Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

7 - 12
فضائل اعمال پر اعتراضات ایک اصولی جائزہ
فضائل اعمال پر اعتراضات
ایک اصولی جائزہ
(۳)
دوسرا نکتہ
اس میں شک نہیں کہ اصل کتابِ ہدایت قرآن کریم ہے ،حدیثِ نبوی اس کی تفسیر وتشریح ہے، جس کو نظر انداز کرکے صرف قرآن کے ذریعہ راہ یاب نہیں ہوا جاسکتا‘ جیساکہ قرآنی ارشاد اس پر صریح دلالت کررہا ہے:
”وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم “
اور حدیث ایک اتھاہ سمندر ہے‘ سرکار دوعالم ا کی تئیس سالہ زندگی میں آپ کے اقوال‘ افعال‘ تقریرات خلقی وخُلقی احوال کا مجموعہ جو دربار نبوی کے حاضرباش صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ نقل در نقل ہوتا ہوا امت کوپہنچا ہے، روایت وردایت کے اعتبار سے اس کی صحت وصداقت کو جانچنے کے لئے محدثین اور فقہاء امت نے اس قدر ممکنہ تدابیر وقوانین اپنائے جو صرف اور صرف اسی امت محمدیہ کی خصوصیت ہیں‘ ثبوت واستناد کے اعتبار سے حدیثوں کے مختلف درجات قائم کئے ،جن کو صحیح‘ حسن‘ ضعیف وغیرہ سے جانا جاتا ہے ‘ چنانچہ عمل اور استدلال کے اعتبار سے بھی ان میں فرق مراتب لابدی امر ہے۔
حدیث صحیح کی پانچ شرطیں ہیں: ۱:․․․سند کا اتصال۲:․․․ راویوں کی عدالت۳:․․․ ضبط ۴:․․․ شذوذ ۵:․․․علت قادحہ سے محفوظ ہونا۔
حدیث حسن بھی انہیں صفات کی حامل ہوتی ہے‘ البتہ اس کے کسی راوی میں ضبط کے اعتبار سے معمولی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدیث نہ تو صحیح کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ضعیف میں شمار ہوتی ہے۔
حسن کی ایک قسم وہ ضعیف ہے جو تعدد طرق کی وجہ سے قوت پاکر حسن بن جاتی ہے اور جو حدیث اس سے بھی فروتر ہو وہ ضعیف کہلاتی ہے، جس کے مراتب مختلف ہوتے ہیں، سب سے گھٹیا موضوع ہے۔
صحیح اور حسن کے تو قابل استدلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ جمیع ابواب دین میں ان سے استدلال کیا جاتا ہے‘ البتہ ضعیف کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے‘ جمہور کا خیال ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے‘ البتہ ”فضائل اعمال“ ترغیب وترہیب‘ قصص‘ مغازی وغیرہ میں اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ موضوع نہ ہو ‘ چنانچہ ابن مہدی‘ امام احمد وغیرہم سے منقول ہے:
”اذا روینا فی الحلال والحرام شددنا، واذا روینا فی الفضائل ونحوہا تساہلنا“ (فتح المغیث‘ وظفر الامانی ص:۱۸۲ نقلاً عنہ)
بعض کے نزدیک باب احکام میں بھی حجت ہے، جبکہ دوسرے بعض کے نزدیک سرے سے حجت نہیں۔
”قال العلامة اللکنوی بعد ذکرہ الآراء الثلاثة فی المسئلة: ومنع ابن العربی العمل بالضعیف مطلقاً‘ ولکن قد حکی النووی فی عدة من تصانیفہ اجماع اہل الحدیث وغیرہم علی العمل بہ فی فضائل الاعمال ونحوہا خاصة ،فہذہ ثلاثة مذاہب“ اھ (الاجوبة الفاضلة)
اور جیساکہ آگے معلوم ہوگا کہ جمہور عملاً باب احکام میں بھی ضعاف کو کسی نہ کسی وجہ میں قابل عمل مانتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج بعض حلقوں کی جانب سے پوری شد ومد کے ساتھ یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ ضعیف حدیث قطعاً ناقابل اعتبار ہے‘ اس کا محل موضوع کی طرح ردی کی ٹوکری ہے، حجت صرف صحیح حدیث ہے‘ صحیح کے مصداق میں کچھ باشعور حضرات حسن کو تو شامل کر لیتے ہیں‘ ورنہ عام سطح کے لوگ اس کے بھی روادار نہیں ہیں‘ اور بعض غلو پسند طبیعتیں تو صحیحین کو چھوڑ کر بقیہ کتب حدیث کو۔ ”صحیح الکتاب الفلانی“ و”ضعیف الکتاب الفلانی“ جیسے عمل جراحی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں‘ اور اپنے اجتہاد کے مطابق اہم کتب حدیث کی حدیثوں کو صحیح اور ضعیف دوخانوں میں تقسیم کرکے شائع کیا جانے لگا ہے۔ فالی اللہ المشتکیٰ۔آیئے ضعیف حدیثوں کی استدلالی حیثیت کا مختصراً جائزہ لیں۔
ضعیف حدیث باب احکام میں
جہاں تک احکامِ شرعیہ میں ضعیف حدیث کے استعمال کا تعلق ہے تو جمہور محدثین وفقہاء کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ضعیف سے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے ،جبکہ ضعف شدید نہ ہو یعنی سند میں کوئی متہم یا کذاب راوی نہ ہو‘ ضعیف حدیث سے استدلال کی چند صورتیں ہیں۔
پہلی صورت
مسئلہ میں اس کے علاوہ کوئی مضبوط دلیل نہ ہو، مختلف مکاتب فکر کے تعلق سے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
الف :۔ حنفیہ
امام ابوحنیفہ کا ارشاد ہے:
”الخبر الضعیف عن رسول اللہ ا اولیٰ من القیاس‘ ولایحل القیاس مع وجودہ“۔ (المحلیٰ لابن حزم ۳/۱۶۱)
یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا۔ چنانچہ:
۱-نماز میں قہقہہ سے نقض وضو والی حدیث بااتفاق محدثین ضعیف ہے۔ آپ نے اس کو قیاس پر مقدم کیا۔
۲- ”اکثر الحیض عشرة ایام“ یہ حدیث بااتفاق محدثین ضعیف ہے‘ حنفیہ نے اس کو قیاس پر مقدم کیا۔
۳- ”لامہر اقل من عشرة دراہم“ اس کے ضعف پر محدثین متفق ہیں اور حنفیہ نے قیاس نہ کرکے اس کو معمول بہ بنایا۔ (اعلام الموقعین ۱/۳۱‘۳۲)
۲- محقق ابن الہام فرماتے ہیں: ”الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع“ ضعیف جو موضوع کی حد تک نہ پہنچی ہوئی ہو، اس سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔ (فتح القدیر باب النوفل ۲/۱۳۹)
مثلاً :۱ :۔حاشیة الطحطاوی علی المراتی وغیرہ میں مغرب کے بعد چھ رکعات (جنہیں صلاة الاوابین کہتے ہیں) کو مستحب لکھا ہے ،دلیل حضرت ابوہریرہ کی حدیث:
”من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینہن بسوء عدلن لہ بعبادة ثنتی عشرة سنة“
امام ترمذی نے اس حدیث کو عمر بن ابی خثعم کے طریق سے روایت کرکے فرمایا :
”حدیث ابی ہریرة حدیث غریب لانعرفہ الا من حدیث زید بن الحباب عن عمر بن ابی خثعم“۔
امام بخاری نے عمر کو منکر الحدیث کہا اور بہت ضعیف قرار دیا‘ حافظ ذہبی نے میزان میں فرمایا:
”لہ حدیث منکر ان من صلی بعد المغرب ست رکعات ووہّاہ ابو زرعہ“۔
۲:۔ مردہ کو دفن کرتے وقت تین لپ مٹی ڈالنا‘ پہلی بار ”منہا خلقناکم “ دوسری بار ”فیہا نعیدکم“ اور تیسری بار ”ومنہا نخرجکم تارة اخریٰ“ پڑھنے کو(طحطاوی ص:۶۱۰) میں مستحب لکھا ہے‘ دلیل حاکم واحمد کی حدیث بروایت ابو امامہ کہ جب حضرت ام کلثوم بنت النبی اکو قبر میں رکھا گیا تو رسول اللہا نے پڑھا:
”منہا خلقناکم الخ آخر میں بسم اللّٰہ‘ وفی سبیل اللّٰہ‘ وعلی ملة رسول اللّٰہ
کی زیادتی ہے‘ اس حدیث کی سند بہت ہی ضعیف ہے‘ ذہبی نے تلخیص میں کہا ہے
”وہو خبر واہ لان علی بن زید متروک“۔
ب:۔ مالکیہ
امام مالک کے نزدیک مرسل بمعنی عام منقطع حجت ہے‘ جو جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ کی معتمد ترین کتاب ”نشر النبود علی مراقی السعود“ میں ہے:’
’علم من احتجاج مالک بالمرسل ان کلاً من المنقطع والمعضل حجة عندہم لصدق المرسل بالمعنی الاصولی علی کل منہا“ (۲/۶۳ کما فی ”التعریف باوہام من قسم السنن الی صحیح وضعیف للدکتور محمود سعید ممدوح)
ج:۔ شافعیہ
۱- مرسل حدیث امام شافعی کے نزدیک ضعیف ہے، لیکن اگر باب میں صرف مرسل ہی ہو تو وہ اس سے احتجاج کرتے ہیں‘ حافظ سخاوی نے ماوردی کے حوالہ سے یہ بات فتح المغیث میں نقل کی ہے۔ (۱/۲۷۰)
۲- حافظ ابن قیم نے نقل کیا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک ضعیف حدیث قیاس پر مقدم ہے۔ چنانچہ انہوں نے صیدؤج( طائفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ‘ شوافع کے نزدیک وہاں شکار کرنا منع ہے)۔ کی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔ حرم مکی کے اندر اوقات مکروہہ میں نماز پڑھنے کے جواز والی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔
”من قاء اورعف: فلیتوضأ‘ ولیبن علی صلاتہ“
کو اپنے ایک قول کے مطابق باوجود ضعف کے قیاس پر ترجیح دی۔ (اعلام الموقعین ۱/۳۲)
د:۔حنابلہ
۱- ابن النجار حنبلی نے شرح الکوکب المنیر ۲/۵۷۳ میں امام احمد کایہ قول نقل کیا ہے:
”لست اخالف ما ضعف من الحدیث اذا لم یکن فی الباب ما یدفعہ“
یعنی باب میں ضعیف حدیث ،ہواور اس کے معارض کوئی دلیل نہ ہو تو میں اس کو چھوڑ تا نہیں ہوں۔
۲- حافظ ہروی نے ذم الکلام میں امام عبد اللہ بن احمد سے نقل کیا ہے کہ :”میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ایک شخص کو مسئلہ درپیش ہے‘ اور شہر میں ایک محدث ہے جو ضعیف ہے (ایک روایت میں‘ جو صحیح وسقیم میں تمیز نہیں کرپاتا) اور ایک فقیہ ہے جو اہل رائے وقیاس میں سے ہے‘ وہ کس سے مسئلہ پوچھے؟ فرمایا: اہل رائے سے تو پوچھے نہیں، کیونکہ ضعیف الحدیث ،قوی الرأے سے بہتر ہے۔ “ (ذم الکلام ۲/۱۷۹‘ ۱۸۰)
۳- فقہ حنبلی کی مستند ترین کتاب ”المغنی“ میں ابن قدامہ نے لکھا کہ:
”النوافل الفضائل لایشترط صحة الحدیث فیہا“
نیز امام کے خطبہ کے دوران حاضرین کے احتباء (اس طرح بیٹھنا کہ سرین زمین پر ہو‘ دونوں گھٹنے کھڑے ہوں اور دونوں بازؤں یا کسی کپڑے وغیرہ سے انہیں باندھ لیا جائے) کی بابت لکھا کہ کوئی حرج نہیں،کیونکہ چند ایک صحابہ سے مروی ہے، لیکن بہتر نہ کرنا ہے‘ کیونکہ حضور ا سے مروی ہے کہ آپ نے امام کے خطبہ کے دوران حبوة سے منع فرمایا ہے‘ اس لئے اگرچہ حدیث ضعیف ہے ،افضل حبوة کا ترک ہی ہے۔(المغنی ۲/۸۸‘۲۰۶)
ھ:۔ فقہاء محدثین
۱- حافظ ذہبی نے امام اوزاعی کے متعلق لکھا کہ: ”وہ مقطوعات اور اہل شام کے مراسیل سے استدلال کرتے تھے۔ “ (سیر اعلام النبلاء ۷/۱۱۴)
۲- امام ابوداود کے متعلق حافظ ابن مندہ نے کہا :
”ویخرج الاسناد الضعیف اذا لم یجد فی الباب غیرہ لانہ اقوی عندہ من رأی الرجال“
یعنی امام ابوداود کا مذہب ہے کہ جب کسی باب میں انہیں ضعیف حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں ملتی تو اسی کا اخراج کر لیتے ہیں‘ کیونکہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قیاس سے قوی تر ہے۔
و:۔ ظاہریہ
ابومحمد ابن حزم ظاہری جن کا تشدد مشہور ہے، محلی ۳/۶۱ میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھنے سے متعلق حدیث بروایت حسن بن علی  لائے‘ اور اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ: یہ حدیث اگرچہ اس لائق نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے‘ لیکن چونکہ رسول اللہ ا سے اس سلسلہ میں اور کوئی حدیث ہمیں نہیں ملی ،اس لئے ہم اسے اختیار کرتے ہیں۔
دوسری صورت
اگر ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں احتیاط ہو تو اس کو تمام حضرات اختیار کرتے ہیں‘ چنانچہ امام نووی نے ”اذکار میں عمل بالضعیف کی استثنائی صورتوں کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
”الا ان یکون فی احتیاط فی شئ من ذلک کما اذا ورد حدیث ضعیف بکراہة بعض البیوع والانکحة‘ فالمستحب ان یستزہ عنہ“
اس کی شرح میں ابن علان نے مثال دی کہ جیسے فقہاء کرام نے دھوپ سے گرم کئے ہوئے پانی کے استعمال کو مکروہ لکھا ہے، حدیث حضرت عائشہ  کی بناء پر جو ضعیف ہے۔ (شرح الاذکار ۱/۶۸‘ ۷۸- کما فی التعریف باوہام الخ)
تیسری صورت
اگر کسی آیت یا صحیح حدیث میں دو یا دو سے زائد معنوں کا احتمال ہو اور کوئی ضعیف حدیث ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو راجح قرار دیتی ہو، یا دو یا چند حدیثیں متعارض ہوں اور کوئی حدیث ضعیف ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتی ہو تو علماء امت اس موقع پر ضعیف حدیث کی مدد سے ترجیح کا کام انجام دیتے ہیں۔
کچھ اور صورتیں
اس کے علاوہ کسی ثابت شدہ حکم کی مصلحت وفائدہ معلوم کرنے کے سلسلہ میں بھی ضعیف کا سہارا لیا جاتا ہے‘ نیز حدیث ضعیف اگر متلقی بالقبول ہوجائے اور اس کے مطابق فقہاء یا عام امت کا عمل ہوجائے تو ضعیف، ضعیف ہی نہیں رہتی اور اس کے ذریعہ وجوب اور سنیت تک کا ثبوت ہوتا ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے : ”اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمة الفقہاء للشیخ محمد عوامة“ اور ”الاجوبة الفاضلة“ کے آخر میں شیخ حسین بن محسن کا مقالہ۔
سید احمد بن الصدیق الغماری المالکی رحمہ اللہ کی اس چشم کشا عبارت کے ترجمہ پر اس کڑی کو یہیں ختم کیا جارہا ہے فرماتے ہیں:
”احکام شرعیہ میں ضعیف سے استدلال کوئی مالکیہ ہی کے ساتھ خاص نہیں‘ بلکہ تمام ائمہ استدلال کرتے ہیں ‘ اس لئے یہ جو مشہور ہے کہ” احکام کے باب میں ضعیف پر عمل نہیں کیا جائے گا“۔اپنے عموم واطلاق پر نہیں ہے، جیساکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں‘ کیونکہ ہر مسلک کی ان احادیث احکام کا آپ جائزہ لیں ،جن سے سب نے یا بعض نے استدلال کیا ہے تو آپ کومجموعی طور سے ضعیف حدیثوں کی مقدار نصف یا اس سے بھی زائد ملے گی‘ ان میں ایک تعداد منکر‘ ساقط‘ اور قریب بموضوع کی بھی ملے گی‘ البتہ بعض کے متعلق وہ کہتے ہیں ”اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے“ بعض کے متعلق ”اس کے مضمون پر اجماع منعقد ہے“ بعض کے متعلق ”یہ قیاس کے موافق ہے“ مگر ان سب کے علاوہ ایسی بہت سی حدیثیں بچیں گی جن سے ان کی تمام ترعلتوں کے باوجود استدلال کیا گیا ہے اور یہ قاعدہ کہ ”احکام میں ضعیف حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا“ یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے‘ کیونکہ شارع علیہ السلام سے جو کچھ منقول ہے ،اگرچہ اس کی سند ضعیف ہو ،اسے چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی جاسکتی‘ اور ضعیف کے متعلق یہ قطعی نہیں کہاجا سکتا کہ یہ آں حضرت ا سے ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ موضوع نہ ہو‘ یا اس سے قوی اصل شرعی سے معارض نہ‘ لہذا اقوی دلیل کی عدم موجودگی میں ضعیف سے استدلال کو ہمیں برا سمجھنے کی بجائے اولیٰ بلکہ واجب کہنا چاہئے‘ ہاں یہ بات ضرور بری ہے کہ اس کے تئیں یہ رویہ اپنائیں کہ پسندیدگی اور اپنے مذہب کے موافق ہونے کے وقت تو اس پر عمل کریں اور ناپسندیدگی یا اپنے مذہب کے خلاف ہونے پر ضعیف کہہ کرردکردیں انتہی۔“
(المثنونی والتبار: ۱/۱۸۰‘ ۱۸۱ کما فی التعریف)
خلاصہ کلام یہ کہ جب باب احکام میں ضعیف حدیث مقبول تو دیگر ابواب میں بدرجہ اولیٰ مقبول ہوگی۔
ضعیف حدیث باب احکام کے علاوہ میں
جیساکہ عرض کیا گیا کہ ضعیف غیر موضوع عقائد واحکام کے علاوہ جمہور کے نزدیک قابل عمل ہے، عقائد واحکام کے باب میں تشدد اور فضائل ‘ترغیب وترہیب اور مناقب وغیرہ میں تساہل کی بات حافظ سخاوی نے امام احمد‘ ابن معین‘ ابن المبارک ،سفیان ثوری اورابن عینیہ سے نقل کی ہے۔
حافظ نووی نے تو اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، اپنی کتاب ”جزء اباحة القیام لاہل الفضل“میں فرماتے ہیں۔
”اجمع اہل الحدیث وغیرہم علی العمل فی الفضائل ونحوہا مما لیس فیہ حکم‘ ولاشئ من العقائد‘ وصفات اللّٰہ تعالیٰ بالحدیث الضعیف“۔ (نقلاً عن التعریف باوہام․․․)
امام نووی کی ”الاربعین“ اور اس کی شرح ”فتح المبین“ لابن حجر المکی الہیثمی کے الفاظ میں:
”قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث فی فضائل الاعمال ،لانہ ان کان صحیحاً فی نفس الامر‘ فقد اعطی حقہ، والا لم یترتب علی العمل بہ مفسدة تحلیل ولاتحریم‘ ولاضیاع حق الغیر“۔ (الاجوبة الفاضلة ص:۴۳)
”یعنی فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے‘ کیونکہ اگر وہ واقعتاً صحیح تھی تو اس کا حق اس کو مل گیا‘ ورنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حرام کو حلال کرنا لازم آیا اور نہ اس کے برعکس اور نہ ہی کسی غیر کا حق پامال کرنا“۔
معلوم ہوا کہ مسئلہ اجماعی ہے‘ اور کوئی بھی حدیث ضعیف کو شجرہٴ ممنوعہ قرار نہیں دیتا‘ لیکن چند بڑے محدثین واساطین علم کے نام ذکر کئے جاتے ہیں‘ جن کے متعلق یہ نقل کیا جاتا ہے کہ وہ فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے قائل نہیں ہے۔ (قواعد التحدیث للشیخ جمال الدین القاسمی ص:۱۱۶)
ان اساطین میں امام بخاری، مسلم، یحی بن معیناورابوبکر بن العربی ہیں، بعض حضرات نے ابوشامہ مقدسی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ شوکانی کا نام بھی لیا ہے۔ تفصیل کا تو موقع نہیں‘ آیئے ان حضرات کی آراء کے متعلق کچھ تحقیق کرلیں:
امام بخاریکا موقف
علامہ جمال الدین قاسمی” صاحب قواعد التحدیث“ کے بقول بظاہر امام بخاری کا مذہب مطلقاً منع ہے اور یہ نتیجہ انہوں نے صحیح بخاری کی شرائط اور اس میں کسی ضعیف حدیث کو داخل کتاب نہ کرنے سے نکالا ہے‘ علامہ شیخ زاہد الکوثری نے بھی اپنے مقالات (ص:۵۴) میں یہی بات کہی ہے، لیکن یہ بات درست نہیں‘ بلکہ اس مسئلہ میں امام بخاری کا موقف بالکل جمہور کے موافق ہے۔
جہاں تک صحیح بخاری کا تعلق ہے تو اولاً: اس میں امام نے صرف صحیح حدیثوں کا التزام کیا ہے‘ لہذا اس میں کسی ضعیف حدیث کانہ ہونااس بات کو مستلزم نہیں کہ امام کے نزدیک ضعیف سرے سے ناقابل عمل ہے، جیساکہ کسی حدیث کا اس میں نہ ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ غیر صحیح ہے‘ چنانچہ خود آپ نے احادیث آداب واخلاق کا ایک گراں قدر مجموعہ ”الادب المفرد“مرتب فرمایا‘ جس کی شرط یقیناً ان کی جامع صحیح سے بہت فروتر ہے، حتی کہ عصر حاضر کے بعض علم برداران حفاظت سنت کو ”صحیح الادب المفرد“ اور ”ضعیف الادب المفرد“ کے جراحی عمل کی مشقت اٹھانی پڑی۔
اس کتاب میں امام بخاری نے ضعیف احادیث وآثار کی ایک بڑی مقدار تخریج کی ہے‘ بلکہ بعض ابواب تو آبادہی ضعیف سے ہیں ،اور آپ نے ان سے استدلال کیا ہے‘ چنانچہ اس کے رجال میں ضعیف‘ مجہول‘ منکر الحدیثاور متروک ہر طرح کے پائے جاتے ہیں‘ مثال کے طور علامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے ”الادب المفرد“ کی شرح ”فضل اللہ الصمد“ سے بائیس احادیث وآثار اور ان کے رجال کے احوال نقل کئے ،ان میں سے بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
۱- اثر نمبر ۲۳ میں: علی بن الحسین بن واقد المروزی‘ ضعیف الحدیث۔
۲- حدیث نمبر :۴۳ میں محمد بن فلان بن طلحہ‘ مجہول‘ او ضعیف متروک۔
۳- اثر نمبر: ۴۵ میں عبید اللہ بن موہب‘ قال احمد: لایعرف۔
۴- اثر نمبر: ۵۱ ابو سعد سعید بن البرزبان البقال الاعور‘ ضعیف۔
۵- حدیث نمبر: ۶۳ میں سلیمان ابو اِدام یعنی سلیمان بن زید۔ضعیف لیس بثقة‘ کذاب‘ متروک الحدیث۔
۶- حدیث نمبر: ۱۱۱ میں لیث بن ابی سلیم القرشی ابوبکر: ضعیف۔
۷- حدیث نمبر :۱۱۲ میں عبد اللہ بن المساور: مجہول۔
۸- حدیث نمبر: ۱۳۷ میں یحی بن ابی سلیمان: قال البخاری: منکر الحدیث۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب سے الادب المفرد کے رجال کو کھنگالا تو مستورین کی تعداد: دو۔ ضعفاء کی تعداد: بائیس۔ اور مجہولین کی تعداد :اٹھائیس نکلی‘ مجموعہ باون رواة۔ اس جائزہ سے بخوبی واضح ہوگیا کہ فضائل کی حدیثوں کے تئیں امام بخاری کا مسلک وہی ہے جو جمہور کا ہے۔
صحیح بخاری میں متکلم فیہ رجال کی حدیثیں
ثانیا خود الجامع الصحیح میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روایت میں کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کی حدیثیں ،محدثین کے اصول پر کسی طرح حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی‘ بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے‘ اور اس کو داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام سے متعلق ہے‘ اور شارحین نے یہی تاویل کی بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں:۱- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری (ص:۶۱۵) میں محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
”قال ابو زرعة منکر الحدیث‘ واورد لہ ابن عدی عدة احادیث‘ قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث‘ لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی ․․․ ثالثہا فی الرقاق ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ وہذا تفرد بہ الطفاوی‘ وہو من غرائب الصحیح‘ وکان البخاری لم یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب“۔
یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔
یعنی ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے‘ حافظ فرماتے ہیں: شاید کہ امام بخاری نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے۔
۲- عن ابی بن عباس بن سہل بن سعد‘ عن ابیہ عن جدہ قال: کان للنبی ا فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف“
(کتاب الجہاد باب اسم الفرس والحمار)
حافظ نے تہذیب التہذیب میں ابی بن عباس بن سہل کی بابت امام احمد، نسائی، ابن معیناور امام بخاری سے تضعیف کے جملے نقل کئے‘ عقیلی نے کہا :اس کی کئی حدیثیں ہیں اور کسی پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ پھر حافظ نے فرمایا کہ :مذکورہ حدیث پر اس کے بھائی عبد المہیمن بن عباس نے متابعت کی ہے‘ لیکن وہ بھی ضعیف ہے، ملاحظہ ہوں یہ الفاظ:
”وعبد المہیمن ایضاً فیہ ضعف‘ فاعتضد‘ وانضاف الی ذلک انہ لیس من احادیث الاحکام‘ فلہذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحتہ“ انتہی۔
ابی بن عباس کے ضعف کی تلافی اس کے بھائی سے اس قدر نہیں ہوسکی کہ حدیث کو صحیح کا درجہ دیا جائے تو اس خلل کو اس پہلو سے پر کیا گیا کہ حدیث احکام سے متعلق نہیں ہے‘ اس لئے چل جائے گی۔
۳- محمد بن طلحة‘ عن طلحة‘ عن مصعب بن سعد قال: رای سعد ان لہ فضلاً علی من دونہ‘ فقال النبی ا” تنصرون وترزقون الا بضعفائکم“۔(کتاب الجہاد وباب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)
محمد بن طلحة بن مصرف الکوفی ان کا سماع اپنے والد سے کم سنی میں ہوا تھا، امام نسائی، ابن معین، ابن سعد وغیرہ نے ان کو ضعیف کہاہے ،تقریب میں ہے: صدوق لہ اوہام‘ وانکروا سماعہ من ابیہ لصغرہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ (ص:۶۱۳) میں فرماتے ہیں۔
”صحیح بخاری میں ان کی تین حدیثیں ہیں‘ دو تو متابعت کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے‘ تیسری (مذکورہ بالا حدیث) ہے‘ اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں‘ مگر یہ ”فضائل اعمال“ سے متعلق ہے یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔“
امام مسلم کا موقف
علامہ جمال الدین رحمہ اللہ نے امام مسلم کے متعلق دلیل یہ دی کہ انہوں نے مقدمہ میں ضعیف ومنکر احادیث کے روایت کرنے والوں کی سخت مذمت کی ہے اور اپنی صحیح میں ضعیف حدیث کا اخراج نہیں کیا ہے‘ لیکن امام مسلم کی اس تشنیع سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ضعفاء سے روایت کرنا مطلقاً ناجائز ہے‘ انہوں نے تو صحیح حدیثوں کو جمع کرنے والے پر یہ بات ضروری قرار دی ہے کہ وہ مشہور ثقہ راویوں کی حدیثوں کو تلاش کرکے جمع کرے‘ ضعیف حدیث کے علی الاطلاق مردود ہونے پر ان سے کوئی صراحت منقول نہیں ہے۔تاہم امام مسلم نے بعض ضعفاء کی حدیثیں صحیح میں متابعات وشواہد کے طور پر اخراج کی ہیں، آپ نے مقدمہ میں حدیثوں کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔
۱- وہ حدیثیں جو حفاظ متقنین کی روایت سے ہیں۔۲- وہ حدیثیں جو ایسے لوگوں کی روایت سے ہیں جو حفظ واتقان میں متوسط اور بظاہر جرح سے محفوظ ہیں۔۳- وہ حدیثیں جو ضعفاء ومتروکین کی روایت سے ہیں۔
امام مسلم کی اس صراحت اور صحیح میں ان کے طرز عمل کے درمیان تطبیق میں شراح نے مختلف باتیں کہی ہیں‘ قاضی عیاض نے جو توجیہ کی‘ علامہ ذہبی اور نووی نے ا س کو پسند کیا، ا س کا خلاصہ یہ ہے:
”امام مسلم نے جن تین طبقات کا ذکر کیا ہے ،ان میں سے آخری طبقہ ان رواة کا ہے جن کے متہم ہونے پر تمام یا اکثر علماء کا اتفاق ہے‘ اس سے پہلے ایک طبقہ ہے جس کا ذکر امام نے اپنی عبارت میں نہیں کیا ہے ‘ اور وہ ‘ وہ لوگ ہیں جن کو بعض تو متہم سمجھتے ہیں اور بعض صحیح الحدیث قرار دیتے ہیں۔ یہ کل چار طبقے ہوئے‘ میں نے امام مسلم کو پایا کہ وہ پہلے دونوں طبقوں کی حدیثیں لاتے ہیں، اس طرح کہ باب میں اولاً طبقہٴ اولیٰ کی حدیث تخریج کرتے ہیں پھر مزید تقویت کے لئے طبقہ ثانیہ کی حدیثیں ذکر کرتے ہیں اور جب کسی باب میں طبقہٴ اولیٰ سے کوئی حدیث ان کے پاس نہیں ہوتی تو ثانیہ ہی کی حدیث پر اکتفاء کرتے ہیں‘ پھر کچھ ایسے لوگوں کی حدیثیں بھی تخریج کرتے ہیں جن کی بعض نے تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہوتی ہے‘رہے چوتھے طبقہ کے لوگ تو ان کو آپ نے ترک کردیا ہے۔“ (مقدمہ شرح نووی)
امام ذہبی فرماتے ہیں:
”میں کہتاہوں کہ طبقہٴ اولیٰ وثانیہ کی حدیثیں مساویانہ طور پر لیتے ہیں، ثانیہ کی معدود ے چند کو چھوڑ کر جس میں وہ کسی قسم کی نکارت سمجھتے ہیں‘ پھر متابعات وشواہد کے طور پر طبقہٴ ثالثہ کی حدیثیں لیتے ہیں ،جن کی تعداد بہت زیادہ نہیں‘ اصول میں تو ان کی حدیثیں شاید وباید ہی لیتے ہیں‘ یہ عطاء بن السائب‘ لیث بن ابی سلیم‘ یزید بن ابی زیاد‘ ابان بن صمعہ‘ محمد بن اسحاق اور محمد بن عمرو بن علقمہ اور ان کی حیثیت کے لوگ ہیں“۔ (سیر اعلاء مالنبلاء ۱۲/۵۷۵)
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اوپر صحیحین کے تعلق سے جو کچھ عرض کیا گیا ،اس سے ممکن ہے بعض اہل علم کو شبہ ہو کہ پھر تو صحیحین سے اعتماد اٹھ جائے گا‘ اور نتیجتاً پوراذخیرہ حدیث مشکوک ہوجائے گا ،جب کہ صحیحین کا اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہونا مسلم‘ اور متفق علیہ ہے، کیونکہ جب صحیحین تک ضعیف حدیثوں سے محفوظ نہیں رہیں تو دوسری کتب حدیث تو بدرجہ اولیٰ محفوظ نہیں رہیں گی اور اس طرح پورا ذخیرہ حدیث مشکوک اور ناقابل اعتبار ہوجائے گا اور منکرین حدیث کو انکار حدیث کے لئے بہا نہ ملے گا۔
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم نے یہ کہا ہی کب ہے کہ صحیحین میں ضعیف حدیثیں بھی ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جمہور امت کے نزدیک حدیثوں میں صحت وحسن کا معیار مختلف ہوتا ہے‘ باب احکام (حلال وحرام) میں سخت ہوتا ہے تو فضائل وغیرہ میں نرم۔
چنانچہ ہم نے بخاری شریف سے جو مثالیں پیش کی ہیں ،وہ اپنی علتوں کے باوجود فضائل وآداب کے باب کے اعتبار سے یقینا صحیح ہیں‘ اگرچہ باب احکام میں جس درجہ کی صحت مطلوب ہوتی ہے ،وہ ان میں نہیں ہے‘ اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کو داخل صحیح کرلیا۔
اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض حضرات ہرباب میں صحت وحسن کے اسی معیار کو استعمال کرنے لگتے ہیں جو باب احکام کے لئے مخصوص ہے‘ اور وہ بھی صرف اسنادی پہلو سے ،ا س لئے مناسب خیال کیا گیا کہ ضعیف اور متکلم فیہ رجال کی حدیثوں کی بابت صحیحین کے مصنفین کا اصل موقف واضح کردیا جائے ،تاکہ اس مغالطہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ورنہ صحیحین کے متعلق جمہور امت کی جو رائے ہے، وہی ہمارا بھی مسلک ہے کہ یہ دونوں کتابیں صرف صحیح احادیث کا مجموعہ ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی  نے مقدمہ ”فتح الملہم“ میں صحیحین کی حدیثوں کے مفید قطع ویقین ہونے کے نظریہ کی مدلل تردید کرنے کے بعد صحیحین کی عظمت ومقام کی بابت حضرت شاہ ولی اللہ کی عبارت نقل کی ہے‘ اس جگہ ہم بھی انہیں عبارات کو نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں‘ علامہ عثمانی فرماتے ہیں:
”لیس غرضنا مماکتبنا فی ہذا لبحث تہوین امر الصحیحین‘ او غیرہما من کتب الحدیث، بل المقصود نفی التعمق والغلو‘ ووضع کل شئ فی موضعہ‘ وتنویہ شانہ بما یستحقہ‘ ونحن بحمد اللّٰہ نعتقد فی ہٰذین الکتابین الجلیلین‘ ونقول بما قال شیخ شیوخنا ومقدم جماعتنا الشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی فی حجة اللّٰہ البالغة“ وہذا لفظہ:
”اما الصحیحان: فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیہما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع (بالتفصیل الذی ذکرنا) وانہما متواتران الی مصنفیہما وانہ غیر سبیل المؤمنین“۔ اھ
ترجمہ:․․․”اس بحث میں جو کچھ ہم نے لکھا ،اس سے ہمارا مقصد معاذ اللہ! صحیحین‘ یا دوسری کتب حدیث کی کسر شان نہیں ہے‘ بلکہ ان کی بابت غلو کی تردید اور ہرچیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنے اور اس کو اس کا واجبی حق دینے کی کوشش ہے‘ ورنہ ہم بحمد اللہ! ان دونوں عظیم الشان کتابوں کے متعلق وہی نظریہ رکھتے ہیں جو ہمارے شیخ الشیوخ اور مقتدا حضرات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”حجة اللّٰہ البالغہ“ میں فرمایا ہے۔
”رہیں صحیحین‘ تو محدثین اس پر متفق ہیں کہ ان میں جو کچھ مرفوع متصل کے قبیل سے ہے، وہ بالکل صحیح ہے اور ان کتابوں کا ثبوت ان کے مصنفین سے بطور تواتر ہے‘ بلاشبہ جو شخص بھی ان کی شان گھٹائے گا وہ بدعتی‘ گمراہ اور مسلمانوں کے راستے کے علاوہ راستہ کی پیروی کرنے والا ہوگا“۔ (مقدمہ فتح الملہم ص:۱۰۸)
یحیٰ بن معین کا موقف
ابن سید الناس نے تو” عیون الاثر“ میں یحی بن معین کا مذہب مطلقاََردہی نقل کیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ان کا مذہب جمہور کے موافق ہے‘ شواہد درج ذیل ہیں:
۱- جیساکہ اوپر مذکور ہوا ،حافظ سخاوی نے” فتح المغیث“ میں جن چند لوگوں سے (عقائد واحکام میں تشدد فضائل وغیرہ میں تساہل) نقل کیا ہے، ان میں ابن معین بھی ہیں۔ (فتح المغیث ۱/۴۹۷) ۲- شیخ احمد محمد نور سیف نے ”مقدمہ تاریخ ابن معین“ میں لکھا کہ: یحیی بن معین کی محمد بن اسحاق کے متعلق جو رائیں منقول ہیں ،ان سے قطعاً یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کی حدیثیں مطلقاً قابل ترک ہیں‘ چنانچہ فرمایا: ”ثقة‘ ولکن لیس بحجة“ ابن اسحاق کے شاگرد زیاد بن عبد اللہ البکائی“ کے متعلق فرمایا: ”لیس بشئ ‘ لابأس بہ فی المغازی‘ واما فی غیرہا‘ فلا“ معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک مغازی وغیرہ میں تو ابن اسحاق اور ان کے شاگرد مقبول ہیں‘ احکام وغیرہ میں نہیں۔
۳- الکامل لابن عدی ۱/۶۶۶ میں ہے:
”عن ابن ابی مریم، قال سمعت ابن معین یقول: ادریس بن سنان یکتب من حدیثہ الرقاق“
ابن معین کے نزدیک ادریس بن سنان کی حدیث رقاق (آداب وفضائل) کے باب میں قابل قبول ہے‘ جبکہ یہ ضعیف ہیں۔
ابوبکر بن العربی کا موقف
یہ مالکی المسلک فقیہ ہیں‘ ان سے ایسی کوئی صراحت تو نہیں ملی جس سے ثابت ہو کہ ان کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث قابل عمل نہیں‘ البتہ اس کے برعکس ثابت ہے۔ ۱- مرسل حدیث جوجمہور محدثین وشافعیہ کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ کے نزدیک اس سے استدلال درست ہے، وہ خود اس بات کو نقل کرتے ہیں:
”المرسل عند نا حجة فی احکام الدین من التحلیل والتحریم‘ وفی الفضائل‘ وثواب العبادات، وقد بینا ذلک فی اصول الفقہ“۔ (عارضة الاحوذی ۲/۲۳۷)
۲- ضعیف کے معمول بہ ہونے کی صراحت خود فرما تے ہیں:
”روی ابو عیسی حدیثاً مجہولاً: ان شئت شمتہ‘ وان شئت فلا“ وہو ان کان مجہولاً ،فانہ یستحب العمل بہ ،لانہ دعاء بخیر‘ وصلة للجلیس‘ وتوددلہ“ اھ (عارضة ۱۰/۲۰۵)
یعنی اگرچہ یہ حدیث مجہول کی روایت سے ہے، لیکن اس پر عمل کرنا مستحب ہے، کیونکہ اس میں خیر کی دعاء ہم نشین کی دل بستگی اور اس سے محبت کا اظہار ہے۔
ابوشامة مقدسی کا موقف
محدث ابو شامہ مقدسی کی بات شیخ طاہر الجزائری نے توجیہ النظر ۲/۶۵۷ میں نقل کی ہے‘ انہوں نے اپنی کتاب ”الباعث علی انکار البدع والحوادث“ میں حافظ ابن عساکر دمشقی کی ایک مجلس املاء کے حوالہ سے ماہ رجب کی فضیلت کے متعلق تین حدیثیں ذکر کیں۔ اس کے بعد لکھا کہ:
”کنت اودّ ان الحافظ لم یذکر ذلک‘ فان فیہ تقریراً لما فیہ من الاحادیث المنکرةفقدرہ کان اجل من ان یحدث عن رسول اللہ ا بحدیث یری انہ کذب ،ولکنہ جری علی عادة جماعة من اہل الحدیث یتساہلون فی احادیث الفضائل الخ“۔
یعنی کاش کہ ابن عساکر ان حدیثوں کو بیان نہ کرتے ،کیونکہ ا س سے منکر حدیثوں کو رواج دینا ہے‘ آپ جیسے محدث کی شایان شان نہیں کہ ایک حدیث جس کو غلط سمجھ رہے ہیں، بیان کریں۔ لیکن محدثین کی ایک جماعت جو فضائل اعمال میں تساہل بر تتی ہے کے طریقہ کو آپ نے اختیار کیا۔
علامہ شبیر احمد عثمانی” فتح الملہم“ میں پر تبصرہ یوں فرماتے ہیں:
”محدث ابوشامہ نے فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے سلسلہ میں تو کوئی نقد نہیں کیا‘ بلکہ ابن عساکر جیسے ماہر فن کے طرز عمل پر نکتہ چینی کی کہ انہوں نے ایک منکر حدیث بغیر کسی وضاحتی بیان کے عوام میں نقل فرمادی، جس سے عوام یا جس کو اس فن سے مناسبت نہیں ابن عساکر کی نقل سے دھوکہ کھانے اور اس کو ثابت سمجھنے کا اندیشہ ہے‘ جبکہ محدثین کے نزدیک یہ غیر ثابت ہے۔“
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف
شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے مسئلہ میں جمہور سے الگ نہیں ہوسکے‘ اس دعویٰ کا بین ثبوت ان کی کتاب ”الکلم الطیب“ ہے، اس میں ضعیف حدیثوں کی تعداد کتنی ہے، اس کا جواب علامہ ناصر الدین البانی دیں گے ،جنہوں نے ”صحیح الکلم الطیب“ اور” ضعیف الکلم الطیب“ میں خط امتیاز قائم کرنے کا کار نامہ انجام دیا ہے۔ (التحریف باوہام ۱/۱۰۳)
علامہ شوکانی کا موقف
اگرچہ علامہ شوکانی کی الفوائد المجموعہ (ص:۲۸۳) کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث مطلقاً ناقابل عمل ہے، لیکن ان کی اہم ترین تصنیف ”نیل الاوطار“ (۳/۶۰) کی یہ عبارت ا س کی نفی کرتی ہے :
”والایات والاحادیث المذکورة فی الباب تدل علی مشروعیة الاستکثار من الصلاة بین المغرب والعشاء والاحادیث وان کان اکثرہا ضعیفاً فہی منتہضة لمجموعہا لاسیما فی فضائل الاعمال“۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب وعشاء کے درمیان نوافل کی کثرت سے متعلق اکثر حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے مضبوط ہیں ،خاص کر فضائل اعمال میں۔ نیز آپ کی کتاب ”تحفة الذاکرین“ کا مطالعہ کرنے والا شخص تو ہمت ہی نہیں کرسکتا کہ ان کی طرف زیر بحث مسئلہ میں خلاف جمہور رائے کا انتساب کرے، کیونکہ وہ تو ضعاف سے بھری پڑی ہے (ملاحظہ ہو التعریف)
ان معروضات سے یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ضعیف حدیث جبکہ موضوع نہ ہو، باب احکام وعقائد کے علاوہ میں اجماعی طور سے پوری امت کے نزدیک قابل عمل ہے‘ اور چونکہ فضائل‘ مناقب‘ ترغیب وترہیب سیر ومغازی کی احادیث کے ذریعہ غفلت سے بیداری اور دین پر عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس لئے پورے شد ومد سے ان کے خلاف ہوا کھڑا کیا گیا ہے، تاکہ مذہبی احکام کی اہمیت کم سے کم تر ہوجائے ،پھر زیاں کے بعد زیاں کا احساس تک باقی نہ رہے۔ یالیت قومی یعلمون۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال: ۱۴۲۹ھ اکتوبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: اصلاح معاشرہ میں والدین کاکردار
Flag Counter