Deobandi Books

حقیقت شکر

ہم نوٹ :

14 - 26
سب سے بڑی نعمت ترکِ معصیت یعنی تقویٰ ہے۔ اس لیے اس نعمت پرشکر کرنا بھی سب سے زیادہ ضروری ہے کیوں کہ  اس نعمت کے بغیر کوئی ولی اللہ نہیں بن سکتا، غیرمتقی کو اللہ کی دوستی مل ہی نہیں سکتی۔ جب تقویٰ کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت اللہ کی دوستی کا آغاز ہوتا ہے،اور متقی کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اس سے کبھی گناہ ہی نہ ہو،متقی رہنا اتنا ہی آسان ہے جتنا باوضو رہنا۔ اگر وضو ٹوٹ جائے تو پھر وضو کرلو۔ اگر گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرکے پھر متقی بن جاؤ۔ اوّل تو کوشش کرنے سے ان شاء اللہ گناہ بالکل چھوٹ جاتے ہیں۔ جس کے دل میں اللہ آجاتا ہے اس کو گناہوں سے شرم آتی ہے۔ میرا شعر ہے  ؎
جب  تجلّی  اُن  کی  ہوتی  ہے  دل ِ برباد  میں
آرزوئے  ماسوا  سے  خود  ہی  شرماتا  ہے  دل
لیکن اگر باوجود کوشش کے پھر گناہ ہوجائے تو توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔اِنَّ اللہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْ7؎اَوْ کَمَا قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ ب تک موت کا غرغرہ نہ شروع ہوجائے اللہ بندے کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔
بہرحال توبہ سے گناہوں کی معافی تو ہوجاتی ہے لیکن شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ گناہ کبھی نہ ہو۔ اور طبیعت شریف بن جاتی ہے جب دل میں وہ حقیقی شریف یعنی اللہ آجاتا ہے، پھر غیرشریفانہ حرکت سے خود شرم آتی ہے۔ جب تک دل میں اللہ نہیں آتا یعنی جب تک  اللہ تعالیٰ سے نسبتِ خاصہ حاصل نہیں ہوتی اس وقت تک گناہوں کے تقاضوں سے آدمی مغلوب ہوجاتا ہے لیکن جب دردِدل مستقل ہوجاتا ہے، اللہ سے نسبت مستقل قائم ہوجاتی ہے،تعلق مع اللہ عَلٰی سَطْحِ الْوِلَایَۃِ نصیب ہوجاتا ہے تو پھر آدمی گناہو ں سے کانپتا رہتا ہے اور اس غم میں گھلتا رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے گناہ نہ ہوجائے۔اس لیے نافرمانی سے سخت احتیاط کرو ورنہ یہ نفس کی زندگی کی علامت ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں     ؎
تا  ھویٰ  تازہ   ست  ایماں  تازہ   نیست
کیں  ھویٰ  جز  قفل  آں  دروازہ   نیست
_____________________________________________
 7؎  جامع الترمذی:2/194،باب فضل التوبۃ والاستغفار،ایج ایم سعید
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter