Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

10 - 10
آہ ․․․مشفق ومہربان قاری صاحب مرحوم
آہ ․․․مشفق ومہربان قاری صاحب مرحوم


۲۷/جمادی الثانی ۱۴۲۹ھ مطابق ۲/جولائی ۲۰۰۸ء بروز بدھ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی وشاخہائے جامعہ کے شعبہ حفظ وناظرہ کے نگرانِ اعلیٰ، شفیق ومہربان قاری ،حضرت مولانا قاری محبوب الرحمن صاحب دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون․
حضرت قاری صاحب کا دارفانی سے اچانک پردہ فرماجانا جہاں ہماری جامعہ کے اساتذہ کرام، مفتیان عظام اور قراء کرام‘ آپ کے شاگردوں‘ رشتہ داروں عزیز واقارب، خصوصاً حضرت قاری صاخب کی اہلیہ محترمہ کو صدمہ اور غم پہنچا‘ وہیں راقم الحروف بھی انتہائی مغموم ہے۔
حضرت قاری صاحب مرحوم انتہائی شفیق ومہربان‘ سادہ مزاج اور سادہ طبیعت کے حامل تھے ‘حتی کہ آپ کا رہن سہن بالکل سادہ تھا ”کن فی الدنیا کأنک غریب او عابر سبیل“ کا مصداق تھے۔گھر کا سازو سامان انتہائی مختصر تھا‘ نرم مزاجی اورخندہ پیشانی سے ہرایک سے پیش آنا‘ نرمی سے گفتگوکرنا‘ بات کو غور سے سننا ‘اوراسی کے مطابق جواب دینا آپ کاخاصہ تھا‘ تواضع‘ عاجزی اور انکساری حضرت کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ گفتگو انتہائی سلیقہ اور باوقار فرماتے ‘ حضرت کی ساری زندگی قرآن کریم کی خدمت میں گذری۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے درس نظامی سے فراغت کے بعد تقریباً دوسال تک ناظرہ قرآن کریم پڑھایا‘ اس کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال تک حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید کے دور ہی میں شعبہ حفظ میں پڑھاتے رہے‘ اسی اثناء میں (حضرت ڈاکٹرمختار شہید) ہی کے دور میں․․․․ تقریباً ۱۹۹۶ء ․․․․ میں شعبہٴ حفظ وناظرہ جامعہ وشاخہائے جامعہ کے نگران اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے جوکہ تاحیات احسن طریقہ سے اپنی یہ ذمہ داری نبھا تے رہے۔ قرآن کریم اور جامعہ کی خدمت کرتے کرتے دار فانی سے رخصت ہوئے۔
وفات سے تین دن قبل جامعہ کے استاذ قاری منظور احمد صاحب کی کلاس میں چار بچوں کی تقریب ختم القرآن کی دعا میں شرکت فرمائی‘ کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ حفظ کی تقریب آپ کی زندگی کی آخری تقریب ہے؟ حضرت قاری صاحب ضلع بہاولپور احمد پور شرقیہ میں ۱۹۶۷ء میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ حضرت قاری صاحب نہ صرف شعبہ حفظ وناظرہ کے نگران رہے‘ بلکہ موسم قربانی میں (اجتماعی قربانی) کے موقع پر جانوروں کی خریداری کا اہتمام اور ذبح کرانے کے لئے بے شمار قصائیوں کاانتظام آپ کے تعاون اور مشورہ سے ہوتا تھا اور آپ پوری پوری ان انتظامات کی نگرانی فرماتے تھے ‘ ان کے رہن سہن‘ طعام وقیام کی ذمہ داری حضرت احسن طریقہ سے سرانجام دیتے تھے، نیز صدر ٹاؤن کراچی کی مسجد میں امامت کے فرائض انجام تاحیات دیتے رہے ۔ راقم الحروف کو بھی کبھی کبھی امامت کے لئے لے جایا کرتے تھے ۔ قاری صاحب کا بھتیجا گذشتہ دو تین سال سے نماز تراویح میں بندہ کا سامع رہا‘ چونکہ بندہ کا حضرت کے فلیٹ کے عقب میں تراویح پڑھانے کا معمول ہے‘ وفات سے ایک دن قبل حسب معمول حضرت قاری صاحب نے اپنے دفتر میں بذریعہ انٹر کام بلایا‘ اپنے ایک شاگرد کوبلواکر چائے منگوائی مختلف موضوعات پر گھنٹہ بھر گفتگو فرماتے رہے‘ اسی دوران اپنے ڈیکس سے قلم نکال کر دیااور فرمایا کہ اس کو درست کردیں‘ اسی اثناء میں فرمانے لگے کہ: ماہ رمضان قریب آرہا ہے‘ زندگی رہی تو اس مرتبہ آپ کا سنوں گا، کسی کو کیا معلوم تھا کہ آپ کل تک اپنے خالق حقیقی سے ملاقات فرمانے والے ہیں‘ بہرحال حضرت کی ساری زندگی نہایت سادگی میں گذری۔
حضرت اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے‘ مگر زندگی بھر کسی سے گلہ شکوہ نہ کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے۔ قرآن کریم کی خدمات کو قبول فرماکر جنت الفردوس نصیب فرمائے۔حضرت قاری صاحب کے عزیز واقارب‘ اساتذہ وقراء کرام کو صبر جمیل عطا فرمائے۔قارئین بینات سے حضرت قاری صاحب کے لئے ایصال ثواب کی درخواست ہے۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم: ۱۴۲۹ھ ستمبر۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 
Flag Counter