Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

6 - 11
چند گراں قدرمفید تفاسیر
چند گرا ں قدر مفید تفاسیر

مقدمہٴ ہذا کے اختتام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ طالبین علم وحق کے واسطے چند معتمد تفاسیر کے نام درج کردیئے جائیں جن کا مطالعہ کافی حد تک دیگر تفاسیر سے مستغنی کردیتاہے ‘ لیکن بہرحال یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ہرتفسیر کی اپنی ایک امتیازی خصوصیت ہوتی ہے جس میں کوئی دوسری تفسیر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اور دوسری تفسیر کے اہم گوشوں کا احصاء ایک ہی تفسیر میں ہونا کم ہی پایا گیا ہے ،اس لئے کہ ہلکی بارش کشادہ وادی میں کیونکر نفع مند ہوسکتی ہے اور گڑھے کا پانی لبا لب ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا کیا مقابلہ کرسکتاہے اور پھوار کو گرجتی برستی بارش سے کیا نسبت؟ ہر تفسیر ایسی امتیازی خصوصیات کی حامل ہے جو خصوصیات دیگر کسی تفسیر میں نہیں پائی جاتیں، اسی لئے اگر چہ متأخر عالم‘ متقدم کی تفسیری ابحاث کو ہی کیوں نہ نقل کرے‘ بلکہ ایک ہی کتاب کی تلخیص واختصار کرے، تب بھی اصل کتاب کی طرف مراجعت کے سوا چارہ کار نہ ہوگا، اس بات کی گواہی کے لئے ہمارے پاس قطعی تجربہ کافی ہے ،جب کہ ذوق سلیم بھی یہی کہتا ہے اور اس پر دلیل وبرہان بھی واضح ہے ،ہاں! سوائے چند کتابوں کے کہ ان میں فاضل مؤلفین نے وہ کمالات دکھلائے کہ اختصار وبسط اور اجمال وتفصیل میں چنداں فرق نظر نہیں آتا۔ ان تفاسیر میں تفاصیل وابحاث کا اختلاف کیسے نہ ہوگا؟ جبکہ اختلاف ِ آراء کا پایا جانا اور طبائع ومزاج کا آپس میں تباین وتناقض روزِ روشن سے زیادہ واضح ہے اور ہر شخص کی ضرورت دوسرے شخص سے مختلف ہوا کرتی ہے ، اسی طرح آراء ومزاج میں کلی طور پر اتفاق کم ہی ہوا کرتا ہے، کتنی چیزیں ہیں کوئی ان کا محتاج ہوتا ہے اور دوسرے اس سے مستغنی،بہت سے کلمات والفاظ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ایک مصنف ذکر کرتا ہے ،دوسرا ان کو لائق التفات ہی نہیں جانتا ،اس لئے جو شخص قرآنی علوم کی طرف اعتناء ورغبت رکھتا ہو اوراس میں بصیرت کاملہ اور حذاقت ومہارت کا خواہاں ہو اس کو ضروری ہے کہ جو تفسیر میسر ہو اس کا مطالعہ کرے ،اس لئے کہ بہرحال تفسیر کا موضوع تو عمدہ ترین موضوع ہے ،خاص طور پر وہ فوائد جو اسلاف محققین اور راسخ علمائے متقدمین نے تحریر فرمائے ہیں ،گوکہ وہ ایک سورت یا دو سوررتوں ہی کے متعلق ہوں‘ بلکہ ایک یا دو آیت ہی کے متعلق کیوں نہ ہوں اور اس کے لیے ان کی تفاسیر کے علاوہ دیگر علوم وفنون میں ان کی تحریر کردہ تصنیفات کا تتبع وتفحص کرے اور ان کو گم شدہ قابل قدر قیمتی شئ کے مانند ہرجگہ تلاش کرے ،اس لئے کہ قرآن کریم کی کتنی ہی مشکل مباحث ایسی ہوتی ہیں جنہیں ایک محقق ،کتب تفسیر کے علاوہ دیگر کتب میں ان کا حل پالیتا ہے اور جس جگہ امید بھی نہ ہو، وہاں ان مشکلات کو سمجھ لیتا ہے اوراس طرح کہ بکھرے ہوئے لعل وجواہر محققین اسلاف کی کئی کتب میں پائے جاتے ہیں ،جن میں درج ذیل نام سرفہرست ہیں:
۱- امام حجة الاسلام غزالی، متوفی ۵۰۵ ھ۔ ۲- حافظ ابن قیم، متوفی ۷۵۱ھ حافظ موصوف اس موضوع کے متعلق شہسوار ہیں، شاید ہی ان کی کوئی کتاب کسی آیت کی تفسیر سے خالی ہو۔ ۳- حافظ ابن تیمیہ الحرانی ،متوفی ۷۲۷ھ یہ حافظ ابن قیم کے استاذ اوربحر العلوم ہیں۔ ۴- شیخ ابو القاسم سید شریف مرتضی صاحب کتاب ”الامالی“ متوفی ۴۳۶ھ۔ ۵- محقق ومدقق وزیر یمانی  صاحب کتاب ”ایثار الحق علی الحلق“ ”العواصم والقواصم“ ”الروض الباسم“ موصوف ابن حجر عسقلانی کے معاصر ہیں۔ ۶- شیخ بہاء الدین سبکی ابن تقی الدین، موصوف ابن تیمیہ کے معاصر بزرگ ہیں، ان کی کتاب ”عروس الافراح“ مختلف آیات کی تفسیری مباحث کے متعلق ہے۔ ۷- امیر یحییٰ بن حمزہ یمنی نے ”الطراز“ میں کئی فوائد تحریر فرمائے ہیں اور یہ نویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں ،ان کے علاوہ دیگر کئی اکابرین امت وعلمائے ملت جن کے گرد امت کی چکی گھومتی ہے (گویا وہ اس کے قطب اور پاٹ ہیں) انہوں نے تفسیری فوائد بکھرے انداز میں اپنی کئی کتب میں تحریر فرمائے ہیں۔ کچھ عرصہ سے میں سوچ رہا تھا کہ اگر خدائے پاک کی توفیق شامل حال ہوئی تو یہ بکھرے موتی مذکورہ اکابرین علماء کی کتب سے جمع کرکے ان کو ایک لڑی میں پرو دوں، اس کا اظہار میں نے اس لئے کردیا، تاکہ توفیق والے اس اہم خدمت کے متعلق غور وفکر فرماویں‘ واللہ الموفق۔ چونکہ یہ موہوم زندگی بہت محدود ہے اور خواہشات لمبی ہیں‘ ہمتیں سست اور عزائم بوجھل ہیں ،خیالات وافکار کو خواہشات نے مختلف وادیوں میں بہادیا ہے اور کوششیں خاک ہورہی ہیں ،میں چاہتاہوں کہ عزیز طلباء کو ان مطبوعہ تفاسیر میں سے جو اہل علم حضرات کے ہاں مشہور اور رائج ہیں ،چند کے متعلق آگاہ کروں ،جو چاہے انہی پر قناعت کرے تو اس کو کافی ہوجائیں گی اور صرف انہی نہروں ا وردریاؤں سے پی لے تو سیراب ہوجائے گا اور ان شاء اللہ ان تفاسیر سے خوب سیراب ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اس کو دیگر تفاسیر سے مستغنی کردیں گی، اور یہ تفاسیر میرے نزدیک چار ہیں:
۱- تفسیر ابن کثیر:
یہ تفسیر حافظ عماد الدین ابن کثیر شافعی دمشقی متوفی ۷۷۴ھ جو علامہ ابن تیمیہ کے اجل تلامذہ میں سے ہیں کی تحریر کردہ تفسیر ہے ،یہ ”تفسیر ابن جریر“ سے مستفاد اورگویا اس کا مصفی ایڈیشن ہے، محدثین کی تفاسیر میں روایت ودرایت کے اعتبار سے کوئی اس تفسیر کے مقابل نہیں ، ہمارے حضرت شیخ امام العصر مولانا انور شاہ کشمیرینے فرمایا: اگرکوئی کتاب کسی دوسری کتاب سے مستغنی کرنے والی ہے تو وہ تفسیر ابن کثیر ہے جو تفسیر ابن جریر سے مستغنی کرنے والی ہے۔
۲- مفاتیح الغیب:
جو ”التفسیرالکبیر“ کے نام سے معروف ہے، یہ امام محقق فخر الدین ابن خطیب الرازی شافعی متوفی ۶۰۶ھ کی تفسیر ہے، ہمارے شیخ  فرماتے تھے کہ: میں نے مشکلات ِ قرآن میں سے کوئی مشکل ایسی نہ پائی مگر اس کا حل امام موصوف نے اس تفسیر میں فرمادیا ہے، اور یوں بھی کہا کرتے تھے کہ: امام موصوف حل مشکلات کے دریا میں غوطہ زنی کرتے ہیں اگرچہ بعض مشکلات کا وہ قابل اطمینان اور موجب قناعت حل پیش کرنے میں ظفریاب نہیں بھی ہوتے ہیں ،اوراسی طرح شیخ یوں بھی کہا کرتے تھے کہ: جو اس تفسیر کے متعلق کہا گیا ہے کہ ”فیہ کل شئ الا التفسیر“ جیساکہ صاحب ”الاتقان“ امام سیوطی نے نقل فرمایا ہے یہ اس تفسیر کی جلالت قدر اور علو منزلت کو گھٹانے کے واسطے ہے، شاید یہ قول اس شخص کا ہو جس کو لطائف ومعارف قرآنی سے دلچسپی نہیں اور صرف من گھڑت اقوال کی بہتات کردینا اس پر غالب ہے۔
۳- روح المعانی:
یہ تفسیر تیرھویں صدی ہجری کی عظیم القدر شخصیت مفتیٴ بغداداور اپنے وقت کے بہت بڑے عالم سید محمود آلوسی حنفی کی تحریر کردہ ہے ،اس کی گرانمایہ خصوصیات اور بلند پایہ محاسن دلوں کواپنی جانب کھینچتے ہیں۔ میرے نزدیک موادکی کثرت‘ واضح تعبیرات اورتحریر کی عمدگی میں مذکورہ تفسیر علامہ ابن حجر کی ”فتح الباری“ کے مانند ہے، لیکن چونکہ فتح الباری کلامِ مخلوق کی تشریح وتفصیل ہے، اس لئے اس نے صحیح بخاری کی شرح کی گراں ذمہ داری سے امت مرحومہ کو آزاد کردیا اورگویا صحیح بخاری کا حق ادا کردیا، جب کہ خدائے کریم کامبارک کلام اس بات سے بہت بالاوبرتر ہے کہ کوئی بشر اس کے حق کو کامل طور پر ادا کرسکے، اگرچہ اپنی ممکنہ ہمت وعنایت کلام اللہ کی شرح وتفسیر میں گذاردے۔
۴- ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم:
یہ حضرت شیخ ابو السعودحنفی‘ مفتیٴ سلطنت عثمانیہ‘ خطیب المفسرین‘ قاضی القضاة علامہ محمد بن محمد العمادی متوفی ۹۵۱ھ کی بلندپایہ تفسیر ہے جو نظم قرآنی کے اغراض ومقاصد کو بہترین پیرائے اور عجیب طرز تصویر سے نہایت خوش اسلوبی سے آشکارا کرتی ہے نیز امام زمخشری کی ”الکشاف“ کی بہت سی خصوصیات سے مستغنی کرنے والی ہے۔ یہ چار کتب تفسیرہوئیں، جن میں دو شافعی المسلک علماء کی ،جب کہ دو حنفی علماء کی تحریر کردہ ہیں اور جس مفسر کو فرصت نہ ہو امید ہے کہ وہ ان چاروں تفاسیر سے استفادہ کرنے کے بعد دیگر سے مستغنی ہوجائے گا ۔ جو شخص جدید علوم وفنون کے متعلق معلومات کا شائق ہو اور قدرت کے تخلیقی کارناموں‘ تکوینی غرائبات اور کائنات کے پھیلے نظام کی باریکیوں کو جاننے کا خواہشمند ہو ،وہ ان مذکورہ تفاسیر کے ساتھ علامہ جوہری طنطاوی کی ”جواہر القرآن الکریم“ کو بھی زیر مطالعہ رکھے‘ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ نقد حدیث کے متعلق ان کی رائے پر اعتماد مناسب نہیں ہے ،اس لئے کہ و ہ محض اپنی رائے پر اعتماد رکھتے ہوئے شرائط نقد کو ملحوظ رکھے بغیر تنقید کرتے ہیں، یہ بات ہم نے اپنے شیخ حضرت شاہ انور شاہ کشمیری سے سنی ہے۔ اور جو عصری اسلوب کے مطابق قرآنی اغراض ومقاصد کی راہنمائی کا خواہاں ہو ،وہ علامہ سید رشید رضا کی تفسیر ”المنار“ کو بھی مذکورہ تفاسیر میں ضم کرلے ،مگر یہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ ان کے تمام مزعومات وآراء پر اعتماد مناسب نہیں ہے اور بیشک یہ تفسیر بھی چند مقامات پر جہاں مؤلف مذکور کے شیخ یا خود ان کے قلم نے مسلک حق کے متعلق بے اعتدالیاں برتی ہیں، ان پر تنبیہات ذکر کی جاویں ۔ خلاصہٴ بحث یہ ہے کہ ان دونوں تفاسیر ”الجواہر“ اور ”المنار“ کے قابل اعتراض مقامات کے علاوہ یہ دونوں تفاسیر اپنے فوائد کے بارے میں نفع سے خالی نہیں اور ان سے استفادہ کرنے والے کو اس وقت صاحب حماسہ ابو تمام کا یہ شعر پیش رکھنا بہت مفید ہوگا۔
ولایغرنک صفوانت شاربہ فربما کان بالتکدیر ممتزجاً
ترجمہ :۔”تمہیں صاف پانی کا پینا دھوکہ میں غافل نہ کردے بسااوقات یہ صاف پانی بھی گدلے پانی سے مخلوط ہوتا ہے۔“ اسی طرح یہ شعر بھی لائق اعتناء ہے:
قدرلرجلک قبل الخطو موضعہا فمن علا زلقاً عن غرہ زلجا
ترجمہ :۔”اپنے پیر پڑنے کی جگہ کو قدم رکھنے سے قبل خوب اچھی طرح جانچ لو اس لئے کہ جو غفلت میں پھسلن پر پڑگیا تو پھسل جائے گا۔“
جو مفسر ان مذکورہ تفاسیر سے بھی مختصر تفسیرچاہتا ہو تو وہ شیخ محقق نیسابوری کی ”غرائب الفرقان“ اور تفسیر ابو السعود (جس کا گذشتہ سطور میں ذکر ہوا )کودیکھے ،اول الذکر تفسیرکبیر امام رازی (جس کا ذکر کیا جاچکا ہے)کا بہترین خلاصہ ہے اور چند مزید فوائد کا اس میں اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ عدیم الفرصت شخص کے لیے قرآنی مفاہیم کو سمجھنے میں یہ دونوں تفاسیر کافی ہوجائیں گی یا پھر تفسیر ابن کثیر اور الکشاف دیکھ لے اور جو شخص صرف ایک ہی تفسیر پر قناعت کرنا چاہے تو اگرچہ وہ کچھ شمار میں بھی نہ آوے گی اور گویا بہتی ہوئی نہر میں سے نہایت قلیل پانی ہے تو اگر وہ مبسوط تفسیر چاہتا ہے تو ”روح المعانی“ کا مطالعہ کرے ،کیونکہ علامہ آلوسی روایات کا خلاصہ ونچوڑ بیان کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ بلاغت ودرایت کے متعلق بھی ابحاث ذکر فرماتے ہیں اور اگر وہ اس ایک تفسیر سے بھی مختصرچاہتا ہے تو وہ شیخ عارف عبد الرحمن ثعلبی جزائر کی ”الجواہر الحسان“ کا مطالعہ کرے ،یہ تفسیر مختصر بھی ہے اور انتہائی نفع مند بھی، اور اس میں علامہ  نے نہایت خوش اسلوبی سے ابن عطیہ کی تفسیر کی تلخیص فرمائی ہے اور مختلف علوم سے متعلق تقریباً سو سے زائد کتابوں سے حاصل فوائد کا اضافہ کیا ہے۔ یہ کل آٹھ تفاسیر ہوئیں، جو چاہے اس سے زائد کابھی مطالعہ کرلے، اس لئے کہ یہ موضوع تو پورا ہی خیر سے بھر پور ہے اور جس کسی کو ہندی اردو زبان میں نظم قرآنی کی سمجھ حاصل کرنی ہو اور اردو بھی دلنشین اسلوب اور فصیح ترین تعبیرات سے مزین ہوتو وہ ہمارے حضرت شیخ المشائخ مولانا محمود حسن دیوبندی متوفی ۱۳۳۹ھ (جو شیخ الہند کے نام سے مشہور ہیں)کا ترجمہ جس پر ہمارے حضرت شیخ محقق العصر مولانا شبیر احمد عثمانی کے تحریر کردہ تفسیری فوائد ہیں کا مطالعہ کرلے ،اس لئے کہ ان دونوں حضرات نے نظم قرآنی کے مقاصد واغراض کو عجیب پیرائے میں سمجھایا ہے کہ گویا سارے فوائد قیمتی لعل وجواہر اور قابل قدر ورفعت گرانمایہ موتی ہیں، اور کبھی کبھار ان ضخیم جلدوں اور اس بھرپور تفسیری موادسے بھی وہ مشکل گرہیں نہیں کھلتیں، جس کو آپ ان فوائد کی مختصر عبارات اور لطیف اشارائے میں واضح پائیں گے۔ اللہ کریم ان حضرات کو ان کی محنتوں کا صلہ عطا فرمائے،آمین۔ ان تفسیری فوائد سے فضلائے زمانہ تک مستغنی نہیں، چہ جائیکہ طلباء کرام اپنی طالب علمی کے دور میں اس سے روگردانی کریں، عربی تفاسیر میں سے بھی کوئی تفسیر ان فوائد کے قائم مقام یا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ،میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ: بقیہ تفاسیر سے یہ تفسیری فوائد مستغنی کرتے ہیں ،بلکہ کہنے کا مقصدیہ ہے کہ جس طرح دیگر تفاسیر سے یہ فوائد مستغنی نہیں کرسکتے، اسی طرح دیگر تفاسیر بھی ان سے مستغنی نہیں کرسکتی۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: مسواک کی اہمیت و فضیلت
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter