کے لوگوں کو ہوتا ہے یا تو اس کے اندر محبت کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہر آدمی کے اندر کیڑے نکالنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر نہایت درجہ کا جاہل ہوتا ہے کیوں کہ قرآن و حدیث اور فقہ کے اُصول اس کے سامنے نہیں ہوتے اس لیے جہالت کی وجہ سے اعتراض کرتا ہےاور فرمایا کہ ہماری خانقاہ میں دو ہی قسم کے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے یا تو انتہائی درجہ کا فقیہہ ہو کہ میرے ہرعمل کو سمجھ جائے کہ یہاں فقہ کا فلاں قانون لاگو ہوسکتا ہے یا پھر انتہائی درجہ کا عاشق ہو جس کو سوائے بھلائیوں کے کچھ نظر ہی نہ آئے کیوں کہ عاشق کو تو محبوب کی ہر ادا پسند آتی ہے، اور اگر نہ اس میں محبت کامل ہے نہ علم کامل ہے تو ایسے لوگ پھر محروم ہی رہتے ہیں۔ پس دینی خدّام پر اعتراض اور ان کے فیوض و برکات سے محرومی کے یہ دو ہی سبب ہیں یا محبت کی کمی یا علم کی کمی۔
دیکھیے تھانہ بھون جیسا قصبہ جہاں اپنے زمانہ کا مجدّد موجود، جب دور دور سے بڑے بڑے علماء اور بزرگ آتے تھے تو قریب کے رہنے والے یعنی قصبہ کے بعض لوگ مذاق اُڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کلکتہ سے، مدراس سے، بمبئی سے، اعظم گڑھ سے، جون پور سے چلے آرہے ہیں، کیسے بے وقوف لوگ ہیں، ہمیں تو کوئی خاص بات ان بڑے میاں میں نظر نہیں آتی۔ لہٰذا دور دور کے لوگ کامیاب ہوگئے اور قریب کے لوگ جنہوں نے قدر نہ کی محروم رہ گئے۔
حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص نے کہا کہ حاجی صاحب آپ تو کوئی بڑے عالم بھی نہیں ہیں،پھر ان علماء کو کیا ہوگیا کہ مولانا گنگوہی جیسا عالم،مولانا قاسم نانوتوی جیسا عالم اورحضرت حکیم الامت جیسا عالم آپ سے مرید ہوگیا ہے،مجھے تو اس بات پر سخت صدمہ اور تعجب ہے کہ یہ علماء کیوں آپ سے بیعت ہوگئے۔ اب حاجی صاحب کا جواب سن لیجیے،فرمایا کہ ’’جتنا آپ کو تعجب ہے اس سے زیادہ مجھے تعجب ہے کہ یہ علماء اور علماء بھی ایسے کہ علم کے سمندر، نہ جانے مجھ جیسے کے ہاتھ پر کیوں بیعت ہوگئے۔‘‘یہ حاجی صاحب کا کمال تواضع تھا، لیکن یہ بدگمانی اور اعتراض کرنے والا کوئی بہت ہی محروم شخص تھا۔ برعکس ان حضرات کے اندر کتنا ادب تھا۔حاجی امداد اللہ صاحب نے ایک رسالہ لکھا اور مولانا قاسم نانوتوی کو دیا اصلاح کے لیے۔ اس میں علمی لحاظ سے کوئی لفظ مسوّدہ میں غلط ہوگیا تو مولانا قاسم