Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن27 جون تا 3 جولائی 2014

ہ رسالہ

3 - 5
نقدی، مالِ تجارت میں زکوٰۃ کی تفصیل
زکوٰۃ میں کس مقام کی قیمت معتبر ہوگی ؟
سوال: ادائیگی ٔزکوٰۃ میں مال زکوٰۃ کی قیمت اس جگہ کی معتبر ہوگی جہاں زکوٰۃ اداء کرنے والا ہے یا اس مقام کی معتبر ہوگی جہاں مال موجود ہو؟ حولان حول (سال گذرنا) کہاں کا معتبر ہوگا؟ (عبدالحفیظ۔ سکھر)
جواب: جہاں مال موجود ہو وہاں کی قیمت معتبر ہوگی، حولان حول بھی وہیں کا معتبر ہوگا۔ ویقومہا المالک فيالبلد الذی فیہ المال، حتی لو بعث عبدا للتجارۃ إلی بلد آخر فحال الحول، تعتبر قیمتہ في ذلک البلد، ولوکان مفازۃ تعتبر قیمتہ فيأقرب الأمصار إلیہ، کذا فيفتح القدیر۔‘‘ (ہندیۃ:۱/۱۸۰) زکوٰۃ میں کس وقت کی قیمت معتبر ہوگی؟
سوال: مال زکوٰۃ میں کس وقت کی قیمت معتبر ہوگی، جس وقت زکوٰۃ واجب ہوئی یا جس وقت زکوٰۃ اداء کی جارہی ہے؟ (ابراہیم۔ سوات)
جواب: سونے یا چاندی کی زکوٰۃ اور عشر میں وقتِ وجوب کی قیمت کا اعتبار ہے یا وقتِ اداء کا؟ اس میں دونوں قول ہیں۔

احتیاط اس میں ہے کہ جو قیمت زیادہ ہو وہ لگائی جائے، عام طورپر وقت اداء کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، وہی لگانی چاہیے، البتہ جانوروں کی زکوٰۃ میں بالاجماع ادائیگی کے وقت کی قیمت کا اعتبار ہے۔ ’’وتعتبر القیمۃ عند حولان الحول بعد أن تکون قیمتہا فيابتداء الحول مائتی درہم من الدراہم الغالب علیہا الفضۃ، کذا فيالمضمرات۔‘‘ (ہندیۃ:۱/۱۷۹)
’’وجازدفع القیمۃ في زکاۃ وعشر وفطرۃ ونذر، وتعتبر القیمۃ یوم الوجوب وقالا یوم الأدائ، وفي السوائم یوم الأداء إجماعا۔‘‘ (شامیۃ:۲/۲۸۲)
زکوٰۃ میں قیمت فروخت لگائی جائے گی:
سوال: تجارت کے سامان کی زکوٰۃ خریدے ہوئے حساب سے اداء کی جائے گی یا جس نرخ سے فروخت کرے اس حساب سے؟ (حنیف۔ ملتان)
جواب: قیمت فروخت لگائی جائے گی، یعنی سامان کی جو قیمت مارکیٹ میں ہو اس کے حساب سے زکوٰۃ اداء کی جائے گی۔
’’واللازم في مضروب کل منہما (الذہب والفضۃ) ومعمولہ ولو تبرا أو حلیا مطلقا أو في عرض تجارۃ قیمتہ نصاب … ربع عشر۔‘‘ (درمختار:۲/۲۰۸) ’’وقال: تعتبر قیمتہ یوم الوجوب، وقالا: یوم الأدائ۔‘‘ (شامیہ: ۲/۲۸۶)
تجارتی  پلاٹ پر زکوٰۃ فرض ہے:
سوال:ایک شخص پلاٹ خرید لیتا ہے،کچھ مدت اپنے قبضے میں رکھ کر مہنگے دام ملنے پر بیچ دیتا ہے، اگر اس کے پاس کئی پلاٹ ہوں جنکی قیمت مقدار نصاب کو پہنچ جاتی ہو تو ان پلاٹوں کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟(منصور۔ بورے والا)
جواب:یہ مال تجارت ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔جو چیز بھی بیچنے کی نیت سے خریدی جائے اور یہ نیت تاحال باقی ہو، وہ مال تجارت میں داخل ہے۔
’’ الزکاۃ واجبۃ فيعروض التجارۃ کائنۃ ما کانت إذا بلغت قیمتہا نصابا من الورق والذہب کذا فيالہدایۃ۔‘‘ (ہندیۃ:۱/۱۷۹)

واجب الاداء عشر کے ساتھ نقدی، مال ِ تجارت کی زکوٰۃ کا حکم:
وہ غلہ جس میں عشر لازم تھا باقی نہ ہو بلکہ اسے استعمال کر لیا گیا ہو، فروخت کیا گیا ہو یا ویسے ضائع کر دیا گیا ہو تو اگر عشر کی قیمت منہا کر کے مالِ تجارت اور نقدی بقدرِ نصاب بچ جاتی ہو تو واجب الاداء عشر بھی اداء کرنا لازم ہے اور زکوٰۃ بھی، لیکن اگر عشر منہا کرنے کے بعد نقدی یا مالِ تجارت بقدرِ نصاب نہ بچے تو پھر صرف عشر کی ادائیگی ضروری ہے، زکوٰۃ لازم نہیں۔ اگر وہ غلہ موجود ہو تو پھر عشر کی قیمت کو مالِ تجارت اور نقدی سے منہا نہیں کیا جائے گا بلکہ کل مال ِ تجارت اور نقدی اگر بقدرِ نصاب ہے تو اس میں زکوٰۃ دینا لازم ہے اور غلہ میں عشر بھی واجب ہے، البتہ آفت کی وجہ سے ہلاک ہوجائے تو عشر نہیں۔
’’ وکذا (لا تجب الزکٰوۃ) إذا صار العشر دینا فيالذمۃ بأن أتلف الطعام العشري صاحبہ، فأما وجوب العشر فلا یمنع، لأنہ متعلق بالطعام، وہو لیس مال التجارۃ۔‘‘ (رد المحتار: ۲/۲۶۱)
تجارتی اشیاء کے کرایہ پرزکوٰۃ کا حکم:
تجارتی گاڑی، پلاٹ وغیرہ اگر کرایہ پر دیا جائے اور اس میں تجارت کی نیت بھی باقی ہواور کرایہ نقدی کی صورت میں وصول کیا جائے تو اس میں بہر حال زکوٰۃ لازم ہے۔ اگر کرایہ کسی اثاثے کی صورت میں وصول کیا جائے مثلاً کپڑا، اناج وغیرہ تو اس میں جب تک مبادلہ کے وقت تجارت کی نیت نہ کی جائے اس وقت تک اس میں زکوٰۃ لازم نہیں۔
فيالشامیۃ: ’’ لکن ذکر فيالبدائع الاختلاف فيبدل منافع عین معدۃ للتجارۃ، ففيکتاب زکاۃ الأصل أنہ للتجارۃ بلا نیۃ وفي الجامع ما یدل علی التوقف علی النیۃ، وصحح مشایخ بلخ روایۃ الجامع، لأن العین وإن کانت للتجارۃ لکن قد یقصد ببدل منافعہما المنفعۃ، فتؤجرالدابۃ، لینفق علیہا والدار للعمارۃ فلا تصیر للتجارۃ مع التردد إلا بالنیۃ۔‘‘(۲:۲۶۸)

کسب و حرفت میں استعمال ہونے والی اشیاء میں زکوٰۃ کی تفصیل:
کسب وحرفت میں استعمال ہونے والی چیزوںپر بھی زکوٰۃ لازم ہوتی ہے، خواہ وہ چیز ایسی ہو کہ استعمال کرنے سے وہ چیزخود تو خرچ ہو جاتی ہو، مگر اس کا اثر مصنوع میں باقی رہے مثلاً کپڑے رنگنے والوں کے پاس رنگ کے پائوڈر،یا وہ چیز استعمال سے ختم نہ ہوتی ہو بلکہ باقی رہے، مثلاً عطر کشید کرنے والوں کے پاس موجود شیشیاں جن میں عطر بھر کر فروخت کرتے ہیں۔ اس طرح کی تمام چیزوں  میں زکوٰۃ لازم ہے۔البتہ جو چیز خود بھی ختم ہو جاتی ہو اور اس کا اثر بھی مصنوع میں باقی نہ رہے، اس میں زکوٰۃ واجب نہیں۔ جیسے صابن وغیرہ۔ فيالدر: ’’ وکذالک آلات المحترفین۔‘‘ وفيالحاشیۃ: ’’ أي سواء کانت مما لا تستہلک عینہ فيالانتفاع کالقدوم والمبرد، أو تستہلک، لکن ہذا منہ مالا یبقی أثر عینہ کصابون وجرض الغسال، ومنہ ما یبقی کعصفر وزعفران لصباغ، ودہن وعفص لدباغ، فلا زکاۃ فيالأولین، لأن ما یأخذ من الأجرۃ بمقابلۃ العمل، وفيالأخیر الزکاۃ إذا حال علیہ الحول، لأن المأخوذ بمقابلۃ العین کما فيالفتح۔ قال: وقواریر العطارین … إن کان من غرض المشتری بیعہا بہا، ففیہا الزکاۃ، وإلا فلا۔‘‘ (ردالمحتار مع الدر: ۲/۲۶۵،۲۶۶) گروی کے طور پر رکھے ہوئے
مال میں زکوٰۃ کا حکم:
مالِ زکوۃ (نقدی،سونا،چاندی،مالِ تجارت)جب گروی کے طور پر قرض خواہ یافروخت کنندہ کے پاس رکھا جائے تو اس کی زکوٰۃ نہ قرض خواہ اور فروخت کنندہ پر لازم ہے، نہ مقروض (مالک) پر لازم ہے، نہ ابھی لازم ہے اور نہ واپس لینے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ اداء کرنا ضروری ہے۔ یہ گروی جس چیز کے بدلے رکھی گئی ہے خواہ اس کے بقدر ہو یا اس سے زیادہ قیمت والی ہو،دونوں صورتوں میں یہی حکم ہے۔ في الشامیۃ: ’’ولا في مرہون أي ولا علی المرتہن، لعدم ملک الرقبۃ، ولا علی الراہن لعدم الید، وإذا استردہ الراہن لا یزکی عن السنین الماضیۃ … ویدل علیہ قول البحر ومن موانع الوجوب الرہن۔ح، وظاہرہ ولو کان الرہن أزید من الدین۔ ط… لا فرق في الرہن بین السائمۃ والدراہم۔ (۲/۲۶۳)
کمپنی کے شیئرز پر زکوٰۃ کا حکم:
کمپنیوں کے شیئرز بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں اور ان کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کمپنی کے شیئرز کمپنی کا منافع (Dividend)حاصل کرنے کے لیے خریدے جائیں، اس کی زکوٰۃ کا حکم یہ ہے کہ جس کمپنی کے شیئرز ہوں اس کمپنی کے جامد اثاثوں مثلاً بلڈنگ،مشینری، کاروں وغیرہ اور نقد اثاثوں، سامانِ تجارت، خام مال کا تناسب معلوم کیا جائے، یہ تناسب متعلقہ کمپنی ہی سے معلوم ہو سکتا ہے، اس کے بعد جتنے فیصد جامد اثاثے ہیں ان کے تناسب سے شیئرز کی رقم منہا کر کے باقی کی زکوٰۃ اداء کی جائے، مثلاً شیئر کی قیمت 60روپے ہے، کمپنی کے جامد اثاثے 40 فیصداور نقد، خام مال، سامانِ تجارت60فیصد ہے تو اس صورت میں شیئرز کی پوری قیمت60روپے کی بجائے 36روپے کی زکوٰۃ اداء کرنا لازم ہے، البتہ اگر اثاثوں کی تفصیل معلوم نہ ہو سکے تو اس صورت میں احتیاطاً ان شیئرز کی پوری بازاری قیمت پر زکوٰۃ اداء کی جائے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کمپنی کے شیئرز’’ کیپیٹل گین‘‘ کے لیے خریدے جائیں کہ جب بازار میں ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو فروخت کیے جائیں گے، اس صورت میں پورے شیئرز کی پوری بازاری قیمت پر زکوٰۃ واجب ہو گی،لہٰذا جس دن زکوٰۃ اداء کرنا ہو تو اس دن ان شیئرز کی جو قیمت ہو گی (بازاری قیمت) اس پوری قیمت کی زکوٰۃ اداء کرنا لازم ہے۔ (فقہی مقالات:۳/۱۵۲،۱۵۳)
کمپنی کا شیئرز کی زکوٰۃ کاٹنا:
جب کمپنی شیئرز پر سالانہ منافع تقسیم کرتی ہے اس وقت وہ زکوٰۃ کاٹ لیتی ہے، لیکن عموماًکمپنی ان شیئر ز کی فیس ویلیو کی بنیاد پر زکوٰۃ کاٹتی ہے،حالانکہ شرعاً ان شیئرز کی مارکیٹ قیمت پر زکوٰۃ لازم ہے، لہٰذا فیس ویلیو پر جو زکوٰۃ کاٹ لی گئی ہے وہ تو اداء ہو گئی، البتہ فیس ویلیو اور مارکیٹ ویلیو کے درمیان جو فرق ہے اس کی زکوٰۃ شیئرز کے مالک پر اداء کرنا لازم ہے۔ کارخانہ کی کن اشیاء پر زکوٰۃ لازم ہے؟
اگر کوئی شخص فیکٹری کا مالک ہے تو اس فیکٹری میں جو تیار شدہ مال ہے ا سکی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے، اسی طرح جو مال تیاری کے مختلف مراحل میں ہے یا خام مال کی شکل میں ہے اس پر بھی زکوۃ واجب ہے، البتہ فیکٹری کی مشینری، بلڈنگ، گاڑیوں وغیرہ جامد اثاثوں پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی کاروبار میں شرکت کے لیے روپیہ لگایا ہوا ہے اور اس کاروبار کا کوئی متناسب حصہ اس کی ملکیت ہے تو جتنا حصہ اس کی ملکیت ہے اس حصے کے قابلِ زکوٰۃ اموال کی بازار ی قیمت کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی۔(فقہی مقالات: ۳/۱۵۴)
گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ اداء کرنے کا طریقہ:
سوال:ایک شخص نے دو تین سال کی زکوٰۃ اداء نہیں کی، اب وہ گزشتہ تین سالوں میں سے دوسرے اور تیسرے سال کے کل سرمایہ کی زکوٰۃ اداء کرے گا یا پہلے سال کی زکوٰۃ نکالنے کے بعد باقی سرمایہ کی زکوٰۃ اداء کرے گا؟(حماد۔ کراچی)
جواب:پہلے سال کی زکوٰۃ اداء کرنے کے بعد جو سرمایہ باقی بچا ہے دوسرے سال کے لیے صرف اس کی زکوٰۃ اداء کرے، پھر اس کے بعد جو سرمایہ باقی ہے تیسرے سال کے لیے اس کی زکوٰۃ دے۔ یعنی ہرسال زکوٰۃ میں دی گئی رقم منہا کرکے باقی سرمایہ کی زکوٰۃ اداء کرے بشرطیکہ ہر پہلے سال کی زکوٰۃ منہا کرنے کے بعد دوسرے سال ادائیگی زکوٰۃ کی مقرر تاریخ میں رقم بقدرِ نصاب بچ جاتی ہو۔
’’ فلوکان لہ نصاب، حال علیہ حولان، ولم یزکہ فیہما لازکاۃ علیہ فيالحول الثانی، وکذا لو استہلک النصاب بعد الحول، ثم استفاد نصابا آخر، وحال علیہ الحول لازکاۃ في المستفاد لاشتغال خمسۃ منہ بدین المستہلک، أما لو ہلک یزکی المستفاد لسقوط زکاۃ الأول بالہلاک، بحر، والمطالب ہنا (عند عدم أداء الزکاۃ) السلطان تقدیراً، لأن الطلب لہ في زکاۃ السوائم، وکذا في غیرہا۔‘‘ (شامیۃ:۲/۲۶۰)

سال گزرنے سے پہلے کچھ رقممصارف ِ حج میں خرچ ہوگئی:
سوال:ایک شخص ہر سال یکم رمضان کو زکوٰۃ نکالتا ہے، اس سال اس کی حج پر جانے کی نیت ہے، لہٰذا اس نے حج پر جانے کے لیے پیشگی رقم جمع کرادی ہے، روانگی شعبان میں متوقع ہے، دریافت طلب یہ ہے کہ جورقم جمع کی گئی ہے اس کی زکوٰۃ نکالنا فرض ہے یا نہیں؟ (محمد انور۔ لاہور) جواب:آمد ورفت کا کرایہ اور معلم کی فیس وغیرہ کے لیے جو رقم دی گئی ہے وہ چونکہ خرچ ہو گئی، لہٰذا اس پر زکوٰۃ نہیں، اس سے زائد رقم جو کرنسی کی صورت میں اس کو واپس ملے گی اس میں سے یکم رمضان تک جو رقم بچے اور وہ بقدرِ نصاب ہو یا دوسرے اموالِ زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر بقدرِ نصاب ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔

وجوبِ زکوٰۃ کی تاریخ آنے کےبعد مقروض ہو گیا:
اگر کوئی شخص اتنا مقروض ہو جائے کہ قرض منہا کرنے کے بعد باقی مال بقدرِ نصاب نہ ہو اور وہ قرض بھی فوری طور پر واجب الاداء ہو تو اس پر زکوٰۃ لازم نہیں، لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب زکوٰۃ واجب ہونے سے پہلے مقروض ہو جائے،اگر سال پورا ہو گیا اور زکوٰۃ لازم ہوگئی، لیکن اب تک اداء نہیں کی تھی کہ مقروض ہو گیا تو اس پر زکوٰۃ دینا لازم ہے۔
’’ وہذا إذا کان الدین فی ذمتہ قبل وجوب الزکاۃ، فلو لحقہ بعدہ لم تسقط الزکوۃ؛ لأنہا ثبتت في ذمتہ، فلا یسقطہا ما لحق من الدین بعد ثبوتہا، جوہرۃ۔‘‘ (رد المحتار: ۲/۲۶۰)

حوائج اصلیہ کے لیے رکھی ہوئی نقدی پر زکوٰۃ فرض ہے:
سوال: ایک شخص کے پاس کئی ہزار روپے جمع ہیں، ان پر سال گذر چکا ہے مگر اس کے پاس نہ مکان ہے اور نہ ہی گھریلو سامان، ابھی شادی بھی نہیں کی، انہی ضروریات کے لیے پیسے جمع کررہا ہے،اس پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں؟ (حماد۔ راولپنڈی)
جواب: اس پر زکوٰۃ فرض ہے، البتہ اگر سال پورا ہونے سے قبل تعمیر مکان کا سامان یا گھریلو استعمال کی اشیاء وغیرہ خرید لیں اور بقیہ رقم بقدر نصاب نہ ہوتو زکوٰۃ فرض نہ ہوگی۔
’’ویخالفہ ما في المعراج في فصل زکوۃ العروض: أن الزکاۃ تجب في النقد کیفما أمسکہ، للنماء أوللنفقۃ، کذا في البدائع في بحث النماء التقدیري۔‘‘ (شامیۃ:۲/۲۶۲)

تجارت کی نیت سے کوئی چیز خریدی لیکن اب تک قبضہ نہیں ہوا:
مال تجارت میں اس وقت زکوٰۃ فرض ہے، جب خریدار کے قبضہ میں آجائے، صرف خریدنے سے زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی، اگر چہ اس پر سال گزر جائے۔نیز ایسے مالِ تجارت کی زکوٰۃ فروخت کنندہ پر بھی نہیں کیونکہ یہ مال اس کی ملک نہیں رہااور زکوٰۃ کے وجوب کے لیے مال کا مملوک ہونا شرط ہے۔ ’’قلت: وخرج أیضا نحو المال المفقود والساقط في بئر ومغصوب، لا بینۃ علیہ، فلا زکاۃ علیہ إذا عاد إلیہ کما سیأتی، لأنہ وإن کان مملوکا لہ رقبۃ لکن لا ید علیہ کما أفادہ في البدائع، وخرج بہ أیضا کما في البحر المال المشتریٰ للتجارۃ قبل القبض والآبق المعد للتجارۃ۔‘‘ (ردالمحتار:۲/۲۶۰)
سال گزرنے کے بعد مال کا کچھ حصہ صدقہ کر دیا:
کسی کے پاس بقدرِ نصاب مال زکوٰۃ موجود تھا اور اس پر سال گزر گیا، اس کے بعد اس نے مال کا کچھ حصہ مثلاً آدھایا تہائی حصہ صدقہ کیا تو جتنا حصہ صدقہ کیا ہے اس کی زکوٰۃ ساقط نہیں ہوئی بلکہ اس کی بھی اور جتنا حصہ باقی ہے اس کی بھی سب کی زکوٰۃ دینا لازم ہے،ہاں اگر پورا نصاب صدقہ کیا تو پھر اس میں زکوٰۃ بھی اداء ہو گئی اگر چہ دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت نہ کی ہو،دوبارہ ادائیگی کی ضرورت نہیں۔ في الدر: ’’ ولوتصدق ببعضہ لا تسقط حصتہ عند الثانی، خلافاً للثالث۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’ قولہ خلافا للثالث:أشار بذلک تبعا لمتن الملتقی إلی اعتماد قول أبی یوسف، ولذا قدمہ قاضیخان، وقد أخرہ في الہدایۃ مع دلیلہ، وعادتہ تأخیر المختار عندہ علی عکس عادۃ قاضیخان۔‘‘ (ردالمحتارمع الدر: ۲/۰ ۲۷)
Flag Counter