Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

10 - 11
حضرت الحاج محمدحسین کی رحلت
قطب الارشاد حضرت بہلوی کے خلیفہ حضرت الحاج محمد حسین کی رحلت ۱۳۱۳ھ … ۱۴۲۹ھ

سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے سرخیل حضرت اقدس مولانا سیّد فضل علی شاہ قریشی کے مسترشد، حضرت اقدس مولانا محمد عبداللہ بہلوی قدس سرہ کے خلیفہ مجاز اور پاکستان کی روحانی شخصیت حضرت الحاج صوفی محمد حسین نقشبندی ۲/ جنوری ۲۰۰۸ء کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب رات ڈیڑھ بجے رحلت فرمائے عالم آخرت ہوگئے۔
انا للہ واناالیہ راجعون۔ ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمیٰ۔
کیسی محرومی کا دور آگیا ہے کہ اللہ والے یکے بعد دیگرے تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں، جانے والے جارہے ہیں، مگر اے کاش! کہ ان کی جگہ لینے اور ان کے خلا کو پُر کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ یہ ان ہی اکابر و اسلاف اور باخدا ہستیوں کی زندہ کرامت اور فیضِ نظر تھا کہ ان کے دامن ِ فیض سے وابستہ ہونے والا ایک عام آدمی، دوسرے لفظوں میں بے پڑھا لکھا اَن پڑھ بھی قوم کا مُصلح اور ہادی بن جاتا۔ یقینا یہ انہی حضرات کی بابرکت صحبت کی تاثیر تھی کہ کچھ عرصہ ان کے ساتھ عقیدت و محبت سے منسلک رہنے والا بادیہ نشین بھی کامل و مکمل ہوجاتا۔ ایسا آدمی جو کبھی تعلیم کی ابجد سے ناواقف و ناآشنا ہوتا، وہ بھی ان کے فیضانِ تربیت سے سلوک و احسان کی گاڑھی اصطلاحات سے واقف کار، بلکہ اس کا شناور اور درس گاہِ علم و معرفت کا ماہر اور مکتبِ تصوف کا مُعلّم بن جاتا۔ ان حضرات کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تھی اور نہ الٰہ دین کا چراغ! بلکہ یہ سب کچھ ان کے خلوص و اخلاص کی برکت اور دردِ دل کی تپش تھی، جس کی بدولت ان کے پاس جو بھی آیا، ان کی گرمی ٴ دل سے وافر حصہ لے کر گیا، پھر اسی حرارتِ دل اور گرمیٴ جگر سے مردہ دلوں کی مسیحائی کی، اور منجمد قلوب کو پگھلاکر موم کردیا۔ کچھ یہی شان ہمارے محسن و مربی، برکة العصر و قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا محمد عبداللہ بہلوی ثم شجاع آبادی قدس سرہ کی تھی، کہ جو بھی ان کے در دِولت اور بارگاہِ سلوک و احسان میں آیا، محروم نہیں گیا اور حسبِ استعداد دامن بھر کے لوٹا۔جنوبی پنجاب کی سرائیکی پٹی جہاں بہت سی دوسری محرومیوں سے دو چار تھی، وہاں علم، عمل، صحتِ اعتقاد و عقیدہ سے بھی محروم تھی، بلکہ وہ جہالت و لاعلمی، بدعات و رسومات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھری ہوئی تھی۔ بطورِ خاص دیہاتی علاقے اس صورت حال سے دوچار اور اس ابتری کا شکار تھے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ان اکابر علمائے امت کو جنہوں نے روکھی سوکھی کھاکر، اپنوں اور پرائیوں کی مخالفت سہہ کر مشنری انداز میں یہ کام کیا اور مقامی آبادی کو دینی فکر اور علمی راہ نمائی سے سرفراز کیا۔ چنانچہ قطب الارشاد حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی قدس سرہ جب ۱۳۳۵ھ میں دارالعلوم دیوبند سے فاتحہ فراغ پڑھ کر واپس آئے اور اپنے آبائی علاقہ جلال پور پیر والا کی مضافاتی بستی ”بہلی“ میں اس کام کی داغ بیل ڈالی اور شدید مخالفت و مشکلات کے باوجود اپنا مشن جاری رکھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے قلوب کو آپ کی طرف متوجہ کردیا اور ان کے دلوں میں آپ کی محبت کو ٹ کوٹ کر بھردی … چنانچہ مسلسل ۳۷سال تک آپ نے یہاں علم و عمل اور سلوک و احسان کی شمع فروزاں کئے رکھی… جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقبولیت عامہ اور محبوبیت تامہ سے نوازا اور دور دور سے بندگانِ خدا کشاں کشاں آپ کی خدمت میں آنے لگے تو مجبوراً …۱۳۷۲ھ میں… بہلی سے شجاع آباد شہر منتقل ہونا پڑا، یوں ”جہاں شمع وہاں پروانہ“ کے مصداق وہاں بھی ہجومِ عاشقان ہونے لگا، انہیں عشاق میں سے ایک بزرگ صفت انسان جناب حاجی محمد حسین صاحب بھی تھے۔ حضرت اقدس حاجی محمد حسین صاحب شجاع آباد سے دس کلو میٹر دور ظریف شہید کی ایک پسماندہ بستی ککرے والا سے تعلق رکھتے تھے، موصوف اگرچہ معروف معنوں میں پڑھے لکھے نہیں تھے، مگر اطاعت وعبادت اور خدمت و خیر خواہی کے جذبہ سے مالا مال تھے۔ حضرت حاجی محمد حسین صاحب  سندیلہ برادری کے کاشت کار خاندان سے تعلق رکھتے تھے…آپ کے والد ماجد جناب صوفی فقیر محمد نیک، صالح، شب زندہ دار اور حضرت اقدس مولانا سیّد فضل علی قریشی  کے مسترشدین میں سے تھے… اسی طرح حضرت حاجی محمد حسین صاحب بھی شروع میں بیس سال تک حضرت قریشی  کی بارگاہِ سلوک و احسان سے وابستہ رہے، حضرت قریشی  کی رحلت کے بعد آپ حضرت بہلوی قدس سرہ سے وابستہ ہوگئے اور تادم آخر اسی چشمہ فیض سے وابستہ رہے، بلاشبہ آپ نہایت ہی سادہ مزاج، نیک طبیعت، ہنس مکھ، حرج کش، ذکر و تلاوت کے خوگر، متواضع اور منکسر المزاج انسان تھے۔ حضرت بہلوی قدس سرہ نے ذکر و تلقین کے ساتھ ساتھ آپ کو مدرسہ اشرف العلوم شجاع آباد اور خانقاہ کی خدمت پر مامور فرمادیا، نہ صرف یہی بلکہ مدرسہ اشرف العلوم کے مالیات کے امور بھی آپ کے حوالے فرما دیئے۔ چنانچہ میری معلومات کے مطابق مدرسہ کے فنڈ کی فراہمی اور مدرسہ کے مطبخ کی دیکھ بھال بھی حضرت بہلوی کی حیات اور ان کی رحلت کے بعد ایک عرصہ تک حضرت حاجی صاحب کے سپرد رہی۔ جب حضرت حاجی صاحب کی ہمت و قوت جواب دے گئی اور قویٰ مضمحل ہوگئے تو انہوں نے اس خدمت سے معذرت کرلی۔حضرت صوفی صاحب کے بقول پورے چالیس سال تک آپ حضرت بہلوی کی خدمت میں رہے اور سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت بہلوی قدس سرہ کے خلیفہ مجاز قرار پائے۔ گویا خلافت سے پہلے پورے ساٹھ سال تک آپ نے میدان سلوک و احسان کی دشت پیمائی کی۔ حضرت حاجی محمد حسین صاحب سفید تہہ بند، سفید کرتہ اور سفید عمامہ زیب تن فرماتے تھے، ہمہ وقت ذکر الٰہی سے رطب اللسان رہتے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب آپ اپنے شیخ کے مدرسہ کے فنڈ کے سلسلہ میں کراچی تشریف لاتے اور اس ناکارہ کو بھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے نوازتے، بارہا مشاہدہ کیا کہ آپ ہر وقت قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہتے۔ غالباً میں نے ان سے پوچھا یا انہوں نے کسی کو بتلایا کہ ابتدا میں تو روزانہ ایک بار مکمل قرآن کریم کی تلاوت ہو جایا کرتی تھی، اب دس پارہ روز کا معمول رہ گیا ہے، واہ! کیا نصیبے کی جائے ہے کہ تمام اذکار و اعمال اور مشاغل کے ساتھ ساتھ ایک ناظرہ خواں آدمی روزانہ دس پارے تلاوت کیا کرے ،کوئی معمولی بات نہیں۔ بلاشبہ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق اور قرآن کریم سے حد درجہ عشق و محبت ہو، دنیا جانتی ہے کہ حضرت حاجی صاحب کسی انداز سے بھی شیخ و پیر نہیں لگتے تھے، اور نہ ہی کبھی انہوں نے اپنے آپ کو بڑا یا بزرگ باور کرایا، وہ اول و آخر خادم تھے اور زندگی بھر خادم ہی رہے۔ حضرت بہلوی قدس سرہ کی رحلت …۱۳۹۸ھ… کے بعد بھی آپ نے اپنے شیخ زادوں کے ساتھ اسی محبت و تعلق کو نبھایا، بلاشبہ آپ حضرت بہلوی قدس سرہ کے قدیم خلفاء اور مجازین میں سے تھے، لیکن ان پر کسی قسم کی مشیخیت کا اثر نہیں تھا، البتہ جب ۲۷/ربیع الاول ۱۴۰۹ھ کو ہمارے مخدوم حضرت اقدس قاری شیر محمد قدس سرہ خلیفہ مجازحضرت بہلوی کی رحلت ہوئی اور حسن اتفاق سے ان کی تدفین بھی حضرت حاجی صاحب کی بستی میں ان کی اپنی زر خرید زمین میں ہوئی، تو حضرت قاری صاحب قدس سرہ کے پورے حلقہ کا رخ حضرت حاجی صاحب کی طرف ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حضرت حاجی صاحب کی طرف عوام و خواص اور علماء و صلحاء کا ایسا رجوع ہوا کہ آپ علاقہ بھر کی محبوب شخصیت قرار پائے۔ قرب و جوار ہی نہیں دور دراز کے متلاشیان حق اور سالکین طریقت کا سیلاب بھی امڈ آیا۔ چنانچہ ملتان، لودھراں، وہاڑی، خانیوال، سرگودھا، گوجرانوالہ، لاہور، مظفر گڑھ، لیہ، تونسہ، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی، حیدر آباد، سکھر، نواب شاہ، بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان اور سندھ کے دور دراز علاقوں، حتی کہ تھر کے فرزانے بھی کشاں کشاں حضرت حاجی صاحب کی بارگاہِ سلوک و احسان میں حاضری کو سعادت سمجھنے لگے۔ حضرت حاجی صاحب معروف معنی میں کسی کو نہ بیعت کرتے اور نہ ہی کسی کو اجازت و خلافت سے نوازتے، ہاں البتہ ان کے ہاں ماہانہ صوفیاء کا اصلاحی اجتماع ہوتا، تو جس کو مناسب سمجھتے، اس سے بیان کرادیتے، اور نقشبندی طرز کا مراقبہ کراتے اور تین دن تک خانقاہ میں اپنے پاس رکھ کر اس کے ذکر قلبی کو جاری کرنے کی کوشش کرتے۔ یہ ان کا خلوص و اخلاص تھا کہ وہ جس کے لطائف پر انگلی رکھتے، عموماً اس کا ذکر جاری ہوجاتا، یوں کچھ دن اپنے پاس رکھتے اور عموماً تین دن کے بعد نقشبندی اصطلاح کے مطابق اس کو سفارت کے طور پر ذکر و مراقبہ کرانے کی تلقین کرتے۔ اگرچہ ان کے اس انداز سے بہت سے اربابِ طریقت اور اصحابِ علم و فضل کو اشکال بھی ہوا اور بعض بہی خواہوں نے براہ راست اور بالواسطہ یہ درخواست بھی کی کہ :حضرت! آپ کے اس انداز سے بہت سے شہرت پسند، کم فہم اور کچے ذہن کے لوگ، اس کو خلافت سمجھیں گے اور وہ آپ کے نام کو غلط استعمال کریں گے، مگر وہ اپنے قلب صافی پر قیاس کرتے ہوئے کبھی کسی سے بدظن نہیں ہوئے اور انہوں نے کبھی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی نہیں کی، لیکن جب ان کو اس قسم کی مسلسل اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں اور ان کو اس کا یقین ہوگیا، تو انہوں نے بارہا اپنی خانقاہ میں اعلان کیا کہ: جب میں کسی کو بیعت نہیں کرتا تو کسی کو خلافت کیونکر دوں گا؟ دراصل حضرت حاجی صاحب کا ذوق و مزاج یہ تھا کہ بیعت و ارادت کے حلقہ میں داخل کرنا بڑے لوگوں کا کام ہے، اس لئے کہ وہ حضرات جب کسی کو بیعت کرتے تو بیعت و ارادت کے حقوق و فرائض بھی بجالاتے تھے، ہم لوگ چونکہ بیعت و ارادت کے اہل نہیں اور نہ ہی مریدین کی اصلاح کی ذمہ داری نبھاسکتے ہیں، اس لئے ہمیں کسی کو بیعت کرنے یا اس کو حلقہ میں داخل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی کسی کو بیعت نہیں کرتے تھے، ہاں البتہ ان کا فرمانا تھا کہ: قلب و لسان کے ذکر اور اس کی کثرت سے اعضاء و جوارح سے شیطانی تسلط ختم ہوجائے گا تو طاعت و عبادت میں سہولت و آسانی پیدا ہوجائے گی، اس لئے ان کی خانقاہ میں سب سے زیادہ توجہ ذکر و مراقبہ پر ہوتی اور ان کے وعظ و بیان یا تقریر و خطاب میں بھی اسی پر زیادہ زور ہوتا تھا کہ: ہڈی، گوشت اور دل و دماغ میں شیطان گھسا ہوا ہے، ذکر کرو اور اپنی ہڈی گوشت اور دل و دماغ سے شیطان کو نکالو، ایسا لگتا تھا کہ ان پر یہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح سب مسلمان ذکر الٰہی میں لگ جائیں۔ چنانچہ بارہا اس کا مشاہدہ ہوا کہ ان سے جو بھی ملا، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، عام ہو یا خاص، عالم ہو یا جاہل، پڑھا لکھا یا بے پڑھا، ملازم ہو یا تاجر، امیر ہو یا غریب سب کے سامنے ان کی یہی درخواست ہوتی کہ ذکر کیا کرو، کسی سے فرماتے! صرف تین دن دے دو تاکہ تمہارا ذکر جاری ہوجائے، پھر جس کو ذکر بتلاتے اس کو اس کی بھی تلقین فرماتے کہ روزانہ کم از کم دس آدمیوں کو ذکر بتلایا کرو، ان کی اسی دھن کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید یہاں جلدی خلافت مل جائے گی۔ چنانچہ مخلصین کے ساتھ ساتھ ان کے پاس کچھ ایسے لوگ بھی آنے لگے جو مسلک و مشرب کے اعتبار سے اہلِ حق کے عقیدہ حیات النبی کے قائل نہیں تھے، لیکن جب حاجی صاحب کو ایسے لوگوں کے عزائم و ارادوں اور عقائد و نظریات کا علم ہوا تو انہوں نے ایک بار نہیں، بارہا اپنی خانقاہ اور صوفیاء کے اجتماع میں اعلان کیا : ”میرا عقیدہ وہی ہے جو حضرت بہلوی اور اکابر دیوبند کا ہے، میرے حضرت بہلوی قدس سرہ نے حیات انبیاء کے عقیدہ پر کتاب لکھی ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ تمام انبیاء کرام اور خصوصاً سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں، اور جو ان کے روضہ اطہر پر جاکر سلام پیش کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں اور جو دور سے درود و سلام پڑھتا ہے، فرشتے اس کا صلوٰة وسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچاتے ہیں۔ جو شخص اس عقیدہ کا ہو، وہ میرے پاس آئے اور جو اس عقیدہ کا قائل نہ ہو وہ میرے پاس نہ آئے۔“ چنانچہ ان کے صاحبزادہ اور سفر و حضر کے خادم حافظ محمد قاسم صاحب نے بتلایا کہ جب حضرت حاجی صاحب کو اسی قسم کے ایک صاحب کے بارہ میں معلوم ہوا تو انہوں نے ان کو مراقبہ معیت محمدی کی تلقین فرمائی، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نکھر کر سامنے آجائے۔ غرض حضرت حاجی صاحب باوجود اس کے کہ مروجہ عالم نہ تھے، مگر حضرات اکابر اور خصوصاً حضرت بہلوی کی صحبت و تربیت کی برکت سے پکے دیوبندی تھے، چنانچہ ان کے اعلان و انداز سے ایسے تمام لوگ جو ردائے تکیہ میں چھپے ہوئے تھے، ایک ایک کرکے الگ ہوگئے۔ حضرت حاجی صاحب نے ماشاء اللہ طویل عمر پائی، چنانچہ اس وقت ان کی عمر مبارک لگ بھگ ایک سو پندرہ سال تھی، گویا آپ کی ولادت ۱۳۱۳ھ اور وفات ۱۴۲۸ھ میں ہوئی، یوں انہوں نے اپنی طویل عمر کو طاعات و عبادات میں صرف کرکے نہ صرف اپنے لئے طاعات و عبادات کا ذخیرہ جمع کیا، بلکہ سینکڑوں بندگانِ خدا کی ہدایت و راہ نمائی کا ذریعہ ثابت ہوئے، یقینا ان سب حضرات کی طاعات و حسنات اور نیکیوں میں بھی ان کا برابر کا حصہ ہے۔ حضرت حاجی صاحب نے بلا مبالغہ ہمیشہ زہد و تکشف کی زندگی گزاری، اب اس وقت جب کہ ان کی طرف مخلوقِ خدا کا رجوع تھا اور بڑے بڑے سیٹھ اور تاجر، ان کے حلقہ ارادت میں شامل تھے، اور ان کی خدمت کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتے تھے، مگر انہوں نے تادم آخر اپنا معیار زندگی بدلا اور نہ اس منصب کو حصول زر کا ذریعہ بنایا، ان کا رہن سہن آج بھی اسی طرح سادہ تھا، جس طرح اس سے پہلے تھا اور ان کے کمرہ میں آج بھی ایک چار پائی، ایک لوٹے اور ایک مصلیٰ کے علاوہ کچھ نہیں تھا، بلکہ صحیح معنی میں ان کے گھر اور ان کی رہائش گاہ میں کاشانہٴ نبوی کی سی سادگی، زہد و تکشف اور فقر و مسکنت کا راج تھا۔ جس طرح ان کی زندگی لائق اقتداء تھی، اسی طرح ان کی موت بھی لائق رشک تھی۔ چنانچہ حسب معمول اس سال بھی باوجود ضعف، کمزوری اور بیماری کے احباب و خدام کے ہمراہ حج پر تشریف لے گئے، حج پر روانگی کے موقع پر راقم الحروف کو معلوم ہوا کہ حضرت حاجی صاحب کراچی حاجی کیمپ میں تشریف فرما ہیں، تو راقم الحروف مخدومِ مکرم حضرت مولانا سعید احمد اوکاڑوی، برادرم محترم مولانا فخر الزمان، عزیز ان حافظ محمد حذیفہ سلمہ اور احمد حنظلہ سلمہ، کی معیت میں زیارت و دعا کی غرض سے حاضر ہوا، آپ اس وقت بھی نہایت ضعف و نقاہت اور علالت کا شکار تھے، حتی کہ بیٹھنے کے قابل بھی نہ تھے، مگر جب راقم الحروف کی حاضری کی اطلاع کی گئی تو اپنی حاجی کیمپ کی رہائش گاہ سے چل کر باہر تشریف لائے اور بہت ہی محبت و الفت سے نوازا، سلام و کلام اور مصافحہ کے بعد حسب معمول ذکر و مراقبہ کی اہمیت، عظمت اور ضرورت پر خوب پُرمغز نصیحت فرمائی، بلاشبہ ان سے رخصت ہونے کے بعد بہت شدت سے احساس ہوا کہ کاش! میں حضرت موصوف کی یہ تقریر و بیان کیسٹ کرکے محفوظ کرلیتا۔ چنانچہ جب راقم الحروف نے اپنی قساوتِ قلبی کی شکایت کی اور ذکر قلبی کے جاری ہونے کے لئے دعا اور دوا کی درخواست کی تو بہت ہی بشاشت سے انہوں نے میرے لطائف: قلب، روح، خفی، اخفی اور سر وغیرہ پر بھی انگلی رکھ کر ذکر جاری فرمانے کی کوشش فرمائی، مجھے اس کا فائدہ ہو یا نہ ہو؟ یہ میرا نصیب! مگر بہرحال انہوں نے اپنا فرض نبھایا اور رخصت کرتے وقت نہایت زور دے کر فرمایا: بھائی اللہ کی مخلوق کو نفس و شیطان سے بچانے کی فکر کرو ، اور ان کو ذکر و مراقبہ کی تلقین کرو، تم مولوی لوگ ہو، اس نعمت کو پھیلاؤ، اس میں بخل نہ کرو۔ غرض موصوف کو ایک دھن اور لگن تھی کہ کسی طرح مخلوق کو خالق سے جوڑ دیا جائے اور انہیں غفلت کی تاریکی سے نکال کر بیداری کے اجالوں سے روشناس کیا جائے۔ چنانچہ میں ان سے رخصت ہوا تو ایک عجیب خوشگوار تاثر تھا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سے کام لینا چاہتے ہیں تو اس میں صلاحیتیں بھی پیدا فرمادیتے ہیں۔ اس بار مکہ مکرمہ میں ا ن کی سرکاری رہائش بلڈنگ ۶۵۱۰ جرول میں تھی، بہت کوشش کی اور چاہا کہ ان سے ملاقات ہوجائے، مگر چونکہ میں خود ویل چیئر پر تھا اور جرول کا علاقہ بھی چڑھائی پر ہے، اس لئے وہاں کی حاضری، زیارت اور ملاقات سے، باوجود چاہت کے محروم رہا۔ ۳۱/دسمبر ۲۰۰۷ء پیر کے دن حج سے واپسی پر کراچی کے حالات خراب تھے تو موصوف ایئرپورٹ سے باہر نہیں آئے، بلکہ ایئرپورٹ سے ملتان کی فلائٹ سے شجاع آباد تشریف لے گئے، ۳۱/دسمبر ۲۰۰۷ء منگل کی رات گیارہ بجے گھر پہنچے، اعزہ و اقربأ، دوست، احباب اور متعلقین سے ملاقات ہوئی، منگل یکم جنوری ۲۰۰۸ء کا پورا دن اسی طرح گزر گیا، مگر سارا دن کسی قدر ضعف و کمزوری کا احساس رہا اور دردِ دل کی شکایت کا اظہار فرماتے رہے، شام کو حسب معمول منگل اور بدھ کی درمیانی رات بعد عشاء اپنے کمرے میں لیٹ گئے، چونکہ رات ڈیڑھ بجے تک بیداری کا معمول تھا، اس وقت سے جس صاحبزادے کی خدمت کی ذمہ داری تھی، اس کو جگایا گیا اور اس کو بتلایا گیا کہ آج حضرت موصوف مسلسل آرام میں ہیں، حتی کہ کروٹ تک نہیں لی۔ صاحبزادے حافظ محمد قاسم صاحب نے انہیں بیدار کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ رات دو بجے ہی احباب کو اس کی اطلاع کردی گئی، جہاں جہاں اطلاع پہنچی، خدام دیوانہ وار اپنے محسن و محبوب بزرگ و مربی کی آخری زیارت اور جنازہ میں شرکت کے لئے دوڑ پڑے، اگرچہ سردی کا زمانہ تھا اور ملکی حالات بھی کچھ اچھے نہیں تھے، دوسری جانب ریل گاڑیوں اور بسوں کا نظام درہم برہم اور ہوائی جہازوں پر رش تھا، لیکن بہرحال بدھ ۲/ جنوری ۲۰۰۸ء کو ظہر تک بستی ککرے والا میں انسانوں کا ایک سیلاب امڈ آیا تھا۔ جن میں علماء اور علماء کی کثرت تھی بطور خاص مسند نشین حضرت بہلوی، حضرت مولانا خواجہ عزیز احمد مدظلہ بھی تشریف فرماتھے۔ راقم الحروف نے بھی جنازہ میں شرکت کی بہت کوشش کی، مگر افسوس کہ جہاز کا ٹکٹ نہ مل سکا، اسی دن شام چار بجے نماز جنازہ ہوئی، حضرت مولانا محمد عابد صاحب استاذ حدیث و تفسیر جامعہ خیرالمدارس نے نماز جنازہ پڑھائی، اور ان کی وصیت اور زندگی کی خواہش کے مطابق حضرت اقدس قاری شیر محمد نقشبندی کے پہلو میں ان کی تدفین عمل میں آئی، یوں یہ ۱۱۵ سال کا تھکا ماندہ مسافر اپنی منزل کو پہنچ گیا۔ حضرت صوفی صاحب نے جس طرح زندگی بھر کسی کو خلافت نہیں دی اور ہر ایک کو مخلوقِ خدا کی خدمت پر مامور فرمائے رکھا، ٹھیک اسی طرح دنیا سے جاتے جاتے بھی انہوں نے اپنے بعد خانقاہ کا نظام جاری رکھنے کے لئے اپنے چند خدام کو شورائی نظام سے وابستہ فرمادیا، چنانچہ ان کے بعد ان کے خدام نے جناب پروفیسر غلام محمد کو امیر اور جناب ساجد حسین گردیزی اور صاحبزادہ حافظ محمد قاسم صاحب کو نائب امیر نامزد کرکے باقی احباب کو ان سے تعاون کرنے کی تلقین کی۔ حضرت حاجی صاحب نے اپنی حین حیات میں یہ بھی فرما دیا تھا کہ میرے رفقاء میں سے کوئی کسی کا پیر و مرید نہیں ہوگا بلکہ سب ہی خادم ہوں گے، حتی کہ اپنے بیٹے اور سفر و حضر کے خادم حافظ محمد قاسم صاحب کو بھی کسی قسم کی خلافت نہیں دی، بلکہ ان کو بھی فرمایا کہ دوسروں کی طرح مخلوقِ خدا کو ذکر بتلاؤ اور ان کی خدمت کرو۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاف و پسماندگان کو ان کی فکرو مشن کو جاری رکھنے کی توفیق بخشے اور ان کے قائم کردہ مدرسہ، اسکول اور خانقاہ کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقیات سے سرفراز فرمائے۔ ان کے ابنا جناب مولوی عبدالغفور، جناب عبدالرحیم، جناب حافظ محمود الحسن، جناب حافظ محمد قاسم اور جناب حافظ محمد طیب کو صبر جمیل نصیب فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی زندگی بھر کی کمی کوتاہیوں سے صَرفِ نظر فرماکر ان کو درجات عالیہ سے سرفراز فرمائے آمین۔ راقم الحروف بلاشبہ اس سانحہ کو ذاتی سانحہ سمجھتا ہے اور ان کے پسماندگان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ قارئین بینات سے درخواست ہے کہ حضرت مرحوم کو اپنی دعاؤں اور ایصالِ ثواب میں ضرور یاد رکھیں۔
اللّٰہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ وابدلہ داراً خیراً من دارہ واہلاً خیراً من اہلہ وادخلہ الجنة ۔آمین۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: پاکستان کیوں حاصل کیا گےا اوراب تک کیا ہوا؟
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter