Deobandi Books

حقیقت شکر

ہم نوٹ :

15 - 26
جب تک خواہشِ نفسانی گرم ہے اس وقت تک ایمان تازہ نہیں ہے کیوں کہ  خواہشِ نفس اس بارگاہِ شاہی کےدروازۂ قرب کے لیے تالے کا  کام کرتی ہے۔ گناہ اللہ کے دروازۂ قرب پر تالے کا قائم مقام ہے۔ اور اللہ کا تالا کون کھول سکتا ہے؟ اللہ کے تالے پر بھلا تمہاری کنجی لگے گی؟ اللہ کا تالا اللہ کے ذکر سے کھلتا ہے۔اَللّٰھُمَّ افْتَحْ اَقْفَالَ قُلُوْبِنَا بِذِکْرِکَ8؎ اے اللہ! آپ کا تالاآپ کے ذکر ہی سے کھلتا ہے، جس کا تالاہے اسی کے نام کی برکت سے کھلے گا، دنیا کی کوئی تدبیر اللہ تعالیٰ کا تالانہیں کھول سکتی، یہ تالاایسا ہے جس پر کوئی کنجی نہیں لگتی سوائے اللہ تعالیٰ کے نام کے اور جب تالاکھلتا ہے تب خزانہ نظر آتا ہے اور گناہ ذکر کی ضد ہے۔ پس گناہ کے ساتھ دل کے تالے کیسے کھل سکتے ہیں؟ لہٰذا گناہوں کو چھوڑو، اللہ تعالیٰ کو یاد کرو تب یہ تالے کھلیں گے اور قرب کے خزانے ہی خزانے نظر آئیں گے۔
لہٰذا سب گناہوں کو جلدازجلد چھوڑ دو اور گناہ چھوڑ کر شکر بھی کرو لیکن پھر بھی اپنے کو پاک نہ سمجھو۔ اپنا تزکیہ کرانا، گناہو ں سے پاک ہونا تو فرض ہے لیکن اپنے کو پاک سمجھنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم تمہیں خوب جانتے ہیں اِذۡ  اَنۡتُمۡ  اَجِنَّۃٌ فِیۡ  بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡجب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے خون اور حیض میں لتھڑے ہوئے پھر ہمارے سامنے کیا پاک بنتے ہو۔فَلَا  تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ  بِمَنِ اتَّقٰی9؎ اپنے کو تم پاک اور مقدس نہ سمجھا کرو، ہم خوب جانتے ہیں کہ کون کتنا متقی ہے یعنی کون متقی ہے اور کون نہیں۔ معلوم ہوا کہ پاک کردن ضروری، پاک گفتن حرام یعنی اپنے کو پاک کرنا واجب ہے، لیکن خود کو پاک کہنا اور پاک سمجھنا حرام ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حسن بھی ایک نعمت ہے۔ تو حسن کا شکریہ کیا ہے؟         سورۂ یوسف کی تفسیر میں دیکھیے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بہت حسین تھے، اس لیے تفسیرروح المعانی میں حسن کے شکر کا طریقہ لکھا ہے۔ کیا یہ شکر ہے کہ کاجل قلوپطرہ لگاکر اپنی چٹک مٹک دکھلاؤ؟ حسن کا شکر یہ ہے کہ اپنے حسن کو کسی نافرمانی میں مبتلا نہ ہونے دے۔      
_____________________________________________
 8؎   کنزالعمال: 699/7 (20990)،فصل رابع فی الاذان والترغیب فیہ... الخ ،مؤسسۃالرسالۃالنجم:32
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter