Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

6 - 10
اسلامی قانون سازی میں ا حوال واقعی کی رعایت
اسلامی قانون سازی میں احوال واقعی کی رعایت (۲)

۱۳:۔․امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ساتھ سزائیں
قرآن حکیم نے اصلاح معاشرہ کے لئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی تاکید پر اکتفاء نہیں کیا ہے‘ بلکہ جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سزاؤں کا حکم بھی دیا ہے‘ لیکن اس نے حسب معمول یہاں بھی اصولی اور کلی روش اختیار کی ہے‘ جس سے حالات وزمانہ کی رعایت کا ثبوت ملتاہے‘ قرآن کریم میں جن جرائم کی سزاؤں کا حکم ملتا ہے‘ ان میں زنا کی سزا‘ چوری کی سزا‘ تہمت کی سزا‘ ڈاکہ کی سزا‘ بغاوت کی سزا اور قتل کی سزا شامل ہے‘ یہ حدود حقوق اللہ ہیں‘ ان کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے پورے معاشرے کو عبرت وتنبیہ حاصل ہو‘ زنا کی وجہ سے برسر عام ایک بار کوڑے لگ جانا نہ معلوم کتنے زانیوں کے لئے تازیانہٴ عبرت بنے گا اور کتنے نائٹ کلبوں کے ننگے ناچ گانے بند ہوجائیں گے۔
۱۴:۔․سزاؤں کے نفاذ میں احتیاط کا حکم
چونکہ ان سزاؤں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے‘ اس بنا پر شریعت نے انتہائی احتیاط سے کام لینے کو کہا ہے‘ مثلاً آپ ا نے فرمایا: ”کوئی صورت بھی بچاؤکی نکل سکے تو اللہ کے بندوں سے حدود کو دور کرو“۔ ترمذی کی روایت میں ہے کہ: ”جہاں تک ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو دفع کرو اور اگر بچاؤ کی کوئی صورت نکل سکے تو ان کا راستہ چھوڑ دو“۔ امام (خلیفہ) کے لئے معافی میں غلطی کرنا سزا میں غلطی کرجانے سے بہتر ہے“۔ ایک اور جگہ فرمایا: ”شبہات سے حدود کو دفع کرو“ (شبہ کی صورت میں حدود ساقط ہو جاتی ہیں) شریعت اسلامیہ نے حالات اور زمانہ کی رعایت سے دوقسم کی سزائیں مقرر کی ہیں۔
۱:․․․ حدود ۲:․․․․تعزیرات
جس طرح حدود کا دائرہ حقوق اللہ ہونے کی بنا پر محدود ہے‘ اسی طرح تعزیرات کا دائرہ حقوق العباد ہونے کی وجہ سے وسیع ہے‘ حتیٰ کہ مذکورہ جرائم کبیرہ میں بھی اگر کسی معقول وجہ کی بنا پر حدود اللہ جاری نہ ہو سکیں تو چونکہ ان کا تعلق حقوق العباد سے بھی ہے‘ اس بنا پر حکومت مختلف سزاؤں کے لئے قانون بنانے کی مجاز ہے۔ جرائم رئیسہ کے لئے بھی حالات وزمانہ کی رعایت سے تعزیری قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے اور ایسی عدالت کا قیام ضروری ہے جو ایسے مقدمات کی سماعت کرے جو محض اس بنا پر خارج کردیئے گئے کہ ان کے لئے حدود کے درجہ کا ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکا یا گواہ حضرات معیار پر پورے نہیں اترے اور اگر یہ انتظام نہ کیا گیا‘ بلکہ جرائم رئیسہ کی سزا صرف حدود ہی رکھی گئیں تو مذکورہ جرائم کی بہت سی شکلیں ایسی پائی جائیں گی جن میں کوئی سزا نہ ہوگی اور جرم کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے گی۔(۱۰)
تعزیر میں حکومت کے اختیارات کافی وسیع ہیں‘ تعزیر کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے‘ بلکہ اس کا معاملہ بھی حکومت کے سپرد ہے۔ الغرض تعزیرات کے باب میں حکومت کے اختیارات ہرلحاظ سے کافی وسیع ہیں‘ جس قدر حالات بدلتے جارہے ہیں‘ اسی لحاظ سے جرائم کی رفتار میں اضافہ ہوتا جاتاہے اور جرائم میں تنوع پیدا ہوتا جارہاہے‘ رسول اللہ ا اور صحابہ کرام کی زندگیوں سے اس سلسلہ میں کافی رہنمائی ملتی ہے‘ ان تمام نظائر کو پیش نظر رکھتے ہوئے حالات وزمانہ کی رعایت کرتے ہوئے بہترین تعزیراتی قوانین وضع کئے جاسکتے ہیں۔
سیاست شرعیہ کے تحت قرآن حکیم کے چند فیصلے
۱:․․․قرآن حکیم کے درج ذیل احکام سیاست شرعیہ کے تحت ہیں: (بتوں اور دوسرے معبودوں کو اس لئے برا کہنے سے منع کیا گیا کہ مصلحت کے مقابلہ میں فساد غالب تھا۔
”ولاتسبوا․․․․“ (الانعام:۱۰۸)
۲:․․․․عورتوں کو زور زور سے پاؤں مار کر چلنے سے منع فرمایا تاکہ زیور کی چھن چھن سے لوگوں کے خیالات میں خرابی اور انتشار پیدا نہ ہو۔
”ولایضربن بارجلہن“۔ (النور:۳۱)
اس جگہ ایک جائز فعل کو محض فساد کے اندیشے سے روکا گیا ہے۔ ۳:․․․اس طرح نوکر چاکر اور نابالغ لڑکوں کو گھر میں آنے کے لئے ان اوقات میں اجازت طلب کرنی ضروری قرار دی گئی جو اوقات عموماً فراغت واستراحت کے ہوتے ہیں اور زوجین خلوت گزیں ہوتے ہیں۔
”یا ایہا الذین آمنوا لیستأذنکم ․․․․“ (النور:۵۸)
۴:․․․صحابہ کرام کو ”راعنا“ کہنے سے روکا گیا‘ حالانکہ ان کی نیت میں کوئی خرابی نہ تھی۔
”لاتقولوا راعنا وقولوا انظرنا“۔ (البقرہ:۱۰۴)
۵:․․․حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کو تبلیغ حق کے لئے فرعون کے پاس بھیجتے وقت نرم لہجے میں گفتگو کرنے کی تاکید کی گئی‘ تاکہ سخت کلامی اس کی نفرت کا سبب نہ بن جائے۔
”فقولا لہ قولا لیناً لعلہ یتذکر او یخشی“۔ (طہ:۲۴)
سنت سے حالات وزمانہ کی رعایت میں چند مثالیں:
حضرت داؤد علیہ السلام کے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے رسول اللہ ا نے فرمایا: ”دو عورتوں کے ساتھ بچہ تھا اور وہ باہر نکلیں کہ بھیڑیئے نے حملہ کرکے ایک بچہ کو چھین لیا جو بچہ رہ گیا اس کے لئے دونوں جھگڑنے لگیں‘ ایک کہتی تھی یہ بچہ میرا ہے ‘ دوسری کہتی تھی میرا ہے‘جب معاملہ حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس پہنچا‘ انہوں نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ دیدیا‘ پھر ان عورتوں کا گزر حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ہوا تو انہوں نے معاملہ اور فیصلہ معلوم کیا اور کہا کہ چھری لاؤ تاکہ بچے کو دو حصے کرکے ایک چھوٹی کو دیدوں اور دوسرا بڑی کو‘ یہ سن کر چھوٹی عورت نے کہا کہ کیا واقعی آپ دو حصے کریں گے؟ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: واقعی دو حصے کروں گا‘ اس پر چھوٹی نے کہا: آپ ایسا نہ کریں‘ میں اپنا حصہ بھی بڑی کو دیتی ہوں‘ اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ: یہ بچہ تیرا ہے تو لے جا‘ بڑی کا نہیں ہے“۔ اس حدیث سے حاکم اور قاضی کے لئے یہ وسعتیں ثابت ہوتی ہیں:
۱:․․․ حق کا اقرار کرانے کے لئے حاکم کو گنجائش ہے کہ جس کام کو نہ کرنا چاہتا ہو اس کے بارے میں کہے کہ میں کروں گا‘ یعنی ایک بات کہہ کر حق کا اقرار کرانا جائز ہے۔
۲:․․․․جب حاکم یا قاضی پر حق بات ظاہر ہوجائے تو محکوم علیہ کے اقرار کے خلاف بھی فیصلہ کرنا درست ہے۔
۳:․․․حاکم کا قرائن اور شواہد کے مطابق فیصلہ کرنا درست ہے۔
۴:․․․․ایک حاکم کو اپنے برابر یا اپنے سے بڑے حاکم کے فیصلہ کو توڑ کر اس کے خلاف فیصلہ دینا جائز اور درست ہے۔
۵:․․․حاکم کا اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرنا درست ہے۔ (۱۱)
قسامہ سے استدلال:
محلہ میں قتل کا واقعہ ہو اور قاتل کا پتہ نہ چل سکے تو ایسی صورت میں آپ ا نے سیاستِ شرعیہ کے تحت پورے اہل یا اہل قبیلہ کو ضامن قرار دیا اور ان سے مقررہ قاعدہ کے مطابق دیت وصول کرنے کا حکم دیا ۔ (۱۲)
رسول اللہ ا کے چند فیصلے
۱:․․․․آپ ا نے سیاستِ شرعیہ کے تحت ان لوگوں کے گھروں کو جلانے کا ارادہ فرمایا جو بلاعذر جماعت میں حاضر نہیں ہوتے۔
۲:․․․․زکوٰة نہ دینے والوں کے بارے میں آپ ا نے فرمایا: ”بے شک ہم اس سے زکوٰة لیں گے اور اس کا آدھا مال بھی“۔
۳:․․․․آپ ا نے شراب کے برتنوں کو توڑنے کا حکم دیا اوران ہانڈیوں کو پھوڑنے کے لئے فرمایا جن میں حرام گوشت پکا یا گیا ہو۔
۴:․․․․شرابی کو تیسری یا چوتھی مرتبہ ارتکاب جرم کرنے پر قتل کا حکم دیا۔
۵:․․․․غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین کی بعض شرارتوں کی وجہ سے ان کے گھروں کو جلانے کا حکم دیا۔
۶:․․․․محض شک کی بنا پر بعض مجرموں کو سزا دی اور بعض کو قید کیا۔ (۱۳)
۷:․․․چوری کی بعض صورتوں میں جن میں قطع ید نہیں ہے‘ دگنے تاوان کا حکم دیا اور کچھ کوڑے بھی لگائے۔
۸:․․․ایک شخص اپنی ام ولد کے ساتھ متہم کیا گیا‘ ا سکے قتل کا حکم دیا پھر جب معلوم ہوا کہ وہ عورت کے قابل نہیں ہے تو ا سکو چھوڑ دیا۔(۱۴)
۹:․․․․صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ا نے قابل اعتراض دفعات کے باوجود معاہدہ کی تکمیل فرمائی‘ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شرعی سیاست کے فیصلے کس قدر جذبات سے ہٹ کر حقیقت شناسی اور دور رسی کے حامل ہوتے ہیں۔
۱۰:․․․جنگ کے ایام میں اہل مکہ کی امداد کی جبکہ وہ قحط کی صورتحال سے دو چار تھے۔
حالات وزمانہ کی رعایت سے آپ ا کے حکم کی تبدیلی کی مثالیں:
آپ ا نے بعض حالات کے تحت حکم صادر فرمایا‘ پھر جب حالات تبدیل ہوگئے یا موافق ہوگئے تو آپ ا نے حکم میں تبدیلی فرمادی‘ اس طرح کی بعض مثالیں ہمارے پیش نظر ہیں:
۱:․․․․قربانی کا گوشت تین دن سے زائد رکھنے پر بطور ذخیرہ کے رکھنے سے روک دیا تھا‘ تاکہ دیہات کے لوگ محروم نہ رہیں‘ پھر جب آپ ا سے شکایت کی گئی اور مختلف قسم کی ضرورتیں بیان ہوئیں تو آپ ا نے اجازت مرحمت فرمادی اور فرمایا: ”میں نے باہر کے لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا‘ اب کھاؤ‘ خیرات کرو اور ذخیرہ کرکے رکھو۔ (۱۵)
۲:․․․ایک مرتبہ سفر میں زادِ راہ کم ہوگیا اور لوگ مفلس ہوگئے‘ آپ ا سے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت مانگی گئی‘ آپ ا نے ضرورت کے پیش نظر اجازت دیدی‘ پھر حضرت عمر نے کہا کہ: ”اونٹوں کے بعد یہ لوگ کیسے زندہ بچیں گے؟“ رسول اللہ ا نے اجازت منسوخ کرکے فرمایا: ”لوگوں میں یہ اعلان کردو کہ زائد توشہ جمع کریں‘ پھر دستر خوان بچھایا گیا اور لوگوں نے جمع شدہ توشہ دسترخوان پر رکھا۔
۳:․․․قتل منافقین کی ممانعت: آپ ا نے منافقین کو قتل کرنے سے منع کردیا تھا‘ تاکہ لوگوں کی نفرت اور یہ کہنے کا موقع ہاتھ نہ آئے کہ محمد ا اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں‘ حالانکہ وہ آئے دن طرح طرح کے فتنہ وفساد پھیلاتے رہتے تھے‘ لیکن ”ومصلحة التالیف اعظم من مصلحة القتل“ (۱۶) پھر جب یہ اندیشہ نہ رہا اور اسلام کے غلبہ سے تالیف قلب کی مصلحت پہلی جیسی نہ رہ گئی تو یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا۔
۴:․․․نہی عن المنکر کس قدر اہم حکم ہے جس کے لئے آپ ا نے فرمایا:
”من رای منکم منکراً․․․․“ (الحدیث) ۔
حکومت اور حکام کا برائی میں ملوث ہونا قتنہ کی جڑ ہے لیکن جب صحابہ کرام نے رسول اللہا سے ان امیروں کی اطاعت سے باز رہنے کی اجازت چاہی جو دینی لحاظ سے ناپسندیدہ ہوں تو آپ ا نے فرمایا:
”لاما اقاموا فیکم الصلوٰة“
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
”من رای من امیرہ ما یکرہہ فلیصبر“
(۱۷) نہایت اہم ہے جس سے یہ سبق ملتاہے کہ امیر وسلطان یا حکمران کے اندر فسق وفجور دیکھ کر ان کے خلاف خروج کرنا صحیح نہیں ہے‘ کیونکہ یہ چیز تمام فتنوں کی جڑ ہے اور اس سے قیامت تک کے لئے شر وفساد کا دروازہ کھل جائے گا۔ (۱۸)
۵:۔․زمانہ جنگ میں حدود قائم کرنے کی ممانعت
روایات میں حدود قائم کرنے کی بہت فضیلت اور تاکید ہے‘ لیکن خود رسول اللہ ا نے زمانہٴ جنگ اور دشمنوں کی سرزمین میں حدود قائم کرنے سے منع فرمایاہے۔ علامہ این قیم نے وہ واقعہ خاص طور پر نقل کیا ہے جس میں ایک شخص آپ ا کے پاس آکرکہتاہے کہ: ”مجھ پر حد جاری کی جائے‘ میں حد کا مستحق ہوگیا ہوں“اس پر آپ ا نے فرمایا کہ: کیا تونے ابھی ہمارے ساتھ نما ز نہیں پڑھی“ اس نے عرض کیا ‘ ”جی ہاں“ آپ ا نے فرمایا: ”جا اللہ نے تیرا قصور معاف کردیا“علامہ نے اس واقعہ کو نفاذ احکام میں آپ ا کی حکمت کے نظائر میں شامل کیا ہے‘ اس طرح حضرت خالد کی قبیلہ بنی جریمہ کے ساتھ نا مناسب کارروائی پر آپ ا کا صرف اتنا فرمانا کہ: ”اے اللہ! جس فعل کا ارتکاب خالد نے کیا ہے‘ میں تیرے حضور اس سے برأت کا اظہار کرتاہوں“ آپ ا نے خالد کی عمدہ صلاحیتیں‘ خدمات جلیلہ اور نصرتِ اسلام کا پاس کرتے ہوئے اس سے زیادہ کسی قسم کی گرفت نہیں فرمائی۔ (۱۹)
۶:۔․ اراضی کے مختلف انتظامات
آپ ا نے مفتوح اراضی کے مختلف انتظامات کئے تھے‘ پہلے تمام اشیاء کو اللہ کی ملک قرار دیا‘ پھر مفاد عامہ کے پیش نظر غازیوں میں تقسیم کردیا یا اصل باشندوں کے پاس رہنے دیا‘ یہی دوصورتیں اس زمانہ میں قابل عمل تھیں‘ ہرشے کو اللہ کی ملکیت قرار دینا خود اموال کی تنظیم وتقسیم کے لئے ایک وسیع باب کھولتا ہے اور حالات وزمانہ کی رعایت سے حکومت کو کسی ایک طریقہ میں محدود نہیں رکھا۔
۷:۔ سوالات کے مختلف جوابات اور دعوت وتبلیغ کی خاص روش سے استدلال
آپ ا نے اشخاص وحالات کے لحاظ سے سوالات کے مختلف جوابات دیئے ہیں‘ مثلاً :کسی کے لئے نماز سب سے افضل قرار دی اور کسی کے لئے جہاد کو افضل قراردیا اور کسی کو والدین کی خدمت کی تاکید کی‘ دعوت وتبلیغ میں آپ ا نے خاص طریقہ اپنایا۔
صحابہٴ کرام کی زندگی سے حالات وزمانہ کی رعایت کا ثبوت
رسول اللہ ا کے بعد صحابہ کرام نے بہت سے احکام کے موقع ومحل متعین کئے تھے اور انتظامی احکام کا حکم دیا تھا‘ ان سب کی گنجائش قرآن وسنت میں موجود تھی۔ (۲۰) آپ ا کے بعد حضرت ابوبکر نے جب خلافت کی بھاری ذمہ داری قبول کرلی تو اس وقت بدلتے حالات کے تقاضوں کے عین مطابق چند اہم اور سخت فیصلے کئے جن میں:
۱:․․․مانعین زکوٰة کے خلاف جہاد‘ ۲:․․․ارتداد کے فتنہ کا مقابلہ‘ ۳:․․․صحابہٴ کرام کی مخالفت کے باوجود حضرت خالدبن ولید کو معزول نہ کرنا‘ ۴:․․․مدعیان نبوت کی سرکوبی میں جانفشانی اور شجاعت کا ثبوت‘ ۵:․․․نظام خلافت کو وسیع کرنا‘ ۶:․․․دادا کو باپ پرقیاس کرکے میراث میں دادا کو باپ جیسا قرار دینا‘ ۷:․․․ کلالہ کے بارے میں رائے‘ ۸:․․․جمع قرآن کے سلسلہ میں جرأت کا مظاہرہ کرنا‘ ۹:․․․بعض مرتدین کو آگ میں جلانے کا حکم‘ ۱۰:․․․․مرتدین میں سے بعض سے قتل وقتال کرنا‘ ۱۱:․․․بعض کو قید کرنا‘ ۱۲:․․․بعض کو معافی دینا‘ ۱۳:․․․ لوطی کو آگ میں جلانے کا حکم دینا‘ ۱۴:․․․ شرابی کو سزا چالیس درے مقرر کرنا‘ ۱۵:․․․․ آپ  کا دوسری شادی کے بعد بھی ماں کو بچہ کی پرورش کا حقدار ٹھہرانا‘ ۱۶:․․․ قطعیہ کا حکم نامہ منسوخ کرنا وغیرہ جتنے اجتہادات کئے ہیں قرآن وسنت کے اندر رہتے ہوئے کئے ہیں اور مجموعہ کو سامنے رکھ کرہی احادیث واحکام کے موقع ومحل متعین کئے ہیں‘ حضرت ابوبکر کے مختلف فیصلوں میں غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قیاس واجتہاد ان کی ”ماموریت“ کا نہایت اہم فریضہ تھا‘ جن کے اصول وضوابط کی طرف عملاً اشارہ کرکے آپ  نے اسلام کو زندہ جاوید بنایا اور حالات وزمانہ کی رعایت کرکے شریعت کو جمود ونمود سے محفوظ رکھا۔ (۲۱)
حضرت عمر کے قیاس واجتہادات
جب حضرت عمر کو موقع ملا تو فضا کافی ساز گار تھی‘ فتنوں کو ختم کیا جا چکا تھا‘ بغاوت کو دبا دیا گیا تھا‘ مختلف معاملات واحکامات میں آپ  نے جو فیصلے صادر فرمائے‘ ان کی تفصیل لکھنا مشکل کام ہے۔ مولانا محمد تقی امینی نے اپنے کتاب ”احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت“ میں حضرت عمر کے طرز عمل سے ۱۰۰ مثالیں دی ہیں۔ البتہ ہم ان میں سے چند اہم فیصلے یہاں درج کریں گے۔
۱:․․․حضرت عمر نے کتابیہ عورت سے نکاح کی ممانعت کردی تاکہ مسلمان‘ بدکار عورتوں کے جال میں نہ پھنس جائیں۔ (۲۲)
۲:․․․آپ  کا مسلمانوں کو زمین وجائداد رکھنے سے منع فرمانا‘ کیونکہ لوگوں کے بال بچوں تک کے وظائف سرکاری خزانے سے ادا ہوتے تھے‘ لہذا زمینیں‘ جائدادیں رکھنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
۳:․․․ایک وقت کی تین طلاقوں کو تین قرار دیا ۔ (۲۳)
۴:․․․شرابی کی سزا ۸۰ کوڑے مقرر کی تاکہ لوگ حد وعقوبت کو حقیر سمجھ کر دیدہ دلیری پر نہ اترآئیں۔ (۲۴)
۵:․․․ایک موقع پر چوری میں مال کی دگنی قیمت کا حکم دیا۔
۶:․․․تالیف قلب کے لئے زکوٰة دینے کی ممانعت کردی۔
۷:․․․․ام ولد (باندی) کی بیع کی ممانعت کردی ۔
۸:․․․حلالہ کرنے والے اور کرانے والے کے لئے سنگساری کی سزا تجویز کی تاکہ اس قبیح فعل کی حوصلہ شکنی ہو۔
۹:․․․تعزیری سزا حدود کی حد تک دی۔
۱۰:․․․غیر مسلموں کو حکومت میں شریک ودخیل بنایا کیونکہ انہوں نے ظلم وستم کی راہیں چھوڑ دی تھیں۔
۱۱:․․․افسران کے اموال کی فہرست تیار کرنے کا حکم دیا‘ آج کل اثاثہ جات کے اعلان کا طریقہ اسی حکم سے ماخوذ لگتاہے۔
۱۲:․․․جس درخت کے نیچے آپ ا نے نماز ادا فرمائی تھی‘ اسے کاٹنے کا حکم دیا‘ کیونکہ لوگ بھی اس درخت کے نیچے جاکر نماز ادا کرتے تھے اور اس سے فتنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا۔
۱۳:․․․خراج کا نظام قائم کیا‘ حالانکہ اس سے قبل اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا‘ علامہ ماوردی کہتے ہیں کہ خراج کے نظم میں زیادہ تر استفادہ ایران سے کیا گیا تھا۔
۱۴:․․․ایک قتل میں جماعت کے قتل کا حکم دیا۔
۱۵:․․․عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا‘ اس کے بعد قواعدِ عدالت طے کئے‘ قاضیوں کے انتخاب کے طریقے وضع کئے اور انہیں خاص ہدایتیں دیں۔
۱۶:․․․جبری تعلیم کا طریقہ مقرر کیا۔
۱۷:․․․سنہ ہجری مقرر کیا‘ حالانکہ اس سے پہلے مہینوں کی تاریخ لکھنے کا رواج تھا‘ سنہ سے نہ تھا۔
۱۸:․․․حضرت معاویہکو حکومت کی شان وشوکت برقرار رکھنے کی اجازت دی۔
۱۹:․․․چنگی کا نظام قائم کیا‘ نیز دریا کی پیداوار پر ٹیکس لگایا۔
۲۰:․․․حکومتی افراد کے ساتھ ترجیحی سلوک روا نہ رکھا۔
۲۱:․․․حکومتی طبقہ کے لئے متوسط درجہ کی زندگی کا معیار پیش کیا۔
۲۲:․․․ناجائز بچے کی پرورش کا بندو بست کیا۔
۲۳:․․․مستقل ذریعہٴ آمدنی بنانے کا حکم دیا‘ تاکہ حالات کی تبدیلی سے اخلاق وکردار متاثر نہ ہوں۔
۲۴:․․․کھڑے ہوکر پانی پینے کی اجازت دی۔
۲۵:․․․قحط سالی کے زمانے میں چور کے ہاتھ کاٹ دینے کی سزا منسوخ کردی تھی اور فرمایا تھا:
”لاتقطع الا یدی فی عذق ولا عام سنة“۔ (۲۵)
دیگر صحابہ کرام کی مثالیں بھی ملتی ہیں‘ جنہوں نے احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے‘ مثلاً جنگ قادسیہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص کا ابو محجن ثقفی کو شربِ خمر پر معاف کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ (۲۶)
معاشرہ سے مثالیں
قرآن کریم کے طریق نزول‘ طریق نفاذ اور قرآن سے حالات وزمانہ کی رعایت کا ثبوت دیتے ہوئے عملی زندگی میں جہاں جہاں ان مثالوں سے رہنمائی ملتی ہے‘ ان کی جانب اشارات کئے گئے ہیں‘ نیز سنت نبوی ا اور تعامل صحابہ کرام سے بھی مثالیں حسبِ موقع دی گئی ہیں‘ ان تمام ترمثالوں کے اس ذخیرہ کو اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کے مختلف گوشوں میں حسبِ حالات وزمانہ روبہ عمل لاسکتے ہیں‘ نیز جہاں جہاں اور جیسے جیسے ہمیں احکام شرعیہ کو جاری کرنے کا موقع ملے‘ ان مثالوں کے علاوہ دیگر اسلامی مثالوں اور حقائق کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے بہ کما حزم واحتیاط حسبِ منشاء قرآن اور سنت وتعامل صحابہ کرام قانون سازی کرسکتے ہیں‘ اس مقصد کے لئے اولین چیز جس کی ضرورت ہے وہ ہے مزاج شریعت کی معرفت ۔ (۲۷) جسے حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید کی تعلیم میں غور وفکر اور سیرت نبوی ا میں تدبر کی ضرورت ہے۔
۱:۔قانونِ اسلام میں تجدید کی ضرورت
اسلامی قانون کوئی ساکن وجامد چیز نہیں ہے جس کا چلن ایک خاص زمانہ تک ہو اور زمانہ وحالات بدل جانے پر اس کا قابلِ عمل ہونا مشکوک ہوگیا ہو‘ ایسا نہیں ہے‘ اسلام نے زندگی گزارنے کے لئے ہدایات دی ہیں‘ اگرچہ یہ ہدایات ایک خاص زمانہ اور خاص حالات میں دی گئی تھیں اور ان کو ایک خاص سوسائٹی کے اندر نافذ کیا گیا تھا‘ لیکن ان کے الفاظ سے اور ان طریقوں سے جو آپ ا نے ان کو عملی جامہ پہنانے میں اختیار فرمائے تھے‘ قانون کے چند اہم‘ وسیع اور ہمہ گیر اصول نکلتے ہیں جو ہر زمانہ اور ہر حالت میں انسانی سوسائٹی کی عادلانہ تقسیم کے لئے یکساں مفید اور قابلِ عمل ہیں‘ اب زمانے کے مجتہدین کا کام ہے کہ عملی زندگی میں جیسے جیسے حالات وحوادث پیش آتے جائیں ان کے لئے شریعت کے اصولوں سے احکام نکالتے جائیں اور معاملاتِ زندگی میں ان کو نافذ کریں۔
۲:․․․سیاسی معاملات میں رہنمائی
قحط کے زمانے میں چور کا ہاتھ نہ کاٹنا‘ نیز حضرت عمر کا حاطب بن ابی بلتعہ کے غلاموں کے ساتھ سلوک کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلے بظاہر دین کے احکامات کے برعکس ہیں‘ لیکن شریعت کی روح کے عین مطابق ہیں‘ اگر شارع کے جملہ احکام پر نظر ڈالی جائے اور ان میں غور وفکر کرکے یہ معلوم کیا جائے کہ ان سے شارع کا مقصد کیا ہے‘ نیز اسلامی زندگی کی وسیع تر اسکیم میں اس شعبہٴ خاص کا کیا مقام ہے اور اس مقام کی مناسبت سے اس شعبہ میں شارع نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے‘ ان تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لینے کے بعد بآسانی یہ سمجھا جاسکتاہے کہ مختلف سیاسی وسماجی مسائل میں اسلام کے اصول واحکام کی ہدایت کیا ہوسکتی ہے۔
۳:․․․قوانین جنگ وصلح
حضور ا کی سیرت اور صحابہ کرام کے تعامل سے جنگ وصلح کے بیشمار واقعات سامنے آتے ہیں‘ جنہیں ہم آج کے حالات کی مناسبت سے اپنے اپنے ہاں نافذ کر سکتے ہیں‘ مثالیں ہمارے سامنے ہیں‘ مثلاً حضرت عمر  کا یہ حکم کہ جنگ کے دوران کسی مسلمان پر حد نافذ نہ کی جائے اور جنگ قادسیہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص کا ابومحجن ثقفی کو شراب خمر پر معاف کردینا ہمارے لئے فکر وتدبر کے بہت سے دریچے وا کرتاہے۔
عقوبات کے نفاذ میں مصالح کا لحاظ
اسلام میں حد کے نفاذ کو ایک خاص مقام حاصل ہے‘ لیکن بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں معمولی ثبوت کی کمی کی وجہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے‘ جس کی عدم موجودگی میں دوسری سزا (تعزیر) دی جاسکتی ہے‘ تعزیر میں حکومت کے اختیارات وسیع ہیں‘ لیکن جیساکہ حضور ا کی زندگی اور صحابہ کرام کے طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ حضرات حد وسزا کے نفاذ میں حریص نہیں تھے‘بلکہ کوشش کرتے رہتے تھے کہ کسی طرح حد ٹل جائے‘ کیونکہ اسلام آسانی پیدا کرتاہے‘ سختی نہیں ‘ خوشخبری دیتاہے اور ڈرانے کو دوسرے مرحلہ کے لئے اٹھارکھتاہے‘ حضرت عمر اور حضرت ابوبکر کے طرز حکومت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے سزا میں کمی بیشی کی ہے اور اس طرح کرنے میں شریعت کے مصالح کا لحاظ رکھا۔
خلاصہٴ کلام
شارع کے اصولِ تشریع اور طرزِ قانون سازی کو سمجھنے کے لئے تفکر وتدبر کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نفوس قرآنی کی لفظی ومعنوی دلالت اور نبی کریم ا کے افعال واقوال کی حکمتوں پر غور کرنا ضروری ہے‘ جو شخص اس علم اور تفقہ سے بہرہ ور ہو‘وہ موقع ومحل کے لحاظ سے فیصلہ دے سکتا ہے اور جن معاملات کے حق میں نصوص نہ ہو ان کے لئے نئے احکام بھی وضع کرسکتا ہے‘ کیونکہ ایسا شخص اجتہاد میں جو طریقہ استعمال کرے گا وہ اسلام کے اصول تشریع سے مختلف نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم آیا ہے‘ مگر اجتہاد سے کام لے کر صحابہ کرام نے اس حکم کو عجم کے مجوسیوں‘ ہندوستان کے بت پرستوں اور افریقہ کے بربری باشندوں پر وسیع کردیا‘ اسی طرح خلفائے راشدین کے عہد میں جب ممالک فتح ہوئے تو غیر اقوام کے ساتھ بکثرت ایسے معاملات پیش آئے جن کے متعلق کتاب وسنت نے صریح احکام نہیں دیئے تھے‘ مگر صحابہ کرام نے خود ہی ان کے لئے قانون مدون کئے جو اسلامی شریعت کی سپرٹ اور اس کے اصول سے پوری پوری مطابقت رکھتے تھے۔
حوالہ جات:
۱۰- الدستور القرآنی ص:۲۲۲۔ ۱۱- نسائی جلد ۲ کتاب آداب القضا۔ ۱۲- مسلم جلد۲ کتاب القسامہ ص:۵۷۔
۱۳- محمد تقی امینی‘ احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت ص:۱۳۴۔ ۱۴- ایضاً ص:۱۳۵ ۱۵- مسلم کتاب الاضحیہ۔
۱۶- اعلام الموقعین جلد ۳ ص:۱۲۲ علامہ ابن قیم۔ ۱۷- بخاری‘ کتاب الامارہ والقضا۔ ۱۸- اعلام الموقعین جلد۳ علامہ ابن قیم۔
۱۹- اعلام الموقعین جلد۳ علامہ ابن قیم۔ ۲۰- احکام شرعیہ میک حالات وزمانہ کی رعایت مولانا محمد تقی امینی ص:۱۴۷۔
۲۱- ایضاً ص:۱۹۰۔ ۲۲- ابوبکر جصاص‘ احکام القرآن جلد ۲ ص:۳۲۴ مطبوعہ قاہرہ ۱۲۴۵ھ۔
۲۳- ابوداؤد ومشکوٰة باب حد الخمر۔ ۲۴- مسلم‘ کتاب طلاق۔ ۲۵- اعلام الموقعین جلد سوم علامہ ابن قیم
۔ ۲۶- سود‘ اسلامی قانون میں تجدید کی ضرورتیں‘ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی۔
۲۷- اسلامی قانون میں تجدید کی ضرورت ”سود“ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: خلافت فاروقی میں اقلیتو ں کے حقوق ومراعات 
Flag Counter