Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

8 - 11
سیداحمدشہیداورتحریک جہاد
سید احمد شہید اور تحریکِ جہاد

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”من المؤمنین رجال صدقوا ما عاہدوا للہ علیہ فمنہم من قضیٰ نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا“۔ (الاحزاب:۳۳)
ترجمہ:․․․”ان ایمان والوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچ کرکے دکھا یا پھر ان میں کچھ وہ ہیں جو اپنی نذر پوری کرچکے اور کچھ وہ ہیں جو شہادت کے مشتاق ہیں اور انہوں نے ذرا سا بھی بدل نہیں کیا“ ۔ مجدد سرہندی اور مجدد دہلی کے فضل وکمال اور مجاہدہ : یہ سادات حسنی کا خاندان تھا‘ جس میں مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تعلیمات کا فیض آکر مل گیا تھا‘ اس خاندان کا آغاز شیخ الاسلام امیر کبیر قطب الدین مدنی سے ہوا‘ جنہوں نے ساتویں صدی ہجری کی ابتداء میں ہندوستان آکر جہاد کیا‘ اس خاندان کے آخری مورث سید علم اللہ ہیں جو عالم گیر کے زمانہ میں تھے اور حضرت مجدد الف ثانی کے مشہور خلیفہ اور جانشین حضرت سید آدم بنوری کے فیض سے مستفید اور مشرق کے دیار میں ان کے خلیفہ خاص تھے‘ اس خاندان کے ممتاز افراد مجدد دہلوی شاہ ولی اللہ کے فیض درس اور فیض صحبت سے سیراب تھے‘ اس طرح اس خاندان میں حضرت مجدد الف ثانی سرہندی اور مجدد شاہ ولی اللہ دہلوی کی برکتیں اور سعادتیں جمع ہوگئیں۔ تیرھویں صدی کا آغاز تھا کہ اس خاندان میں چودھویں کا چاند طلوع ہوا۔ یعنی ۱۲۰۱ھ میں مجاہد کبیر حضرت سید احمد شاہ شہید کی پیدائش ہوئی۔ چند سال کے بعد یہ مجاہدہ وعرفان‘ نفس کشی اور خدا شناس کا آفتاب بن گیا۔ رسول اللہ اکا ایک غیر فانی معجزہ یہ ہے کہ آپ اکے فیض کا چشمہ کبھی خشک نہیں ہونے پاتا‘ آپ ا کا نمونہ آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا‘ آپ کی امت کی ضرورتیں زیادہ دیر تک اٹکی نہیں رہتیں اور وہ اس طرح کہ آپ اکی مشعل نور سے براہ راست مسلسل طریقے پر سینکڑوں مشعلیں روشن ہوتی رہی ہیں اور قیامت تک ہوتی رہیں گی۔ جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اللہ کا کام بند نہیں ہوا‘ اللہ کا دین زندہ ہے‘ رسول اللہ ا کی پیروی ہرزمانے میں ممکن ہے اور انہیں کی وجہ سے خاتم النبیین کے بعد کسی نبی کی عملاً ضرورت نہیں۔ اسلام ایک دین ہے‘ اس کے لئے ایک خاص قسم کی اعتقادی‘ دینی‘ اخلاقی تربیت اور انقلاب کی ضرورت ہے۔ نیز بہت بڑے ایثار اور قربانی کی اور جان ومال کا ایثار بھی‘ اور اس کے خلاف ہرقسم کے خیالات ورجحانات اور ارادوں اورر خواہشوں کی قربانی بھی۔ اسلامی دعوت کے علمبرداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قدیم وجدید تمام مخالف مؤثرات ماحول اور مخالف ذہنی تربیت کے اثرات سے آزاد ہوچکے ہوں اور اس کے اصول ونظام پر پورا ایمان لاچکے ہوں اور ذہنی وعملی طور پر اس کے حلقہٴ بگوش ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں اللہ تعالیٰ دو شخصوں کو پیدا نہ کرتا اور ان سے دین کی دستگیری نہ فرماتا توہندوستان سے دین کا نام ونشان مٹ جاتا (یوں تو اللہ تعالیٰ اپنے دین کا نگہبان ہے۔ لیکن بظاہر ہندوستان کے مسلمانوں کے جلیل القدر محسن اور اسلام کے عظیم الشان پیشوا حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی  اور شیخ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی  ہیں۔ احیاء اسلام اور خدمت شرع کے تذکرے میں ان نائبانِ رسول اللہ  اور درویشوں کے ساتھ ایک دیندار بادشاہ محی الدین اورنگ زیب عالم گیر مرحوم کا نام بھی زبان پر آتا ہے۔ ”ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء․․․“ یہ بڑائی اللہ کی ہے دیتا ہے جس کو چاہے۔
سید احمد شہید کے ابتدائی حالات
آپ کی ولادت ۶/صفر ۱۲۰۱ھ -۱۷۸۶ء کو ہوئی۔
سلسلہٴ نسب:
سید احمد بن سید محمد عرفان بن سید محمد نور بن سید محمد ہدی بن سید علم اللہ بن سید محمد فضیل بن سید محمد معظم بن سید احمد بن قاضی سید محمد بن سید علاؤ الدین بن سید قطب الدین محمد ثانی بن سید صدر الدین ثانی بن سید زید الدین بن سید احمد بن سید علی بن سید قیام الدین بن سید صدر الدین بن قاضی سید رکن الدین بن امیر سید نظام الدین بن امیر کبیر سید قطب الدین محمد الحسنی الحسینی المدنی الکڑوی بن سید رشید الدین احمد مدنی بن سید یوسف بن سید عیسیٰ بن سید حسن بن سید ابی الحسن علی بن ابی جعفر محمد بن قاسم بن ابی محمد عبد اللہ بن سید حسن الاعور الجواد نقیب کوفہ بن سید محمد ثانی بن ابی محمد عبد اللہ الاشتر بن سید محمد صاحب النفس الزکیہ بن عبد المحض بن حسن مثنی بن امام حسن بن امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ۔ حسن مثنی کی شادی اپنے عم نامدار شہید کربلا کی صاحبزادی فاطمہ صغریٰ سے ہوئی تھی اس لئے اس خاندان کو حسنی حسینی کہا جاتا ہے۔
تعلیم
جب آپ کی عمر چار سال کی ہوئی تو شرفا کے دستور کے مطابق آپ مکتب میں بٹھائے گئے لیکن لوگوں نے تعجب سے دیکھا کہ آپ کی طبیعت خاندان کے اور لڑکوں اور اپنے ہم عمروں کے برخلاف علم کی طرف راغب نہیں‘ تین سال مکتب میں گذر گئے صرف قرآن مجید کی چند سورتیں یا د ہوسکیں اور مفرد ومرکب الفاظ لکھنا سیکھ سکے۔
آپ کے مشاغل
آپ کو بچپن میں کھیل کا بڑا شوق تھا‘ خصوصاً مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا۔ کبڈی بڑے شوق سے کھیلتے۔ اکثر لڑکوں کو دوگروہوں میں تقسیم کردیتے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے قلعہ پر حملہ کرتا اور فتح کرتا‘ اس طرح نادانستہ آپ کی جسمانی وفوجی تربیت کی جارہی تھی۔
آپ کی ورزش
اللہ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے‘ اس کے لئے اس کا سامان اور اس کا شوق پیدا کر دیتا ہے اور اس قسم کی تربیت فرماتا ہے۔ سید صاحب سے اللہ تعالیٰ نے جو کام لینا تھا‘ اس کے لئے جسمانی قوت وتربیت کی ضرورت تھی‘ چنانچہ آپ کو ابتداء سے بہت زیادہ توجہ اسی طرف تھی اور آپ کے بچپن کے کھیلوں میں بھی یہ چیز نمایاں تھی‘ سید عبد الرحمن مرحوم سپہ سالار افواج نواب وزیر الدولة مرحوم سید صاحب کے چھوٹے بھانجے تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی عادت تھی کہ سورج نکلنے کے گھنٹوں بعد تک ورزش اور کشتی میں مشغول رہتے۔ میں بچہ تھا‘ آپ کے بدن پر مٹی ملتا‘ یہاں تک کہ وہ مٹی خشک ہوکر جھڑجاتی‘ پیروں پر مجھے کھڑا کر کے پانچ سو ڈنٹ لگاتے پھر کچھ دیر ٹھہر کر پانچ سو اور لگائے۔
خدمت خلق
جب آپ سن بلوغ کو پہنچے تو آپ کو خدمت خلق کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ اچھے اچھے بزرگ اور خدا پرست انگشت بدنداں رہ گئے۔ ضعیفوں‘ اپاہجوں اور بیواؤں کے گھروں پر دونوں ہی وقت جاتے‘ ان کا حال پوچھتے اور کہتے: اگر لکڑی‘ پانی‘ آگ وغیرہ کی ضرورت ہو تو لے آؤں؟ وہ لوگ آپ ہی کے بزرگوں کے مرید اور خادم تھے۔ کہتے: میاں! کیوں گنہگار کرتے ہیں‘ ہم تو آپ اور آپ کے باپ دادا کے غلام ہیں‘ ہماری مجال ہے کہ ہم آپ سے کام لیں‘ آپ ان کو خدمت گزاری اور اعانت کی فضیلت اس طرح سناتے کہ وہ زار وقطار روتے۔اور باصرار ان کی ضرورتیں معلوم کرکے پوری کرتے‘ بازار سے ان کے لئے سوداسلف لاتے‘ لکڑی لادکر اور پانی بھر کر لاتے اور ان کی دعائیں لیتے اور کسی طرح سے اس کام سے سیری نہ ہوتی ۔
عبادات
اسی کے ساتھ آپ کو عبادت وذکر الٰہی کا بے حد ذوق تھا‘ رات کو تہجد گزاری اور دن کو خدمت گزاری اور تلاوت ‘دعا اورمناجات میں مشغول رہتے‘ قرآن مجید میں تدبر فرماتے رہتے اور یہی آپ کا مشغلہ تھا ۔
دہلی کا قیام اور حضرت شاہ عبد العزیز سے ملاقات:
آپ جوان ہو چکے تھے‘ والد کا انتقال ہوچکا تھا‘ حالات کا اقتضاء تھا کہ آپ ذمہ دارانہ زندگی میں قدم رکھیں اور تحصیل معاش کی فکر کریں۔ آپ کی عمر ۱۷‘۱۸ سال کی تھی کہ ۱۲۱۸ھ یا ۱۲۱۹ھ میں اپنے سات عزیزوں کے ساتھ لکھنؤ چلے گئے‘ لکھنؤ رائے بریلی سے انچاس میل کی مسافت پر ہے۔ لکھنؤ پہنچ کر سب ساتھی روز گار کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرنے لگے‘ دن بھر دوڑ دھوپ کرتے مگر بے کار تھا۔ خرچ بھی ختم ہورہا تھا اور اب دو وقت کھانے کے بھی لالے پڑ رہے تھے‘سوائے سید صاحب کے ہر شخص پریشان اور متفکر تھا‘ سید صاحب اپنے عزیزوں کو سمجھاتے رہے اور فرماتے۔ عزیزو! اس تلاش وجستجو اوراس تکلیف ومصیبت کے باوجود دنیا تمہیں نہیں ملتی‘ ایسی دنیا پر خاک ڈالو اور میرے ساتھ دہلی چلو اور شاہ عبدالعزیز کا وجود غنیمت سمجھو۔ لیکن آپ کے ساتھی دوسرے عالم میں تھے‘ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی‘ بلکہ ہنستے تھے۔ سید صاحب لکھنؤ سے دہلی پہنچ کر شاہ عبد العزیز  کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شاہ صاحب نے مصافحہ ومعانقہ فرمایا اور اپنے برابر بٹھایا اور دریافت کیا: کہاں سے تشریف لائے؟ آپ نے فرمایا: رائے بریلی سے‘ فرمایا: کس خاندان سے؟ کہا: وہاں کے سادات میں شمار ہے ۔ فرمایا: سید ابو سعید صاحب اورسید نعمان صاحب سے واقف ہیں؟ سید صاحب نے فرمایا: سید ابو سعید میرا نانا اور سید نعمان صاحب میرے حقیقی چچا ہیں۔ شاہ صاحب نے اٹھ کر دو بارہ مصافحہ ومعانقہ کیا اور پوچھا: کس غرض کے لئے اس طویل سفر کی تکلیف برداشت کی۔ سید صاحب نے جواب دیا: آپ کی ذات مبارک کو غنیمت سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی طلب کے لئے یہاں پہنچا۔ شاہ صاحب نے فرمایا: اللہ کا فضل اگر شامل حال ہے تو اپنے ”ددھیال اور ننھیال“ کی میراث تم کو مل جائے گی۔ اس وقت آپ نے ایک خادم کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا: سید صاحب کو بھائی مولوی عبد القادر صاحب کے ہاں پہنچا دو اور آپ کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے کر کہنا کہ اس عزیز مہمان کی قدر کریں اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کریں۔ ان کا مفصل حال ملاقات کے وقت بیان کروں گا۔ چنانچہ سید صاحب شاہ عبد القادر صاحب کی خدمت میں اکبر آبادی مسجد میں رہنے لگے۔ یہ بھی حسین اتفاق ہے کہ آپ کو اس مبارک خاندان کے دونوں بزرگوں سے استفادے کا موقعہ ملا۔ شاہ صاحب کو سید صاحب سے بڑی محبت تھی اور ایک روایت کے مطابق انہوں نے سید صاحب کی بعض ادائیں دیکھ کر شاہ عبد العزیز سے مانگ لیا تھا۔ آپ نے شاہ عبد القادر  سے کچھ پڑھنا بھی شروع کردیا تھا ۔ہر دو ممتاز علماء مولانا شاہ اسماعیل شہید اور مولانا عبد الحی صاحب کو لے کر حضرت سید صاحب ۱۸۲۰ء میں مشرقی اور جنوبی صوبہ جات کے دروہ پر روانہ ہوگئے‘ انگریز ڈبلیوہنر لکھتا ہے کہ:
”۱۸۲۰ء میں اس مجاہد نے آہستہ آہستہ اپنا سفر جنوب کی طرف شروع کیا اور ان کے مرید ان کی روحانی فضیلت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ادنیٰ ادنیٰ کام کو بخوبی سرانجام دیتے تھے اور صاحب جاہ اور علماء کے لئے عام خدمت گاروں کی طرح ان کی پالکی کے ساتھ ننگے پاؤں دوڑنا اپنے لئے فخر سمجھتے تھے۔پٹنہ میں ایک مستقل مرکز قائم کرنے کے بعد انہوں نے دریائے گنگاکے ساتھ ساتھ کلکتہ کی طرف کوچ کیا‘ راستے میں لوگوں کو سلسلہٴ مریدی میں داخل کرتے جاتے تھے۔ کلکتہ میں ان کے اردا گرد اس قدر ہجوم ہوگیا تھا کہ لوگوں کو مرید کرتے وقت اپنے ہاتھ پر بیعت کرانا ان کے لئے مشکل تھا۔ بالآخر انہیں پگڑی کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہر وہ شخص جو اس کے کسی حصے کو چھولے گا ان کا مرید ہوجائے گا“۔ (ہمارے ہندوستانی مسلمان ص:۱۴-۱۵ ڈبلیو ڈبلیو ہنئر)
حج کا عزم اور اس کی تبلیغ
اس سفر سے ہزاروں بلکہ لاکھوں بندگانِ خدا کی اصلاح ہوئی‘ ان کے اخلاق ‘ اعمال اور عقائد درست ہوئے‘ جہاد کی تلقین اور دعوت کے لئے زمین تیار ہوگئی ۔ پنجاب سے برابر خبریں ‘ مظالم کی آرہی تھیں‘ انگریز بھی مطمئن ہوکر اپنے مظالم کی کڑیاں اس زنجیر میں جس میں ہندوستانیوں کو باندھ رکھا تھا‘ بڑھا تا جارہا تھا۔ مگر چونکہ ہندوستان کے اہلِ ثروت فریضہٴ حج ادا کرنا چھوڑے ہوئے تھے‘ کیونکہ خشکی کے راستہ سے مکہ معظمہ جانا بہت ہی طویل مدت اور بہت زیادہ مشقت اور بہت زیادہ مصارف کا متقاضی اور طالب تھا‘ مختلف ممالک‘ افغانستان‘ ایران‘ عراق‘ نجد وغیرہ درمیان میں حائل تھے اور بحری راستہ سمندر کے تلاطم اور طوفان کی وجہ سے لوگوں کی ہمتوں کو پست کئے ہوئے تھا۔ سید صاحب نے ضروری سمجھا کہ فریضہ ٴ حج کی ادائیگی میں جو خوف اور کم ہمتی لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے‘ اس کو نکالا جائے اور اس کی ہمت پیدا کی جائے‘ چنانچہ ۱۸۲۲ء میں ایک بڑے قافلہ کے ساتھ آپ نے کلکتہ بندرگاہ سے عرب کا سفر کیا‘ شوال ۱۲۳۶ھ میں سفر حج کے لئے وطن سے روانگی ہوئی‘ راستہ میں مختلف مقامات پر جو گنگا کے کنارے پڑتے تھے ٹھہرتے اور تبلیغی خدمات انجام دیتے ہوئے کئی مہینہ کے بعد کلکتہ پہنچے‘ کلکتہ میں بھی تقریباً تین مہینے قیام کرنا پڑا‘ قافلہٴ حجاج کی تعداد اس قدر زیادہ ہوگئی تھی کہ گیارہ جہاز کرایہ کے لئے گئے۔ وطن سے روانہ ہوکر گیارہ مہینہ بعد یہ قافلہ بخیریت وعافیت مکہ معظمہ پہنچا۔ حج کرنے کے بعد مدینہ منورہ کو روانگی ہوئی اور وہاں تین ماہ سے کچھ زائد قیام کرنے کے بعد مکہ معظمہ کو واپس ہوئے۔ یکم ذیقعدہ ۱۲۳۸ھ مکہ معظمہ سے واپس ہوئے۔ حجاز میں کل قیام چودہ مہینہ رہا۔۲۹/ شعبان ۱۲۳۹ھ کو ایک سال نو ماہ کے بعد وطن عزیز میں داخل ہوئے ۔ (نقش حیات ص: ۴۳۰-۴۳۳ مولانا سید حسین احمد مدنی)
تحریک جہاد اور اس کے مقاصد
۲۹/ شعبان کو جب یہ قافلہٴ حج واپس وطن پہنچا تو سید صاحب ہمہ تن جہاد کی تیاریوں میں مشغول ہوگئے‘ لیکن شاہ عبد العزیز صاحب جن کی سرپرستی میں یہ تحریک منظم کی جارہی تھی‘ اللہ کو پیارے ہوچکے تھے اور سید صاحب کو یہ موقع نہیں مل سکا کہ حج سے واپسی کے بعد حاضر خدمت ہوکر اپنی جماعت کے حالات اور آئندہ کے بارے میں شاہ صاحب سے مناسب ہدایات حاصل کرسکتے‘ ورنہ اس سے پہلے سید صاحب کی ہر اصلاحی اور تبلیغی مہم کا آغاز دہلی سے ہوا۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ سید صاحب کی تحریک جہاد کے سرگرم ارکان مولانا عبد الحئ  ‘ مولانا شاہ محمد اسماعیل  اور مولانا محمد یوسف  پھلتی تھے‘ جن کی تحریر وتقریر اور عملی کوششوں سے یہ تحریک پروان چڑھی اور ہندوستان کے گوشے گوشے میں اس کا تعارف ہوا اور یہ تینوں حضرات خاندان ولی اللہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سید صاحب کی شہرت اور قبول عام کی ابتداء مولانا عبد الحئ اور شاہ اسماعیل  کی بیعت سے ہوئی تھی اور ان حضرات کی بیعت خود شاہ عبد العزیز کی ترغیب اور مشورے کا نتیجہ تھی‘ لہذا سید صاحب کی تحریک ِ جہاد کو استقلالِ امت اور احیاءِ دین کی اس تحریک سے الگ نہیں کیا جاسکتا جس کو حضرت شاہ ولی اللہ  نے شروع کیا تھا اور ۱۱۷۴ھ ۱۷۴۱ء میں نواب نجیب الدولہ کی وساطت سے احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں پانی پت کے تاریخی میدان میں مرہٹوں کا زور ختم کرکے دہلی کے اسلامی مرکز کو ان کے خطرات سے محفوظ کر لیا تھا‘ پھر اس تحریک کو حضرت شاہ عبد العزیز صاحب نے درس وتدریس اور وعظ وارشاد کے ذریعہ ملک کے گوشے گوشے میں پھیلادیا اور اپنے مشہور فتویٰ ”دار الحرب“ کی اشاعت سے ہجرت وجہاد کی اس تحریک کو جسے ان کے خاندان کے جگرگوشوں اور روحانی فرزندوں نے عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا تھا‘ مزید تقویت پہنچائی تھی‘ یہ تمام حقائق اس امر پر ہیں کہ یہ تحریک تاریخی تسلسل کے ساتھ لگاتار جاری رہی۔ (بریلی سے بالاکوٹ مصنف قمر احمد عثمانی ماخوذ ص:۱۱۹-۱۲۰)۔ سید صاحب کا اصل مقصد چونکہ ہندوستان سے انگریزی تسلط واقتدار کا قلع قمع کرنا تھا‘ جس کے باعث ہندو اور مسلمان دونوں پریشان تھے اس بناء پر آپ نے اپنے ساتھ ہندؤوں کو شرکت کی دعوت دی اور اس میں صاف صاف انہیں بتادیا کہ آپ کا واحد مقصد ملک سے پردیسی لوگوں کا اقتدار ختم کرنا ہے‘ چنانچہ اس سلسلہ میں سرحد سے ریاست گوالیار کے مدار المہام اور مہاراج دولت رائے سیندھیا کے وزیر برادر نسبتی راجہ ہندو راؤ کو آپ نے جو خط تحریر فرمایا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔فرمایا:
”جناب کو خوب معلوم ہے کہ یہ پردیسی‘ سمندر پار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور یہ سودا بیچنے والے تاجرسلطنت کے مالک بن گئے ہیں۔ بڑے بڑے امیروں کی امارت اور بڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اور ان کی عزت کو انہوں نے خاک میں ملا دیا ہے۔ جو حکومت وسیاست کے مرد میدان تھے‘ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں‘ اس لئے مجبوراً چند غریب وبے سرو سامان کمربستہ ہوگئے ہیں اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے‘ یہ اللہ کے بندے ہرگز دنیادار اور جاہ طلب نہیں ہیں‘ محض اللہ کے دین کے لئے اٹھے ہیں‘ جس وقت ہندوستان ان غیر ملکی دشمنوں سے خالی ہوجائے گا اور ہماری کوششوں کا تیر مراد کے نشانوں تک پہنچ جائے گا‘ حکومت کے عہدے اور منصب ان لوگوں کو ملیں گے جن کو ان کی طلب ہوگی اور ان حکام واہل ریاست کی شوکت وقوت کی بنیاد مستحکم ہوگی۔ ہم کمزوروں کو والیانِ ریاست اور بڑے بڑے سرداروں سے صرف اسی بات کی خواہش ہے کہ جان ودل سے اسلام کی خدمت کریں اور اپنی مسند حکومت پر برقرار رہیں“۔ (نقش حیات مصنف مولانا سید حسین احمد مدنی ص:۴۱۹ ج:۲‘ طبع دار الاشاعت کراچی)
پنجاب اور سرحد کے حالات اور سکھ
سکھ پنجاب کا ایک مذہبی گروہ تھا جس کی بنیاد پندرہویں صدی عیسوی میں گروبابا نانک کے ہاتھوں پڑی‘ وہ نفس کشی‘ اخلاقیات اور سچائی کی تعلیم دیتے تھے۔ سیر المتاخرین کے بیان کے مطابق بابانانک نے فارسی اور دینیات کی تعلیم ایک بزرگ سید حسین سے حاصل کی تھی اور ان کی بابا نانک پر خصوصی نظر تھی‘ بعض روایات کے مطابق بابا گرونانک متعدد مسلمان درویشوں اور فقیروں کی صحبت میں رہے‘ ان میں پیر جلال‘ میاں مٹھا‘ شاہ شرف الدین‘ پیر عبد الرحمن اور پاک پٹن کے فرید ثانی بعض روایات کے مطابق گرو نانک نے بغداد اور حرمین شریفین کا سفر بھی کیا۔ تیسرے گرو امر داس نے سکھوں کی مذہبی اور معاشرتی تنظیم کے سلسلہ میں سب سے پہلے قدم اٹھایا‘ اکبر بادشاہ ان کے مکان پر ان سے ملنے گیا اور انہیں ایک بڑی جاگیر عطا کی‘ انہوں نے اخلاقیات کی تعلیم میں گرو نانک کی تعلیمات کی روح کو قائم رکھا‘ انہیں کے زمانہ میں امرتسر کے مذہبی مرکز کی بنیاد پڑی‘ اس طرح سکھوں کی قومی زندگی کے لئے ایک روحانی مرکز تیار ہوگیا ۔۱۵۱۸ء میں گرو ارجن اپنے باپ کے جانشین ہوئے‘ انہوں نے سکھوں کو ایک فرقہ کی حیثیت سے منظم کرنے کی مزید کوشش کی۔ گرو ارجن نے اپنے آپ کو سچا بادشاہ کے نام سے ملقب کیا ‘جو ان کے سیاسی اقتدار کی ہوس کا پتہ دیتا ہے۔جہانگیر کے حکم سے گرو کو لاہور میں قید کردیا گیا‘ اس لئے کہ انہوں نے اس کے باغی شہزادہ خسرو کی مالی امداد کی تھی‘ وہاں ان کو قتل کردیا گیا‘ ان کے جانشین ہرگورندنے علانیہ عملی مدافعت ومزاحمت کا طرز عمل اختیار کیا‘ جس سے سکھوں کی فوجی زندگی کا آغاز ہوا۔ جہانگیر نے انہیں گوالیار کے قلعہ میں نظر بند کردیا‘ لیکن کچھ عرصہ بعد رہا کردیا گیا ۔ شاہ جہان کے تخت نشینی کے فوراً بعد انہوں نے کھلم کھلا سرکشی اختیار کردی‘ وہ پہاڑیوں کی طرف نکل گئے ‘ان کے انتقال کے بعد ۱۶۶۴ء میں اورنگ زیب کے زمانہ میں ہرگووند کے بیٹے تیخ بہادر گرو منتخب ہوئے‘ انہوں نے مفروروں اور قانون شکنوں کو پناہ دی‘ اورنگ زیب کے حکم سے ۱۶۷۵ء میں انہیں سزائے موت دی گئی‘ ان کے بعد ان کے بیٹے گووند رائے کو گرو تسلیم کیا گیا‘ انہوں نے سکھوں کو ایک جنگجو قوم بنادیا‘ اورنگ زیب کے جانشین بہادر شاہ نے انہیں دکن کی فوجی کمان عطا کردی‘ لیکن انہوں نے اکتوبر ۱۷۰۸ء میں ایک افغان ملازم کے زخم سے جانبر نہ ہوتے ہوئے انتقال کیا۔ ہرگووند رائے کا جانشین بندہ بیراگی ہوا‘ اس نے پنجاب میں وسیع پیمانے پر رہزنی کی وارداتیں شروع کردیں۔ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد سلطنت کو زوال آنا شروع ہوگیا‘ اس کے بیٹوں اور پوتوں کے مابین تخت کے لئے متواتر لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے‘ جن کی وجہ سے سکھوں کو کھلم کھلا اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کا موقع مل گیا۔ ۱۷۱۰ء میں اس نے سر ہند پر دھاوا بول دیا اور لوٹ مار اور قتل وغارت کے لئے کھلا چھوڑدیا‘ قصبہ کے باشندوں پر ہیبت ناک مظالم توڑے گئے‘ بالآخر ۱۷۱۶ء میں اسے دہلی لاکر قتل کردیاگیا‘ اس کی قیادت میں سکھ فوجی طاقت بن گئے۔سلطنت مغلیہ کی زوالی رفتار بہت تیز تھی‘ پنجاب کی حکومت احمد شاہ ابدالی کے پے درپے حملوں کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی۔ سکھوں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا‘ احمد شاہ درانی کے فرزند شاہزاد تیمور کو جو پنجاب کا حاکم تھا نکالنے میں کامیاب ہوئے ‘ بلکہ لاہور پر عارضی طور پر قبضہ بھی کرلیا‘ لیکن رگھوباکے زیرکمان مرہٹوں کی آمد ۱۷۵۸ء پر وہ لاہور سے نکل گئے۔ ۱۷۶۳ء میں سکھوں نے سرہند کو تخت وتاراج کرکے ویران کردیا ۔ایک بار پھر لاہور پر قبضہ کرکے حکومت کا اعلان کردیا‘ اس کے بعد سکھ متعدد ریاستوں اور گروہوں میں منقسم ہوگئے‘ ان پر کوئی حاکم اعلیٰ متعین نہیں تھا اور مذہب کے سوا ان کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ تیس سال کی اس غیر مستقل صورت حال کے بعد پنجاب میں رنجیت سنگھ کا ستارہٴ اقبال بلند ہوا‘ جنہوں نے ان مخالف گروہوں کو ایک مضبوط سلطنت کی شکل میں متحد کردیا۔ ۱۷۹۹ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور کو ان تین سرداروں سے چھین لیا جو اس پر حکومت کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے ایک ایک کرکے وہ تمام ریاستیں اور صوبے جو خود مختار سکھ سرداروں اور مسلمان حکمرانوں کے پاس تھے‘ فتح کرلئے “۔ (تاریخ دعوت وعزیمت ص:۲۸۱)
”ملتان کا ایک حصہ جمنا اور ستلج کے درمیان کا سب سے بڑا علاقہ سکھ رئیسوں اور سرداروں کے قبضہ میں تھا‘ جن مسلمان ریاستوں نے نذرانے سے انکار کیا اور مقابلہ کیا ان کو بے ترتیب نیم وحشی اور فتح کے نشے میں سرشار فوجوں کے ہاتھوں سخت ذلت وعذاب کا سامنا کرنا پڑا ۔ احمد خان رئیس جھنگ کی شکست کے بعد سکھوں نے شہر کولوٹ لیا اور تمام رعیت کو روٹی کے ٹکڑوں کا محتاج کردیا“۔ (تاریخ پنجاب اردو از رائے بہادر کنھیا لال ص:۱۷۰)
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: امام بخاری کے خلاف بدزبانی کرنے والوں کا انجام
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter