Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 2 تا 8 مئی 2014

ہ رسالہ

6 - 8
داستان محبت
دنیا میں شاید سب سے مشکل محبت کی داستان لکھنا ہے۔ سفر ہند سے واپس ہوئے دو ہفتے ہوچکے اور اس دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ اس سفر کی روداد لکھنے کا خود سے داعیہ یا بزرگوں کی طرف سے شدید تقاضہ نہ کیا گیا ہو۔ سوچ سوچ کر رہ جاتا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں؟ سندھ کے ساحل پر فاتح ہند محمد بن قاسمؒ کی بنائی ہوئی پہلی مسجد سے لے کر سہارنپور کی ایک تنگ گلی میں واقع شیخ الحدیث، قطب الاقطاب مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے ’’کچے گھر‘‘ کی تاریخ ایک ایسی عدیم النظیر اور بے مثال تاریخ ہے جس کے صفحے صفحے پر دعوت و جہاد، علم و عرفان، حقیقت و طریقت، سلطنت و عزیمت اور شوکت و سطوت کے ایسے لافانی نقوش ثبت ہیں جو زوال کے ان 200 سالوں میں ہزار کوششوں کے باوجود مٹائے نہ جاسکے۔
تقسیم ہند کے بعد بیشتر اسلامی آثار، مقاماتِ مقدسہ، اولیائے کرام اور بزرگانِ دین کے اکثر مزارات، نامور اور تاریخی علمی درس گاہیں اور شکوت اسلامی کی مظہر بیشتر تعمیرات سرحد کے اُسی پار رہ گئیں، لہٰذا سرحد کے اس پار رہنے والوں کے لیے سوائے بے جان نقوش سے عقیدت کی حرارت پیدا کرنے اور ٹھنڈے کاغذ سے محبت کی گرمی حاصل کرنے کی کوئی صورت نہیں بچی۔ اب تو علماء کرام کی اس نسل کے بھی دو، چار گنے چنے افراد بقید حیات ہیں

جنہوں نے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند یا مظاہر العلوم سہارنپور یا جامعہ امینیہ دہلی یا مدرسہ شاہی مرادآباد سے پڑھا تھا اور تقسیم کے بعد اس طرف آکر اپنے علم کی روشنی پھیلائی۔ یقینا ان اداروں کے ان ہی نامور اور باکمال فضلاء نے اِس طرف کے دلوں میں اُس طرف کے عالی مقام افراد اور بلند نام اداروں کا تعارف کرایا۔ اگر دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم، جامعہ امینیہ، مدرسہ عبدالرب اور مدرسہ شاہی کے یہ فضلاء اِدھر آکر پون صدی تک کامل استقامت سے علم و عرفان اور شریعت و طریقت کی یہ بے مثال خدمات انجام نہ دیتے تو وہاں کے تعارف اور قدر و منزلت کے جذبات کی یہ صورت ہر گز نہ ہوتی جو آج یہاں موجود ہے۔
آخری دور میں مسلمانانِ ہند کی حفاظت، اسلام اور اشاعتِ دین کے لیے کی جانے والی مساعی جمیلہ کو دو عنوان دیے جاسکتے ہیں۔ ایک دارالعلوم دیوبند اور دوسرا جمعیت علماء ہند۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ اگر ہمارے سفر ہند کا مرکز و محور اور مطلوب و مقصود دارالعلوم دیوبند اور اس کے عالی مقام اکابر کے مزارات تھے تو باعث سفر، وسیلہ و ذریعہ، جمعیت علماء ہند تھی۔ جمعیت علماء ہند جو صرف ہندوستان کی ملتِ اسلامیہ کی سب سے طاقتور تنظیم اور توانا آواز ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں جہاں کہیں مسلمان آباد ہیں، وہاں ایک غیرمعمولی تاثیر رکھتی ہے کہ مسند صدارت پر شیخ الاسلام و المسلمین، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے صاحبزادے، جانشین اور ان کی علمی، روحانی اور تحریکی مسند کے حقیقی وارث حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم استاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند فائز ہیں۔
حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی دامت برکاتہم کی محبتوں، شفقتوں اور عنایتوں کا ہی نتیجہ تھا کہ پاکستان سے علمائے کرام پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی وفد کو ہندوستان کے دورے، دارالعلوم دیوبند کے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے اور گنگوہ، رائے پور، نانوتہ اور سہارنپور میں اپنے بزرگوں کے مراقد منورہ پر حاضری اور دہلی میں مدفون اساطینِ اُمت کے مزارات کی زیارت کی توفیق نصیب ہوئی۔
پاکستان سے جانے والے اس 30 رکنی وفد میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی، حضرت مولانا عزیزالرحمن ہزاروی، حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ المدنی، حضرت مولانا قاضی ارشد الحسینی، حضرت مولانا مفتی مظہر شاہ، حضرت مولانا عزیز الرحمن رحمانی، حضرت مولانا محمد یحییٰ لدھیانوی، حضرت مولانا شیر جان صاحب، حضرت مولانا حسین احمد پشاور، حضرت مولانا عبیداللہ خالد، حضرت قاری ادریس ہشیارپوری سمیت اپنے اپنے علاقوں سے معروف اور جانی پہچانی شخصیات شامل تھیں۔
وفد دو حصوں میں ہندوستان پہنچا۔ حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹائون، صاحبزادہ مولانا سعید خان اسکندر اور راقم السطور کراچی سے بذریعہ جہاز دہلی اُترے اور باقی تمام حضرات لاہور سے سڑک کے ذریعہ واہگہ، امرتسر سے ہوتے ہوئے دہلی پہنچے۔ واہگہ بارڈر پار کرتے ہی دوسری طرف شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے چھوٹے صاحبزادے اور جمعیت علماء ہند کے مرکزی رہنما مولانا سیّد اسجد مدنی دامت برکاتہم علمائے کرام اور کارکنانِ جمعیت علماء ہند کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ استقبال وفد کے لیے بنفس نفیس موجود تھے۔ اراکین وفد اس ذرہ نوازی اور استقبال کے لیے اس قدر طویل سفر کرکے تشریف لانے پر فقط شکر گزار نہیں، بلکہ بہت حیرت زدہ بھی تھے۔ اس حیرت پر بدرجہا مزید خوشگوار حیرت کا اضافہ اس وقت ہوا، جب دہلی اسٹیشن پر خود حضرت اقدس حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی کو عشاق کے ہجوم کے ساتھ سراپا انتظار پایا۔ خانوادہ شیخ الاسلام کا ضمیر محبت، مہمان نوازی، غیرت اور شجاعت سے گندھا ہوا ہے۔ اس مبارک گھرانے کے ایک ایک فرد میں یہ صفات بدرجہ اَتم دیکھیں۔ جس نے حضرت مدنیؒ کو فقط سوانح عمریوں میں پڑھا ہو، وہ آج بھی دیوبند جاکر اس عالی مقام گھرانے کے فرد فرد میں یہ پوری داستان دیکھ سکتا ہے۔
Flag Counter