقابلے میں بھاری ہوجائے گا۔‘ ‘
اللہ کے نام نامی سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہے‘ یہ روایت یہ بتار ہی ہے کہ ایک یہ صورت بھی ہے۔
جبکہ اہلسنت والجماعت کاعقیدہ ہے کہ ذات واجب الوجود‘ قادر مطلق وہ ان اعمال اور اقوال کی کوئی صورت متعین فرمادے ، اگرچہ ہماری آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر پارہی ہوں‘ آنکھوں کا ادراک نہ کر پانا کسی چیز کے عدم وجود کی دلیل نہیں ہے، یہ ایک حد تک کام کرتی ہیں ۔ جہاں آپ ا نے احوال قبور کو پیش کیاہے،․․․․ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ آپ ا جنازے میں تشریف لے گئے اور قبر کی تیاری میں ذرا سا وقت تھا‘ زمین پر بیٹھ گئے اور بالکل خاموش۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ کسی کے اندر بولنے کی جرأت نہیں تھی‘ پھر آپ خود ہی گویا ہوئے اور آپ نے برزخ کے احوال کو پیش فرمایا،․․․․․ وہاںآ پ ا نے فرمایا کہ:
”مؤمن جب قبر کے اندر رکھا جاتا ہے تو اس سے سوالات کئے جاتے ہیں‘ وہ ہر سوال کا جواب دیتا ہے‘ جب سوال وجواب سے فارغ ہوجاتاہے تو فرماتے ہیں کہ اس کے پاس ایک صورت آتی ہے تو یہ خود اس سے پوچھتا ہے کہ توکون ہے؟ میں نے تیری جیسی حسین وجمیل صورت کبھی دیکھی نہیں: ”ان وجہک الوجہ“ یہاں قبر میں جہاں کوئی مونس وغمخوار نہیں ہے‘ تو کہاں سے آگئی؟ اورتو کون ہے؟تو یہ اس کو جواب دیتی ہے ”انا عملک الصالح“ میں تیرا عمل صالح ہوں جو تو دنیا میں عمل صالح کرتا تھا‘ اللہ کی رضا کے لئے‘ آج اللہ نے تیرے ان اعمال صالحہ کو میری شکل کے اندر مشکل فرمادیا ہے‘ یہاں کوئی تیرا مونس اور غمخوار نہیں ہے، لیکن میں تیری مونس وغمخوار ہوں‘ میں تیرے ساتھ ساتھ ہوں‘ مجھ کو تجھ سے کبھی جدا ہونا نہیں ۔
اسی طرح سے فاسق وفاجر یا کافر کہہ لیجئے‘ اس کے پاس انتہائی بھیانک اور ڈراؤنی صورت پہنچتی ہے وہ اس سے گھبرا تا ہے اور پوچھتا ہے تو کون ہے؟ وہ کہتی ہے ”انا عملک السیئ“ میں تیرا وہ برا عمل ہوں جو تو دنیا کے اندر کیا کرتا تھا‘ آج اللہ نے مجھ کو ان اعمال غیر صالحہ اور اعمال سیئہ کی تصویر بنایاہے‘ میں تیرے ساتھ ساتھ ہوں۔“
اس لئے معتزلہ یا فِرَق باطلہ یا کسی ایک شخص کا عقل کی کسوٹی پر تولنے کی بنیاد پر اس طرح کے اعمال منصوصہ کا انکار یا تاویلات باطلہ کرنا اہلسنت والجماعت کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتا‘ اس طرح کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں‘ ہمارے یہاں متاخرین میں جنت وجہنم اور اس طرح کی دوسری نصوص کو عقل کی کسوٹی پر تول کر‘ اس کے سلسلے میں تاویلات کاسرہ کرنے والے افراد پیدا ہوتے رہے ہیں‘ سرسید مرحوم کے سلسلے میں اسی طرح کی چیزیں تھیں اور ان کی خط وکتابت بھی حضرت نانوتوی رحمہ اللہ سے ہوئی تھی۔
حضرت نانوتوی کی اگر تصانیف کو آپ دیکھیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اور علوم کے ساتھ ساتھ علم کلام میںآ پ کی مہارت اور خصوصیت سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آپ اس فن میں اپنے وقت کے امام تھے۔ حضرت نانوتوی نے ان کے خط کے جواب میں لکھا ہے کہ: اللہ نے عقل اسی لئے دی ہے کہ اس کو کام میں لایا جائے اور جو چیزیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں ،عقل کو ان کے پیچھے دوڑایا جائے‘ لیکن آپ ا س کو عقل کی کسوٹی پر تولتے ہیں، اگر وہ عقل کی کسوٹی پر نہ آئے تو آپ ا س کی تاویلات کرتے ہیں‘ ہمارا مسلک یہ نہیں ہے۔ اگر ہماری عقل نارسا کوشش کرنے پر کسی حکم شرعی کی اصل کو دریافت کرلیتی ہے تو ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے ہماری عقل نارسا کو‘ رسا بنا دیا اور فکر خداوندی تک ہماری عقل کی رہبری فرمادی۔ اور اگر عقل نارسا حکم شرعی کی حقیقت تک نہیں پہنچ پائی تو ہم اپنی عقل کا قصور سمجھتے ہیں‘ حق وہی سمجھتے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول اللہ انے حکم فرمادیا ہے‘ عقل ہماری کوتاہ ہے کہ اس کا ادراک نہیں کرسکی۔ یہ وہ بنیادی فرق ہے اہلسنت والجماعت اور ان لوگوں کے درمیان جو عقل کو کسوٹی سمجھتے ہیں کہ ہم عقل کو قصور وار سمجھ کر جو کچھ ارشاد خداوندی ہے یا نبی کریم ا کا فرمان ہے، تاویلات باطلہ نہیں کرتے‘ اسی کو حقیقت سمجھتے ہیں‘ اسی لئے جب سرسید کا انتقال ہوا تھا تو حضرت نانوتوی کے شاگرد حضرت شیخ الہند نے ان کے انتقال پر ایک مرثیہ لکھا تھا ‘کچھ اشعار لکھے تھے‘ تو چونکہ وہ جنت اور جہنم کی تاویل کیا کرتے تھے‘ اس لئے اس کا ایک مصرع ہے‘ حضرت شیخ الہند کا فرمان ہیں: ”مانتے جس کو نہیں تھے لیجئے پہنچے وہاں“
یہ وہ چیز ہے جو مختلف فیہ رہی تھی اور امام بخاری  اس کو اس آخری باب کے اندر پیش فرمارہے ہیں۔حضرت عبد اللہ بن عباس  فرماتے ہیں کہ: وہ ایک ترازو ہے اور دنیا کی ترازو کی طرح ہے‘ اس کے دو پلڑے بھی ہیں اور اس کی لسان بھی ہے جو درمیان میں کھڑی رہتی ہے اور اسی سے یہ پہنچانا جاتا ہے کہ کونسا پلڑا بھاری ہے اور کونسا پلڑا ہلکا ہے اور اسی کی بنیادپر فیصلہ ہوگا۔
”قسط “کا کیا مطلب ہے؟ یہ سب کچھ ہم کررہے ہیں اور یہ اپنی صفت عدالت کو ”لیوم القیامة‘ ای فی یوم القیامة“ قیامت کے دن اپنی صفت عدالت کے اظہار کے لئے فرمارہے ہیں‘ اسی دن ہم یہ بتائیں گے کہ آج کا دن کسی کے اوپر ظلم کا دن نہیں ہے اور اس صفت عدالت کو اتنا ظاہر کیا جائے گا کہ یہ صرف انسانیت کے لئے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لئے ہوگا۔ امتیاز انسان کے لئے یہ ہے کہ اس صفت عدالت کے اظہار کے بعد چونکہ یہ اشرف المخلوقات ہے اس لئے یہاں یہ ظاہر ہوگا کہ یہ خدا کی رحمت کا مستحق ہے یا خدا کے عذاب کا؟ اور یہیں سے دو راستے ہوں گے‘ ایک جنت کی طرف اور ایک عذاب خداوندی کی طرف۔ لیکن عدل وانصاف کا اظہار یہ صرف انسان کے لئے نہیں ہے‘ بلکہ جناب رسول اللہ ا کا ارشاد ہے کہ:
” اگر دنیا کے اندر کسی طاقتور بکری نے کسی کمزور پر ظلم کیا ہوگا تو قیامت کے دن اس دنیا کی کمزور بکری کو طاقتور بنایا جائے گا اور یہ حکم ہوگا کہ اس ظالم بکری سے اس کے ظلم کا بدلہ لے لے اور وہ ظلم کا بدلہ لے لے گی۔“
یہ صرف بکری کے ساتھ مخصوص نہیں ہے‘ کسی جانور نے اگر کسی جانور پر ظلم کیا ہے تو بھی قیامت کے دن ذات واجب الوجود اس کا بدلہ چکتا کرو ا دیں گے ۔
محدثین یہاں فرماتے ہیں کہ یہ نظام خداوندی‘ اظہار عدالت کے لئے ہوگا‘ اس کا تعلق جنت وجہنم سے نہیں ہے ۔حکم ہوگا ”کونوا ترابا“ مفسرین فرماتے ہیں کہ کفار کا یہ قول جو ان کی تمنا پر دلالت کررہا ہے
”ویقول الکافر یا لیتنی کنت ترابا“
یہ اس بنیاد کے اوپر ہوگا۔
یہ ایک طرح سے تنبیہ بھی ہے کہ اپنے عقیدے کو درست کرلو اور جو کچھ جناب رسول اللہ ا کی زندگی‘ آپ کے اعمال اور آپ کی سنن اس پوری کتاب کے اندر تم نے پڑھی ہیں ان کو اپنی زندگی کے اندر، اخلاص نیت کے ساتھ پیدا کرو اور یہ سمجھ کر کرو کہ قیامت کے دن حساب کا دن ہے اور اس دن جو کچھ ہوگا‘ ایک میزان عمل ہوگا اور دنیا بھر کے لوگ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال صالحہ اور غیر صالحہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے۔ ہاں ایک طبقہ اس امت کے اندر ایسا ضرور ہوگا اور وہ طبقہ بھی ہمارے آقا حضرت محمد اکے صدقے میں بے حد وحساب ہوگا کہ جو بدون حساب جنت کے اندر جائے گا اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو اعلیٰ درجے کا ایمان اور انتہائی اعلیٰ درجے کا توکل اللہ کی ذات والا صفات پر رکھنے والے ہوں گے اور ان کو جنت کا مستحق بنایا جائے گا ۔
صاحب کتاب نے ”ونضع الموازین القسط“ یہ قسط فرمایا ہے‘ انہی کلمات اصلیہ کے ساتھ ”قاسط“ کا لفظ آتا ہے اور ”مقسط“ کا لفظ آتا ہے ”قاسط“ کا لفظ بھی قرآن کے اندر ہے‘ مصدر کے اندر فرق ہے ”قسط“ اور” قسط“ ”واما القاسطون فکانوا لجہنم حطبا“ القاسطون ای الجائرون،یہ ایک نظام جو وزن کا بنایا جارہا ہے‘ یہ نظام اگر نہ ہوتا تو عدالت خداوندی ‘ہوسکتا ہے کہ کسی موقع پر ظاہر نہ ہوپاتی۔ لیکن ایک نظام ہے‘ قرآن کی آیات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہوگا کہ جس کے سامنے جو فرشتوں نے لکھا ہے اس کو پیش کیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا کہ تم نے جو کچھ دنیا کے اندر کیا تھا وہ آج تمہارے سامنے ہے اور یہ نامہ اعمال ہے‘ ان سے جرح کی جائے گی کہ بتاؤ! تم نے کیوں کیا تھا؟ اور یہی ہلاکت ہے‘ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہوگا جو برأت کرے گا اور یہ کہہ دے گا کہ الٰہ العالمین!‘ہم نے دنیا میں کچھ نہیں کیا‘ ہم تو دنیا میں بڑے دودھ کے دھلے تھے‘ ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اور یہ جو کچھ نامہ اعمال میں لکھا ہوا ہے اور ہمارے فرشتوں نے لکھا ہے‘ یہ کیا ہے؟ انکار کریں گے‘ کہیں گے : الٰہ العالمین! نہ تو ہمارے اس کے اوپر دستخط ہیں اور نہ ہمارا انگوٹھا ہے‘ ہم نے نہیں کیا۔ اللہ فرمائیں گے :کیا ہمارے فرشتوں نے کیا ؟ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کہیں گے کہ الہ العالمین! فرشتوں سے تو ہماری مخالفت، ازلی مخالفت ہے‘ جب آپ نے عالم ازل میں یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ آپ آدم اور اس کی اولاد کو خلیفہ بنائیں ”واذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفہ“ تو یہی فرشتے تو تھے جنہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی ”اتجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدماء ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک“ ان کے حلق سے نیچے یہ بات نہیں اتری کہ ہمیں آپ خلیفة اللہ فی الارض بنائیں ،یہ تو خود بننا چاہتے تھے ”ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک“ تو ان کی مخالفت تو ہم سے ازلی مخالفت ہے‘ یہ عجیب وغریب آپ کا فیصلہ ہے کہ ہمارا نامہ اعمال تیار کرنے کے لئے آپ نے انہیں فرشتوں کو استعمال کیا ہے‘ ان کا لکھا ہوا ہمارے خلاف حجت کیسے ہوسکتا ہے؟ یہاں تک دلیل کو پیش کریں گے تو قرآن کہتا ہے ”الیوم نختم علی افواہہم“ بہت بول رہا ہے‘ ہمارے فرشتوں کو جھوٹا بتارہا ہے‘ آج ہم اس کے منہ پر مہر لگا دیں گے یعنی زبان کو بند کردیں گے اور ان جوارح کو جن کو اس نے ہماری نافرمانی پر آمادہ کیا تھا‘ ان جوارح کو زبان دیں گے اور کہیں گے :کہہ بولو‘ چنانچہ ”وتکلمنا ایدیہم وتشہد ارجلہم بما کانوا یکسبون“ ہر چیز بولنے لگے گی کہ ہم سے یہ گناہ کرایا تھا‘ ہم سے یہ گناہ کرایا تھا‘ ہم نے یہ گناہ کیا تھا اور حجت قائم ہوجائے گی‘ پھر اس کے بعد جب یہ جوارح یہ کہہ گذریں گے کہ یہ انسان جھوٹا ہے اور یہ فرشتے جنہوں نے نامہ اعمال کو تیار کیا ہے‘ یہ بالکل سچے ہیں تو پھر اس کی زبان کو کھول دیں گے‘ اب یہ اپنے ہاتھ پیر سے جن کی زبان ابھی تک بند نہیں ہوئی ہے ‘انہی سے سوال کرے گا ”لم شہدتم علینا“ ارے بدنصیب پیٹ !تجھی کو تو بھرنے کے لئے میں دنیا میں حرام کماتا تھا‘ آج تو ہی میرے خلاف گواہی دینے لگا تو ہر چیز بولے گی ”قالوا انطقنا اللّٰہ الذی انطق کل شئ“ جس اللہ نے ہرچیز کو زبان دے کر بلوایا‘ اسی نے ہم کو زبان دی اور ہم سے کہا کہ ہم بولیں‘ چنانچہ ہم بولنے لگے‘ یہ بڑی حسرت کا دن ہوگا کہ یہی ہاتھ پیر اور جوارح انسان کے خلاف گواہی دیں گے اور جھٹلائیں گے انسان کو کہ یہ جھوٹا ہے اور یہ فرشتے جنہوں نے نامہٴ اعمال کو لکھا ہے‘ یہ سچے ہیں۔
چنانچہ روایات کے اندر آتا ہے کہ تین پیشیاں ہوں گی: پہلی پیشی کے اندر تو یہ گویا ایک طرح کا مناظرہ ہوگا‘ انسان انکار کرے گا اور آخر میں لاچار ہوگا‘جب ہاتھ پیر خود ہی اس کے خلاف گواہی دینے لگیں گے تو لاچار ہوجائے گا‘ یہ پیشی اٹھ جائے گی‘ جب پھر دوسری پیشی ہوگی تو اس دوسری پیشی کے اندر معاملہ بدل جائے گا بالکل‘ اب تک تو انکار کررہا تھا‘ اب انکار کی گنجائس نہیں رہے گی تو دوسری پیشی میں آکر اپنے قصور کا اعتراف کرے گا کہ الہ العالمین! غلطی ہوگئی‘ معاف کر دیجئے۔ اعتراف قصور ہو جائے گا‘ دوسری پیشی میں ہوگیا اتمام حجت مکمل‘ اب یہ دوسری پیشی بھی ختم ہوگئی‘ اب تیسری پیشی ہوگی جس میں جناب رسول اللہ ا فرماتے ہیں کہ ”تطیر الصحف“ اب یہاں صحف اڑیں گے‘ کوئی خوش نصیب ہے جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں جائے گا‘ کوئی بدنصیب ہے جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ کے اندر جائے گا۔یہ وہ صورتحال ہے جس کو صاحب کتاب نے اس آخری باب کے اندر پیش فرمایا تھا جو جناب رسول اللہ اارشاد فرمارہے ہیں‘ جس سے اس کی تائید ہوتی ہے‘ اس کو اس حدیث کے اندر پیش فرمارہے ہیں جس کی تلاوت ابھی آپ کے سامنے کی گئی:
”کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان“
ایسے دو کلمے جو اللہ کو بڑے محبوب ہیں، فرماتے ہیں: اس محبوبیت خداوندی کو بنیاد بنا یا ہے یہ تو ایسی بنیاد ہے کہ دو کلمے جو اللہ کے محبوب ہیں‘ اگر محبوب خداوندی کے لئے پاپڑ بیلنے پڑتے‘ جان جو کھوں میں ڈالنی پڑتی تو بھی اس محبوب کو اپنانے کے لئے مؤمن جو کچھ کرسکتا تھا بڑھیا سے بڑھیا‘ مصیبت کو اٹھاتا اور اس محبوب خداوندی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا‘ لیکن یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے محبوب جن دو جملوں کو بنایا ہے‘ ان دو کلمات کی ادائیگی زبان پر انتہائی خفیف وآسان بھی فرمادی ہے‘ اس لئے فرماتے ہیں: ”خفیفتان علی اللسان“ اور چونکہ محبوب الی الرحمن ہیں‘ اس لئے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میزان عمل میں ان کا وزن ہلکا ہو‘ محبت خداوندی ہی تو وہ چیز ہے کہ ان کو جس عمل سے محبت ہے وہ عمل قیامت کے دن میزان عمل میں بھاری ہے‘ ان کو جس قول سے محبت ہے‘ وہ قول میزان عمل میں بھاری ہوگا‘ کسی چیز میں وزن پیدا کرنا یہ تو درحقیقت اللہ کی محبوبیت اور اس کی مبغوضیت کی بنیاد پر ہے‘ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی گناہ دنیا کے اندر بڑا خفیف ہو اور قیامت کے دن چونکہ عند اللہ مبغوض ترین ہے‘ اس لئے انتہائی بھاری ہو‘ حضرت عائشہ صدیقہ  نقل فرماتی ہے سوکن کے قدو قامت کی‘ جناب رسول اللہ ا فرماتے ہیں کہ: تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اس کے اندر اتنی کڑوا ہٹ ہے کہ اگر وہ سمندر میں ملا دیا جائے تو سمندر کا سمندر کڑوا ہو جائے گا۔کسی چیز میں وزن کو پیدا کرنا‘ چاہے عمل صالح کے اندر وزن ہو یا عمل سیئہ کے اندر ہو ،یہ بنیاد زبان کی ادائیگی پر نہیں ہے‘ ہوسکتا ہے عمل انسان کو بڑا اچھا لگتا ہو اور وہ ہر وقت کرتا ہو‘ شراب نوشی آدمی کو اچھی لگتی ہے تبھی تو کرتا ہے‘ دوسرے کے نقائص کو بیان کرنا‘ غیبت کرنا آدمی کو اچھا ہی تو لگتا ہے‘ وزن اس میں اس بنیاد پر پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کا عند اللہ کیا مقام ہے‘ یہ ایک بہت بڑا باب ہے۔ اعمال کے اندر وزن: انسان انسان کے اعتبار سے‘ جگہ جگہ کے اعتبار سے‘ وقت وقت کے اعتبار سے‘ پھر اس کا تعلق کس انسان کے ساتھ ہے‘ اس اعتبار سے بڑھتا اور گھٹتا ہے‘ ایک عمل ہم یہاں کرتے ہیں‘ اسی عمل کو انسان خدا کے گھر میں جا کے کرے پھر اسی عمل کو مدینہ منورہ میں کرے اور اس عمل کو کعبة اللہ میں جاکر کرے، ہرجگہ کے اعتبار سے اس کا معیار گھٹتا بڑھتا ہے‘ دنیا کے اندر اس کا اظہار نہیں ہوتا، قیامت میں میدان محشر میں پہنچے گا، وہاں انسان کو پتہ چلے گا کہ کیا اس عمل کا وزن ہے، اس لئے یہ حدیث ”سبحان الله وبحمد ہ سبحان الله العظیم“یہ ان جملوں کے سلسلے میں لاکر پیش کیا گیا اور پتہ چلاکہ یہ قول بھی ایسا قول ہے کہ جس کو میزان عمل میں رکھا جائے گا۔ اسی لئے صاحب کتاب نے اعمال بنی آدم کے ساتھ قول کو بھی لگایا ہے اور ”ونکتب ما قالوا“ کے اندر وہ چیز آئی ہے‘ اس کا تعلق عمل سے نہیں ،قول ہی سے ہ۔ چنانچہ ان دونوں کلموں کے سلسلے میں جناب رسول اللہ ا فرماتے ہیں کہ: انسان کی زبان سے یہ کلمے نکلیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی لاج رکھیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دو کلموں کا وزن بھی گھٹتا اور بڑھتا رہے گا‘ متکلم کے اپنے جذبات کے اعتبار سے اور خود متکلم کے خدا رسیدہ ہونے کے اعتبار سے‘ ہرآدمی کا تعلق مع اللہ ایک طرح کا نہیں ہوتا ہے‘ جذبات ایک طرح کے نہیں ہوتے‘ یہ تمام چیزیں اپنے اندر معنویت رکھتی ہیں اور احادیث سے ثابت ہے‘ لیکن بہرحال میزان عمل میں بھاری ہیں‘ اس کا مطلب کیا ہے؟ گناہوں سے معصوم ہونا یہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیم کی صفت ہے۔ متنبہ کرنا ہے عام انسان کو‘ ہم رات ودن گناہوں کے اندر ڈوبے ہوئے ہیں‘ اے انسان! اپنی آنکھوں کو کھول‘ ایسے اعمال صالحہ کو اختیار کر جو کل کو میزان عمل میں رکھے جائیں گے تو عدد کے اعتبار سے گناہ تیرے بے شمار ہوں گے اوراعمال صالحہ کی تعداد اس کے مقابلے میں کم ہوگی تو کچھ ایسے اعمال صالحہ کو اختیار کرتا چل، جو اتنے بھاری ہوں کہ ایک ایک عمل صالح کے مقابلے میں سینکڑوں‘ ہزاروں اور لاکھوں اعمال غیر صالحہ ہلکے پڑ جائے۔ تب ہی تو ثقل کا اندازہ ہوگا‘ یہ جو فرمارہے ہیں : ”ثقیلتان فی المیزن“ اس کا مطلب کیا ہے؟ دوسرے پلڑے کے اندر تو اعمال سیئہ ہیں‘ یہ بھاری کیسے محسوس ہوں گے ؟اسی وقت محسوس ہوں گے جب تیرے ”لاتعد ولاتحصی“ اعمال غیر صالحہ ایک پلڑے میں ہوں اور تو یہ سمجھ رہا ہو کہ یہ تو بھاری پڑے ہوئے ہیں ‘دیکھ تو‘ تا حد نظر بچھے ہوئے تھے‘ اس میزان عمل میں اللہ نے لاکر کے رکھ دیا ہے‘ میرے یہ اعمال تو عدد کے اعتبار سے ان گنت ہیں اور یہ اعمال صالحہ تو انگلیوں پر گنے جارہے ہیں‘ اب یہاں پتہ چلے گا‘ جناب رسول اللہا اسی طرف متنبہ فرمارہے ہیں کہ یہ ”ثقیلتان فی المیزان“ہیں ،مطلب یہ ہے کہ یہ تیرے بے شمار گناہوں کو نیست ونابود بے وزن بنانے والے ہیں‘ اس لئے تو ان کو کثرت کے ساتھ زبان پر لا، اور اللہ کی تسبیح وتعظیم کو اپنی زبان کا ورد بنا دے‘ اٹھتے‘ بیٹھتے‘ چلتے‘ پھرتے جہاں فرصت ملے ”سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم“ کہو‘ تاکہ تیرے بے شمار گناہوں کے لئے یہ ان کے مقابلے میں مغفرت کا دریا بنے اور میزان عمل میں تیرے ان اعمال کو بھاری کر دے۔ یہ تو اس حدیث کے بارے میں‘میں نے کچھ معروضات پیش کیں۔
میں طلبہ سے ایک بات کہتاہوں جو اس دور پر فتن میں ضروری ہے‘ دیکھئے! اصول یہ ہے کہ نصوصِ احکام جن کو کہا جاتا ہے‘ یعنی وہ دلائل جن پے مسائل کا استنباط ہوتا ہے‘ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ا ہیں‘ عام طور پر یہ بات ہے اور صحیح ہے کہ جب کسی حکم شرعی کے لئے کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ کو پیش کردیا جائے تو یا معارضة الکتاب بالکتاب ہو یا معارضة السنة بالسنة ہو یا معارضة السنة بالکتاب ہو‘ یہی صورتیں ہوتی ہیں کہ اگر کسی دلیل شرعی کو پیش کردیا گیا کہ اللہ قرآن کے اندر یہ فرماتا ہے‘ لہذا حکم اس طرح ہے تو پھر جو عالم ہے اور کتاب اللہ کی اہمیت کو سمجھتا ہے ،وہ فوراً سپر انداز ہو جائے گا‘ خاموش ہوجائے گا‘ ٹھیک ہے۔ یا اسی طرح سنت رسول اللہ کو پیش کیا جائے کہ جناب رسول اللہ اکا ارشاد یہ ہے کہ فوراً آدمی سپر انداز ہو جائے گا کہ جو آپ نے ارشاد فرمایا ہے۔ علی الرأس والعین ،اب اس کے بعد کسی کلام کی گنجائش نہیں ہے‘ یہ ایک اصول ہے اوراس اصول کے اصول ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے‘ لیکن اس بات کو بھی سمجھنا چاہئے‘ ذہن نشین رکھئے کہ اگر کسی مسئلے کے لئے دلیل‘ کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ سے کسی ایسے شخص کے سامنے پیش کی گئی جو شخص اعلم الناس فی عصرہ ہے اور اتقی الناس فی عصرہ ہے، ازہد الناس فی عصرہ ہے، اروع الناس فی عصرہ ہے۔ زہد‘ تقویٰ‘ علم اور اس کے ساتھ ساتھ فراست ایمانی کے اندر اپنے ہم عصروں کے اندر ممتاز ہے‘ پھر اگر اس کا زمانہ‘ زمانہ نبوت سے قریب ہے‘ مشہود لہا بالخیر جو ازمنہ ہیں‘ ان ازمنہ کے اندر اللہ نے اس کو وجود بخشا ہے‘ پیدا کیا ہے‘ اگر اس کے استنباط کردہ کسی مسئلے کے مقابلے میں کوئی نص ہے یا اس کے سامنے کسی نص کو پیش کیا جاتا ہے اور وہ معارضة اس نص کا نص سے نہیں کرتا‘ بلکہ اپنی رائے کو پیش کرتا ہے تو اس کی رائے بھی حجت ہے‘ اگر چہ وہ معارضة النص بالنص نہیں کررہا یعنی دلیل کا جواب دلیل کی بجائے اپنی رائے سے دیتا ہے۔
مثلاً: دیکھئے !جناب رسول اللہ ادنیا سے تشریف لے گئے اور ارتداد کی ایک لہر اٹھی، محدثین لکھتے ہیں کہ مرتدین مختلف فرقوں کے اندر بٹ گئے ”منہم من ارتدالی دینہ السابق“ اسلام کو چھوڑ کر اپنے دین سابق کی طرف پلٹ گیا” منہم من اعتنق دیانة مسیلمة کذاب“مسیلمہ کذاب کے دین کو اپنا لیا، یہ دو تو بالکل صاف اور ظاہر طریقے کے اوپر ارتداد کا شکار ہوگئے۔ ایک تیسرا طبقہ ہے ”یشہد ان لا الہ الا الہ وان محمداً رسول اللہ“ کہتا ہے زبان سے‘ لیکن زکوٰة جس کاثبوت نصوص قطعیہ سے ہے، اس کا منکر ہوگیا۔ یہ مانعین زکوٰة کہلاتے ہیں۔ ان تینوں کے مقابلے میں ابوبکر صدیق  کی تلوار میان سے نکلی تو یہ وہ مرد مؤمن ہے کہ جس نے اگر اپنی تلوار کو نہ نکالا ہوتا تو شاید دین اسلام کی وہ صحیح صورت دنیا میں قائم نہ رہتی‘ اللہ نے ان کے اوپرمنشرح فرمایا‘ پہلے دو طبقوں میں کسی تاویل کی‘ کسی تردد کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ اس لئے کہ وہ دین اسلام سے مرتد ہیں‘یہ جو تیسرا طبقہ ہے جو لا الہ الا اللہ بھی کہہ رہا ہے‘ محمد رسول اللہ بھی کہہ رہا ہے‘ اگرچہ وہ زکوٰة کو قبول نہیں کررہا ہے‘ حضرت عمر  کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ ان کے خلاف حضرت ابوبکر کی تلوار میان سے باہر کیوں ہے؟ حضرت عمر حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور فرمارہے ہیں:
”کیف تقاتل الناس وقد قال رسول اللہ ا” امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ، فاذا قالوا ہا عصموا منی دمائہم واموالہم وحسابہم علی اللہ“ ۔
یہ جو لوگ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ رہے ہیں‘ آپ ان کے خلاف تلوار کیسے اٹھا رہے ہیں؟ اللہ کے نبی کا ارشاد تویہ ہے کہ ان کے خلاف میری تلوار اٹھے گی اور برابر قتال کرتی رہے گی‘ میرا وہ قتال ان کے ساتھ مستمراً جاری رہے گا‘ کہاں جاکر ختم ہوگا؟ حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا رسول اللّٰہ تو یہ تو اشہد ان لا الہ اللّٰہ وان محمدا رسول اللّٰہ کہہ رہے ہیں‘آپ ان کے خلاف تلوار کیسے اٹھا رہے ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر فاروق کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ حضرت ابوبکر کا یہ عمل درست کیسے ہے‘ نبی کریم ا کے اس ارشاد کے خلاف جو روایات آپ نے پڑھی ہوں گی‘ ان روایات سے اور حضرت عمر کے قول سے جو حقیقت سامنے آرہی ہے وہ دوسری ہے‘ حضرت ابوبکر کے تیور بدل گئے‘ سن کر فرمانے لگے:
”اجبار فی الجاہلیة وخوار فی الاسلام“
اچھا عمر زمانہ جاہلیت میں تو یہ تنتنہ تمہارا تھا اور اب اسلام لاکر کے ڈر پوک بن گئے ہو‘
اینقص الدین وانا حی ؟
کیا دین محمدی میں کترو برید ہو‘ ابوبکر زندہ رہے گا‘ یہ نہیں ہو سکتا:
