Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

2 - 10
مسجد کودوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم
مسجد کودوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم!

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان دین اس مسئلہ میں کہ:
۱-آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو آازد کشمیر اور صوبہ سرحد کے بعض اضلاع میں شدید زلزلہ کے نتیجے میں شہروں کے شہر صفحہٴ ہستی سے مٹ گئے‘ اور مساجد بھی بہت بڑی تعداد میں منہدم ہوگئیں۔ اب تعمیر نو کے سلسلے میں بعض شہروں کو سابقہ جگہ سے ہٹ کر تعمیر کیا جارہاہے‘ جبکہ بعض مقامات پر حسبِ سابق تعمیر نو کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔جس میں سڑکوں کو وسعت دینے اور پارکوں کو بھی شامل کیا جانا زیر تجویز ہے‘ جس میں بہت ساری قدیم مساجد ومدارس ان شاہراہوں یا پارکوں میں آنے کے امکانات ہیں۔ مہربانی فرماکر قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں رہنمائی فرمائی جائے کہ زلزلہ سے پہلے جہاں مساجد تھیں‘ انہی جگہوں کو مساجد کے بجائے نئی پلاننگ میں شاہراہ یا دیگر مقاصد میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
۲-بعض مقامات پر جہاں پہلے متعدد مساجد تھیں‘ نئی منصوبہ بندی میں ان متعدد مساجد کے بجائے ایک ہی بڑی مسجد بنانے کا منصوبہ ہے۔ کیا متعدد مساجد کو مختلف جگہوں سے منتقل کرکے صرف ایک ہی مسجد بنانا اور باقی مساجد کی جگہ دیگر تعمیرات یا پلاٹ کو جنگلات لگا کر محفوظ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ ۳-ایسی مساجد جو شخصی ملکیت کی اراضی میں حکومتی منظوری کے بغیر تعمیر کی گئی ہیں‘ شرعاً ان کا کیا حکم ہے؟
۴-کوئی رقبہ جہاں پہلے متفرق عمارات ہوں‘ حکومت اسے سرکاری مقاصد کے لئے الاٹ کرلے‘ اس رقبہ میں پہلے سے موجود مساجد کا کیا حکم ہے؟ کیا کسی سرکاری مقصد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
۵-کسی نئی آبادی کے قیام کے بعد اس آبادی میں مسجد کی ضرورت کے پیش نظر اگر سرکاری رقبہ پر مسجد کی تعمیر بغیر منظوری ونقشہ وتحریری اجازت کردی گئی ہو‘ کیا بعد میں اس آبادی یا رقبہ کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وہاں پر تعمیر شدہ مساجد کو منتقل کرنا درست ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں جواب سے ممنون فرمائیں۔
مستفتی قاضی محمود الحسن اشرف
ناظم اعلیٰ سواد اعظم اہل سنت والجماعت آزاد کشمیر


