Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

9 - 11
پاکستان کیوں حاصل کیا گےا اوراب تک کیا ہوا؟
پاکستان کیوں حاصل کیا گیا اور اب تک کیا ہوا؟

ماضی قریب میں متحدہ ہندوستان میں ہم نے یہی نعرے لگائے کہ مسلمانوں کے لئے ایک مستقل جداگانہ سرزمین کی اس لئے ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نفاذ کے لئے اسلام کی حکومت قائم ہو اور سر سے پیر تک اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہو‘ اس موقعہ پر ہم نے بڑے بلند بانگ دعوے کئے تھے کہ حق تعالیٰ کے قوانین عدل کا اجراء ہوگا‘ اسلامی شعائر کا احیاء ہوگا‘اسلامی اتحاد کا خواب پورا ہوگا‘ اسی مقصد کے لئے جلسے کئے‘ جلوس نکالے‘ کوششیں کیں‘ قرار دادیں پاس کیں‘ جان ومال اور عزت وآبرو کی قربانیاں دیں‘ جو کچھ ہوا اور جو کچھ کیا اس کی تاریخ آپ کے سامنے ہے‘ بہرحال جد وجہد بھی ہونے لگی‘ حق تعالیٰ نے غلامی کے طویل دور کے بعد آزادی کی نعمت نصیب فرمائی اور ایک بڑی عظیم سلطنت عطا فرمائی‘ ۱۲/کروڑ کی قابل قدر اطاعت شعار فرمانبر دار رعیت عطا فرمائی جس نے کارخانے بنائے‘ کاروبار کو ترقی دی‘ مملکت کو آباد کیا‘ اس کو چار چاند لگائے‘ باہر کی دنیا میں اس کا وقار قائم کیا‘ مسجدیں بنائیں‘ مدرسے تعمیر کرائے‘ اور اتنا کمایا کہ اپنے ٹیکسوں سے حکومت کے خزانوں کو معمور کیا اور قوم کی محنتوں سے ملک کہاں سے کہاں پہنچا‘ ماضی وحال کی تاریخ آپ کے سامنے ہے‘ غرض دین ودنیا کی سعادتوں سے مملکت کو ہم کنار بنایا لیکن جس بنیادی مقصد کا باربار اعلان کیا جاتاتھا کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی اور یوں عالم اسلام سے اتحاد ہوگا اس کے لئے حکمرانوں اور حکومتوں نے کیا کیا؟ اپنے وعدوں کو کہاں تک پورا کیا؟ یہاں کون کون سے اسلامی قوانین جاری ہوئے؟ کفر والحاد کو کہاں تک ختم کیا گیا؟ اسلامی معاشرت قائم کرنے کے لئے کیا کیا اقدام کئے گئے؟ ان تمام سوالات کا جواب حسرت ناک نفی میں ملے گا‘ آخر امتحان کا یہ عبوری دور تھا‘ کون سی نعمت تھی جو حق تعالیٰ نے نہ دی ہو؟ کون سی فرصت تھی جو نہ ملی ہو؟ لیکن واحسرتاہ! کہ․․․․ اتنا زیادہ عرصہ گذر گیا‘ مگر پاکستان کے مقصد وجود کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا‘ کون سا وعدہ پورا کیا گیا؟ کون سی اسلامی عدالت قائم ہوئی؟ زانی اور شرابی کو کون سی سزا دی گئی؟ بداخلاقی کا کیا انسداد کیا گیا؟ ظلم ‘ عدوان‘ رشوت ستانی‘ کنبہ پروری‘ بے حیائی وعریانی‘ سود خوری وبدمعاشی کو ختم کرنے کے لئے کون سا قدم اٹھایا گیا؟ بلکہ اس کے برعکس یہ ہوا کہ سود خوری‘ شراب نوشی‘ بداخلاقی‘ اور بے حیائی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی‘ بلکہ سرکاری ذرائع سے اس کی نشر واشاعت میں کوئی کسر باقی نہیں اٹھا رکھی گئی‘ ”بینات“ کے صفحات میں ان دردناک داستانوں کو بار بار دہرایا گیا ہے۔
فسق وفجور اور گناہوں کے اثرات
آخر اس فسق وفجور کی کثرت اور خدافراموش زندگی کی لعنت سے دشمنانِ اسلام (ہندوستان ‘ امریکہ اور روس) کے گٹھ جوڑ سے ایک جھٹکا لگا‘اور اس بے نظیر مملکت کا ایک حصہ کاٹ دیا گیا اور بقیہ حصہ کو شر وفساد‘ اختلاف وانتشار‘ ہوشربا گرانی اور قحط میں مبتلا کر دیا گیا‘ امن وامان ختم ہوگیا‘ کسی کی نہ جان محفوظ‘ نہ کسی کا مال محفوظ‘ نہ کسی کی آبرو محفوظ‘ بڑی بڑی صنعتیں نیشلائز کی گئیں مگر نتیجہ صفر‘ زمینداروں اور کسانوں کے درمیان باہم دست وگریباں کی فضا پیدا ہوگئی‘ مزدوروں اور کار خانہ داروں کے درمیان بے اعتمادی کی لہر دوڑ گئی‘ حکمرانوں کی عزت واحترام کا جذبہ رعایا کے دلوں سے نکل گیا‘ آخر یہ سب کچھ کیوں ہوا اور کس لئے ہوا؟ جواب صاف اور واضح ہے کہ ہم نے نفاق سے کام لیا‘ اسلام سے روگردانی کی‘ رسول اللہ ا سے بے وفائی کی‘ خدا تعالیٰ کو دھو کا دیا‘ قول وعمل کے تضاد کو شعار بنایا اور منافقانہ زندگی کو اختیار کیا:
کارہا با خلق آری جملہ راست باخدا تزویروحیلہ کے رواست
آخر حق تعالیٰ کے قانون عدل کا ظہور شروع ہوگیا‘ قرآن کریم باربار حق تعالیٰ کے اس قانون عدل کا صاف اعلان کرتا ہے کہ جب حق تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی جائے اور قانون خداوندی کی توہین کی جائے تو اس کا انجام یہی ہوتا ہے کہ وہ نعمتیں ان سے چھین لی جاتی ہیں اور ان کے بدلے میں عذاب شدید اس قوم پر مسلط کردیا جاتا ہے‘ ارشاد ہے:
”لئن شکرتم لأزیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید“(ابراھیم:۷)
ترجمہ:․․․”اگر شکرو گے تو تمہیں زیادہ انعام دوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے“۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:
”فلما نسوا ما ذکروا بہ فتحنا علیہم ابواب کل شئ حتی اذا فرحوا بما اوتوا اخدناہم بغتةً فاذا ہم مبلسون فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العالمین“۔ (الانعام:۴۴)
ترجمہ:․․․”پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھول گئے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہرچیز کے دروازے کھول دیئے‘ یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو ان کو ملی تھیں خوب اترا گئے تو ہم نے ان کو دفعةً پکڑ لیا‘ پھر وہ بالکل حیرت زدہ رہ گئے‘ پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ کا شکر ہے“۔ نیز ارشاد ہے:
”وضرب اللہ مثلاً قریةً کانت آمنةً مطمئنةً یأتیہا رزقہا رغداً من کل مکان فکفرت بأنعم اللہ فاذاقہا اللہ لباس الجوع والخوف بما کانوا یصنعون“ (النحل:۱۱۲)
ترجمہ:․․․”اور اللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کی حالتِ عجیبہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ بڑے امن واطمینان میں تھے‘ ان کے کھانے پینے کی چیزیں بڑی فراغت سے ہر چہار طرف سے ان کے پاس پہنچا کرتی تھیں سو انہوں نے خدا کی نعمتوں کی بے قدری کی اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان حرکات کے سبب ایک محیط قحط اور خوف کا مزہ چکھایا“۔ کیا یہ ارشادات ہماری تنبیہ اور گوشمالی کے لئے کافی نہیں؟ کیا دن بدن ہمارا قدم نحوست وادبار کی طرف نہیں بڑھ رہا؟ کیا ہم نے خدا کی متواتر نعمتوں کی ناشکری میں کوئی کسر چھوڑی ہے‘ کہاں گئی وہ قرار داد مقاصد جو شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کی کوششوں سے پاس ہوئی تھی؟ کہاں ہے وہ تعلیماتی بورڈ جس پر لاکھوں روپیہ خرچ کیا گیا تھا؟ کہاں ہے وہ اسلامی کونسل جس پر لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ ہورہا ہے؟ کیا یہ سب کچھ نفاق نہیں ہے؟ غضبِ الٰہی کو دعوت دینے والی کون سی برائی ہے کہ اس کو نہ اپنایا ہو اور نیکی وفلاح وبہبود کا کون سا کام ہے جسے ہم نے نہ ٹھکرایا ہو؟ نہ معلوم کہ غفلت کے پردے کب چھٹیں گے اور بدنصیب قوم کا طالع سعید کب طلوع ہوگا؟
پاکستان اور مرزائی امت
ماضی قریب میں اسلامی آئین بنایاگیا اور عالم اسلام میں اس کا چرچا کیا گیا لیکن خدارا بتائیں کہ کاغذی کاروائی سے کیا اب تک ایک قدم بھی آگے بڑھ سکا؟ مرزائی امت جو اسلام کے نام سے اسلام کی بدترین دشمن ہے جو برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہے یہ وہ غدار اسلام تحریک ہے جس کے ذریعہ تمام عالم اسلام کی فضا کو مسموم کیا جارہا ہے‘ جو تحریک صہیونیت کی ترقی یافتہ شکل ہے جس نے پاکستان کی جڑوں کو کھو کھلا کر رکھا ہے جو ”ریاست کے اندر ریاست“ ہے جو اسلام میں نقب زنی کرتی ہے جو مسلمانوں کی دنیا وآخرت پر ڈاکہ ڈالتی ہے جو براہ راست سید انبیاء حضرت خاتم النبیین ا کی حریف ہے‘ جس کی بنیادہی اسلام سے غداری وبے وفائی اور مسلمانوں سے عداوت ودشمنی پر رکھی گئی ہے‘ جس کا مشن ہی اول سے آخر تک مسلمانوں کی جاسوسی رہا ہے‘ اگر یہاں کے حکمرانوں کوخدا کا‘ رسول کا‘ اسلام کا اور خود اپنے بلند بانگ دعوؤں اور وعدوں کا کچھ پاس ولحاظ ہوتا تو کیا پاکستان میں۔ ہاں! محمد رسول اللہ ا کے نام پر حاصل کئے گئے پاکستان میں‘ اس انگریزی تحریک اور اس مرزائی امت کا سکہ چل سکتا تھا؟ ہر گز نہیں‘ لیکن حکمرانوں کے نفاق کی اندھرنگری میں اس کفر خالص کا اسلام کے نام پر جعلی سکہ ربع صدی تک پھیلتا رہا‘ مسلمان قوم بے بسی کے عالم میں چیختی چلاتی رہی‘ مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی‘ سیاست پر مرزائیوں کا تسلط رہا‘ اقتصادیات پر ان کا قبضہ رہا‘ دفاع کی پالیسی ان کے سپردرہی‘ تعلقات ِ خارجہ ان کے زیر اثر‘ اندرونی نظم ونسق پر حاوی رہے‘ اونچی اونچی ملازمتیں ان کے حصہ میں آئیں‘ قوم نے بار بار احتجاج کئے‘ التجائیں کیں‘ تحریکیں چلائیں‘ مطالبات کئے مگر سب کچھ صدا بصحرا ثابت ہوا‘ آخر لاہور کے تاریخی اجتماع میں قوم کو اعلان کرنا پڑا کہ اگر وزیر اعظم قادیانی مسئلہ میں عوام کی رائے کو در خور اعتناء نہیں سمجھیں گے تو وہ پاکستان کے نہیں بلکہ ربوہ کے وزیر اعظم ہوں گے‘ خدا خدا کرکے ۷/ستمبر کو پہلی بار کم از کم کاغذی سطح پر قوم کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا کہ امت مرزائیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے‘ ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے‘ قادیانی اوقاف حکومت کی تحویل میں لئے جائیں‘ کلیدی مناصب سے ان کو نکالاجائے‘ تمام بری‘ بحری اور ہوائی فوج سے ان کو ہٹایا جائے‘ ان کے الگ تشخص اور امتیاز کے لئے شناختی کارڈ جلد سے جلد جاری کئے جائیں اور غیر مسلم مردم شماری میں ان کا اندراج کیا جائے‘ ان کی عبادت گاہوں کے نام تبدیل کرائے جائیں‘ مرزائیوں کی عبادت گاہوں کو مسجد نہ کہا جائے‘ انہیں اسلامی اصطلاحات کے غلط استعمال سے روکا جائے‘ بنی‘ نبوت‘ صلاة ‘سلام‘ وحی الٰہی‘ مسیح‘ مہدی‘ ام المؤمنین‘ خلیفہ‘ امیر المؤمنین وغیرہ اسلام کے مقدس الفاظ ہیں‘ غلام احمد اور اس کے گرد وپیش کے لوگوں کے لئے ان کا استعمال ممنوع قرار دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں اس اعتراف میں ذرا بخل نہیں کہ حکومت نے ۷/ستمبر کو مسلمانوں کے مطالبات آئینی طور پر تسلیم کرلئے اور قادیانیوں کو ”غیر مسلم اقلیت“ قرار دے دیا گیا‘ گذشتہ حکومتوں کی طرح مسلمانوں کے مطالبات ٹھکرا کر حکومت نے عاقبت نا اندیشی کا ثبوت نہیں دیا‘ مگر افسوس صد افسوس! کہ آئینی فیصلہ کے بعد حکومت یہ سوچ کر بے فکر ہوگئی کہ مسلمانوں کو مطمئن کردیا گیااور ان کے مطالبات تسلیم کر لئے گئے لیکن خدارا بتائیے! کہ حکومت نے ا س کاغذی فیصلہ کی تعمیل کے لئے کیا قدم اٹھایا‘ اور ان مطالبات اور وعدوں کو کس طرح پورا کیا گیا؟ گذشتہ اشاعت میں ہم عرض کر چکے ہیں کہ مرزائی آئین کے واضح فیصلہ کو صاف صاف ٹھکرا رہے ہیں مگر حکومت نے ان کے اس باغیانہ اعلان کے خلاف کیا کارروائی کی‘ اس سے بڑھ کر قول وعمل کے تضاد کی کیا مثال ہوگی۔ مرزائی بدستور مسلمانوں کا مضحکہ اڑارہے ہیں‘ اسلام کی مقدس اصطلاحات کو ناپاک کررہے ہیں‘ مسلمانوں کے نام سے حج پر جاتے ہیں‘ اسلامی ممالک میں ملازمتیں کررہے ہیں‘ اندرون ملک بڑی بڑی آسامیوں پر قابض ہوکر مسلمانوں سے ”مذہبی جنون“کا انتقام لے رہے ہیں‘ پاکستان کو زک پہنچانے کے لئے ہر ممکن تدبیر بروئے کار لارہے ہیں‘ قوم کے مختلف طبقات میں طبقاتی خلفشار برپاکر رہے ہیں‘ لیکن ان کے انسداد کے لئے ابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایاگیا‘ ا سکا نتیجہ کیا نکلا؟ مرزائیوں کو اور ان کے آقایانِ مغرب کو مسلمانوں کی نفسیاتی کمزوری کا احساس ہونے لگا کہ موجودہ دور کے مسلمان صرف کہنا جانتے ہیں‘ کرنا نہیں جانتے‘ وہ قول کے ہیرو ہیں مگر عمل کے پھسڈی ہیں‘ چنانچہ اب وہ بڑی شد ومد کے ساتھ اور بڑے امن وسکون سے اپنی قوتوں کو مجتمع کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے نئے تانے بانے بننے میں مصروف ہیں اور ریاست ربوہ کا خلیفہ چند سالوں تک مرزائیت کے غلبہ واقتدار کی پیش خبریاں سنا رہا ہے‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بحمد للہ! ہم باطل کے حربوں سے مرعوب نہیں‘ ہمیں یقین ہے کہ ملت اسلامیہ کے بدخواہ اور محمد رسول اللہ اکے غدار جو کنواں کھو دیں گے وہ سب سے پہلے خود انہی کا مدفن ثابت ہوگا‘ لیکن ہمیں اپنے حکمرانوں سے شکایت ہے کہ وہ آئین کے واضح فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟ کیا ان کی آنکھیں ا س وقت کھلیں گی جب ایک نیا طوفان برپاہوگا؟ اللہ تعالیٰ ہم پررحم فرمائے‘ امت اسلامیہ کی حفاظت فرمائے اور انہیں طاغوتی طاقتوں کے شر وفساد سے محفوظ رکھے‘ آمین․
وصلی اللہ علی خیر خلقہ صفوة البریة محمد وآلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: سیداحمدشہیداورتحریک جہاد
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter