Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

5 - 11
مسواک کی اہمیت و فضیلت
مسواک کی اہمیت وفضیلت احادیث کی روشنی میں (۴)

مسواک انسان کی فصاحت بڑھاتی ہے۔
۴۱:․․․”عن أبی ھریرة رضی اللہ عنہ مرفوعاً : السواک یزید الرجل فصاحة۔ رواہ العقیلی فی الضعفاء و ابن عدی والخطیب فی الجامع کما فی الکنز ( ۵۔۷۵) برقم (۱۵۳۵)
ترجمہ:․․․” حضرت ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کی مر فو ع رو ایت ہے کہ مسو اک آد می کی فصا حت کو بڑ ھا تی ہے۔ مسواک کی وجہ سے زبان کی صفائی حاصل ہوتی ہے، گندگی اور رطوبت فاسدہ کا اخراج ہوتا ہے اور تمام رگوں کی حرکت طبعیہ اعتدال پر قائم رہتی ہے جس سے فصاحت لسانی کو قوت اور طاقت ملتی ہے“۔
مسواک قوت حافظہ کو بڑھاتی ہے
۴۲:․․․”عن علی رضی اللہ عنہ قال: السواک یزید فی الحفظ ویذھب البلغم“۔ (اتحاف السادة ص ۔ ۳۴۹)
ترجمہ:․․․” حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ مسواک قوت حافظہ کو بڑھاتی ہے اور بلغم کو دور کرتی ہے“۔ متعدد روایات و آثار میں مسواک کے بکثرت فوائد و تاثیر کا ذکر ہے‘ ان میں قوت حافظہ کا اضافہ ہونا بھی ہے، حکیم ترمذی نے بھی نوادر الاصول میں ذکر کیا ہے کہ مسواک قوت حافظہ کو بڑھاتی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی وہ روایت جس میں مسواک کے دس فوائد کا ذکر ہے‘ ان میں سے ایک بلغم کو دور کرنا بھی ہے اور طبی اعتبار سے بلغم حافظہ کے لئے نقصان دہ ہے، لہٰذا بلغم کا قطع کرنا قوت حفظ کا باعث ہو گا۔ حضرت ابراھیم نخعی ر حمة اللہ علیہ جو مشہور جلیل القدر تابعی ہیں اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ  کے خاص اساتذہ میں سے ہیں‘ ان کے متعلق منقول ہے کہ وہ جو کچھ پڑھتے تھے سب بھول جاتے تھے ، ایک رات انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ ! جو پڑھتا ہوں بھول جاتا ہوں‘ یا د نہیں رہتا۔آپ نے فرمایا ان چیزوں کی پابندی کرو: کم کھاؤ ، کم سوؤ، قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کرو، کثرت سے نماز پڑھو، ہر نماز کے واسطے نیا وضو کرو، اور ہر وضو میں مسواک کرو۔ ابراھیم نخعی کا بیان ہے کہ جب میں نیند سے بیدار ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت پر عمل کیا تو میں تھوڑی ہی مدت میں لوگوں کا پیشوا بن گیا۔ ( صلاة مسعودی ص۱۰۶) مسواک باعث شفاء ہے
۴۳:․․․”عن عائشة رضی اللہ عنہا مرفوعاً : السواک شفاء من کل داء إلاالسام ،والسام الموت“ ۔ ( رواہ الدیلمی کما فی الکنز۵۔۷۵، برقم (۱۵۳۷)
ترجمہ:․․․” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً منقول ہے کہ مسواک موت کے سوا ہر بیماری کے لئے شفاء ہے“۔ جب انسان کامنہ بد بو دار ہو جاتا ہے، تو جو لقمہ وہ چباتا ہے لقمہ کے ساتھ بدبو اور فاسد مادہ شامل ہو جا تا ہے ۔ جب وہ لقمہ اندر جاتا ہے تو طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرتا ہے ۔ جب منہ صاف اور پاکیزہ ہوتا ہے تو یہ صورت نہیں ہوتی اور آدمی کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے ،تو معلوم ہوا کہ مسواک منہ کی پاکیزگی اور صفائی کا ذریعہ اور سبب ہونے کے ساتھ سا تھ انسان کو کئی خطرناک بیماریوں سے بھی بچاتی ہے۔
سنت مسواک کی برکت سے میدان جنگ میں کامیابی
حضرت عبداللہ بن مبارک مروزی رحمة اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے تین حصے کئے تھے۔ ایک سال حج کو جاتے اور ایک سال غزوہ میں تشریف لیجاتے ، اور ایک سال علم دین کا درس دیتے تھے، ایک مرتبہ غزوہ میں تشریف لے گئے، وہاں کفار کا قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا تو آپ رات کو اس فکر میں سو گئے، خواب میں دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں ” اے عبداللہ کس فکر میں ہو“ عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ قلعہ فتح نہیں ہو رہا ہے‘ اس فکر میں ہوں۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وضو مسواک کے ساتھ کیا کرو، عبداللہ بن مبارک خواب سے بیدار ہوئے، مسواک کے ساتھ وضو کیا اور نمازیوں کو بھی مسو اک کاحکم دیا ، قلعہ کے نگرانو ں نے قلعہ کے اوپر سے غازیوں کو مسواک کرتے دیکھا ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایک خوف ڈال دیا، وہ نیچے گئے اور قلعہ کے سرداروں سے کہا کہ یہ فوج جو آئی ہے یہ لوگ آدم خور معلوم ہوتے ہیں، دانتوں کو تیز کر رہے ہیں تاکہ ہم پر فتح پاکر ہمیں کھائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ دہشت ان کے دلوں میں بٹھا دی اور مسلمانوں کے پاس قاصد بھیجا کہ تم مال چاہتے ہو یا جان ؟ عبداللہ بن مبارک نے فرمایا: نہ مال چاہیے نہ جان، تم سب اسلام قبول کر لو تو چھٹکارہ پا لو گے، اس سنت کی برکت سے وہ سب مسلمان ہو گئے۔“ (فضائل مسواک) دیکھئے ایک سنت کے ترک کرنے سے قلعہ فتح نہیں ہورہا تھا۔ اللہ کی مدد اور نصرت رک گئی تھی ، آج ہم نہ معلوم کتنے فرائض و سنت کو چھوڑے ہوئے ہیں، ہماری مدد اور نصرت کیسے ہو گی؟ ہماری فتح اور کامیابی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے طریقوں اور سنتوں میں ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی کھوئی ہوئی شوکت و غلبہ بحال ہو تو اس کے لئے ہمیں آپ کی ایک ایک سنت کو اپنانا ہو گا۔
مسو اک کی برکت
شیخ احمد بن محمو د الدیب فرما تے ہیں کہ میر ی ملا قات ایک صا حب سے ہو ئی ،انہو ں بتا یا کہ وہ پہلے عیسا ئی تھے ، اب مسلما ن ہو گئے ہیں ، میں نے ان سے پو چھا : آ پ مسلما ن کیسے ہو ئے ! انہو ں نے بتا یا : میں دانتو ں اور مسو ڑھوں کے خطر نا ک اور لا علا ج مر ض میں مبتلا تھا ، بہت سے ڈاکٹروں سے علا ج کر ا تے کر اتے تھک چکا تھا ، کسی کے علا ج سے افا قہ نہ ہو ا۔ آ خر امر یکا میں بڑ ے بڑ ے ڈاکٹرو ں کا بور ڈ بیٹھا ، میں چونکہ امریکہ کا معز ز شہری تھا ،اس لئے انہو ں نے بہت تو جہ سے میر ا معا ئنہ کیا ، پھر ایک نسخہ تجو یز کیا ، اس نسخہ کے مطا بق میں نے دوائیں خر ید یں اور گھر کی طرف رو انہ ہو ا ، راستہ میں ایک مسلما ن دو ست اپنی گا ڑی میں ملا ، ہم دو نو ں نے گا ڑیا ں رو ک لیں ۔ اتر کر ایک دوسر ے سے ملے ، اس نے بتا یا کہ میر ے کچھ دوست آ ئے ہو ئے ہیں‘ آ ئیے آ پ کو ان سے ملو ا تا ہو ں ، اس کے دوستو ں کا تعلق تبلیغی جما عت سے تھا‘ وہ تبلیغ کی غر ض سے آ ئے تھے ۔ میں ان سے ملا ، اتنے میں ان سب نے لکڑ یا ں نکا ل لیں اور ان کو دانتو ں پر ملنے لگے ، پھر انہوں نے اپنے ہا تھ منہ دھو ئے اور اپنی عبا دت میں مصروف ہو گئے ۔ جب وہ فارغ ہو ئے تو میں نے ان سے لکڑ یو ں کے بارے میں پو چھا ، انہو ں نے بتا یا ۔ یہ مسواک ہے ۔ انہو ں نے اس کے فا ئد ے گنو ائے ، ایک مسو اک مجھے بھی دی ، استعما ل کر نے کا طر یقہ بتایا ، میر ادل ان کی طر ف کھینچنے لگا ، میں نے ان کے سا تھ کچھ وقت گذ ار نے کا فیصلہ کیا ، میں ان کے سا تھ مسو اک کرتار ہا، اس طرح آ ٹھ دن گذر گئے ، آ ٹھ دن بعد میں نے محسوس کیا کہ میر ے مر ض میں بہت حدتک کمی واقع ہو چکی ہے ، میں حیر ان ہو ئے بغیر نہ رہ سکا‘ پھر میں نے ان ڈاکٹر حضرات سے ملا قات کی‘ اپنے دانت انہیں دکھائے‘ وہ بھی بہت حیر ان ہو ئے ،انہو ں نے خیا ل کیا کہ یہ ان دو ا وٴ ں کے ذریعہ ہو اہے جو انہو ں نے نسخے میں لکھی تھیں ، لیکن جب میں نے وہ تما م دوائیں نکا ل کر ان کے سا منے رکھیں اور بتا یا کہ میں نے انہیں قطعا استعما ل نہیں کیا تو وہ اور زیا دہ حیر ان ہو ئے‘ تب میں نے مسو اک انہیں دکھا ئی اور اس کے بار ے میں بتا یا ، اس کے بعد انہو ں نے مسواک پر تحقیقا ت شر وع کیں ، آ خر انہو ں نے یہ بات تسلیم کی کہ دانتو ں کے لئے جو فا ئد ے مسو اک کر نے میں ہیں وہ دو اوٴں میں نہیں ۔
نماز جمعہ اور مسواک
۴۴:․․․ ”عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : إن ھذا یوم عید جعلہ اللہ للمسلمین ، فمن جاء إلی الجمعة فلیغتسل، وإن کان طیب فلیمس منہ ، وعلیکم بالسواک“۔ ( اخرجہ ابن ماجة ‘ ص۔۷۷)
ترجمہ:․․․” حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ عید کا دن ہے (یعنی جمعہ کا دن) اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلمانوں کے لئے مقرر کیا ہے ، جو کوئی جمعہ کے لئے آئے وہ غسل کرے، اگر خوشبو ہو تو استعمال کرے اور تمہارے اوپر مسواک لازم ہے“۔
۴۵:․․․”عن عبداللہ بن عمر و بن حلحلة و رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما قالا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : غسل یوم الجمعة واجب علی کل محتلم، والسواک“۔ الاصابة(۲۔۳۴۲)
ترجمہ:․․․” حضرت عبداللہ بن عمرو بن حلحلہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ جمعہ کے دن غسل کرنا اور مسواک کرنا ہر بالغ پر لازم ہے“۔
۴۶:․․․”عن أبی سعید رضی اللہ عنہ قال: أشہد علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: الغسل یوم الجمعة واجب علی کل محتلم ، وأن یستن وأن یمس طیبا إن وجد“۔ (اخر جہ احمد ‘ ۳۔ ۳۰)
ترجمہ:․․․․” حضرت ابو سعیدفرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بالغ پر جمعہ کے دن غسل واجب ہے اور یہ کہ مسواک کرے اور خوشبو لگائے اگر میسر ہے“۔
۴۷:․․․” عن أبی ھریرة رضی اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: فی جمعة من الجمع : معاشر المسلمین! إن ھذا یوم جعلہ اللہ لکم عیداً فاغتسلوا ، وعلیکم بالسواک“۔ رواہ الطبرانی فی الصغیر (ص۔ ۷۲)
ترجمہ:․․․․” حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جمعہ میں ارشاد فرمایا: مسلمانوں ! اللہ تعالی ٰ نے تمہارے لئے اس دن کو بطور عید کے مقرر کیا ہے ، پس غسل کرو اور تمہارے ذمہ مسواک لازم ہے“۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت جو شرح معانی الآثار میں ہے، اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو جمعہ کے دن غسل کرتا ہے ، مسواک کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے، خوشبو لگاتا ہے ، پھر مسجد آتا ہے اور سلام کرتا ہے اور لوگوں کی گردنوں کو نہیں پھلانگتا ،اور نماز پڑھتا ہے اور جب امام نکلتا ہے خطبہ کیلئے تو خاموش ہو جاتا ہے، تو اس کے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک تمام گناہ( صغیرہ )معاف ہو جاتے ہیں۔ ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ جمعہ کے دن چونکہ مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے تو خصوصیت سے مسواک کا اہتمام کرنا چاہیے‘ تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو ، مگر افسوس آج ہم اتنی عظیم سنت کو بھلا چکے ہیں ،اچھے کپڑے زیب تن کرنے کا تو اہتمام ہوتا ہے مگر اس عظیم سنت کا اہتمام نہیں ہوتا۔
روزہ دار کے لئے مسواک
۴۸:․․․”عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من خیر خصال الصائم السواک“۔ ( اخرجہ ابن ماجة ‘ ص ۔ ۳۱)
ترجمہ:․․․” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ دار کی اچھی صفت مسواک کرنا ہے“۔
۴۹:․․․”عن عامر بن ربیعة رضی اللہ عنہ قال: ما أحصی أوقال: ما أکثر مارأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یستاک وھو صائم“۔ (اخرجہ البخاری معلقا ‘۱۔۲۵۹)
ترجمہ:․․․․” حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا ،یا یہ فرمایا کہ کثرت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں مسواک کیا کرتے تھے“۔
روزہ کی حالت میں ہر وقت مسواک کی اجازت
۵۰:․․․”عن عبدالرحمن بن غنم قال: سألت معاذ بن جبل: أتسوک وآنا صائم ؟ قال : نعم، قلت: أی النہار أتسوک ؟ قال: أی النہار شئت غدوة أو عشیة ، قلت: إن الناس یکرھونہ عشیة ویقولون: إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لخلوف الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسک فقال: سبحان اللہ ! لقد أمرھم بالسواک وھو یعلم أنہ لابد أن یکون بفم الصائم خلوف وإن استاک ،و ماکان الذی یأمرھم أن ینتنوا أفواھم عمداً ما فی ذلک من خیر شیٴ بل فیہ شرالامن ابتلی ببلاء لایجد منہ بد“۔ (نصب الرایة ‘ ۲۔ ۴۵۹)
ترجمہ:․․․” حضرت عبدالرحمن بن غنم سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا میں روزے کی حالت میں مسواک کر سکتا ہوں؟ فرمایا جی ہاں، میں نے عرض کیا، کس وقت ؟فرمایا دن کے کسی بھی وقت صبح ہو یا شام ، میں نے کہا لوگ شام کے وقت مسواک کرنے کونا پسند کرتے ہیں اور بطور دلیل کے کہتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ کے یہاں مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے ، انہوں نے فرمایا سبحان اللہ ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کا حکم دیا اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ روزے دار کے منہ میں خوشبو ضرور رہتی ہے اگرچہ مسواک کرے، اور اس بات کا حکم نہیں دیتے تھے کہ قصداً منہ کو بدبودار رکھے، اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے، بلکہ اس میں قباحت ہے مگر یہ کہ آدمی کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو اور بات ہے“۔
۵۱:․․․”عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یستاک آخر النہار وھو الصائم“ ۔ (اخرجہ الدارمی ‘۱۔۲۴۸)
ترجمہ:․․․” حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے آخری حصہ میں مسواک کیا کرتے تھے اور وہ روزے سے ہوتے تھے“۔ ان روایات مبارکہ سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ روزے کی حالت میں کسی بھی وقت مسواک کرسکتے ہیں ،روزے دار کے منہ کی بو جو اللہ کے یہاں مشک سے زیادہ محبوب ہے یہ دراصل وہ بو ہے جو معدہ اور آنتوں کے خالی ہونے کی وجہ سے آتی ہے ، مسواک سے وہ زائل نہیں ہوتی۔ ان روایات کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آدمی مسواک چھوڑ دے اور منہ کو گندہ رکھے تاکہ بو آنے لگے۔ لہٰذا روزے کی حالت میں کسی بھی وقت مسواک کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ مسنون ہے۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: انسان کی تلاش
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter