Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 2 تا 8 مئی 2014

ہ رسالہ

1 - 8
رواداری
یہ چند روز قبل کی بات ہے۔ شہر کے ایک بڑے ہوٹل میں ملک میں مذہبی ہم آہنگی سے متعلق ایک کنونشن ہورہا تھا۔ ہم بھی اپنے مہرباں دوست ’’خامہ بدست‘‘ کے ہمراہ منتظمین کی خصوصی دعوت پر ’’تماشائے اہل کرم‘‘ دیکھنے کے لیے حاضر ہوئے۔ ہم پہنچے تو پروگرام کی کارروائی اپنے جوبن پر تھی۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت تھی کہ ’’علماء ومشایخ کنونشن‘‘ کے بینر کے نیچے علماء کے ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور اقلیتی مذاہب کے نمایندے بھی صف اوّل میں بیٹھے تھے۔ امن، محبت، رواداری اور قومی ہم آہنگی کی باتیں ہورہی تھیں ۔ جہاں اقلیتی رہنما اپنی شکایات، مسائل اور اپنے ساتھ پیش آنے والے بعض واقعات دوٹوک الفاظ میں بیان کررہے تھے، وہیں اکثریت سے تعلق رکھنے والے علماء کی جانب سے اقلیتوں کی جائز شکایات کے ازالے کی ضرورت کا بھی کھل کر اعتراف کیا جارہا تھا۔
ہمیں یہ منظر بہت اچھا لگا اور ہم سوچنے لگے: کاش! ہمارے دوست مسٹر کلین بھی اس مجلس میں موجود ہوتے تو انہیں مذہبی رواداری کے اس شاندار مظاہرے پر کتنی خوشی ہوتی۔ہم نے اسی سرشاری کے عالم میں شرکاء کنونشن کا ایک جائزہ لینا شروع کیا تو یہ دیکھ کر ہماری خوشی کی انتہاء نہ رہی کہ مسٹر کلین بھی نہ صرف دوسری قطار میں موجود تھے بلکہ نہایت انہماک سے مقررین کی گفتگو سن رہے تھے۔ ہمیں اطمینان سا ہوگیا کہ چلیں کم ازکم آج کے اس کنونشن میں شرکت کے بعد تو مسٹر موصوف کی

اس سوچ میں کچھ تبدیلی آئے گی کہ علماء میں مذہبی رواداری کے روادار نہیں ہیں۔
کنونشن کے دوران ہمارے کان تو مقررین کے الفاظ کی طرف متوجہ تھے تاہم ہماری نگاہیں مسلسل مسٹر کلین کے چہرے کے تاثرات کا تعاقب کرتی رہیں۔ ہم نے دیکھا کہ اقلیتی مذاہب کے رہنماؤں کی شکایات پر مسٹر موصوف کے چہرے پر ہمدردی اور تشویش کے ملے جلے جذبات جھلکنے لگتے جبکہ علماء کی یقین دہانیوں اور وضاحتی بیانات پر رخ انور پر کچھ تشکیک کی ہوائیاں آتی جاتی محسوس ہوتی تھیں۔ خیر مجموعی طور پر کنونشن میں تمام مقررین نے نہایت مثبت خیالات کا اظہار کیا۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید مسٹر کلین جیسے نامی گرامی دانشور کو بھی اظہار خیال کا موقع دیا جائے گا مگر ایسا لگا کہ شاید منتظمین سے بھول ہوگئی اور انہوںنے حاضرین کو مسٹر موصوف کے ملفوظات سے مستفید ہونے کا موقع نہیں دیا۔ پروگرام کے اختتام پر کنونشن کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا جس میں یہ متفقہ تجویز شامل تھی کہ ملک میں تمام مذاہب ومسائل کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے گا، اس کے لیے تمام انبیاء کرامؑ، صحابہؓ، اہل بیتؓ اور مقدس شخصیات کی توہین کرنے پر پابندی ہوگی۔ توہین رسالت کے کسی مجرم کو بچایا نہیں جائے گا اور کسی بے گناہ کو گزند نہیں پہنچنے دی جائے گی… اعلامیہ یہاں تک پہنچا تھا کہ ہم نے دیکھا، ہمارے دوست مسٹر کلین اپنی نشست سے اٹھے،
ان کے چہرے کی روایتی خشونت میں 150 فیصد اضافہ دکھائی دے رہا تھا، وہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکے اور کچھ بڑبڑاتے ہوئے ہال سے نکل گئے۔ ہم سمجھے کہ موصوف کو شاید اس بات کا قلق ہوگیا کہ انہیں اپنے زرین خیالات سے حاضرین کو مستفید کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا، مگر ایسی بھی کیا ناراضگی تھی کہ موصوف ہال کی ایک جانب میزوں پر سجے سموسوں اور بسکٹوں کی طرف بھی التفات کیے بغیر چلے گئے،حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا، اس نکتے نے ہمیں جستجو پر مجبور کردیا اور ہم نے باہر جانے والے راستے پرکھڑے منتظمین سے پوچھ ہی لیا کہ سوٹ بوٹ میں ملبوس وہ مہمان جو وقت سے پہلے چلے گئے، جاتے ہوئے کیا فرمارہے تھے۔ وہاں موجود ایک صاحب نے بتایا کہ موصوف کہہ رہے تھے، ’’لوجی! ملّاؤں نے ایک بار پھر ہمارے ساتھ ’’ہاتھ ‘‘کردیا۔ اگر انسداد توہین رسالت جیسے قانون کا ہر صورت میں دفاع ہی کرنا تھا اور اس میں انسداد توہین صحابہؓ کی شق بھی شامل کرنا تھی تو ہمیں یہاں بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ یہاں مذہبی رواداری کا لائحہ عمل پیش ہوگا، یہاں تو مزید تنگ نظری کا پیغام دیا گیا ہے۔‘‘
ہم یہ سوچتے رہ گئے کہ آخر تمام انبیائ، تمام صحابہؓ اور تمام مذاہب کی مقدس شخصیات کا احترام کیے بغیر مذہبی رواداری کس طرح قائم کی جاسکتی ہے اور ہمارا سیکولر ولبرل طبقہ ایک اسلامی ملک میں مقدس شخصیات کی ناموس سے کھلواڑ کی کھلی اجازت دلواکر رواداری کی کون سی نئی قسم ایجاد کرنا چاہتا ہے؟
Flag Counter