الجواب بعون الملک الوہاب
۱-جس مقام پر ایک دفعہ مسجد قائم ہوجائے‘ وہ جگہ تا ابد مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے‘ خواہ وہاں مسجد کی عمارت اور اطراف کی آبادی رہے یا نہ رہے‘ کتب فقہ میں صراحت کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت موجود ہے‘ الدر المختار میں ہے:
”ولو خرب ما حولہ واستغنیٰ عنہ یبقیٰ مسجدا عند الامام والثانی ابدا الی قیام الساعة‘ وبہ یفتی حاوی القدسی“۔ (ج:۴‘ص:۳۵۸)
لہذا جہاں زلزلہ سے پہلے مساجد تعمیر تھیں‘ ان جگہوں کا احترام بحیثیت مسجد باقی ہے‘ ان جگہوں کو شاہراہ کا حصہ بنانا درست نہیں اور نہ ہی کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”ثم نقل من العتابیة عن خواخر زادہ اذا کان الطریق ضیقا والمسجد واسعاً لایحتاجون الی بعضہ تجوز الزیادة فی الطریق من المسجد‘ لان کلہا للعامة‘ والمتون علی الثانی فکان ہو المعتمد‘ لکن کلام المتون فی جعل شئ منہ طریقاً‘ واما جعل کل المسجد طریقاً فالظاہر انہ لایجوزقولاً واحداً“۔ (ج:۴‘ص:۳۷۸)
۲- اوپر واضح ہوچکا ہے کہ مسجد کی جگہ کو کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں‘ نیز جہاں ایک دفعہ مسجد بن جائے وہ مسجد شرعاً وہاں سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہوسکتی‘ بلکہ اس کا اپنا حکم برقرار رہے گا‘ نئی مسجد اگر شرعی مسجد کے طور پر تعمیر ہوجائے تو وہ بھی شرعی مسجد شمار ہوگی‘ اس نئی مسجد کے تعمیر ہونے سے مسلمانوں کی مسجد کی ضرورت تو پوری ہوجائے گی‘ مگر گذشتہ مساجد سے مسجدیت (مسجد ہونے) کا حکم مرتفع (ختم) نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ وہاں نمازیوں کی آمد ورفت کا سلسلہ نہ رہاہو تو مسجد کے پلاٹ کو جنگلہ لگاکر بے حرمتی سے محفوظ کرنا نہ یہ کہ صرف جائز ہے‘ بلکہ ضروری ہے۔ جیساکہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”فی فتاویٰ الحجة لوصار احد المسجدتین قدیماً وتداعی الی الخراب فاراد اہل السکة ببیع القدیم وصرفہ فی المسجد الجدید فانہ لایجوز اما علی قول ابی یوسف  فلان المسجد وان خرب واستغنی عنہ اہلہ لایعود الی ملک البانی‘ واما علی قول محمد وان عاد بعد الاستغناء ولکن الی ملک البانی وورثتہ فلایکون لاہل المسجد علی کلا القولین ولایة البیع والفتویٰ علی قول الی یوسف انہ لایعود الی ملک المالک ابداً‘ (ج:۲‘ص:۴۵۸)
۳- شخصی ملکیت کی اراضی میں مسجد تعمیر کی گئی ہو اور وہ مسجد کے نام پر وقف کی گئی ہو اور مسلمان اس مسجد میں باقاعدہ نماز کی ادائیگی کرتے رہے ہوں تو یہ بھی شرعی مسجد ہے‘ یہ زمین بھی تاقیامت مسجد کے حکم میں ہے‘ اس سلسلہ میں حکومت کی منظوری ضروری نہیں ہے۔ جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”قولہ یزول ملکہ عن المسجد‘ اعلم ان المسجد یخالف سائر الاوقاف فی عدم اشتراط التسلیم الی المتولی عند محکمہ وفی منع الشیوع عند ابی یوسف وفی خروجہ عن ملک الواقف عند الامام وان لم یحکم بہ حاکم“۔ (ج:۴‘ص:۳۵۶)
۴- یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ جو جگہ ایک دفعہ مسجد کے لئے وقف کردی جائے وہ اسی مسجد کے لئے تاقیامت خاص ہوتی ہے‘ لہذا اس مسجد کی اراضی کو کسی دوسرے مقصد کے لئے استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”وقولہ ولو خرب ما حولہ ای ولو مع بقائہ عامراً وکذا لو خرب ولیس لہ ما یعمر بہ وقد استغنی الناس عنہ لبناء مسجد آخر قولہ عند الامام والثانی فلایعود ولایجوز نقلہ ونقل مالہ الی مسجد آخر‘ سواء کانوا یصلون فیہ اولاً وہو الفتویٰ حاوی القدسی واکثر المشائخ علیہ مجتبی وہو الاوجہ “۔ (ج:۴‘ص:۳۵۸)
وفی الفتاویٰ الہندیة:
”واذا خرب المسجد واستغنی اہلہ وصار بحیث لایصلی فیہ عاد ملکاً لواقفہ او لو رثتہ حتی جاز لہم ان یبیعوہ او یبنو داراً وقیل ہو لمسجد ابداً وہو الاصح کذا فی خزانة المفتیین“۔ (ج:۲‘ص:۴۵۴)
۵- سرکاری رقبہ پر مسجد کی تعمیر کے لئے حکومت کی اجازت ضروری ہے‘ ایسی جگہوں پر حکومت سے باضابطہ اجازت کے بغیر مسجد وغیرہ تعمیر نہیں کرنی چاہئے‘ اگر حکومت کی اجازت کے بغیر سرکاری اراضی پر مسجد تعمیر ہوئی ہو تو محلہ کے مسلمانوں کی اجتماعی دینی ضرورت کے پیش نظر حکومت شرعاً واخلاقاً اس مسجد کو باقی رکھنے کی پابند ہوگی‘ ایک تو اس لئے کہ یہ مسجد شرعی مسجد بن چکی ہے‘ جس کا انہدام جائز نہیں۔ دوسرے یہ کہ مسجد چونکہ مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت ہے اور سرکاری اراضی یا املاک بھی قوم کی اجتماعی املاک شمار ہوتی ہیں‘ اگر مسلمان اپنی کسی اجتماعی ضرورت کے لئے اپنی اجتماعی ملکیت سے بقدر ضرورت مستفید ہورہے ہوں تو اسے خلافِ شریعت نہیں کہا جاسکتا‘ اس لئے اگر حکومت اپنی اس شرعی واخلاقی پابندی کا پاس نہ رکھے اور قدیم مساجد کو گرانے کے لئے غیر قانونی ہونے کو بنیاد بناکر قدیم مساجد کو گرانے کی کوشش کرے تو یہ حکومتی اقدام اللہ تعالیٰ کے اس غیض وغضب کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا جو مساجد کو مٹانے‘ گرانے اور ویران ومنہدم کرنے والوں کے لئے طے کررکھا ہے‘ ایسے اقدام کے ذمہ داروں کو آخرت کے عظیم عذاب کے علاوہ دنیا کی ذلت ورسوائی کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ حق تعالیٰ شانہ کا اعلان ہے:
”ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیہا اسمہ وسعیٰ فی خرابہا اولئک ما کان لہم ان یدخلوہا الا خائفین لہم فی الدنیا خزی ولہم فی الآخرة عذاب عظیم“۔ (البقرہ:۱۱۴)
ترجمہ:․․․”اور اس سے بڑا ظالم کون جس نے منع کیا اللہ کی مسجدوں میں کہ لیا جاوے وہاں نام اس کا اور کوشش کی ان کے اجاڑنے میں‘ ایسوں کو لائق نہیں کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے‘ ان کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے“۔
اور فتاویٰ حمادیہ میں ہے:
”فیفرض الکلام فیما لو بنی علی الساحة مسجداً فاللہ تعالیٰ ذم من سعیٰ فی خراب المساجد فلا یجوز ہدمہ“ ۔ (ج:۱‘۳۵۲)
کتبہ
عبد الباسط
متخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ
علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: اسلام آباد کی مساجد کا انہدام
Flag Counter