Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

6 - 10
”او“لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت
”او“لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت

جب سے انگریز بہادر نے اس خطے پر قبضہ جمایا ہے‘ تب سے ہمیں وہی چیز پسند آتی ہے جسے انگریز یا انگریزی سے نسبت ہوتی ہے۔ دیگر باتیں تو ایک طرف ‘ ہمارے ہاں اپنی ذاتی پہچان کے حوالے ”دستخط“ تک انگریزی ہی میں ثبت کرنا تہذیب وشائستگی قرار پائے۔ کچھ یہی حال تعلیم کا ہے۔ کبھی تعلیمی معیار کی علامت عیسائی مشنری تعلیمی ادارے تھے‘ اور ابھی تک ہم اسی جادو کے اسیر تھے کہ اب اس کے ساتھ ”اے“ لیول اور ”او“ لیول کا برطانوی امتحانی نظام (GCE) بھی ہمارے ذہنوں پر بھوت بن کر مسلط ہو گیا ہے۔ جس فرد کے پاس چند ہزار روپے فاضل ہیں یا جو شخص واقعی‘ اسٹیٹس‘ (Status)کے بارے میں حساس ہے‘ اس کے قدم خود بخود انہی اداروں کی جانب اٹھ جاتے ہیں۔ آج پاکستان کا قومی تعلیمی نظام کس کسمپبرسی سے دو چار ہے‘ اس کا اندازہ جی سی ای نظام کے بڑھتے ہوئے رجحان سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔گذشتہ چند برسوں کے دوران میں پاکستان پر مسلط فوجی حکمرانوں نے بظاہر ناصحانہ‘ مگر دراصل بے جاطور پر یہ طوفان اٹھائے رکھا کہ: ”اسلامیات کی کتاب میں فرقہ واریت ہے‘ ہمیں ایمانیات اور تاریخ کے بجائے زندگی کے معاملات پر اسلامی سوچ طالب علموں میں منتقل کرنی ہوگی اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا“۔ ساتھ ہی ایک جرنیلی وزیر تعلیم نے یہ بھی فرمایا کہ:”قرآن کے ۴۰ پارے ہوتے ہیں“۔ کچھ لوگوں نے اسے جنرل موصوف کی لغزش زبان (Slip of tongue)قرار دیا‘ مگر کچھ لوگوں کے بقول: یہ بات ویسے ہی نہ کہی گئی تھی‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک نظامِ فکر کا دباؤ (push)بھی کہیں نہ کہیں موجود ہوسکتا ہے۔ بہرحال قومی نظامِ تعلیم اور قومی نصابِ تعلیم پر چار حرف بھیجنے والے فوجی حکمرانوں اور ان کے پشت پناہ مغرب زدہ لوگوں کی یہ ہوشیاری زیادہ دیر تک اپنا رنگ نہ جما سکے گی۔ اس وقت ہمارے پیش نظر ایک کتاب ہے‘ جس کا نام ہے Islamiat for Students۔اس کتاب کے ”تعارف“ اور ”دیباچے“ کے مطابق یہ ”او“لیول کے طالب علموں کے لئے تیار کی گئی ہے‘ فیروز سنز لاہور نے اسے شائع کیا ہے‘ ۲۰۰۹ء میں بطور نصاب یہ نافذ العمل ہوگی اور اس کی مصنفہ کا نام فرخندہ نور محمد ہے‘ جب کہ قیمت ۱۷۵ روپے ہے۔ اعلیٰ طبقاتی نظامِ تعلیم میں میٹرک کی سطح کے پاکستانی طلبہ وطالبات میں اس کتاب کے طفیل کون سی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہوگی اور انہیں اسلامی تاریخ کے بارے میں کس درجہ یکسوئی نصیب ہوگی‘ آئندہ سطور میں اسی حوالے سے کچھ معروضات پیش کی جارہی ہیں۔مصنفہ نے دیباچے میں دعویٰ کیا ہے:
”میٹرک اور ”او“ لیول کی سطح کے طالب علموں کے لئے اسلامیات کی یہ کتاب اس انداز سے لکھی گئی ہے کہ طرزِ تحریر براہِ راست اور عام فہم ہو‘ اور وہ تمام لوگ جو اسلام کی پیدائش (Birth)اور پھیلاؤ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں‘ انہیں اس میں معلومات ملیں۔ اس کتاب میں دلچسپ مواد پیش کیا گیا ہے۔ بہت سی اصطلاحیں اور واقعات دانستہ طور پر دہرائے گئے ہیں‘ تاکہ عام سطح کا بچہ ان سے مانوس ہوجائے“۔
ہرمصنف کسی نہ کسی دعوے کے ساتھ کتاب تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ یہاں پر بھی مصنفہ کے اس حق کو تسلیم کرنے کے باوجود حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ بعثتِ نبوی کو اسلام کی پیدائش قرار دے رہی ہیں‘ حالانکہ اسلام تو آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیاء علیہم السلام کے ہاں ایک تسلسل‘ روایت اور پختہ ایمان کے طور پر موجزن رہا ہے۔ اس لئے اسلام کی پیدائش کو خاتم الانبیاء ا سے منسوب کرنا‘ اس قرآنی حکم سے مناسبت نہیں رکھتا ‘ جس میں فرمایا گیا ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے کہا: ”اے میرے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے‘ لہذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا“ (البقرة:۱۳۲) یہ اور دیگر بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ماقبل کے انبیاء علیہم السلام کو مسلم ہی کہا یا اسلام سے وابستہ بیان فرمایا۔ اس لئے محض اس ایک لفظ پیدائش کی لغزش خود ایمان کے بنیادی عناصر تک کو خلط ملط کردیتی ہے‘ مگر فاضلہ اس مقام سے یوں ہی گزرجاتی ہیں۔
یادرہے اسلامیات کی یہ کتاب مصنفہ نے نظر ثانی کع بعد پانچویں ایڈیشن کے طور پر شائع کی ہے‘ اور نظرثانی کے دوران میں جن ابواب کو کتاب سے خارج کیا گیا ہے‘ وہ ہیں: اسلام اور معاشرتی زندگی‘ اسلامی اخلاقیات (شائستگی‘ احترام‘ نظم‘ عدل وانصاف) اسلام اور انسانوں کے حقوق وغیرہ۔ اس کے بجائے جو مواد شامل کیا گیا ہے‘ وہ ہے: اسلام کی سیاسی تاریخ‘ شیعہ عقائد کے حوالے سے امور۔
یہاں پر قابلِ غور بات یہ ہے کہ روشن خیالی اور جدیدیت کے علم برداروں نے اسلامیات کے قومی نصاب پر فرقہ واریت کا الزام دھرتے ہوئے اسے تلپٹ کرنے کا اہتمام کیا ہے‘ مگر اپنے ممدوح نصاب تعلیم میں شیعہ سنی فرقہ واریت پر مبنی لوازمہ غیر مناسب اور غیر متناسب انداز سے پیش کیا ہے‘ اور وہ بھی ۱۳ سے ۱۶ سال کی عمر کے بچوں کے نصاب میں‘ جو عمر کے اس حصے میں ایسے اختلافی امور سے بالاتر ہوتے ہیں‘ یا انہیں عملی طور پر اس تفریق سے بالا رکھنا ضروری ہے۔ اس طرح یہ نظرثانی شدہ کتاب اسلامی اخلاقیات اور اس کی روح کو نظر انداز کرکے فرقہ وارانہ اختلاف کی بنیادوں کو گہرا کرنے کا سامان مہیا کرتی ہے۔ قرآن کی تفسیر کا تذکرہ پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ کے بقول: ”یہ عربی لفظ Fasara سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے: تشریح کرنا“ (ص:۳۳) فسارا یا فصارا یا فثارا‘ تینوں لفظ ناقابلِ فہم ہیں۔ اگر یہ عربی لفظ فسر ہے تو پھر اس کی انگریزی املا درست نہیں۔ اس کتاب کے مندرجات میں موجود خوبیوں اور فنی کمزوریوں پر گفتگو سے زیادہ اہم نکتہ وہی ہے جسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کہتے ہیں‘ اور یہی چیز اس میں تشویش کا پہلو لئے ہوئے ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ یہ مندرجات شیعہ علماء نے کتاب میں شامل نہیں کرائے‘ لیکن جب ان پر بحث اٹھ کھڑی ہوگی تو پھر لامحالہ انہیں درمیان میں آنا پڑے گا۔ اگرچہ وہ مناظرے کے اس اسٹیج کو تیار کرنے کے ذمہ دار نہیں۔ اب دیکھئے: کتاب کا حصہ چہارم اور باب سوم۔باب سوم کا عنوان ہے: ”امامت“ امامت محض ایک لفظ نہیں‘ اس کا ایک مخصوص پس منظر ہے‘ اس کا تعلق عقیدے‘ ایمان اور افکار سے بھی جڑتا ہے۔ یہی چیز بہ اندازِ دیگر اس باب میں زیر بحث آئی ہے۔ دسویں جماعت کے بچوں کے سامنے اور وہ بھی اکثر سنی طالب علموں کے سامنے یہ بیان کرنا کہ:
”شیعہ‘ حضرت علی اور ان کے خلفاء کے حق جانشینی کی وکالت کرتے ہیں․․․․ شیعہ عقیدے کے مطابق ”امامت“ ایک قطعی استحقاقی (prerogative)منصب ہے‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے رحلت نبوی سے قبل ہی ایک فرد سرفراز (bestowed)فرمادیا تھا‘ اور پھر یہ منصب امامت دوسرے جانشینوں تک منتقل ہوتا گیا‘ لیکن اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ عمر میں سب سے بڑا ہو‘ بلکہ روحانی طور پر پاک دامن ہو“۔ شیعہ مسلمانوں کے نزدیک رسول کریم ا نے روحانی میراث حضرت فاطمہ کے ذریعے‘ حضرت علی اور ان کے جانشینوں کے سپرد کردی تھی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ کی ہدایت کے مطابق حضرت علی پہلے خلیفہ راشد اور امام المؤمنین تھے․․․ اثنا عشریہ یا ۱۲ والے (twelevers)اہل تشیع کا ایک اہم فرقہ ہیں‘ جو ۱۲/اماموں کی جانشینی اور روحانی قیادت پر ایمان رکھتے ہیں۔ رسول کریم ا اور حضرت فاطمہ کے ساتھ ان ۱۲/ اماموں کو شامل کرکے انہیں ۱۴! معصومین کہا جاتا ہے“۔ (ص:۱۱۱)
اس پیراگراف میں موجود معلومات کیا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ بچوں میں فرقہ وارانہ تقسیم کے ساتھ ہی ساتھ خود خلفائے راشدین کے بارے میں شک کا بیج بونا تعلیمی ضرورت کے اعتبار سے کس حد تک درست ہے۔ پیراگراف کے الفاظ خود ہی نازک امور کی نشان دہی کرتے ہیں اور اس مضمون میں انہیں کھول کر بیان کرنا شاید مناسب نہیں ہے۔اسی درسی کتاب کے اگلے صفحے پر درج ہے:
”آخرکار ۱۲/ہزار جوانوں پر مشتمل فوج نے کوچ کیا۔ امام حسن نے کندی قبیلے کے سردار کی قیادت میں ۴/ہزار مردوں کی مہم ”انبہ “ بھیجی‘ لیکن امیر معاویہ نے اس کو گورنری کے وعدے کی رشوت دے کر (bribed)ہم نوا بنالیا‘ جب امام حسن نے یہ خبر سنی تو انہوں نے بنو مراد سے ۴/ہزار جوانوں کا فوجی دستہ ورانہ کیا‘ لیکن امیر معاویہ نے اس کو بھی ساتھ ملالیا“۔ (ص:۱۱۲)
ذہن میں رکھا جائے کہ حضرت امیر معاویہ نہ صرف صحابی ہیں‘ بلکہ کاتب وحی بھی ہیں۔ ان کے سیاسی اقدامات یا سیاسی حکمت عملی کیا تھی؟ ان کی کمزوریاں اور مابعد اثرات کیا تھے؟ یہ چیزیں بڑی کلاسوں میں زیر بحث آئیں تو طالب علم کے سامنے دیگر افق بھی نمایاں ہوسکتے ہیں مگر یہاں اس عمر کے بچے کے سامنے صحابہ کرام کے درمیان (نعوذ باللہ) رشوت ستانی یا دھوکادہی کے واقعات کواس طرز بیان کے ساتھ پیش کرنا‘ فکری انتشار یا مخصوص نقطہٴ نظر کی ترویج کے سوا کچھ مفید نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ نازک موڑہیں جہاں ملک کا پُر سکون ماحول بے جا بحثوں اور فرقہ واریت کے فتنے کو آگ دکھانے کی نذر ہوتا ہے۔ اعلیٰ طبقاتی اور ”شان دار تعلیمی اداروں“ میں ان اسباق کا آخر مطلب کیا ہے؟
باب سوم میں: ۱-حضرت علی‘ ۲- امام حسن‘ ۳- امام حسین‘ ۴- امام زین العابدین‘ ۵- امام محمد باقر‘ ۶- امام جعفر صادق‘ ۷- امام موسیٰ کاظم‘ ۸- امام علی رضا‘ ۹- امام محمد تقی‘ ۱۰- امام محمد نقی اور ۱۱- امام حسن عسکری پر تعارفی نوٹ دینے کے بعد ۱۲ ویں امام کی حیثیت سے امام محمد مہدی پر دو پیراگرافوں میں جو تفصیلات پیش کی گئی ہیں‘ ان کے مضمرات بھی اپنی دلیل آپ ہیں۔ چونکہ ان تفصیلات کا تعلق ایک مکتب فکر کے عقیدے سے ہے‘ اس لئے ذیل کی عبارت کو صرف دو سوالات کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے:
”امام محمد مہدی ۲۵۵ ہجری کو عراق میں پیدا ہوئے۔ ”محمد“ اصل‘ جب کہ مہدی ان کا خاندانی نام تھا۔ ان کی والدہ رومی شہنشاہ کی پوتی تھیں۔ شیعہ کے نزدیک مہدی کے نام کا حصہ ”منتظر“ ”حجة“ اور ”قائم“ بھی ہے۔ ان کی پیدائش کی خبر خفیہ رکھی گئی اور وہ اپنے والد کی رحلت تک ان کی نگہداشت میں رہے۔ انہیں عام لوگوں کی نظروں سے بھی پوشیدہ رکھا گیا اور انہیں ان کے والد کے چند ساتھیوں کے سوا کسی نے نہ دیکھا والد کی رحلت کے وقت وہ پانچ برس کے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد محمد مہدی‘ ”امام“ بن گئے اور ساتھ ہی نظروں سے اوجھل (occultation)ہوکر غیابت میں چلے گئے‘ غیابت کے اس زمانے میں وہ اپنے نائبوں (deputies)کے ذریعے رہنمائی کرتے رہے اور محض خاص حالات میں ظاہر ہوتے رہے۔ ۳۲۰ ہجری کے بعد سے ان کی جانب سے رہنمائی موصول نہیں ہوئی۔ یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کی نظروں سے پردے میں چلے گئے ہیں اور اس وقت تک پردے ہی میں رہیں گے جب تک کہ اللہ چاہے۔ وہ اس وقت دنیا میں ظاہر ہوں گے‘ اسے قتل کریں گے اور اللہ کا حکم اس زمین پر نافذ کردیں گے۔ وہ پوری دنیا پر حکمرانی کریں گے اور عدل قائم کریں گے اور ناانصافی کا خاتمہ کردیں گے“۔ (ص:۱۱۸)
۱۳/برس کے بچے کے ذہن میں یہ پیراگراف بہت سے سوال اٹھاتا ہے‘ جنہیں زیر بحث لانے کے بجائے اصل مقدمہ یہ ہے کہ وہ مسلمان جو اس عقیدے کو اپنا جزوِ ایمان نہیں سمجھتے‘ ان کے لئے ایک طرف ”امامت“ بطورِ عقیدہ قبول ہے‘ مگر دوسری جانب یہ سوال تو اٹھے گا کہ امامت نے پہلے چار سو سال تو امت کی رہنمائی کی‘ مگر بعد کے ایک ہزار میں رہنمائی ودست گیری کا وہ ادارہ کیوں معطل ہوگیا؟ اس ادھیڑبن میں وہ استاد جس کی طبیعت اس تفصیل کو منطقی سطح پر ماننے سے انکار کرتی ہے‘ (لازماً طلبہ اور اساتذہ کی بڑی تعداد تو انہی خیالات کے حاملین پر مشتمل ہوگی) جب وہ دونوں مل کر کلاس روم میں بحث ‘ مناظرے اور سوال وجواب کے گرداب میں پھنسیں گے تو خود سوچ لیجئے ‘ اس میں اسلامیات کا یہ مضمون کہاں گم ہوجائے گا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا روشن خیال مشرف نامہ کس بارگاہ میں سرخرو ہوگا؟آگے چل کر ایک بارپھر حضرت امیر معاویہ کی شخصیت کے بارے میں ایک غلط تاثر پیش کیا گیا ہے:
”حضرت عمر نے اپنی خلافت کے دوران میں امیر معاویہ کو شام کا گورنر بنادیا اور حضرت عثمان نے ان کی گورنری کو برقرارکھا۔ حضرت علی نے اپنی خلافت کے زمانے میں انہیں منصب سے معزول کرنا چاہا‘ مگر حضرت معاویہ ان کی مخالفت پر اتر آئے اور ان کے خلاف جنگِ جمل اور صفین لڑی“۔ (ص:۱۳۱)
اس بیان کو بھی بچوں کی ذہنی سطح کے پس منظر میں پرکھا جائے تو ان کے سامنے سوالات کا ایک پہاڑ آن کھڑا ہوتا ہے۔ جواب دیا جائے تو بہت سے نازک امور زیر بحث آتے ہیں‘ جن سے کم از کم میٹرک کے استادوں کا حکمت سے عہدہ برآہونا اور اس سطح کے بچوں کو مطمئن کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے‘ تو پھر ہم آہنگی کا وہ افلاطونی نظریہ کہاں گیا․․․؟کتاب کے ص:۱۴۰‘۱۴۱ پر رسول کریم ا کے محترم چچا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے والد گرامی جناب ابو طالب کا تذکرہ ہے‘ تاہم اس میں ان کے قبولِ اسلام نہ کرنے کا ذکر نہیں۔ احادیث میں درج ہے کہ ان کے آخری وقت میں رسولِ کریم ا نے اصرار کرکے فرمایا کہ کلمہ پڑھ لیں مگر انہوں نے نہ پڑھا۔ ممکن ہے کہ کتاب کی مصنفہ نے اس لئے یہ واقعہ یا یہ صورتِ حال درج کرنا مناسب نہ سمجھی ہو کہ اس عمر کے بچوں کے سامنے یہ سوال کھڑا کرنا مناسب نہیں‘ خوب مگر یہ احتیاط دیگر تاریخی روایات یا مناقشوں میں کیوں روا نہیں رکھی گئی۔
کتاب کے چھٹے حصے کے پہلے باب (ص:۱۶۳تا۱۷۷) میں بھی متعدد مسائل چھیڑے اور پھر نیم پخت انداز سے چھوڑ دیئے گئے ہیں‘ اس درجے میں بچے کے سامنے حدیث اور اس کی تدوین کے معاملات کو بیان کیا گیا ہے۔ حدیث کی اہمیت اور سند کی صحت کے لئے جملہ احتیاطوں اور اسماء الرجال کے بے مثال پہلو کو پیش کرنے کے بجائے چلتے چلتے بہت سی چیزوں کو بے ربط انداز میں بیان کردیا گیا ہے‘ حالانکہ یہ تمام چیزیں سخت فنی نوعیت کی ہیں جو بہتر اور متوازن اسلوب کا تقاضا کرتی ہیں‘ یہاں پر بالخصوص ایک اور نکتے کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ص:۱۷۳ میں شیعہ تدوین حدیث کا ذکر کر کے ایک بار پھر اسلامی اور ملی ہم آہنگی پر ضرب لگائی گئی ہے۔
ایک طرف صحیح‘ حسن‘ ضعیف اور وضعی احادیث (ص:۱۶۵‘۱۶۶) کا مسئلہ پیش کرکے بتایا گیا ہے کہ سب سے پہلے امام مالک ۹۶ھ نے‘ پھر امام احمد بن حنبل ۱۶۴ھ اور ان کے بعد امام بخاری ۱۹۴ھ امام مسلم ۲۰۲ھ اور ان کے بعد ابوداؤد‘ امام ترمذی‘ امام نسائی‘ ابن ماجہ رحمہم اللہ وغیرہ نے لاکھوں احادیث میں سے چند ہزار احادیث مرتب کیں۔ ان میں کہیں فاضل محدث کی تاریخ پیدائش‘ کہیں وفات اور کہیں ایسی کچھ بھی معلومات درج نہیں ہیں۔ کیا کوئی نصابی کتاب ایسی تساہل پسندی کی متحمل ہوسکتی ہے؟ دوسرا یہ کہ لاکھوں احادیث کے استرداد کا کوئی موزوں جواز بھی بچوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکا۔ یہ چیز بچے کے ذہن میں شک کا کانٹا بوسکتی ہے پھر جیساکہ عرض کیا جاچکا ہے کہ ص:۱۷۳ پر شیعہ تدوین حدیث کا نکتہ اٹھا کر بہت سے سوالات کی آنچ کو تیز تر کردیا گیا ہے۔ شیعہ احادیث کے تین مجموعوں یعنی اصولِ کافی: ”من لایحضرہ الفقیہ اور تہذیب الاحکام“ کے نام پیش کئے گئے ہیں اور ان کے مرتبین کی تاریخ انتقال بالترتیب ۳۲۸‘ ۳۸۱‘ ۴۶۰ ہجری ہے۔ گویا کہ سنی احادیث اور شیعہ روایات کی تدوین کا یہ زمانی فرق بذات خود ایک سوال پیدا کرتاہے۔
خلفائے راشدین کے لئے مخصوص ساتویں باب میں حضرت ابوبکر صدیق کی خدمات پر ایک بڑا مؤثر سبق شامل اشاعت ص:۱۷۸تا۱۹۱ ہے‘ اور ان کی خلافت کے انتخاب کے موقع پر یہ بھی بتایاگیا ہے کہ وہ رسول کریم ا کے انتہائی بااعتماد قریبی ساتھی اور سب سے بلند مرتبہ انسان تھے‘ اس لئے پہلے خلیفہ کے طور پر منتخب ہوئے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک بچہ جو اسی کتاب کے ص:۱۱۱ پر یہ پڑھ کر آیا ہے کہ امامت وقیادت تو رسول اللہ نے حضرت علی اور اہل بیت کو تفویض کردی تھی‘ بھلا وہ ۶۰ صفحے آگے مذکورہ بالا بیان پڑھ کرکیا سوچے گا؟ یہی ناکہ رسول اللہ کی مرضی اور احکام سے بغاوت یا ایک وقت میں دوطرح کی بالکل متحارب ہدایت؟نصاب میں ایسی شترگربگی مستقبل کے سیاہ سفید پر قبضے کی تیاری کے لئے مصروف طالب علموں کوکیا سبق دے گی․․․!!
حضرت عثمان کے انتخاب کے معاملے ص:۲۰۵ میں بتایا گیا ہے کہ: ”حضرت علی نے حضرت عثمان کے حق میں ووٹ دیا اور بیعت کی“۔ اس بیان پر پھر ص:۱۱۱ والا سوال کیا سبق دے گا؟ آگے ص:۲۱۲ پر درج ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد جلیل القدر صحابہ نے حضرت علی کو خلیفہ بننے کی دعوت قبول کرنے کے لئے کہا: مگر حضرت علی نے خلافت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ (اگر چہ بعد میں حضرت علی نے مسلمانوں کے شدید اصرار پر یہ ذمہ داری قبول فرمالی) لیکن یہاں بھی ایک مرتبہ پھر ص:۱۱۱ والی بات سامنے آتی ہے کہ اگر رسول کریم ا نے حضرت علی کو نیابت وقیادت کا حکم دے دیا تھا تو انہوں نے مسلسل انکار کیوں کیا؟ اس چیز کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ رسول کریم ا کی مرضی اور منشا کو پورا نہ کرتے‘ مگر طالبِ علم کے سامنے تو یہ معاملہ غور طلب ہوگا کہ حضرت فاطمہ کے ذریعے دیئے جانے والے حکم سے انکار کیا جارہا ہے۔
ص:۲۱۳ پر جنگِ جمل اور ص:۲۱۴ پر جنگِ صفین کی تفصیلات درج ہیں: یہ تفصیلات مسئلے کا سیاسی پہلو لئے ہوئے ہیں۔ ایسے معاملات بڑے نازک امور کی نقاب کشائی کا تقاضا کرتے ہیں۔ دونوں جانب جلیل القدر صحابہ ہیں ایک جانب حضرت علی ہیں اور دوسری جانب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ۔ جب بات تشنہ‘ معاملہ ادھورا اور بحث نامکمل صورت میں ۱۴/سال کے بچے کے سامنے رکھی جائے گی تو خود سوچ لیجئے کہ کون سی خلیج گہری ہوگی۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تاریخ کے درست زاویہٴ نظر اور منصفانہ بحث وتمحیص کے معاملات پر تو ہم اس تجزیئے میں بات ہی نہیں کررہے۔ یاد رہے کہ یہ نصاب مشرف خیالی کے اس ایجنڈے کی تائید میں پیش کیا جارہا ہے کہ ہمیں عقیدے اور تاریخ سے کچھ غرض نہیں‘ ہم تو طالب علموں کو زندگی کے معاملات میں اسلام کے احکام اور قوانین سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
کتاب مجموعی طور پر آسان‘ عام فہم اور مؤثر اسلوبِ بیان میں پیش کی گئی ہے‘ جس کے لئے مصنفہ ستائش کی مستحق ہیں‘ لیکن انہوں نے کون سی نصابی اسکیم پیش نظر رکھی‘ یہ معلوم نہیں ہورہا۔ وہ طالب علم کے سامنے اسلام کی کیا تصویر اور کون سا پیغام پیش کرنا چاہتی ہیں؟ طالب علم‘ استاد اور والدین‘ تینوں اس سے بے خبر ہیں اور پریشان بھی؟وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بلند بانگ دعوے کو کس طرح نصابی عمل میں ڈھال رہی ہیں‘ اس چیز کا کوئی آغاز اور انجام موجود نہیں ہے۔ کیا نصاب تیار کرانے والوں کا ہدف یہ تو نہیں ہے کہ اسلامیات کی ایسی کتاب فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کے جرم میں کچھ اس طرح متنازع بن جائے کہ سرے سے اسلامیات کی تدریس کو‘ جی سی ای یا ”اولیول“ ”اے لیول“ سے خارج کرنے کا راستہ کھل جائے‘ اور اس کے بجائے آفاقی اخلاقیات‘ جیسا نام نہاد مضمون‘ بطور متبادل لانے کا جواز مل جائے۔ ہمارے اس خدشے کی ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔ دشمن ان معاملات میں ”علاج بالمثل“ کا راستہ اختیار کرتا اور مقصد اپنا حاصل کرتا ہے۔ پاکستان میں جب بھی انگریزی کی عظمت کی دھاک بٹھانا مقصود ہوتی ہے تو اہل حل وعقد صوبائی زبانوں کی ترویج کا شوشا اٹھاتے اور انہیں اردو سے لڑانے کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور پھر خود ہی فیصلہ سنا دیتے ہیں کہ اچھا ان میں جھگڑا ہے‘ اس لئے مناسب یہی ہے کہ انگریزی کا سکہ چلا یا جائے۔
اس کتاب کے مندرجات کی پیش کاری میں بہ ظاہر شیعہ اہل علم کا کوئی حصہ نہیں ہے‘ لیکن وہ ان نادان ماہرین تعلیم کے ذریعے بے جاطور ایسی بحث میں الجھیں گے‘ اس تجزیئے میں کتاب کے ان دیگر معاملات کو پیش نہیں کیا جارہا کہ جن کا تعلق جہاد‘ ختم نبوت اور دیگر امور سے ہے۔ کیا ہمارے حکمران اس چہیتے نظامِ تعلیم میں کسی درجے کا کوئی کردار ادا کرنے میں بے بس ہیں؟ اگر وہ بے بس ہیں تو پھر ”جی سی ای“ نظام کو پاکستان کے بہترین دماغوں‘پاکستان کے مستقبل اور کوالٹی کی تعلیم حاصل کرنے والے شہریوں کی اولادوں کو افتراق‘ انتشار‘ فرقہ وارانہ بحثوں میں الجھانے کا اختیار کس نے دیا ہے؟
صرف اسی ایک بات سے مسئلے کی نزاکت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ پاکستان کے کم وبیش ہر بڑے شہر اور ہر بڑے قصبے میں ”او/اے لیول“ کے اسکول قائم ہیں اور امتحان کے نام پر ہزاروں روپے‘ جو آخر کار قومی سطح پر اربوں میں ڈھل کر برطانیہ عظمیٰ کی چوکھٹ پر پیش کئے جاتے ہیں۔ لیکن گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ہم نے سینٹ اور قومی اسمبلی کے فلور پر اس نظام کے تحت امتحان دینے والے بچوں کی رجسٹرڈ تعداد دریافت کرنے کے لئے سوال بھیجے اور یہ بھی پوچھا کہ رجسٹریشن اور امتحان کے لئے سال بہ سال کتنی فیس بیرونِ ملک روانہ کی جاتی ہے‘ مگر ان دونوں سوالوں کا جواب وزارتِ تعلیم‘ وزارتِ خزانہ‘ وزارتِ داخلہ وغیرہ کسی نے بھی نہیں دیا۔ ان سبھی وزارتوں کے ایوان دہل جاتے ہیں اور ایجنسیاں مل کر دس دس فہرستیں تیار کر لیتی ہیں‘ لیکن دوسری جانب ایک غیر ملکی امتحانی نظام من مانی کرنے‘ من پسند فیس جمع کرنے‘ من بھاتے نصاب پڑھانے کے لئے آزاد‘ خود مختار اور طاقت کی علامت ہے‘ اور کالے انگریزوں کے لئے سٹیٹس سمبل ہے۔ مگر اس کے متعلقین ومتاثرین کے بارے میں ریاست کے پاس چند سطروں کی معلومات بھی موجود نہیں ہیں۔ (بشکریہ محدث:جولائی ۲۰۰۸ء)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم: ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: انتہاء پسند کون؟
Flag Counter