”واللّٰہ لو منعونی عقالاً کانوا یؤدونہ الی رسول اللّٰہ ا لقاتلتہم“
خدا کی قسم کھاکے کہتا ہوں کہ اگر ایک رسی بھی دیا کرتے تھے اللہ کے نبی کو اور آج منع کردیں گے تو ابوبکر کی تلوار سے ان کی گردن بچے گی نہیں اور کہہ رہے ہیں خدا کی قسم کھا کر کے۔ میں جو بات کہنا چاہتا تھا‘ وہ یہ ہے کہ معارضة الحدیث بالحدیث ہوتا۔ معارضة السنة بالسنة ہوتا یا معارضة الحدیث بکتاب اللہ ہوتا اورحضرت عمر جیسا آدمی حضرت ابوبکر صدیق کے اس کلام کو سن کر (جو کچھ حدیث سے پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ ساکت وصامت دم بخود اور) کیا فرماتے ہیں :
”فلما ان رایت ان اللّٰہ شرح صدر ابی بکر للقتال عرفت انہ الحق“
اگرچہ حضرت ابوبکر میری دلیل کے مقابلے میں رسول اللہ ا کے ارشاد کو نہیں پیش فرمارہے۔مگر میں نے جب بحث ومباحثے کے بعد یہ دیکھ لیا کہ اللہ نے حضرت ابوبکر جیسے آدمی کو جو اعلم الناس ہے ‘ اتقٰی الناس ہے‘ اورع الناس ہے ‘ ازہد الناس‘ اکثر الناس فراسةً ہے، جب اللہ نے حضرت ابوبکر جیسے آدمی کے سینے کو قتال پر منشرح فرمادیا‘ چاہے وہ میری دلیل کا جواب دلیل سے نہیں دے رہے ہیں‘ مگر حضرت ابوبکر جیسے آدمی کے سینے کو منشرح کردیا تو میرا دل بھی منشرح ہوگیا کہ حق یہی ہے جو حضرت ابوبکر فرمارہے ہیں‘ معارضة الحدیث بالحدیث نہیں ہے اور حضرت عمر کا یہ جملہ” فلما ان رایت ان اللّٰہ شرح صدر ابی بکر للقتال“ مفہوم یہ ہے کہ میرا قلب منشرح ہو یا نہ ہو حضرت ابوبکر کا دل منشرح ہوگیا‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق حضرت ابوبکر ہی کے ساتھ ہے۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں اب تو کوئی بھی آدمی کھڑے ہوکر کے دو پیسے کا آدمی اس کے پاس احادیث کا کچھ بھی ذخیرہ نہیں ہے‘ دس‘ بیس‘ پچیس‘ پچاس احادیث کورٹ لیا ‘کھڑے ہو کر کہہ رہا ہے کہ فلانے کو حق کیا پہنچتا ہے کہنے کا، حضرت عمر کون ہوتے تھے بیس رکعات تراویح کو قائم کرنے والے‘ ابوحنیفہ کون ہوتے ہیں‘ یہ کہہ دیتا ہے ،لیکن جس طرح وہ اصول ہے کہ معارضة الکتاب بالکتاب ہونا چاہئے‘ معارضة السنة بالسنة ہونا چاہئے،ویسے ہی یہ بھی ہے کہ قرون اولیٰ کے وہ لوگ جن کی امامت‘ علم‘ تقویٰ طہارت‘ فراست ایمانی پر امت متفق ہے‘ ائمہ متفق ہیں، جب وہ کسی چیز کو کہتے ہیں تو اس چیز کو حجت مانا جائے اور یہ واقعہ اس کی مثال ہے۔
دیکھئے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر نے حدیث کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترجیح دی اور حدیث کو مرجوح کردیا‘ حاشا للہ عن ذلک‘ ہرگز اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت عمر جیسا آدمی حضرت ابوبکر کی رائے کو مقدم سمجھ رہا ہے‘ افضل سمجھ رہا ہے نبی کریم ا کی حدیث کے مقابلے میں‘ حاشا للہ عن ذلک‘ ان حضرات کے سلسلے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی‘ مطلب کیا ہے اس کا؟ حضرت ابوبکر یہ فرمارہے ہیں کہ حضرت عمر تم ظاہر نص پر جارہے ہو‘ اس کی تاویل صحیح سے ناواقف ہو‘ حضرت عمر خاموش ہو رہے ہیں‘ مطلب یہ ہے کہ اپنے قصور علمی کے معترف ہیں‘ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں اس حدیث کا جو مفہوم ظاہری کلمات سے لے رہاہوں‘ اس کی صحیح تاویل سے حضرت ابوبکر واقف ہے‘ حضرت عمر کا علم قاصر ہے‘ وہاں تک پہنچنے سے۔ یہ مفہوم ہے اس واقعے کا۔یہ مفہوم نہیں ہے اور اس کو بایں معنی مبرہن کیا جاسکتا ہے کہ بعض روایات میں ہے ”الا بحق الاسلام“ میں جو کچھ کررہا ہوں وہ بحق الاسلام کررہا ہوں‘ میرے سامنے یہ چیز ہے کہ دین کی تصویر صحیح چھوڑ کر جناب رسول اللہ ا دنیا سے تشریف لے گئے ہیں‘ حضرت ابوبکر جیتے جی اس تصویر میں رائی کے دانے کے برابر بھی کمی یا زیادتی نہیں ہونے دے گا‘ مرسکتا ہے مگر کمی وزیادتی نہیں ہونے دے گا اور یہی صحیح صورتحال ہے کہ اس موقعے کے اوپر اگر حضرت ابوبکر کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو وہ کارہائے نمایاں اسلام کی حفاظت میں نہ کر پاتا جو اللہ نے ان سے لیا، پھر حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر کازمانہ آیا‘ اسلام کو اپنی صحیح تصویر پر جمادیا‘ اب جو کارہائے نمایاں کم وبیش دس سال میں حضرت عمر نے فرمائے ہیں‘ وہ ایسے ہیں کہ جو ان مٹ ہیں‘ لیکن ابن عربی  کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ:
” حضرت عمر نے جو کچھ کیا ہے اس کا سہرا حضرت ابوبکر کے سر پر ہے“
حضرت ابوبکر نے پہلے بساط پھیلا کرکے اسلام کی صحیح تصویر کو قائم فرمایا جس کو نبی کریم ا چھوڑ کرگئے تھے اور پھر حضرت عمرفاروق کو اس جگہ لاکر بٹھایا‘ اگر وہ نہ بٹھاتے تو حضرت عمر یہ کام نہ کرپاتے‘ ان کے عمل کے اندر حضرت ابوبکر کاحصہ ہے‘ اس لئے اس زمانے کے اندر ان حقائق کو سمجھنا چاہئے اور سلف صالح کے اس طریق کو اپنانا چاہئے‘ وہ علماء امت جن کا زمانہ نبوت سے قریب تر ہے‘ ان کے علم میں گہرائی اور گیرائی ہے پھر اللہ نے ان کو تقویٰ کے اعلیٰ ترین معیار پر قائم فرمایا‘ زہد فی الدنیا ہے‘ ان کی زندگی سنت رسول اللہ اکی آئینہ دار ہے، جب وہ حضرات کسی مسلک کو اختیار فرماتے ہیں تو کسی ایک حدیث کی بنیاد پر نہیں‘ ہر موضوع سے متعلق روایات کو جمع کرتے ہیں چنانچہ آپ اس کی مثال کو اگر کچھ دیکھنا چاہتے ہیں تو معانی الاثار امام طحاوی  کی دیکھئے کہ وہ مسائل کا استنباط کس طرح کرتے ہیں‘ اس موضوع سے متعلق روایات کو جمع کرتے ہیں پھر بسا اوقات ان روایات کی شان ورود کو بھی پیش کرتے ہیں‘ تب جاکر کے مسئلہ متقح ہوتا ہے اور آج کی صورتحال تو یہ ہے کہ ایک انسان تو غبی ہے‘ کچھ بھی پتہ نہیں ایک موضوع سے متعلق بخاری کی کوئی ایک روایت سامنے ہے‘ وہ ناسخ ومنسوخ سے جاہل ہے‘ روایات کا شان ورود بھی نہیں جانتا‘ اس موضوع سے متعلق کتنی روایات ہیں؟ یہ بھی نہیں جانتا‘ اس کے متعلق کیا کیا تاویلات ہیں‘ یہ بھی نہیں جانتا‘ وہ صحابی جس روایت کو پیش کرہا ہے اس صحابی کا اپنا عمل وفتویٰ کیا ہے ،اس سے بھی ناواقف ہے‘ الفاظ ہیں بس۔ اسی کو لئے پھرتا ہے‘ اسی کو پیش کرتا ہے‘ کہتا ہے میرے نزدیک یہ مسئلہ ہے‘ یہ غلط ہے‘ امام سے یہ غلطی ہوئی ہے‘ مسئلہ صحیح یہ ہے ”والحال انہ لایعلم شیئا“ نہ ناسخ ومنسوخ کو جانتا ہے‘ نہ تاویل کو جانتا ہے‘ نہ صحابی کے فتوے کو جانتا ہے‘ کچھ بھی نہیں جانتا اور اپنے آپ کو امام ومجتہد سمجھتا ہے‘ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان کوٹھوکر لگ رہی ہے اور ایک دنیا کے لئے فتنے کا سبب بن رہا ہے‘ بلکہ دنیا کے ملکوں کے اندر اس طرح کے لوگ جاکر کے اسلام کے لئے چیلنج بن گئے اور دروازے بند ہوگئے خیر کے‘ یہ دنیا کے اندر کے حالات ہیں۔
ہمارے اکابر کا جو مسلک ہے‘ میں نے وہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے‘ تاکہ آپ علی وجہ البصیرة ہوں اور اپنے اسلاف کے طریقے‘ عمل اور طریقہ کار سے انحراف نہ کریں‘ ورنہ خیر کے دروازے بند اور شر کے دروازے کھلیں گے‘ اسی طریقے کو اختیار کریں جس طرح یہ دین چودہ سو سال سے پھلتا پھولتا رہا ہے اور ان شاء اللہ پھلتا پھولتا رہے گا۔
محدثین یہ لکھتے ہیں کہ تجربہ ایسا رہا ہے کہ چونکہ امام بخاری کی یہ کتاب اب متفق علیہ طور پر مؤطا امام مالک جب تک تھی اس کے بعد اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے‘ اس لئے اس کتاب کے ختم کے اوپر دعا کی جاتی ہے اور یہ وقت بھی دعا کی قبولیت کا وقت ہے‘ اس لئے ہرزمانے میں یہ معمول رہا ہے‘ ہمارے اکابر رحمہم اللہ کا بغیر اعلان کے ختم ہوا کرتی تھی بخاری‘ ہم نے تو حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ کو دیکھا ہے اور وہ تو بات ہی دوسری تھی ‘وہ تو ایسے لوگ تھے کہ جب درسگاہ میں بیٹھ کر قال رسول اللہ ا فرماتے تھے تو لگتا تھا کہ جیسے در ودیوار سے آواز آرہی ہے حضرت رحمہ اللہ بغیر کسی اعلان کے وہ تو سبق بھی عجیب وغریب حضرت کا ہوتا تھا ،رات میں کبھی ایک بجے کبھی دو بجے کبھی تین بجے بخاری ختم ہوا کرتی تھی‘ متواتر سبق ہوتا تھا‘ بڑھاپے کا زمانہ تھا‘ اس لئے نماز بھی دار الحدیث میں ہوتی تھی ،ہجوم ہوتا تھا۔
حضرت رحمہ اللہ دعا فرماتے تھے اور جہراً دعا فرمایا کرتے تھے‘ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ روتے روتے بے ہوش ہوجایا کرتے تھے ،اٹھا اٹھا کر طلباء کمروں میں لے جاتے‘ اس طرح کے حالات ہوتے تھے لیکن دعا ہوا کرتی تھی ،اس لئے دعا کی جاتی ہے اور چونکہ اہل اللہ کا معمول بہا طریقہ ہے ،اس لئے یہ کوئی لازم نہیں ہے‘ لیکن یہ کہ اگر دعا کرلی جائے اور یہ تجربے میں آئے اور یہ مشاہدہ ہو لوگوں کا تو یہ بھی وقت مستجاب ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،دعا ہونی چاہئے‘ دعا کیجئے‘ اپنے لئے علم وعمل کی دعا کیجئے ‘عمل صالح کی توفیق کی دعا کیجئے ساری دنیا میں اور بالخصوص اپنے ملک میں امن وامان کی دعا کیجئے ‘آپس میں میل ملاپ اور محبت کی دعا کیجئے اور اسلام کے بول بولا ہونے کے لئے دعا کیجئے‘ میری رائے یہ ہے کہ جس استاد محترم نے پڑھا یا ،میں انہی سے درخواست کروں گا کہ وہ تشریف لائیں اور دعا کرایں۔
دیکھئے ہم تو علماء دیوبند اور مسلک دیوبند کے تابع ہیں‘ اب دنیا کے اندر مفاسد اور نئے نئے طریقے کے عقائد آگئے ہیں‘ کوئی اپنے آپ کو اہل قر آن کہتا ہے‘ کوئی حیات انبیاء کا قائل نہیں ہے‘ کوئی موت کے بعد میت کو مثل الحجر قرار دیتا ہے‘ کوئی کیا کہتا ہے‘ کوئی کیا۔ ہر شخص امام وقت اور اپنے آپ کو مجتہد العصر سمجھتا ہے‘ ہم تو اندھے مقلد ہیں‘ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ مسلک دیوبند کی اساس ہیں‘ دیوبندی علماء کے مسلک کی بنیاد( جہاں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ مؤسس ضرور ہے) مگر مسلک کی بنیاد حضرت گنگوہی رحمہ اللہ ہیں‘ جیسا متشدد وہ شخص ہے مسلک میں کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔
حضرت نانوتوی چھتے کی مسجد میں آپ نے سنا ہوگا دار العلوم کا افتتاح ہوا ‘دار العلوم اور چھتے کی مسجد میں پچاس ساٹھ قدم کا فاصلہ ہے‘ درمیان میں ایک گھر ہے‘ اس گھر میں پہلے بدعتی لوگ تھے‘ پھر اللہ نے آہستہ آہستہ ہدایت دی اور پھر ان کے پوتے دارالعلوم کے فاضل بھی رہے اوردار العلوم کے مدرس بھی رہے اورہمارے استاد بھی تھے‘ مولانا محمد نعیم صاحب ۔حضرت نانوتوی نے ان کے دادا کو (چونکہ اس زمانے میں وہ طاقتور تھے) اگرچہ صاحب بدعت تھے‘ ان کو مدرسے میں بلالیا تا کہ ان کے شر سے مدرسہ محفوظ رہ سکے‘ حضرت گنگوہی نے سنا تو وہ اس چیز کو برداشت نہیں کرسکے، حضرت نانوتوی کو خط لکھا اور سخت خط لکھا اور فرمایابھول گئے:
”من وقر صاحب بدعة فکانہ اعان علی ہدم الاسلام“
تم نے بلایا کیسے ان کو‘ حضرت گنگوہی اس سلسلے میں جتنے متشدد تھے‘ جگہ جگہ تنبیہ کرتے رہے‘ کوئی غلط چیز نہیں ہوگی ،مدرسہ بند ہوسکتا ہے کل قیامت کے ہم سرخرو ہوں گے کہ الہ العالمین‘ ہمارے میں طاقت نہیں تھی، ہم نے کوئی ناجائز عمل نہیں کیا‘ بند کردیا‘ مگر وہ چیز جو مسلک کے خلاف ہے‘ اس کی اجازت نہیں ہوسکتی ۔
دیوبندی مسلک کی بنیاد حضرت گنگوہی ہیں‘ آپ حضرات میں سے جو لوگ اس مسلک کے تابع ہیں‘ مکمل سو فیصد ۔میں بحیثیت ایک خادم ہونے کے‘ کفش بردار ہونے کے‘ مجھ کو جس طرح میرے استاد محترم مولانا فخر الدین صاحب رحمہ اللہ نے اجازت دی ،میں اسی طرح آپ سب حضرات کو اجازت دیتا ہوں‘ اور یہ آپ سے کہتا ہوں کہ مسلک دیوبند کواللہ نے وہ قبولیت عطا فرمائی ہے دنیا میں جو اب کسی دوسرے کو نہیں ہے اور یہ ان کا خانہ زاد مسلک نہیں ہے‘ یہ وہی مسلک ہے من وعن جو کتاب اللہ وسنت رسول اللہ سے ثابت ہے اور سلف صالحین سے چلتا آرہا ہے‘ اس کے اندر بڑی موزونیت ہے‘ ہر شخص کو اس کا وہ رتبہ دیا گیا ہے جو رتبہ اس کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ متعین کرتی ہے‘ اس کے اندر کوئی امتیاز اپنی طرف سے نہیں ہے اور اس کی ایک تفصیل ہے‘ مگر وقت کم ہے اور میں اس میں نہیں جانا چاہتا ہوں‘ اس لئے آپ کو حریص رہنا چاہئے اور اس پر قائم رہنا چاہئے‘بہت سے ادارے ہیں جو گلابی مسلک رکھتے ہیں:” با مسلمان اللہ اللہ با برہمن رام رام“ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے اکابر میں تشدد تھا‘ جب کسی چیز کو حق سمجھ لیا تو کوئی مصلحت وقتی ایسی نہیں ہے کہ اس حق کے سلسلے میں اپنی نگاہ کو بند کر لیں‘ اگر بند کر لیتے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا‘ مگر نہیں‘ ڈھیلے‘ پتھر کھائے‘ مصیبتوں کو جھیلا ‘مگر اپنے مسلک کے اوپر پہاڑ کی طرح جمع رہے‘ اب یہ ادارے جن کو آپ دیکھ رہے ہیں ‘کھڑے ہیں ماشاء اللہ‘ دس دس ہزار آدمی ایک ایک ادارے کے اندر پڑھ رہے ہیں‘ آپ نے ان کو نہیں دیکھا‘ مگر کیا دنیا کی کوئی طاقت تھی جو ذرا ان کے پیر میں کہیں جنش پیدا کر دیتی ‘کبھی ایسا نہیں ہوا۔
آپ حضرات اگر اسی طرح پہاڑ بن کر میدان عمل کے اندر رہیں گے‘ کامیاب ہوجائیں گے‘ ورنہ جو طوفان اور ہوائیں چل رہی ہیں‘ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائیں گے‘ کوئی نہیں پوچھے گا تمہیں ،اس لئے درس حدیث کی سند بھی متقدمین کے نزدیک بڑی اہم چیز ہے‘ ہمارے اکابر اس چیز کا خیال رکھتے تھے کہ یہ دیکھتے تھے کہ طالب علم کا عقیدہ کیا ہے‘ عقیدے کے لئے کسوٹی اس زمانے کے اندر ہمارے نزدیک سب سے بہترین کسوٹی مسلک دیوبند ہے جو ہمارے اکابر سلف صالحین کا عقیدہ ہے‘ اسی عقیدے کے اوپر قائم رہنا چاہئے۔ جو حضرات اس عقیدے کی قدر وقیمت کو پہنچانتے ہیں اور دل وجان سے اس کو قبول کرتے ہیں ان کو میں اجازت دیتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ قبولیت سے نوازے۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال: ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: حضرت مولانا قاری محمد طاہر رحیمی
Flag Counter